خوفِ خدا اور فکرِ آخرت
محترم ارمغان ارمان
سیدی ومرشدی حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر نور الله مرقدہ نے اپنے مرشد حضرت شیخ عبدالغنی پھول پوری رحمة الله علیہ کی اثباتِ قیامت کی تقریر کو نظم میں فرمایا تھا، جس کا آخری شعر یہ ہے #
قیامت کا دن منتہائے عمل ہے
جزائے عمل ہے سزائے عمل ہے
ان سادہ الفاظ میں جو جا معیت ونصیحت ہے وہ اظہر من الشمس ہے، یعنی دل میں خوفِ خدا اور دنیا سے بے رغبتی پیدا کرکے روزِ قیامت کی تیاری کے لیے فکرِ آخرت پیدا کرنا ہے۔ حضور، نبی کریم، رحمة للعالمین، فخر المرسلین صلی الله علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :
”آنکھوں کو بھی عبادت کا حصہ دو، یعنی قرآن میں دیکھو اور اس میں غور وتدبر کر واور اس کے عجائبات سے درسِ عبرت لو۔“ (الصحیح لابن حبان بروایت ابی سعید، کنز العمال اردو مترجم:1/323، رقم الحدیث:2262)
امام التابعین حضرت حسن بصری رحمة الله علیہ کہتے ہیں :
”پہلے لوگ قرآن شریف کو الله تعالیٰ کا فرمان سمجھتے تھے، رات بھر اس میں غور وتدبر کرتے تھے اور دن کو اس پر عمل کرتے تھے او رتم لوگ اس کے حروف اور زیروزبر تو بہت درست کرتے ہو، مگر اس کو فرمانِ شاہی نہیں سمجھتے ، اس میں غور وتدبر نہیں کرتے۔ “(فضائل قرآن مجید، زیر حدیث نمبر:19)
البتہ خود سے غور وتدبر کرنے کے بجائے علمائے کرام سے اس کا طریقہ پوچھنا چاہیے اور سیکھنا چاہیے، تاکہ خود ساختہ طریقے پر چلنے سے گم راہی میں مبتلا نہ ہو جائے، کیوں کہ کلام پاک کے معنی کے لیے جو شرائط وآداب ہیں ان کی رعایت بھی ضروری ہے اور ایک جگہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:”افسوس اس شخص پر جس نے یہ آیت پڑھی …﴿إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْْلِ وَالنَّہَارِ لآیَاتٍ لِّأُوْلِیْ الألْبَاب﴾․ (آل عمران:190) ترجمہ:” بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش او رات و دن کے بدل بدل کر آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔“… لیکن اس میں کچھ غور وفکر نہ کیا۔“ (کنزالعمال اردو مترجم:1/351، رقم:2576)
اس آیت پر حضور صلی الله علیہ وسلم کا ایک واقعہ بھی منقول ہے، ملاحظہ ہو:
حضرت عبید بن عمیر رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ: میں نے حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے پوچھا کہ آپ نے حضور صلی الله علیہ وسلم کی سب سے زیادہ عجیب بات جو دیکھی ہو، وہ ہمیں بتا دیں۔ پہلے تو وہ خاموش ہو گئیں، پھر فرمایا: ایک رات حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” اے عائشہ! مجھے چھوڑو، آج رات میں اپنے رب کی عبادت کروں۔“ میں نے عرض کیا: الله کی قسم! مجھے آپ کا قرب بھی پسند ہے اور جس کام سے آپ کو خوشی ہو وہ بھی پسند ہے، چناں چہ حضور صلی الله علیہ وسلم اُٹھے اور وضو کیا، پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے او رنماز میں روتے رہے او راتنا روئے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی گود گیلی ہو گئی اور بیٹھ کر اتنا روئے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہو گئی، پھر سجدہ میں اتنا روئے کہ زمین تر ہو گئی، پھر حضرت بلال رضی الله عنہ، حضور صلی الله علیہ وسلم کو نماز کی اطلاع دینے آئے، جب انہوں نے حضور صلی الله علیہ وسلم کو روتے ہوئے دیکھا تو عرض کیا: یا رسول الله! آپ رو رہے ہیں؟ حالاں کہ الله تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے ہیں۔
حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تو کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ آج رات مجھ پر ایسی آیت نازل ہوئی ہے کہ جو آدمی اسے پڑھے اور اس میں غور وفکر نہ کرے، اس کے لیے ہلاکت ہے، و ہ آیت یہ ہے:﴿إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْْلِ وَالنَّہَارِ لآیَاتٍ لِّأُوْلِیْ الألْبَاب﴾․(آل عمران:190)
ترجمہ:” بلاشبہ آسمانوں اور زمین کے بنانے میں اور رات ودن کے بدل بدل کر آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔“ (اخرجہ ابن حبان فی صحیحہ، کذا فی الترغیب:332، بحوالہ حکایة الصحابہ:3/150،149)
حضور صلی الله علیہ وسلم پر بڑھاپے کے آثار قبل از وقت کیوں؟
مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ قرآن پاک کے بنیادی مضمون تین ہیں:1.. توحید۔2.. رسالت۔3..قیامت۔
قرآن پاک میں کچھ سورتیں ایسی ہیں جن میں قیامت کی ہول ناکیاں اور اگلی اقوام کے حالات وغیرہ کا ذکر ہے۔ مختلف احادیث میں ان سورتوں کی نشان دہی فرمائی گئی ہے۔ ان سب روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ صحابہٴ کرام رضی الله عنہم، مثلاً حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ، حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ وغیرہ نے ریش مبارک میں بالوں کی سفیدی دیکھ کر اظہارِ رنج کے ساتھ عرض کیا کہ : یا رسول الله! آپ بوڑھے ہو گئے؟ سید الانبیاء، حضور سرور عالم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایاکہ: مجھے سورہٴ ہود اور اس کی بہنوں، یعنی دوسری چند سورتوں نے بڑھاپے سے قبل ہی سفید بالوں والا، یعنی بوڑھا کر دیا۔ (مستفاد از کنز العمال اردو مترجم)
ان سورتوں میں پچھلی قوموں پر نازل ہونے والے قہر الہٰی، مختلف قسم کے عذابوں، قیامت کے ہول ناک واقعات او ران کی منظر کشی، کفار وفجار کی سزا اور مؤمنین ومتقین کی جزا وغیرہ کا ذکر خاص انداز میں آیا ہے، اس لیے ان واقعات کے خوف ودہشت کی وجہ سے آپ صلی الله علیہ وسلم پر بڑھاپے کے آثار شروع ہو گئے۔
اسی طرح ایک حدیث میں آیا ہے کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم دولت کدہ سے تشریف لاتے ہوئے داڑھی مبارک پر ہاتھ پھیر رہے تھے، حضرت ابوبکر رضی الله عنہ او رحضرت عمر رضی الله عنہ مسجد میں تشریف فرما تھے، حضرت ابوبکر رضی الله عنہ نے یہ منظر دیکھا اور عرض کیا: یا رسول الله! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، کس قدر جلدی آپ پر پڑھاپا آگیا ہے اور یہ کہہ کر رونے لگے اور آنسو جاری ہو رہے تھے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: سورہٴ ہود جیسی سورتوں نے مجھے بوڑھا کر دیا ہے۔ (شمائل ترمذی مع اردو شرح خصائل نبوی، ص:43)
سورتوں کے نام
وہ سورتیں جن کا ذکر آپ صلی الله علیہ وسلم نے مختلف روایات میں فرمایا، وہ مندرجہ ذیل ہیں:
1..ھود۔2.. الواقعہ۔3.. الحاقة۔4.. المعارج۔5.. المرسلات۔6.. النباء ۔7.. التکویر۔8.. الغاشیة۔9.. القارعة․ (کنز العمال اردو مترجم، ج:1 ، رقم الحدیث:2586،2592،4091،4096)
ان سورتوں کے علاوہ بھی اس طرح کی بہت سی سورتیں اور آیتیں ہیں، لیکن چوں کہ درج بالا سورتوں میں اس موضوع کا خاص طور پر ذکر ملتا ہے، اس لیے ان کے نام لے کر بتائے گئے۔
علامہ زمحشری کہتے ہیں: میں نے ایک کتاب میں دیکھا ہے کہ ایک شخص شام کے وقت بالکل سیاہ بال جوان تھا، ایک ہی رات میں بالکل سفید ہو گیا۔ لوگوں نے پوچھا، تو اس نے کہا کہ میں نے رات قیامت کا منظر دیکھا ہے کہ لوگ زنجیروں سے کھینچ کر جہنم میں ڈالے جارہے ہیں، اس کی دہشت مجھ پر کچھ ایسی غالب ہوئی کہ اس نے ایک ہی رات میں مجھے اس حالت پر پہنچادیا۔ الله اکبر۔(شمائل ترمذی مع اردو شرح خصائل نبوی:44،43)
چند مخصوص آیات مبارکہ کا تذکرہ
خوفِ خدا اور فکر آخرت پر حضو راقدس صلی الله علیہ وسلم، صحابہٴ کرام رضی الله عنہم اور علماء ومشائخ کے ایسے بے شمار واقعات ہیں کہ ایک ہی آیت کو پڑھتے رہے اور خوف وخشیت سے روتے رہے۔ اپنے موضوع ( خوفِ خدا اور فکر آخرت) کی مناسبت سے صرف حضور سرورعالم صلی الله علیہ وسلم کے چند واقعات وارشادات پر ہی اکتفا کرتا ہوں، جن میں مخصوص آیاتِ قرآنیہ کا ذکر ہے:
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:”سب سے زیادہ خوف زدہ کرنے والی آیت:﴿فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْْراً یَرَہُ ، وَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرّاً یَرَہُ ﴾ ہے۔ (الزلزال:8-7)ترجمہ:” چناں چہ جس نے ذرا برابر کوئی اچھائی کی ہو گی وہ اسے دیکھے گا او رجس نے ذرہ برابر کوئی برائی کی ہو گی وہ اُسے دیکھے گا۔“
سب سے زیادہ امید رساں اور دل کو تقویت بخشنے والی آیت:﴿قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ أَسْرَفُوا عَلَی أَنفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّہ﴾ ہے۔ (الزمر:53)”کہہ دو کہ: اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر رکھی ہے، الله کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔“ (کنز العمال اردو مترجم1/350، رقم الحدیث:2560)
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ” میں تم پر ایک سورت (التکاثر) پڑھتا ہوں، جو اس پر رویا اس کے لیے جنت واجب ہو گی، پس جس کو رونا نہ آئے وہ رونے کی کوشش کرے۔
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ایک مرتبہ تمام رات روتے رہے اور صبح تک نماز میں یہ آیت تلاوت فرماتے رہے:﴿إِن تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِن تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَنتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْم﴾․ (المائدہ:118)
ترجمہ:” اگر آپ ان کو سزا دیں تو یہ آپ کے بندے ہیں او راگر آپ ان کو معاف فرما دیں تو آپ زبردست ہیں، حکمت والے ہیں۔“
یعنی آپ ان کے مالک ہیں اور مالک کو حق ہے کہ بندوں کو ان کے جرائم پر سزا دے، اس لیے آپ اس کے بھی مختار ہیں ، قدرت والے ہیں، معافی پر بھی آپ قادر ہیں، اس لیے اس کے بھی آپ مختار ہیں تو آپ کی معافی بھی حکمت کے موافق ہو گی، اس لیے اس میں بھی کوئی قباحت نہیں ہو سکتی، مطلب یہ کہ آپ دونوں حالت میں مختار ہیں، میں کچھ دخل نہیں دیتا۔ (بیان القرآن، زیر آیت ہذا: 271، وحکایات صحابہ :36)
حضرت ابن عمر رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ : حضور صلی الله علیہ وسلم نے ایک قاری کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا: ﴿إِنَّ لَدَیْْنَا أَنکَالاً وَجَحِیْماً ﴾․ (المزمل:12) ترجمہ:” ہمارے یہاں بیڑیاں ہیں اور دوزخ ہے۔“ یہ سن کر حضور صلی الله علیہ وسلم بے ہوش ہوگئے۔ (حیاة الصحابہ، ج2ص:688)
حضرت عبدالله رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ: حضور صلی الله علیہ وسلم نے مجھے سے فرمایا: مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ، میں نے عرض کیا: میں آپ کو قرآن پڑھ کر سناؤں حالاں کہ قرآن تو خود آ پ پر نازل ہوا ہے؟! حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: میرا دل چاہتا ہے کہ میں دوسرے سے قرآن سنوں، چناں چہ میں نے سورہٴ نساء پڑھنی شروع کردی او رجب میں﴿فَکَیْْفَ إِذَا جِئْنَا مِن کُلِّ أمَّةٍ بِشَہِیْدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلَی ہَؤُلاء شَہِیْدا﴾․ (نساء:41) ترجمہ:”پھر (یہ لوگ سوچ رکھیں کہ) اس وقت ( ان کا) کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لے کر آئیں گے اور ( اے پیغمبر!) ہم تم کو ان لوگوں کے خلاف گواہ کے طور پر پیش کریں گے۔“ پر پہنچا تو حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: بس کرو! میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی طرف دیکھا تو آپ صلی الله علیہ وسلم کی آنکھیں آنسو بہارہی تھیں۔ (اخرجہ البخاری، کذا فی البدایة:6/59، بحوالہ حیاة الصحابہ2/692)
یعنی جن لوگوں نے الله کے احکام دنیا میں نہ مانے ہوں گے، ان کے مقدمہ کی پیشی کے وقت بطور سرکاری گواہ کے انبیاء علیہم السلام کے اظہارات سنے جاویں گے، جو جو معاملات انبیاء علیہم السلام کی موجودگی میں پیش آئے تھے سب ظاہر کریں گے، اس شہادت کے بعد ان مخالفین پر جرم ثابت ہو کر سزا دی جاوے گی۔ (بیان القرآن، زیر آیت ہذا:176)
شرح السنة میں لکھا ہے کہ ایک صاحب کو خواب میں حضور صلی الله علیہ وسلم کی زیارت ہوئی ، انہوں نے پوچھا: یا رسول الله! مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا ہے کہ سورہٴ ہود نے مجھے بوڑھا کر دیا ، کیا بات ہے؟ حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: اس میں ایک آیت ہے:﴿فَاسْتَقِمْ کَمَا أُمِرْتَ﴾ یعنی دین پر ایسے مستقیم رہو جیسا کہ حکم ہے اور ظاہر ہے حکم کے موافق پوری استقامت بہت ہی مشکل امر ہے، اس لیے صوفیاء نے لکھا ہے کہ استقامت ہزار کر امتوں سے افضل ہے۔ (شمائل ترمذی مع اردو شرح خصائل نبوی:43)
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی:﴿أَفَمِنْ ہَذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُونَ ،وَتَضْحَکُونَ وَلَا تَبْکُونَ﴾․ (النجم:60-59)…”سو کیا( ایسی خوف کی باتیں سن کر بھی) تم لوگ اس کلام (الہٰی) سے تعجب کرتے ہو اور ہنستے ہو اور (خوفِ عذاب سے) روتے نہیں ہو۔“ تو اصحابِ صفہ اتنا روئے کہ آنسو اُن کے رُخساروں پر بہنے لگے، حضور صلی الله علیہ وسلم نے جب ان کے رونے کی ہلکی ہلکی آواز سنی تو آپ صلی الله علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ روپڑے، آپ صلی الله علیہ وسلم کے رونے کی وجہ سے ہم بھی روپڑے، پھر حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جو الله کے ڈر سے روئے گا وہ آگ میں داخل نہیں ہوگا اور جو گناہ پر اصرار کرے گا وہ جہنم میں داخل نہیں ہو گا او راگر تم گناہ نہ کرو ( او راستغفار کرنا چھوڑ دو ) تو الله ایسے لوگوں کو لے آئے گا جو گناہ کریں گے ( اور استغفار کریں گے) اور الله ان کی مغفرت کریں گے۔ (اخرجہ البیہقی، کذا فی الترغیب:5/190، بحوالہ حیاة الصحابہ:2/693)