Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاول 1438ھ

ہ رسالہ

15 - 18
اولاد کی تربیت میں اسلام کا معتدل کردار

محترم محمد بن اسماعیل
	
فقر وفاقہ
یہ ایک ظاہر بات ہے کہ جب بچوں کو اپنے گھر میں ضرورت کے مطابق روٹی، کپڑا نہیں ملے گا اور ان کو کوئی ایسا آدمی نہیں ملے گا، جو ان کو اتنے پیسے بھی دے سکے، جن سے وہ ضروریاتِ زندگی کا کچھ حصہ حاصل کر لیں اور جب وہ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں گے ، تو انہیں سوائے فقر وفاقہ ، محرومی ونامرادی کے سوا کچھ اور نظر نہیں آئے گا، تو اس کا لازمی اثر یہ ہو گا کہ وہ گھر کو چھوڑ کر باہر نکلیں گے، تاکہ اسباب اختیار کریں اور روزی حاصل کرنے کی کوشش کریں، ایسے موقع پر مجرم اور بد کار ہاتھ اس کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں، شر وانحراف کاہالہ اس کو چاروں طرف سے گھیر لیتا ہے، اس طرح سے وہ معاشرے میں مجرم بن کر ابھرتے ہیں او رانسانی جانوں ، عزت وآبرو اور مال ودولت کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں ۔

اسلام کی عادلانہ شریعت نے فقر وفاقے کے دور کرنے کے لیے نہایت مضبوط بنیادیں استوار کی ہیں اور ہر انسان کے لیے عزت وآبروکی زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کیے ہیں۔ اور ایسے قوانین بنائے ہیں جن سے ہر ہر فرد کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان بہ قدرِ ضرورت حاصل ہو جائے۔ مسلم معاشرہ کے لیے ایسا عملی نظام ومنہج مقرر کیا جائے، جس سے فقر وفاقہ کی بیخ کنی ہو جائے، چناں چہ اسلام نے ہر شہری کے لیے کام کاج کے مواقع فراہم کیے اور اگر نوکری وغلامی کی زندگی پر اس کا دل آمادہ نہیں ہوتا ، تو اسے چاہیے کہ وہ تجارت کواپنائے۔ احادیث مبارکہ میں تجارت کے بڑے فضائل وفوائد آئے ہیں، چاہے وہ کم آمدنی والی تجارت ہی کیوں نہ ہو ، لیکن الله اس میں برکتوں کا نزول کرتا ہے اور اسلام نے معذور وعاجز افراد کے لیے بیت المال سے ماہوار وظیفہ مقرر کیا او رایسے قوانین بنائے،جن کے ذریعے ایسے شخص کی امداد ہو جو خاندان وافراد کا کفیل ہو۔ یتیموں، بیواؤں اور بوڑھوں کی ایسے طریقے سے دیکھ بھال ہو سکے، جس سے ان کی عزت وعظمت بھی محفوظ رہے او رزندگی بھی پر سکون وخوش حال گذرتی رہے اور اس طرح دیگر اور بھی وسائل وذرائع اسلام نے سکھلائے ہیں، جو اگر واقعی وجود میں آجائیں اوران کو صحیح طور سے نافذ کر دیا جائے تو معاشرے سے انحراف، مجرمانہ ذہنیت اور بد کردار افراد پیدا کرنے والے اہم عوامل کا سد باب ہو جائے اور فقر وفاقہ ، محرومی وغربت کی بنیادیں ختم ہو جائیں۔

والدین کا اولاد کے سامنے لڑناجھگڑنا
بچے میں بگاڑ پیدا کرنے والے بنیادی عوامل میں سے ماں باپ کا آپس کا باہمی نزاع واختلاف بھی ہے کہ جب وہ ایک دوسرے سے ملیں، تو اس میں باہمی اختلاف اورنزاع کی باتیں ہوں، چناں چہ بچہ جب گھر میں آنکھیں کھولتا، اپنی آنکھوں کے سامنے لڑائی جھگڑا دیکھتا ہے تو لازمی طور سے وہ گھر کی اس تاریک فضا سے دور ہونا چاہتا ہے اور آفت زدہ خاندان کے دائرہ سے دور بھاگنا چاہتا ہے، تاکہ اپنے من پسند دوستوں کے ساتھ اپنا وقت گذارے اور فراغت کے اوقات ان کی رفاقت میں بسر کرے۔ یہ دوست اگر گندے اخلاق والے گھٹیا قسم کے لوگ ہوتے ہیں ، تو یہ بچہ بھی ان کے ساتھ خراب ہوتا چلا جاتا او ربری عادتیں او رگندے اخلاق اختیار کر لیتا ہے، بلکہ وہ لازمی طور سے منحرف ہو جاتا ہے او رمجرم بن جاتا ہے۔ اسلام نے اپنے پُرحکمت اور ہمیشہ ہمیشہ باقی وبرقرار رہنے والے اصول وقواعد کے ذریعے نکاح کے خواہش مند مرد کے لیے بیوی کے انتخاب اور اختیار کرنے میں صحیح اور اعلیٰ ترین راہ نمائی فرمائی ہے، جس کا بنیادی مقصد ہی یہ ہے کہ میاں بیوی میں الفت ومحبت او رایک دوسرے سے مفاہمت اور باہمی تعاون کی فضا پیدا ہو۔ اور اس کا نتیجہ یہ نکلے کہ میاں بیوی ان ازدواجی پریشانیوں اور لڑائی جھگڑوں سے بچ جائیں، جو عام طور سے میاں بیوی میں پیدا ہو جاتے ہیں۔”فاظفر بذات الدین، تربت یداک“ حسن انتخاب دین داری ہے، ورنہ بگاڑ تو پیدا ہو گاہی۔

بچے کے بگاڑ میں طلاق کا کردار
طلاق بچوں کی تربیت کے بگاڑ کے ان بنیادی عوامل میں سے ہے، جو عام طور پر بچے کے انحراف اور خراب ہونے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ طلاق اور اس کے نتیجے میں ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے دونوں خاندانوں میں اختلاف وافتراق کی بنیاد پڑ جاتی ہے۔ وہ متفق علیہ اور مشاہد امور جن میں کوئی دو آدمیوں کا اختلاف نہیں، ان میں سے یہ بھی ہے کہ بچہ جب دنیا میں آنکھیں کھولتا ہے اور اس پر شفقت کرنے والی ماں، اس کی نگرانی اور دیکھ بھال کرنے اور ضروریات پورا کرنے والا باپ نہیں ہوتا، تو وہ لازمی طور سے جرائم اور برائیوں کی طرف مائل ہوتا ہے اور ا س میں فساد وانحراف نشو نما پاتا رہتا ہے، یہ صورتِ حال اُس وقت اورزیادہ خراب ہو جاتی ہے، جب مطلقہ عورت دوسری شادی کر لیتی ہے، تو عام طور سے اولاد خراب اور ضائع ہو جاتی ہے، طلاق کے بعد اس پریشانی کو ماں کی غربت اور بھی زیادہ پیچیدہ بنا دیتی ہے، اس لیے کہ ایسی صورتِ حال میں مطلقہ عورت کام کاج کے لیے گھر سے نکلنے پر مجبور ہو جاتی ہے، لہٰذا وہ گھر چھوڑ کر کام کرنے چلی جاتی ہے اور چھوٹے بچے بے یار ومدد گار اِدھر اُدھر پھرتے ہیں ، حوادثاتِ ایام اور شب وروز کے فتنے ان کو کھلونا بنا لیتے ہیں، نہ کوئی ان کی دیکھ بھال کرنے والاہوتا ہے، نہ نگہداشت کرنے والا۔ اب آپ ہی بتائیے کہ ایسی اولاد سے آپ کیا توقع رکھ سکتے ہیں؟! جنہیں نہ باپ کی محبت میسر ہو ، نہ ان کی نگرانی ونگہداشت ہو ،نہ ماں کا پیار ملا ہو، نہ اس کی توجہ او رہم دردی، لہٰذا ہم ان سے ایسی صورت حال میں کیا توقع کر سکتے ہیں؟! جب وہ اپنے پاس پیٹ بھر کر کھانے کے لیے روٹی، بدن ڈھانپنے کو کپڑا اور سر چھپانے اور راحت وآرام کے لیے جھونپڑا بھی نہیں پاتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی صورت میں ہم ان کی آوارگی اور خراب ہونے کا ہی اندیشہ کر سکتے ہیں ، الله تعالیٰ رحم فرمائے۔ اسلام نے اپنے بنیادی احکامات میں ، میاں بیوی میں سے ہر ایک کو یہ حکم دیا ہے کہ کہ وہ اپنے فرائض وواجبات کو پورا کرے اور ایک دوسرے کے حقوق کو ادا کرے، تاکہ ایسی صورتِ حال پیدا نہ ہو ، جس کا انجامِ کار برا اور قابل ملامت ہو۔

بچوں اور قریب البلوغ لڑکوں کا فارغ اور بے کار وقت گذارنا
بچوں کے انحراف اور خراب ہونے کا جوچیز عام طور سے ذریعہ بنتی ہے، وہ ایسی فراغت اور بے کاری ہے، جس سے فائدہ نہیں اٹھایا جاتا۔ بچے اور قریب البلوغ لڑکے اس سے خراب ہو جاتے ہیں، یہ ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ بچہ شروع سے ہی کھیل کود کا شوقین ودل دادہ ہوتا ہے، چناں چہ وہ ہر وقت متحرک رہتا ہے، کبھی اپنے ہم عمروں کے ساتھ کھیل کود میں مصروف، کبھی بھاگ دوڑ اور فلم بینی میں او رکبھی ورزش وغیرہ میں او رکبھی گیند کھیلنے میں، اس لیے تربیت کرنے والے کو چاہیے کہ بچوں کے اس موقع کو غنیمت جان کر فائدہ اٹھائیں اور بالغ ہونے کے قریب کے زمانے کا خصوصی خیال رکھیں، تاکہ ان کے فارغ وقت کو ایسے کاموں میں لگا سکیں، جو اُن کے جسم کے لیے مفید اور اعضا کو طاقت وراور بدن کو چست وچابک بنانے والے ہوں، لہٰذا اگر ان کے لیے کھلی جگہ میں کھیل کود کے قطعاتِ زمین، ورزش وصحت او رجسم کو طاقت ور بنانے کے لیے مناسب جگہیں، تعلیم و تربیت کے لیے مناسب مواقع، تیرنے کے لیے تالاب او رجسم کی تفریح کی جگہیں نہیں بنائی گئیں، تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ گندے ساتھیوں اور بد اخلاق اور بد قماش لوگوں کے ساتھ ملیں جلیں گے، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ ان میں بھی ان کی سی عادتیں اورخرابیاں پیدا ہو جائیں گی۔

اسلام نے اپنی عظیم الشان توجہات سے بچوں اور قریب البلوغ لڑکوں کے اس فراغت کے زمانے کا، ایسے عملی وسائل واسباب سے علاج کیا ہے کہ ان کے جسم صحت مند اور بدن طاقت ور اور چست وچابک رہیں اور نشاط برقرار رہے۔ ان وسائل میں سب سے اہم اور عظیم ذریعہ یہ ہے کہ ان کو عبادات اور خصوصاً نماز کا عادی بنایا جائے، جو اسلام کا ستون اور بنیادی رکن ہے اس لیے کہ نماز میں بے شمار روحانی فائدے، جسمانی منافع، اخلاقی اور نفسیاتی اثرات پائے جاتے ہیں۔ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آقائے کریم صلی الله علیہ وسلم نے یہ حکم دیا ہے کہ بچوں کو سات سال کی عمر سے نماز کا حکم دیں، تاکہ وہ نماز کے عادی ہو جائیں اور اپنے فارغ اوقات کو نماز کی تعلیم اور اس کی مشق میں گذاریں، تو ہمیں اس حکم میں ذرا سا تعجب نہیں ہوتا، جیسا کہ ماقبل میں اس سے متعلق حدیث گذر چکی ہے۔ جو بچہ نماز کی کیفیت وطریقہ اور اس کے ارکان، قرأت ، رکوع کی تعداد اور فرائض وسنن ومستحبات وغیرہ سیکھنے میں اپنا فارغ وقت لگائے گا، چاہے گھر میں ماں باپ یا مربی سے سیکھے یا مسجد ومدرسہ میں استاذ ومعلم سے، وہ بچہ جسمی اور فکری ہر اعتبار سے تن درست رہے گا۔

بری صحبت بڑی قباحت
بچوں کو بگاڑنے او رخراب کرنے کا سب سے بڑا سبب، بری صحبت اور بد کردار ساتھی ہوتے ہیں۔ اور خاص طور سے اگر بچہ بے وقوف، سیدھا سادھا، لا ابالی اور کم زور عقیدے والا ہو ، تو گندی مجلسوں اور بدکرداروں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے جلد متاثر ہو کر ان کی گندی عادت اوربرے اخلاق اپنے اندر جذب کر لیتا ہے، بلکہ بری راہ پر نہایت سرعت وتیزی سے ان کے ساتھ چلنے لگتا ہے او رجرم اور برائیاں اس کی طبیعت ، انحراف اور کج روی اس کی عادت بن جاتی ہے، پھر اس کو راہ راست پر واپس لانا اور گم راہی کے گڑھے اور ہلاکت کے کنویں سے نکالنا مشکل ہو جاتا ہے، اسلام نے اپنی تربیتی توجیہات اورتعلیمات کے ذریعے والدین او رتربیت کرنے والے حضرات کی توجہ اس طرف مرکوز کر دی کہ وہ اپنی اولاد کا مکمل خیال رکھیں، خاص کر اس عمر میں جب کہ وہ ہوشیار ہو جائیں او ربالغ ہونے کی عمر کو پہنچ جائیں، تاکہ ان کومعلوم ہو کہ بچے کس کے ساتھ رہتے ہیں او رکس کے ساتھ کہاں صبح وشام گذارتے ہیں او رکن کن جگہوں پر ان کا آنا جانا رہتا ہے؟ اس طرح اسلام نے یہبھی راہ نمائی کی کہ اولاد کے لیے نیک اور اچھے ساتھیوں کا انتخاب کیا جائے، تاکہ وہ ان سے اچھے عمل اخلاق وآداب سیکھیں اور یہ بھی متنبہ کر دیا کہ انہیں گندے اور بد کردار ساتھیوں سے بچایا جائے، تاکہ یہ بھی ان جیسے گم راہ ہو کر رو اور بد اخلاق نہ بنیں۔

بری صحبت کی قباحت اسلام کی نظر میں
بدکردار لوگ، گندے اور خراب ساتھیوں سے بچنے کے سلسلہ میں اسلام نے جو تعلیمات پیش کی ہیں او ربُرے ساتھیوں کی رفاقت سے بچنے کا جو حکم دیا ہے، ان میں سے چند درج ذیل ہیں۔

ارشا دباری تعالیٰ ہے:﴿وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَی یَدَیْْہِ یَقُولُ یَا لَیْْتَنِیْ اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِیْلاً، یَا وَیْْلَتَی لَیْْتَنِیْ لَمْ أَتَّخِذْ فُلَاناً خَلِیْلاً، لَقَدْ أَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّکْرِ بَعْدَ إِذْ جَاء نِیْ وَکَانَ الشَّیْْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولاً ﴾․(الفرقان:29-27)
اور جس دن ظالم انسان حسرت سے اپنے ہاتھوں کو کاٹ کھائے گا او رکہے گا” کاش! میں نے پیغمبر کی ہم راہی اختیا رکر لی ہوتی، ہائے میری بربادی! کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا! میرے پاس نصیحت آچکی تھی، مگر اس دوست نے مجھے اس سے بھٹکا دیا اور شیطان تو ہے ہی ایسا کہ وقت پڑنے پر انسان کو بے کس چھوڑ جاتا ہے۔“

اسی طرح ارشاد ربانی ہے:﴿الْأَخِلَّاء یَوْمَئِذٍ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِیْنَ﴾․(الزخرف:67)
اس دن تمام دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے، سوائے متقی لوگوں کے۔

امام ترمذی رحمة الله علیہ روایت کرتے ہیں کہ آقائے کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشا د فرمایا:”المرء علی دین خلیلہ، فلینظر احدکم من یخالل․“(ترمذی)

انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے تو جس سے آپ دوستی کرتے ہو اسے اچھی طرح پرکھ لو۔

اسی طرح امام ترمذی رحمة الله علیہ روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”المرء مع من احب، ولہ مااکتسب․“

انسان اسی کے ساتھ ہو گا، جس کو اس سے محبت ہے اور اس کے لیے وہی ہے جو اس نے کمایا۔

ابن عساکر آقائے کریم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”ایاک وقرین السوء، فانک تعرف بہ․“

برے ساتھی سے بچو، اس لیے کہ تم اسی کے ذریعے پہنچانے جاؤ گے۔

لہٰذا والدین اور تربیت کرنے والے حضرات کو چاہیے کہ وہ ان بہترین توجیہات وراہ نمائی کی باتوں پر عمل کریں، تاکہ ان کی اولاد کی اصلاح ہو او ران کے اخلاق بلند ہوں، معاشرے میں ان کا مقام بلند ہو، وہ امت کے لیے بھلائی کا ذریعہ اور اصلاح کے پیغام بر او رہدایت کے داعی ہوں، ان کی اصلاح کی وجہ سے معاشرے کی بھی اصلاح ہو جائے، قوم ان کے اچھے کارناموں اورعالی صفات پر فخر کرسکے۔

اولاد کے ساتھ والدین کا غیر شرعی برتاؤ
علمائے تربیت کا تقربیاًاس پر اتفاق ہے کہ والدین او رتربیت کرنے والے حضرات اگر بچے کے ساتھ سخت وترش رویہ اختیا رکریں گے، مارپیٹ اور ڈانٹ ڈپٹ کر اس کو ادب سکھائیں گے، تو وہ ہمیشہ ذلت ورسوائی کا نشانہ بنا رہے گا اور اس کی تحقیر وتذلیل کی جاتی رہے گی، مذاق اڑایا جاتا رہے گا، تو اس کا ردِ عمل اس کے عادات واخلاق پر ظاہر ہو گا اور اس کے کام کاج میں خوف وڈر کی جھلک نمایاں ہو گی اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نوبت خود کشی یا والدین کے ساتھ لڑائی جھگڑے اور قتل تک پہنچ جائے یا وہ گھر سے بھاگ جائے، تاکہ اس ظالمانہ مارپیٹ کی اذیت سے بچ جائے، جب بچے کی یہ حالت ہو گی تو اگر ایسی صورت میں ہم اس کو معاشرہ میں مجرم شخص بنتا دیکھیں اور اس کی زندگی میں انحراف اور بد کرداری نمایاں پائیں، تو اس میں ذرا سا بھی تعجب نہیں ہونا چاہیے اور اس میں کج روی، بد کرداری ، بے حیائی اور ٹیڑھا پن پیدا ہونے میں ذرا بھی حیرت نہ ہونی چاہیے۔

اسلام اپنی تعلیمات کے ذریعے، جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قابل عمل ہیں، تربیت کرنے والے اور راہ نمائی واصلاح کے ذمے داروں او رخصوصاً ماں باپ کو یہ حکم دیتا ہے کہ وہ بلند اخلاقی، نرم مزاجی، شفقت ورحم دلی کا مظاہرہ کریں، تاکہ وہ قابلِ احترام شخصیت اور عزت کے مالک ہوں۔

جنس او رجرائم پر مشتمل فلموں کا دیکھنا
عصر حاضر کے بچوں کے خراب ہونے کا سب سے بڑا سبب اور ذریعہ جواُن کو بد کرداری اور بد اخلاقی کا عادی بناتااورمجرمانہ زندگی کی طرف لے جانے کا ذریعہ بنتا ہے، وہ ہے سینما، فلموں اور ٹیلی ویژن پر پولیس کی کارروائی اورجنسی بداخلاقی پر مشتمل فلمیں او رگندے مناظر، اسی طرح وہ رسالے اور کتابیں، جو مخرب اخلاق، جنسی واقعات وکہانیاں اور شہوت انگیز اصول پر مشتمل ہوتی ہیں، ان سب کا مقصد اور غرض صرف شہوت کو بھڑکانا،انحراف، جرم پر آمادہ اور جری کرنا ہوتا ہے، ان سے توبڑوں کے اخلاق بھی خراب ہو جاتے ہیں، چہ جائیکہ بچے اور بلوغت کی عمر کو پہنچنے والے ناسمجھ لڑکے۔

لہٰذا مربیین خصوصاً والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے ان بچوں کے ہاتھوں سے موبائل کو دور رکھیں، جواپنے جملہ منفی اثرات کے ساتھ اُن کے مستقبل کی تاریکی کا پیش خیمہ ہے۔

دور حاضر میں جہاں موبائل بہت بڑی سہولت ہے، وہیں انٹرنیٹ95 فی صد سبب ہلاکت ہے، ”اثمھما اکبر من نفعھما“ ظاہر بات ہے کہ آپ اپنے بچوں کو تعلیم کے نام پر انٹرنیٹ کی آزادی مہیا کریں گے، توبند کمرے میں انٹرنیٹ کی تباہی وبربادی سے صرف اس کو اس کا ایمان ہی بچا سکتا ہے۔ الامان والحفیظ․

حضرت عبدالله بن عباس رضی الله تعالی عنہما فرماتے ہیں ، آقائے کریم صلی الله علیہ وسلم سے صحابہ نے دریافت کیا یا رسول الله ! یہ تو ہمیں معلوم ہے کہ اولاد کے اوپر باپ کے حقوق ہیں، مگر خو دباپ پر اولاد کے کیا حقوق ہیں؟ آپ نے فرمایا: ان پر حق یہ ہے کہ بچے کا اچھا نام رکھے او ران کی اچھی تربیت کرے۔ (رواہ الترمذی)

اسلام ایک واضح اور کھلی کتاب ہے، جس کے ہر صفحے پر سلامتی کے عادلانہ الفاظ مرقوم ہیں، خواہ وہ اولاد کی تربیت ہی کیوں نہ ہو۔

Flag Counter