Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاول 1438ھ

ہ رسالہ

16 - 18
"اذان" سمع خراشی نہیں

مولانا محمد نجیب قاسمی
	
13/نومبر2016ء کو اسرائیلی پارلیمنٹ میں مسجد اقصیٰ (مسلمانوں کا قبلہ اوّل) کے ساتھ ساتھ دیگر فلسطینی مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ اذان دینے پر پابندی کا ایک بل پیش کیا گیا، جس میں کہا گیا چوں کہ بیت المقدس اور دیگر علاقوں میں یہودی بھی رہتے ہیں، انہیں اذان کی آواز سے پریشانی ہوتی ہے اور ان کی طرف سے اذان پر پابندی کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے۔ اس لیے اذان پر پابندی عائد کی جائے۔ اسرائیلی وزیر اعظم”بنیامین نیتن یاہو“ نے اس قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ بلا تفریق لوگوں کو پریشانی سے بچانا اسرائیلی حکومت کی ذمے داری ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں اور فلسطین میں آباد عیسائیوں نے اس قرار داد کو آزادی مذہب کے خلاف قرار دیے کر اس کی شدید مذمت کی۔ نیز عیسائی پادریوں نے کہا کہ اگر آج اذان پر پابندی عائد کی گئی تو کل چرچ میں گھنٹہ بجانے پر بھی پابندی لگائی جائے گی۔ اپنے مذہب کو درپیش خطرے کے باعث یہودیوں کی مذہبی جماعتیں بھی اذان کی حمایت پر مجبور ہو گئیں او راس طرح یہ قرار داد پارلیمنٹ سے منظور نہ ہو سکی، لیکن اس متنازع قانون کی منظوری سے قبل ہی اس پر عمل درآمد شروع کر دیا گیا ہے، چناں چہ حال ہی میں 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی شہر”اللد“ کی ایک مسجد کے مؤذن ”شیخ محمود الفار“ پر فجرکی اذان لاؤڈ اسپیکر پر دینے کی وجہ سے 197 ڈالر کا جرمانہ عائد کیا گیا۔

اس قرار داد کے پیش ہونے کے فوراً بعد اسرائیلی صدر”ریولن“ ہندوستان کے سفر پر آئے تھے۔ ہندوستان ہمیشہ مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا رہا ہے، مگر نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد سے ہندوستان اور اسرائیل کے رشتوں کی ڈور مضبوط ہوتی جارہی ہے، حتی کہ 29/ستمبر2016ء کو سرجیکل اسٹرائک کے متعلق ہندوستان کے وزیراعظم نے اسرائیل کی ظالم حکومت کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہا: ہم نے وہ کیا جو اسرائیل کرتا ہے۔ اسرائیلی حکومت، جس نے نہتے فلسطینیوں پر ظلم کرنے کی انتہا کر دی ہے، کے ساتھ موجودہ ہندوستانی حکومت کے بڑھتے ہوئے تعلق پرگاندھی جی، جواہر لعل نہرو اور مولانا ابو الکلام آزاد کے ملک میں رہنے والے عام لوگوں کو تکلیف پہنچی، ہندوستان میں بھی بھگوادہشت گرد وقتاً فوقتاً ہندوستانی قوانین کے برخلاف اذان پر پابندی عائد کرنے کی مذموم کوشش کرتے رہتے ہیں۔ لہٰذا ضرورت محسوس کی کہ اذان سے متعلق ایک مختصر مضمون تحریر کیا جائے، تاکہ عام مسلمانوں کو واقفیت ہو کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں اسلامی شعار”اذان“ کا کیامقام ہے اور اذان کے کلمات کے معنی کیا ہیں؟ تاکہ غیر مسلموں کو بھی سمجھایا جاسکے کہ اذان میں صرف خالق کائنات کی بڑائی کے ساتھ اس کے ایک ہونے او رمحمد صلی الله علیہ وسلم کے رسول ہونے کی گواہی دے کر مسلمانوں کو نماز قائم کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔

اذان کی ابتدا کب ہوئی؟
بعض تاریخی روایات میں ہے کہ معراج کے سفر میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرشتوں کو اذان دیتے ہوئے سنا تھا۔ یعنی لیلة الاسراء میں آپ کو اذان صرف سنائی گئی تھی، اس کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ اس وجہ سے مکہ مکرمہ میں اذان نہیں تھی، بلکہ مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے بعد جب ضرورت محسوس ہوئی کہ مسلمانوں کو نماز کے قیام کی خبر کس طرح دی جائے، تو متعدد مشورے سامنے آئے، لیکن ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا تھا کہ حضرت عبدالله بن زید رضی الله عنہ نے جب اپنے خواب میں سنے اذان کے کلمات حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو سنائے، تو حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے بھی اذان کے لیے ان کلمات سے متعلق اپنے خواب دیکھنے کا تذکرہ کیا۔ بعد میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے حکم پر حضرت بلال رضی الله عنہ نے پہلی اذان پہلی ہجری میں دی۔ اس کے بعد سے آج تک ہر مسجد میں ہر نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے، تاکہ مسلمان اپنی دیگر مصروفیات چھوڑ کر مسجد پہنچ جائیں۔ اسلام کا صرف یہی ایک حکم ہے جس کے لیے ہر روز پانچ مرتبہ اذان دی جاتی ہے۔

پوری دنیا میں اذان
نمازِ فجر کی اذان سب سے پہلے دنیا کے مشرقی ممالک(مثلاً انڈونیشیا) میں شروع ہوتی ہے۔ اس کے بعد ملائیشیا، چین، بنگلا دیش، ہندوستان، پاکستان ، افغانستان، ایران، ترکمانستان، تاجکستان، ازبکستان، عمان، قطر، بحرین، سعودی عرب، یمن، کویت، عرب امارات، عراق، سوریا، فلسطین، اردن، ترکی، مصر، لیبیا، الجزائر اور یورپ او رامریکا میں مسلسل فجر کی ذان ہوتی رہتی ہے ۔ اب اذانِ فجر کا یہ سلسلہ ختم بھی نہیں ہو پاتا ہے کہ انڈونیشیا میں ظہر کی اذان مسجدوں کے مناروں سے بلند ہونے لگتی ہے، بالکل اسی طرح پانچوں نمازوں کے وقت الله کے منادیوں کی آوازیں ہر وقت فضاء میں گونجتی رہتی ہیں۔ غرضیکہ24 گھنٹے میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرتا کہ جس وقت ہزاروں مؤذن الله کی وحدانیت او ررسول کی رسالت کی گواہی نہ دے رہے ہوں۔ یہ اسلام کے حق ہونے کی ایک دلیل ہے۔

مسجدیں مسلمانوں کی تربیت گاہیں
زمین کے تمام حصوں میں الله تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب مساجد ہیں، یہ آسمان والوں کے لیے ایسے ہی چمکتی ہیں جیسا کہ زمین والوں کے لیے آسمان کے ستارے چمکتے ہیں۔ ان مساجد کو نماز، ذکر وتلاوت، تعلیم وتربیت، ودعوت وتبلیغ اور دیگر عبادتوں سے آباد رکھنے کا مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے۔ آج مسلمانوں میں جو دن بدن بگاڑ آتا جارہا ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارا تعلق مساجد سے کمزور ہو گیا ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم الله کے گھر، یعنی مساجد سے اپنا تعلق مضبوبط کریں، کیوں کہ مساجد مسلمانوں کی نہ صرف تربیت گاہیں ہیں، بلکہ مساجد مسلم معاشرہ کی عکاسی بھی کرتی ہیں۔ دنیا میں سب سے پہلا گھر بیت الله ہے، جو مسجد حرام کے وسط میں واقع ہے، جس کی طرف رخ کرکے ہم ایمان کے بعد سب سے اہم رکن یعنی نماز کی ادائیگی کرتے ہیں۔ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم نے مدینہ منورہ پہنچنے سے تھوڑا قبل قبا بستی میں ”مسجد قبا“ اور مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد سب سے پہلے جس مسجد کی بنیاد رکھی وہی بعد میں مسجد نبوی کے نام سے موسوم ہوئی، جو اسلام کے دنیا کے کونے کونے تک پہنچنے کا ذریعہ بنی۔ مساجد سے جہاں مسلمانوں کی روحانی تربیت ہوتی ہے، یعنی ہم کس طرح منکرات سے بچ کر الله تعالیٰ کے احکام کے مطابق نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے طریقہ پر زندگی گزاریں ، وہیں سماجی زندگی میں بھی راہ نمائی ملتی ہے، کیوں کہ جب مسلمان آپس میں دن میں پانچ وقت ملتا ہے تو ایک دوسرے کے مسائل سے واقفیت ہوتی ہے ۔ ایک دوسرے کو سلام کرتا ہے ، جمعہ وعیدین کے موقع پر بڑی تعداد میں لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے ، اس کی وجہ سے بیمار کی عیادت کرتا ہے، جنازہ میں شرکت کرتا ہے، ایک دوسرے کے کام آتا ہے، محتاج لوگوں کی مدد کرتا ہے اور بندوں کے حقوق کو ادا کرنے کا احساس پیدا ہوتا ہے، یہ سارے امور اس امر کی دلیل ہیں کہ مسجدوں کا اصلاح معاشرہ میں اہم کردار ہے۔

قرآن کریم میں اذان کا ذکر
پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ قرآن کریم میں احکام کے اصول بیان کیے گئے ہیں ۔ اسلام کے بنیادی ارکان (نماز ، روزہ، زکوٰة اور حج) تک کے تفصیلی مسائل قرآن کریم میں مذکور نہیں ہیں ۔ ہاں! الله تعالیٰ نے قرآن کریم کی سینکڑوں آیات میں اپنی اطاعت کے ساتھ قیامت تک آنے والے انس وجن کے نبی کی فرماں برداری کا حکم دیا ہے او ربتایا کہ محمد صلی الله علیہ وسلم اپنے اقوال وافعال سے احکام الہٰی کی وضاحت فرمائیں گے۔نیز الله تعالیٰ نے رسول کی اطاعت کو ( جو حدیث کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے ) اطاعت الہٰی قرار دیا۔ (سورة النساء:80)

غرضیکہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی اتباع کے بغیر الله تعالیٰ کی اطاعت ممکن ہی نہیں ہے ۔ قرآن کریم میں دو جگہوں پر وضاحت کے ساتھ اذان کا ذکر آیا ہے۔ اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے پکارا جائے، یعنی نماز کی اذان ہو جائے تو الله کی یاد کے لیے جلدی کرو اور خرید وفروخت چھوڑ دو ۔ یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو ۔ (سورة الجمعہ، آیت:9) الله تعالیٰ نے اس آیت میں ارشاد فرمایا: جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے۔ یہ اذان کس طرح دی جائے؟ اس کے الفاظ کیا ہوں؟ یہ قرآن کریم میں کہیں نہیں ہے، البتہ حدیث میں ہے۔ اسی طرح پانچوں نمازوں کے اوقات، ان کے نام، تعدادِ رکعات اور نماز پڑھنے کا طریقہ بھی ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم نے ہی بتایا ہے ، معلوم ہوا کہ حدیث کے بغیر قرآن کریم سمجھنا ممکن ہی نہیں ہے ۔

اسی طرح فرمان الہٰی ہے: آج تم نماز کے لیے (لوگوں کو) پکارتے ہو تو وہ اس طرح (اذان) کو مذاق اور کھیل کا نشانہ بناتے ہیں، یہ سب حرکتیں اس وجہ سے ہیں کہ ان لوگوں کو عقل نہیں ہے۔ ( سورة المائدہ:58)

اذان کی فضیلت ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کی زبانی
”قیامت کے دن اذان دینے والے سب سے زیادہ لمبی گردن والے ہوں گے، یعنی سب سے ممتاز نظر آئیں گے۔“ (مسلم باب، فضل الاذان) ”مؤذن کی آواز جہاں جہاں تک پہنچتی ہے وہاں تک اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔ ہر جان دار اور بے جان جو اُس کی آواز کو سنتے ہیں، اُس کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں ۔“ (مسند احمد) ”مؤذن کی آواز کو جو درخت، مٹی کے ڈھیلے، پتھر، جن اور انس سنتے ہیں وہ سب قیامت کے دن مؤذن کے لیے گواہی دیں گے ۔“

”جس نے بارہ سال اذان دی اس کے لیے جنت واجب ہو گئی (ان شاء الله)“۔ (حاکم) ”اذان دینے والوں کو قیامت کی سخت گھبراہٹ کا خوف نہیں ہو گا اور نہ ہی ان کو حساب دینا ہو گا، بلکہ وہ مشک کے ٹیلے پر تفریح کریں گے ۔“ (ترمذی ، طربانی، مجمع الزوائد، باب فضل الاذان) ”جو شخص اذان سننے کے بعد اذان کے بعد کی دعا پڑھے تو اس کے لیے قیامت کے دن نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی شفاعت واجب ہو گی ۔“ (بخاری، باب الدعاء عند النداء)

اذان کے الفاظ او راس کے معانی
اذان میں سب سے پہلے چار مرتبہ ”الله اکبر“ کہہ کر الله تعالیٰ (God) کے سب سے بڑے ہونے کا اقرار کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد الله تعالیٰ کے معبود حقیقی اور محمد صلی الله علیہ وسلم کے رسول ہونے کی دو دو مرتبہ شہادت دی جاتی ہے ۔ پھر دو دو مرتبہ ” حی علی الصلاة“ کے ذریعہ مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی دعوت دی جاتی ہے اور پھر دو دو مرتبہ ”حی علی الفلاح“ کہہ کر بتایا جاتا ہے کہ اصل کام یابی نماز میں ہے ۔ اذان کے اختتام سے قبل دو مرتبہ ” الله اکبر“ کہہ کر ایک مرتبہ ” لا الہ الا الله “ کہا جاتا ہے کہ الله کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔ اذانِ فجر میں ” الصلاة خیر من النوم“ (نماز نیند سے بہتر ہے ) کہہ کر مسلمانوں کو صبح سویرے الله کی عبادت کرنے کی دعو ت دی جاتے ہے۔ غرضیکہ اذان میں نہ کسی مذہب یا کسی شخص پر کوئی تنقید ہے، نہ یہ کوئی سیاسی ہتھکنڈا ہے، بلکہ صرف اور صرف خالق کائنات، جس کو عربی میں الله، انگریزی میں God، فارسی میں خدااور ہندی میں بھگوان کہتے ہیں، کی تعریف کی جاتی ہے، اس کے معبود حقیقی او رمحمد صلی الله علیہ وسلم کے رسول ہونے کی شہادت دے کر مسلمانوں کو نماز کی طرف بلایا جاتا ہے۔

خلاصہ کلام
ہر مسلمان بالغ مرد وعورت پر روزانہ پانچ وقت کی نماز ادا کرنا فرض ہے، مرد حضرات کو حکم دیا گیا کہ وہ ان نمازوں کو مسجد میں ادا کریں ،جب کہ خواتین کو تعلیم وترغیب دی گئی کہ وہ ان نمازوں کو پردے میں رہ کر اپنے گھروں میں ہی ادا کریں ۔ پہلی ہجری میں مدینہ منورہ میں مسلم معاشرہ کے قیام سے ہی فرض نمازوں کے لیے اذان کو اسلامی شعار قرار دیا گیا ہے۔ اس وقت دنیا میں کئی کروڑ مساجد ہیں ،جن میں پانچ وقت نماز کے قیام سے قبل اذان دی جاتی ہے۔ اذان کا مقصد مسلمانوں کو نماز کے قیام کے وقت قریب آنے کی اطلاع دینا ہوتا ہے۔ پہلے دنیا میں گاڑیوں او رمشینوں کے شور وغل نہ ہونے کی وجہ سے اونچی جگہ پر دی گئی اذان دور دور تک سنائی دے جاتی تھی۔ لیکن چوں کہ اب لوگ موجودہ طرز کے بند رہائشی مکانوں اور دفتروں میں قید رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے لاؤڈا سپیکر کے بغیر اذان دینے سے اذان کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔اس وجہ سے لاؤڈا سپیکر کے ذریعہ ذان دی جاتی ہے۔ یہ صرف اذان کا معاملہ نہیں ، بلکہ دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کے اعلانات وغیرہ بھی لاؤڈا سپیکر کے ذریعہ ہی کیے جاتے ہیں۔ لاؤڈا سپیکر کے ذریعہ دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں سے اعلانات کی اجازت او راذان دینے پر پابندی لگانا آزادیٴ مذہب کے سراسر خلاف ہے۔

Flag Counter