Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاول 1438ھ

ہ رسالہ

3 - 18
سلام کرنے میں سبقت --- ایک تحقیقی جائزہ

مولانا محمد تبریز عالم قاسمی
	
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ا نے فرمایا:
سوار، پیدل چلنے والے کو سلام کرے، پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور تھوڑے لوگ زیادہ کو۔

دوسری روایت میں ہے:
چھوٹا بڑے کو سلام کرے، گذرنے والا بیٹھے ہوئے کو اور تھوڑے زیادہ کو۔(بخاری، رقم:5879، 5880)

اِن دو احادیث میں اِس کا بیان ہے کہ سلام میں پہل کون کرے؟اور کس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سامنے والے کو پہلے سلام کرے؟ ترتیب وار مسائل اور حکمتیں درج ذیل ہیں:
سوار، پیدل چلنے والے کو سلام کرے
یہ حکم استحباب کے طور پر ہے اور تواضُع وخاک ساری کی جانب متوجہ کرنے کے لیے ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اُسے سواری کی نعمت عطا فرمائی ہے، تو اُس کا حق ہے کہ تواضع اختیار کرے؛ اگر پیدل چلنے والے کو حکم ہوتا کہ سوار کو پہلے سلام کرے تو سوار میں، تکبُّروگھمنڈ پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔(شرح ابن بطال: 9/11)

اس بنا پر جو شخص کسی گاڑی، سائیکل، گھوڑے اور ہاتھی وغیرہ پر سوار ہے تو پیدل چلنے والے؛ بلکہ بیٹھے ہوئے لوگوں کو پہلے سلام کرے؛ کیوں کہ ”والمارُّ علی القاعد“ کے الفاظ میں المارُّ (گذرنے والا) پیدل چلنے والے اور کسی سواری پر سوار سب کو شامل ہے؛ بلکہ امام بخاری نے ”الأدب المفرد“ میں ”باب تسلیم الراکب علی القاعد“ کا باب باندھا ہے، اُس میں فَضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کی حدیث ذکر کی ہے: ” یُسلّم الفارسُ علی القاعدِ“ کہ گھوڑ سوار بیٹھے ہوئے کو سلام کرے۔(الأدب المفرد:931)

گذرنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے
اس کی حکمت یہ بیان کی گئی ہے کہ بیٹھے ہوئے شخص کا ہر گذ رنے والے کی طرف، بار بار متوجہ ہونا اور سلام کرنا مشکل ہے؛ جب کہ گذرنے والے کو ایسی مشکل نہیں، امام بخاری نے الادب میں فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے، جس میں ہے یُسلّم الفارس علی الماشي، والماشي علی القائم (رقم:931) گھوڑ سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے اور پیدل چلنے والا کھڑے ہوئے کو۔

حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: اگر ”قائم“ کو مستقرٌّ (قرار پکڑنے والا) کے معنی میں لے لیا جائے تو پھر کھڑے ہوئے، ٹیک لگائے ہوئے اور لیٹے ہوئے سب کو شامل ہوگا۔(فتح الباری:11/21)

تھوڑے ،زیادہ لوگوں کو سلام کریں
یہ حکم اِس حکمت کے پیش نظر دیا گیا ہے کہ زیادہ لوگوں کا تھوڑے لوگوں پر زیادہ حق ہے اور اس لیے بھی کہ زیادہ لوگ تھوڑے لوگوں کو یا اکیلے کو پہلے سلام کریں گے تو اُن میں خود بینی اور تکبر پیدا ہونے کا اندیشہ ہے، نیز کم لوگوں کا سلام کرنا آسان ہے بہ نسبت زیادہ لوگوں کے۔

لأن للکثیرمَزِیة: ولأن توجہ الأمر بالسلام إلی القلیل أخف وأسہل من توجہ إلی الکثیر․(تکملہ فتح الملھم: 4/243)

چھوٹا بڑے کو سلام کرے
چھوٹے کو سلام میں پہل کرنے کا حکم اس لیے دیا گیا کہ بڑے کا حق، چھوٹے پر زیادہ ہے؛ کیوں کہ چھوٹے کو حکم ہے کہ بڑے کی عزت کرے اور اُس کے ساتھ با ادب رہے؛ لہٰذا جو عمر یا رتبہ میں چھوٹا ہو وہ بڑے کو سلام کرے، مثلا:باپ بیٹا ، استاذ شاگرد، وغیرہ: لہٰذا بیٹا، باپ کو اور شاگرد، استاذ کو سلام کرے۔(حاشیہ الطیبی: 9/8)

بازار اور شارع عام کا حکم
اگر کوئی بازار یاعام سڑک یا چورستے(چوک) یا پھر ایسی جگہ سے گذررہا ہے؛ جہاں لوگوں کی آمدورفت بکثرت رہتی ہے تو وہاں کچھ لوگوں کو سلام کرلینا کافی ہے؛ کیوں کہ ایسی جگہوں میں ہر شخص کو سلام کریں گے تو وہ اپنا کام صحیح طور پر، بروقت انجام نہیں دے سکیں گے(یہی حکم شاپنگ مال، بڑی دوکانیں، پلیٹ فارم، بینک اور بس اسٹاپ وغیرہ کا ہوگا)۔( حاشیة الطیبی:9/9)

ملحوظہ… پیدل چلنے والا، بیٹھے ہوئے کو سلام کرے، یہ استحبابی حکم ہے؛ لیکن اگر پیدل چلنے والوں کی تعداد زیادہ ہے اور بیٹھے ہوئے لوگوں کی تعداد کم ہے تو یہاں کیا حکم ہوگا؟ کیوں کہ یہاں استحباب کی دونوں جہتیں ہیں؛ تعداد کے پیشِ نظر قاعدین کو سلام کرنا چاہیے؛ جب کہ حالت کے مد ِنظر پیدل چلنے والوں کو سلام کرنا چاہیے؟

اِس کا جواب یہ ہے کہ ایسی صورت میں دونوں جہتیں ساقط اور کالعدم سمجھی جائیں گی اور اِس کا حکم ایک ساتھ دو ملنے والے اَفراد کے حکم کی طرح ہوگا؛ لہٰذا ہر ایک ابتدا کی کوشش کرے اور کچھ لوگوں کی رائے یہ ہے کہ پیدل چلنے والے کے لیے اِس صورت میں بھی سلام کرناافضل اور مستحب ہے۔(اوجز المسالک: 17/154)

درس گاہ یا مجلس جیسی جگہوں میں آنے والا ہی سلام کرے
اگر کوئی کسی مجلس یا درس گاہ یا ایسی جگہ میں جائے؛ جہاں پہلے سے لوگ موجود ہیں یا انتظار کرر ہے ہیں، خواہ وہ بیٹھے ہوئے ہوں یا کھڑے ہوں، آنے والے ہی کو سلام کرنا چاہیے، آنے والا چھوٹا ہو یا بڑا، کم ہوں یا زیادہ، استاذ ہویا شاگرد وغیرہ۔(حاشیة الطیبی:9/8)

اور ایسی جگہوں میں ایک سلام کافی ہے؛ ہر ایک کو الگ الگ سلام کرنا ضروری نہیں ہے۔(الأذکار:294)

نوٹ…عموما ًناواقفیت کی وجہ سے لوگ سب کو الگ الگ سلام کرتے ہیں، اصلاح کرنی چاہیے۔راقم

فائدہ… سلام میں پہل کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے اِس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر چھوٹا یا گذرنے والا، سلام نہ کرے تو بڑا یا بیٹھا ہوا بھی خاموش رہے؛ بلکہ یہ حکم استحبابی ہے، ا فضلیت پر محمول ہے؛ لہٰذا ایسی صورت میں بڑے کو سلام کردینا چاہیے؛تاکہ چھوٹے کو تنبیہ ہو۔ (اوجز:17/166)

اِسی طرح اگر ابتداء ًہی بڑے نے سلام کردیا یا پیدل چلنے والے نے سوار کو سلام کردیا تو یہ مکروہ نہیں ہے ؛ چناں چہ حضرت عمر بن عبد العزیز کے بارے میں آتا ہے کہ وہ اپنے پہرے داروں کے پاس آتے تھے تو از خود سلام کرتے تھے اور اُن کی طرف سے تاکید تھی کہ جب وہ آئیں تووہ لوگ سلام نہ کریں اور نہ ہی کھڑے ہوں:”ولا یبدؤہ بالسلام، ویقول: إنما السلام علیَّ․“ (شرح السنة: 12/262)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:
جو شخص کسی کے پاس جائے، اُس کو چاہیے کہ سلام کرے اور جس کے پاس جائے وہ سلام کا جواب دے؛ لیکن اُس نے سلام نہیں کیا اور وہ خاموش کھڑا ہوگیا اور جس کے پاس گیا تھا اُس نے سلام کرلیا اور اس کی بڑائی کا لحاظ کرلیا، تب بھی گناہ نہیں؛ بلکہ اس کو بہت ثواب ملے گا ۔(9/63)

دونوں ایک رُتبے کے ہوں تب؟
جب دونوں چلنے والے برابر درجے کے ہوں، مثلا عمر میں برابر ہوں یا حالت میں برابر ہوں، مثلا دونوں سوار ہیں یا دونوں پیدل ہیں، تو ایسی صورت میں ہر ایک کو سلام میں پہل کی کوشش کرنی چاہیے اور جو پہلے سلام کرے گا، اُسے افضل قرار دیا جائے گا، حدیث میں ہے: لوگوں میں اللہ سے زیادہ قریب وہ شخص ہے جو سلام میں پہل کرے۔(ترمذی، رقم: 2694)

رات کو آنے والا سلام کیسے کرے؟
حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم رات کو تشریف لاتے تو سلام اِس طرح کرتے کہ سویا ہوا بیدار نہ ہوجائے اور بیدار سلام سُن لے۔(الأدب المفرد: رقم:965)

تشریح: علامہ نووی لکھتے ہیں:
اِس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایسی جگہ جہاں کچھ لوگ بیدار ہوں اور کچھ لوگ سوئے ہوئے ہوں یا آرام کررہے ہوں تو وہاں سلام کرنا چاہیے ایسے موقع پر سلام شائستگی کے ساتھ کرنا چاہیے کہ کسی کو خلل نہ ہو او ر مقصد بھی حاصل ہوجائے، ورنہ سلام بجائے امن وسلامتی کے خلل ودشواری کا سبب بن جائے گا، جو موضوعِ سلام کے خلاف ہے۔ (تحفة الأحوذی: 7/418)

اِس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سلام کرنے والے کو، ہمیشہ اس کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ اُس کے سلام سے کسی طرح کی کوئی اذیت، بندگانِ خدا کو نہ پہنچے اور اذیت کا دائرہ بہت وسیع ہے۔

مذکورہ حدیث اور ہم مسلمان
اِس حدیث سے اِس بات پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ اسلام کے پیغمبر نے کتنی چھوٹی چھوٹی باتوں کی تعلیم دی ہے اور اُسے بَرت کر دکھایا ہے، آپ نے سونے والے کی اتنی رعایت کی، حضرت تھانوی نے اس حدیث کو ذکر کرکے لکھا ہے:

حالاں کہ یہ (نبی کریم صلی الله علیہ وسلم) وہ ذات ہے کہ اگر آپ قتل بھی کردیتے تو صحابہ کرام کو انکا ر نہ ہوتا؛ بلکہ آپ کے ہاتھ سے خوشی خوشی جان دینا،اُن کے نزدیک ایک فخر تھا؛ مگر پھربھی آپ صحابہ رضی اللہ عنہم کی نیند کی اتنی رعایت فرماتے تھے؛ مگر یہاں یہ حالت ہے کہ ہر وقت سلام اور ہر وقت مصافحہ، چاہے کسی کو تکلیف ہوتی ہو؛ چناں چہ میرے یہاں اِس قسم کی باتوں پر روک ٹوک او رانتظام بہت ہے، جس پر عنایت فرماوٴں نے،مجھے بہت کچھ خطاب دے رکھے ہیں، ایک صاحب نے تو میرے منہ پر کہا، کہ ہم کو یہ طریقہ پسند نہیں، انگریزوں کا سا قانون، ہر بات میں انتظام ،ہر بات میں انتظام؛افسوس گویا اسلام میں انتظام ہی نہیں، بس اسلام تو ان کے نزدیک بے انتظامی کا نام ہے؛ حالاں کہ اسلام سے زیادہ انتظام کسی نے بھی نہیں کیا، ہر کام کا وقت مقرر ہے۔(اشرف الجواب:4/457)

راقم عرض گزار ہے کہ حضرت تھانوی کی یہ بات نہایت قیمتی ہے اور اسلامی زندگی کے ہر میدان میں ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے، ہمارا کوئی طرزِ عمل، منظم اور مُرتَّب نہیں؛ حتی کہ سلام ومصافحہ بھی ،اوپر کا اقتباس بیچ سے لیا گیا ہے، اِس سے پہلے اور بعد میں بڑا دلچسپ اور دل نشین مضمون ہے، پڑھنا چاہیے، عنوان ہے ”غیر قوموں کی ترقی کا راز کیا ہے؟“ جی تو چاہ رہا ہے کہ پورا مضمون نقل کردیا جائے؛ لیکن خوفِ طوالت ایک مجبوری ہے؛البتہ یہ بات ضرور لکھنا چاہیے:

سبحان اللہ! کیسی ذرا ذرا سی باتوں کی رعایت فرمائی ہے اور یہ معجزہ ہے حضور صلی الله علیہ وسلم کا کہ باوجوداتنے مشاغل کثیرہ کے پھر بھی آپ نے مُعاشرت کے دقیق سے دقیق اُمور کو بھی نظر انداز نہیں فرمایا، کیا بدون نبوت کے ایسا ہوسکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔(اشرف الجواب: 4/457)

پیچھے سے اچانک سلام کردینا
اگر کوئی شخص ٹہلتے ہوئے قرآن کی تلاوت کررہا ہو، اورَاد ووظائف میں مشغول ہو یاتسبیح پڑھ رہا ہو تو پیچھے سے اچانک سلام نہیں کرنا چاہیے، خلل تو ہوتا ہی ہے، بعض دفعہ انسان گھبرا بھی جاتا ہے،راقم نے اپنے کئی اساتذہ کو ایسے سلام کرنے والے کو تنبیہ کرتے ہوئے دیکھا ہے، مذکورہ حدیث کی روشنی میں یہ ممانعت، بالکل صحیح ہے۔

Flag Counter