کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
اقامت کے وقت مقتدی کب کھڑے ہوں؟
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اِن مسائل کے بارے میں کہ مؤذن کی اقامت کے دوران سارے مقتدیوں کو کب کھڑا ہونا چاہیے، یعنی شروع سے کھڑا ہونا چاہیے یا ”حی علی الفلاح“ کے وقت، دونوں میں افضل کون سا ہے؟ مسئلے کی وضاحت کریں۔
جواب… اقامت نماز کے وقت امام اور مقتدی کس وقت کھڑے ہوں، شروع اقامت سے یا بعد میں مؤذن کے کسی خاص کلمہ یعنی”حی علی الفلاحپر؟‘ ‘اس سوال کے جواب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اِس معاملے میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم او رحضرات صحابہٴ کرام اور علماء سلف کا تعامل کیا رہا ہے؟
چناں چہ صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے:”إن الصلوٰة کانت تقام لرسول الله صلی الله علیہ وسلم، فیأخذ الناس مصافھم قبل أن یقوم النبي صلی الله علیہ وسلم مقامہ․“
ترجمہ:رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی امامت کے لیے نماز کھڑی کی جاتی تھی اور لوگ آپ کے کھڑے ہونے سے پہلے اپنی اپنی جگہ صفوں میں لے لیتے تھے۔“ (کتاب الصلوٰة، باب متی یقوم الناس للصلاة، رقم:1369، ط: دارالسلام)
ابن شہاب سے مروی ہے کہ جس وقت مؤذن الله اکبر کہتا تھا تو لوگ نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے تھے اور حضور صلی الله علیہ وسلم کے تشریف لانے تک صفیں درست ہو جاتی تھیں۔ (فتح الباری، کتاب الأذان، باب متی یقوم الناس…2/153،ط: قدیمی)
ان مذکورہ بالا روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب آں حضرت صلی الله علیہ وسلم پہلے سے مسجد میں تشریف فرمانہ ہوتے، بلکہ گھر سے تشریف لاتے تھے، تو آپ کو دیکھتے ہی حضرت بلال رضی الله عنہ اقامت شروع کرتے اور سب صحابہ کرام شروع اقامت سے کھڑے ہو کر تعدیل صفوف کرتے تھے، آپ علیہ السلام نے اس کو منع نہیں فرمایا البتہ گھرمیں سے تشریف لانے سے پہلے اقامت کہنے اور لوگوں کے کھڑے ہونے سے منع فرمایا ہے وہ بھی از روئے شفقت ممانعت تھی۔
حضرت عمر رضی الله عنہ کے متعلق روایت ہے کہ انہوں نے صفیں درست کرنے کے لیے لوگ متعین کر دیے تھے اور صفیں درست ہونے کی خبر جب تک نہ دی جاتی، تکبیر تحریمہ نہیں کہتے تھے، (امام ترمذی رحمہ الله نے اس حدیث کی روایت کی ہے اور فرمایا ہے کہ حضرت علی اور حضرت عثمان رضی الله عنہما بھی اس امر کااہتمام کرتے تھے) اور یہ اہتمام جبھی ہو سکتا ہے جب لوگ شروع اقامت سے کھڑے ہو جائیں۔
پھر مسئلہ مذکورہ آداب نماز میں سے ہے ، فرض یا واجب نہیں اور آداب کے متعلق درمختار میں ”فصل صفة الصلوٰة“ سے پہلے لکھا ہے:”ولھا آداب ترکھا لایوجب إساء ة ولا عتابا، کترک سنة الزوائد، وفعلہ أفضل“․
ترجمہ:نماز کے کچھ آداب ہیں، جن کے چھوڑنے سے گناہ نہیں ہوتا اور نہ ملامت ہوتی ہے۔ مثلاً سنن زوائد کو ترک کرنا، ہاں اس کا کرنا افضل ہے، البتہ حنفیہ کے مذہب کی تفصیل میں اس عبارت ” والقیام حین قیل حی علی الفلاح“یعنی حی علی الفلاح پر کھڑا ہونا چاہیے ،کی علت صاحب البحر الرائق نے یہ بیان فرمائی ”لأنہ أمر مستحب المسارعة إلیہ“ یعنی حی علی الفلاح “پر کھڑا ہونا اس لیے افضل ہے کہ لفظ حی علی الفلاح کھڑے ہونے کا امر ہے، اس لیے کھڑے ہونے کی طرف مسارعت کرنا چاہیے۔
اور علامہ طحطاوی نے اس کا مطلب یہ بیان فرمایا کھڑے ہونے میں اس سے مزید تاخیر نہ کی جائے، اس سے پہلے کھڑے ہونے سے منع کرنا مقصد نہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا عمل مبارک، حضرات خلفاء راشدین او رجمہور صحابہ وتابعین رضی الله عنہم اجمعین کا تعامل اس مسئلے میں شاہد ہے کہ اُن حضرات کا معمول ودستور یہی تھا کہ امام جب مسجد میں آجاتے تو اقامت کی ابتداء ہی سے سب لوگ کھڑے ہو کر صفوف کی درستی کر لیں، نیز ابتداء میں کھڑے ہونے میں واجب (تسویہ صفوف) کی رعایت جب کہ بعد میں کھڑے ہونے میں مستحب ( قیام عند حی علی الفلاح) کی رعایت ہوتی ہے ، واجب کی رعایت کرکے مستحب کو ترک کرنا ضروری ہے، چوں کہ آج کل اہل بدعت کا اس مستحب پر شدید اصرار ہے ، لہٰذا اولیٰ اور افضل یہی ہے کہ ابتداء اقامت میں کھڑے ہونے کا معمول بنایا جائے اور اس کے بعد بھی کھڑے ہونے کی گنجائش ہے۔
مزید تحقیق وتشفی کے لیے مفتی محمد شفیع رحمہ الله کے رسالے ”رفع الملامہ عن القیام عند أول الإقامہ (جواہر الفقہ، جلد دوم، ص:425 تا442) کا مطالعہ کیا جائے۔
نماز جنازہ کے متصل بعد دعا کرنا
سوال…نماز جنازہ کے متصل بعد دعا کرناجائز ہے یا نہیں؟ تفصیل سے مسئلے کی وضاحت کریں۔
جواب…نماز جنازہ چوں کہ خود دُعا ہے جس میں مسلمان الله تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ اقدس میں سفارشی بن کر اجتماعی طور پر میت کے حق میں مغفرت کی درخواست کرتے ہیں جو متواتر طریقے سے ہم تک پہنچا ہے، جنازہ کے بعد مستقل طور پر اجتماعی دعا کرنا بدعت ہے جس کا ثبوت ذخیرہ احادیث اور آثار صحابہ وتابعین رضی الله عنہم اجمعین میں کہیں نہیں ملتا، بلکہ بعض لوگوں کی خود ساختہ چیز ہے، اس سے اجتناب ضروری ہے، جہاں اس کا تعامل ہو حکمت وبصیرت کے ساتھ نرم لہجے میں لوگوں کو صحیح شرعی حکم سمجھا دیا جائے۔
تعلیم وتربیت کی غرض سے شاگردوں کی پٹائی
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسائل کے بارے میں :
کیا استاد تعلیم وتربیت کے لیے اپنے بالغ ونابالغ شاگردوں کی پٹائی کرسکتا ہے؟ اگرکرسکتا ہے تو پٹائی کس چیز سے اور کس قدر جائز ہے؟ جسم کے کن کن اعضاء پر پٹائی جائز ہے اور کن پر نہیں؟
جواب… واضح رہے کہ تعلیم وتعلم کے سلسلے میں نرمی، شفقت وخوش اخلاقی جتنی مؤثر ہے ،مار پیٹ اور سختی اس کا عشر عشیر بھی نہیں، کیوں کہ نرمی وخوش خلقی کا اثر براہ راست قلب پر پڑتا ہے جس سے شاگرد کے دل میں استاذ کی عظمت کے ساتھ ساتھ محنت اور کوشش کا جذبہ بھی بیدار ہو تا ہے، برخلاف سختی وغیرہ کے کہ وقتی طور پر اگرچہ اس سے مطلوبہ مقصد حاصل ہو جائے گا لیکن یہ اثر جلد ہی زائل ہو جائے گا۔
علامہ قاری صدیق احمد صاحب فرماتے ہیں:
”تجربہ سے یہ بات ثابت ہے کہ سخت کلمات کی بہ نسبت نرم کلمات زیادہ مؤثر ہوتے ہیں، یہ حماقت ہے کہ جس برتن میں آدمی کچھ ڈالنا چاہے پہلے اسی میں سوراخ کر دے، جب شاگرد کے دل کو اپنی سختی او رمارپیٹ سے چھلنی کر دے گا تو اس میں خیر کی بات کس طرح ڈالے گا؟ (آداب المعلمین،ص:10،ط: مجلس نشریات اسلام)
اس تمہید کے بعد اپنے شاگردوں کی پٹائی چند شرائط کے ساتھ درست ہے۔
1..مارنے میں اس بات کا لحاظ کیا جائے کہ سزا سے مقصود زجر وتادیب او راصلاح طلبہ ہو، انہیں تکلیف وایذا رسانی کی نیت سے سزا نہ دی جائے۔
2..جسمانی سزا میں عصا وغیرہ کے علاوہ دیگر جسمانی سزاؤں کو اختیار کرنا زیادہ مناسب ہے۔
3..چہرے پر مارنے سے گریز کیا جائے۔
4..ایک ہی جگہ پر نہ مارا جائے۔
5..سزا دینے میں جرم کی کیفیت وکمیت کو ملحوظ رکھا جائے۔
6..اگر جرم ایک ہو لیکن اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے مرتبے کو بھی پیش نظر رکھا جائے۔
7..غصے کی حالت میں سزا نہ دی جائے، کیوں کہ غصے کی وجہ سے انسان حد اعتدال سے بڑھ جاتا ہے اور بعید نہیں کہ غیر مستحق بھی سزا کی لپیٹ میں آجائے یا مستحق سزا کو حد سے زیادہ سزا دی جائے۔
8..چہرہ او رنازک اعضا پر مارنا جائز نہیں اور نہ ہی ایسا مارنا جائز ہے جس سے نشان پڑ جائے، یا دل پر اثر پڑے یا ہڈی تک اثرپہنچے، یا کھال چھلے یا خون نکلے۔
مطلقہ عورت کے اخراجات کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص نے شادی کی اور بچہ بھی ہو گیا اس کے بعد باہمی ناراضگی کی بنا پر شوہر نے اپنی بیوی کو بچے کے ساتھ میکے بھجوا دیا، یا بیوی از خود میکے چلی گئی اور تقریباً ڈیڑھ سال تک اپنے والدین کے گھر رہی اس کے بعد نوبت یہاں تک پہنچی کہ شوہر نے بیوی کو تین طلاقیں دے دیں، پھر عورت کی عدت بھی گزر گئی۔ اب عورت اپنے ڈیڑھ سال اور عدت کے اخراجات او ربچے کے اخراجات کا مطالبہ کر رہی ہے، تو اس بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟ اگر بیوی نافرمان ہو تو کیا حکم ہے؟ اور اگر شوہر کی طرف سے زیادتی ہو تو کیا حکم ہے؟ برائے مہربانی مسئلہ کی وضاحت فرما کر عندالله ماجور ہوں۔
جواب… زیادتی عورت کی طرف سے ہو یا مرد کی طرف سے عورت کو بہر صورت گزشتہ دنوں کے اخراجات کے طلب کرنے کا حق نہیں، اس لیے کہ ایک ماہ یا زیادہ گزرنے سے گزشتہ دنوں کا خرچہ ساقط ہو جاتا ہے، البتہ اگر شوہر نے بیوی کے ساتھ یہ معاہدہ کیا تھا کہ جب تک تم میکہ میں رہو گی، تو تم کو اتنا خرچہ دیتارہوں گا یا حاکم نے کوئی مقدار متعین کر لی تھی، تو صرف بیوی کے گزشتہ دنوں کا خرچ دینا لازم ہو گا نہ کے بچے کا۔
مجبوری کی صورت میں گاڑی میں نماز پڑھنے کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کو سفر سے واپسی میں راستے میں نماز کا ٹائم ہو جاتا ہے اور زید کو یہ شبہ ہو جاتا ہے کہ گھر پہنچتے پہنچتے نماز کا وقت نکل جائے گا، بہتر یہ ہے کہ گاڑی میں ہی نماز پڑھ لوں یہ سوچ کر وہ گاڑی کے اندر ہی نماز کی نیت باندھ لیتا ہے اور پوری نماز پڑھ لیتا ہے جب کہ زید کو قبلہ کی سمت کا معلوم نہیں تھا اس وجہ سے وہ جس طرف رُخ کرکے بیٹھا تھا اسی حالت میں ہی نماز پڑھی اب سوال یہ ہے کہ:
1..ایسی صورت میں نماز پڑھنی چاہیے یا نہیں؟
2..زید کی نماز ہو گئی یا وہ اس نماز کو لوٹا دے؟
3..ایسی صورت میں عورت کے لیے کیا حکم ہے ؟
قرآن وسنت کی روشنی میں اس مسئلہ کا حل بتا کر مشکور فرمائیں عین نوازش ہو گی۔
جواب…ڈرائیور سے پہلے ہی یہ بات کر لی جائے کہ فرض نماز کے لیے گاڑی روکے گا، ورنہ بروقت مطالبہ کیا جائے، پوری کوشش کے باوجود اگر وہ گاڑی روکنے کو تیار نہ ہو اور منزل تک پہنچنے میں نماز قضا ہو جانے کا قوی اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں اپنی سیٹ پر بیٹھے اشارہ سے بحالتِ مجبوری جس قدرقبلہ رخ ہونا ممکن ہو نماز پڑھ لے، وقتی طور پر اس طرح پڑھے، البتہ نماز چھوڑنے کی اجازت نہیں۔
بعد میں نماز کا لوٹانا لازم ہے۔
عورت کے لیے بھی یہی حکم ہے کہ اگر مرد حضرات گاڑی نہ رکوائیں تو یہ بیٹھے بیٹھے وقتی طور پر اشارہ سے نماز پڑھ لے اور بعد میں لوٹا دے۔
میاں بیوی میں نباہ کسی بھی طرح ممکن نہ ہو تو کیا کیا جائے؟
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں نے اپنی بیٹی کا رشتہ2007ء میں کیا ۔گھریلو ناچاقی کی وجہ سے بچی زیادہ عرصہ میرے ہاں رہی۔ میری بچی کے ہاں چار بچوں کی ولادت ہوئی سارے اخراجات ہسپتال کے میں نے خود برداشت کیے۔ پہلا بچہ پیدائش کے بعد انتقال کر گیا۔ باقی تینوں بچے الحمدلله موجود ہیں۔
شادی کے وقت بچی کا حق مہر اڑھائی تولہ سونے کا زیو رتھا جو کہ میرے دامادنے بیچ کر کھا لیا ہے۔ جب کہ جہیز کا سامان جو میں نے بچی کو دیا تھا۔ جس کی مالیت تقریباً سوالاکھ بنتی ہے۔ اس میں سے بھی زیادہ تر سامان میرا دامادبیچ کر کھا گیا ہے۔ اب میں اپنی بیٹی اور نواسوں کا خرچہ عرصہ دراز سے خود برداشت کر رہا ہوں۔ اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ فیصلہ ہو گا، نباہ قطعا ممکن نہیں ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ شرعا فیصلہ کیا ہونا چاہیے۔ شریعت کی رو سے فتویٰ عنایت فرمائیں۔
جواب…میاں بیوی کارشتہ ایک نہایت ہی عظیم رشتہ ہے، نکاح کے بندھن میں بندھ جانے سے جہاں عورت کے ذمہ کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اسی طرح مرد پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اگر میاں بیوی میں سے ہر ایک اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے تو گھر بہشت کا ٹکڑا بن جاتا ہے اور دونوں کی زندگی نہایت ہی پرسکون گزرتی ہے۔ خدانخواستہ اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو پورا گھر نفرتوں، لڑائیوں او رفساد کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔
تو ایسی صورت میں دونوں خاندانوں کے بزرگ حضرات (لڑکے کے خاندان والے بھی اور لڑکی کے خاندان والے بھی) مل کر بیٹھیں او رحتی الامکان نباہ کی کوشش کریں، الله تعالیٰ کی ذات سے امید ہے کہ جب دونوں فریقین منصف بن کر اصلاح کی نیت سے کوشش کریں گے تو سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔
شوہر پر بیوی کا نفقہ بقدر استطاعت واجب ہے ، اب اگر شوہر بیوی کو نہ گھر میں رکھتا ہے اور نہ ہی نان ونفقہ دیتا ہے اور نہ ہی دیگر حقوق ادا کرتا ہے تو ایسی صورت میں بیوی کو چاہیے کہ وہ شوہر کو مال کا لالچ دے کر اس سے خلع حاصل کرلے یا کسی ذریعہ سے شوہر پر دباؤ ڈال کر طلاق حاصل کر لی جائے۔ او رجہاں تک نفقہ وغیرہ کا تعلق ہے وہ خرچہ جو کے والد نے اپنی بیٹی وغیرہ پر کیا ہے اگر عقد میں نفقہ مقرر کیا گیا ہو ( مثلاً ہر ماہ شوہر بطور نفقہ ہزار روپے دے گا وغیرہ) یا بعد میں فریقین کی باہمی رضا مندی سے یا عدالت کے فیصلے سے مقرر کیا ہو، تب تو گزرے ہوئے ایام کا خرچہ شوہر کے ذمہ لازم ہے، ورنہ نہیں، نیز بچوں کی ولادت پر کیا گیا خرچہ بھی شوہر پر دینا لازم نہیں، البتہ آئندہ کے لیے شوہر پر بیوی کو نفقہ دینا لازم ہو گا۔
ڈرائیور مسافر ہے یا نہیں
سوال…1.. کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ مسئلہ کے بارے میں کہ میں ڈرائیوری کے پیشہ سے وابستہ ہوں او رپاکستان میں آئل ٹینکر چلاتا ہوں چوں کہ مستقل کہیں رہنا نہیں ہوتا چند دن کہاں تو چند دن کہاں… ہمارے لیے نماز کی ادائیگی پر شریعت میں کیا حکم ہے راہ نمائی فرما دیں؟ ہم مسافر ہیں یا مقیم؟
2..میرا آبائی گاؤں کوئٹہ ہے او ر وہیں پر میرے اہل وعیال ہیں۔ لیکن اب چندماہ کے لیے میں نے اپنے گھر والوں کو کراچی میں شفٹ کر لیا ہے۔ اب جب دوران سفر مجھے کراچی کے رخ پر چلنا پڑتا ہے تو میں گھر آکر تقریباً تین سے چار یوم تک قیام کرتا ہوں۔ اب یہ کراچی میں دوران قیام گزرے ایام میں مسافر شمار ہوں گا یا مقیم؟ او رنماز کی کیا ترتیب رہے گی۔
جواب…1... صورت مسئولہ میں آپ کو جب بھی اپنے شہر سے 48 میل77.232 کلو میٹر فاصلے پر کہیں سفر کرنا ہو، تو جب آپ اپنے شہر کی حدود سے سفری نیت کرکے نکل جائیں تو مسافر شمار ہوں گے ، پھر آپ ملک کے جس کونے میں بھی ہوں گے تو آپ قصر کریں گے، جب تک واپس اپنے شہرکی حدود میں داخل نہ ہوں۔
2..آپ چو ں کہ کراچی میں عارضی طور پر رہ رہے ہیں، اس لیے آپ کو کراچی میں ایک مرتبہ کم از کم پندرہ دن تک ٹھہرنا ضروری ہو گا، اس کے بعد آپ کراچی میں دوران قیام مقیم شمار ہوں گے اور پوری نماز ادا کریں گے، البتہ اگر آپ کو کراچی میں ایک مرتبہ بھی کم از کم پندرہ دن تک ٹھہرنا نہیں تو آپ کراچی میں مسافر شمار ہوں گے او رنمازمیں قصر کریں گے۔