Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شعبان المعظم 1437ھ

ہ رسالہ

9 - 18
موبائل کی تصویر
اور خلاف شریعت طریقوں سے دین کی تبلیغ

حضرت مولانا محمد سعد کاندھلوی

قریباً ایک سال قبل نظام الدین تبلیغی مرکز میں تبلیغی جماعت کے ذمہ دار حضرت مولانا محمد سعد صاحب کاندھلوی دامت برکاتہم کے بیان کے دوران کسی صاحب نے موبائل کے ذریعہ مولانا کی تصویر لینے کی کوشش کی، اُس موقع پر مولانا مدظلہ نے جو کچھ فرمایا، وہ آڈیو کلپ کے ذریعے کاغذ پر منتقل کرکے ماہنامہ الفاروق کے کسی قاری نے ای میل کی ہے۔آڈیوکلپ اور تحریر کے موازنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا مدظلہ کے ارشادات کو من وعن نقل کرنے کی قابل رشک کوشش کی گئی ہے۔ عام مسلمانوں اور تبلیغی کام سے منسلک لوگوں کے لیے یہ نفع مند بیان شائع کیا جارہا ہے۔

جب میں اپنے ماحول میں کوئی امر خلاف سنت دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ ہمارا مجمع نیچے جارہا ہے، نیچے۔ آج مجھے ایسا دکھ ہوا، ایسا دکھ ہوا، ہمارے ماحول میں ہماری مسجد میں لوگ تصویریں لیں؟؟

اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم استدراج(یعنی اللہ تعالی کی طرف سے ڈھیل) میں ہیں، استدراج میں ،ہم سب استدراج میں ہیں۔ استدراج کا مطلب یہ ہے کہ گمراہ ہونا اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہوئے۔ استدراج ایک ایسا گڑھا ہے جس میں آدمی گرتا رہتا، گرتا رہتا ہے اور گرتا رہتا ہے، جہنم کے قریب ہوتا رہتا ہے، اور اپنے آپ کو حق پر سمجھتا رہتا ہے۔

کیونکہ ہم سب کے ذہن میں یہ ہے کہ ان اعمال سے گزرنا تبلیغ ہے۔

حالانکہ صحیح حدیث ہے، ہر مصور جہنم میں جائے گا۔ ہر تصویر لینے والا جہنم میں جائے گا۔ یہ طے شدہ ہے۔ چاہے علماء کچھ بھی تاویلات کرتے ہوں۔ کیونکہ میں تو سمجھتا ہوں علمائے سوء ہیں وہ۔ علمائے سوء ہیں وہ، جن علماء نے مشتبہ چیزوں میں تساہل برتا ہے۔ اور ان چیزوں کے بارے میں سکوت اختیار کیا، ایسے علماء علمائے سوء ہیں۔ کیوں کہ جس مسئلہ کے بار ے میں جس چیز سے فحش کے پھیلنے کا اندیشہ ہو اس کے بارے میں سکوت یا جواز کا فتویٰ دینا ، فحش کو بڑھانے میں مدد کرنا ہے ۔اوراثم وعدوان (گناہ کے کاموں) پر تعاون کرنا، یہ تو گناہ کرنے سے زیادہ بڑا گناہ ہے۔ کسی ایسے گناہ میں مددگار بننا اپنے گناہ سے بڑا گناہ ہے۔

مجھے بڑا غم ہے آج۔ ہمارے ماحول میں لوگ تصویریں لیں ؟؟کیا رہ گیا؟

کہاں اللہ کا گھر رہ گیا اور کہاں اللہ کا ڈر رہ گیا؟؟

میرے نزدیک علمائے سوء ہیں وہ، جنہوں نے تصویر کے بارے میں سکوت یا تصویر کے بارے میں تاویلات یا تصویر کے بارے میں تساہل برتا ہے۔ وہ علمائے سوء ہیں۔ اور اللہ ان سے ان کا حساب لے گا۔ اللہ حساب لے گا۔

مجھے اس کا بڑا دکھ ہے… بڑا غم ہے۔ کیا علماء ،کیا عوام، کیا دین دار، کیا بے دین، سب ایک ہیں۔ سب ایک پلڑے میں ہیں۔سب ایک پلڑے میں ہیں۔

یہ سمجھتے ہیں، لمبی لمبی نمازیں پڑھنا دین ہے۔ حالانکہ یہ حرام میں گرفتار ہیں۔ یہ حرام کے مرتکب ہیں اور سمجھتے ہیں لمبی لمبی نمازیں پڑھنا بزرگی ہے ۔

مجھے بڑا غم ہے آج! سچی بات ہے۔میں تو سوچ رہا تھا کہ ہمارا مجمع ایسا ہے جیسا کہ کولہو کا بیل۔ چل رہے ،چل رہے،چل رہے،چل رہے، ایک سانس بھی کیا ۔یہ بیچارے اپنے دائرے سے بھی باہر نہیں نکلتے۔ مجھے آج بڑا دکھ ہے! سچی بات ہے۔

ہر ایک کی جیب میں موبائل۔ بیٹھ کے تصویریں لینا اور فلمیں بنانا۔ وہ تو شیطان ان کی گدی پر سوار ہے۔ یہ جتنے چاہیں بیان کریں ۔جتنی چاہیں عبادتیں کریں۔ شیطان ان کی گدی پر سوار ہے۔ اور یہ خود شیطان ہیں۔ یہ خود شیطان ہیں۔ کوئی بھی ہو۔ اور کوئی بھی اس کے جواز کا فتویٰ دیتا ہو۔ بالکل شیطانیت کی مدد کرنا ہے اور فحش کو پھیلانا ہے ،چاہے وہ کوئی مفتی ہو۔

حرام کی بنیاد ٹیکنالوجی نہیں ہے۔ حرام کی بنیاد اللہ کا امر ہے۔ تحریم کی بنیاد الله کا دین ہے ۔ٹیکنالوجی حلت وحرمت کی بنیاد نہیں ہے۔ حدیث میں آتا ہے ایک زمانہ وہ آئے گا کہ حرام چیز کو لوگ کہیں گے کہ یہ حلال ہے، وہ حرام تھا۔ حالانکہ وہ حرام بجز شکل کے۔ بدلی ہوئی شکل ہو گی۔ لوگ کہیں گے یہ حلال ہے ،یہ حرام ہے۔ حالانکہ ان دونوں حرام میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔

میرے نزدیک تو نماز بھی نہیں ہوتی، اس شخص کی جس کی جیب میں کیمرے کا موبائل ہو۔ جتنے چاہو فتوے لے لو علماء سے۔ میں تو یہ سوچ رہا تھا کہ ووٹ ڈالتے ہیں، ان کے انگوٹھوں پر نشان لگتا ہے ،جو مٹتا نہیں ہے۔ اس کا وضو بھی ہوتا ہے کہ نہیں ہوتا۔ میں تو حیران ہوں ، دو دن سے پریشان ہوں اس مسئلے میں۔

امت اپنے اعمال کو ضائع کررہی ہے، اپنے اعمال کو ضائع کررہی ہے۔ ہر قدم پر اللہ سے دور ہورہی ہے۔ سب کو دھوکہ ہے اس کا کہ ہم اچھا کام کررہے ہیں۔ ہر عمل میں سے نورانیت ختم ہوئی ہوی ہے۔ ایک چکر سا لگا ہوا ہے۔ آنا۔ جانا۔

میں تو حیران ہوں ! یہ کیا ہورہا ہے ؟؟

ہم سب کے ذہنوں میں یہ ہے کہ ہم ٹھیک کام کررہے ہیں۔ اس کا گناہ ان لوگوں کے سروں پر ہے، جنہوں نے اس بارے میں سکوت اختیار کیا۔ سارا گناہ ان کے سر پر ہے۔

من سنّ سنہ حسنة، ومن سن سنة سیئة فعلیہ مثلہا الخ․

صحیح حدیث ہے۔ جو غلط چیز جاری کرے گا سارے غلط کرنے والوں کا گناہ اس کے سر پر ہے۔

علمائے سوء ہیں وہ۔ بڑی وعیدیں ہیں ایسے علماء کے لیے ،جو مشتبہ چیزوں میں تساہل برتیں۔ اور ان چیزوں میں جس سے فحش پھیلتا ہو، ایسی چیزوں کے جواز کا فتویٰ دینا تو بالکل ہی باطل ہے ،بالکل ہی باطل ہے۔

جس کے ہاتھ میں دیکھو، موبائل۔ میں تو حیران ہوں! ہم جا کہاں رہے ہیں؟؟؟

یعنی جبرائیل عليه السلام وحی لے کر نازل ہوئے آسمان سے۔ اور باہر سے باہر، آپ عليه السلام کو بلاویں،گھر میں سے، اور وحی پہنچا ویں اور واپس چلے جاویں۔ آپ عليه السلام نے فرمایا کہ جبرئیل عليه السلام گھر میں کیوں نہیں آتے؟ پہلے تو آیا کرتے تھے۔ تو کہا کہ ہم اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر ہوتی ہے۔

اللہ کے نبی کا گھر اور آسمان سے یہ حکم دے کر بھیجا کہ جاؤ اس آیت کی وحی دے کر آؤ۔ اور جبرئیل … ؟کہاں بلاویں آپ کو گھر…؟؟ سے باہر…؟؟ باہر آئیے! وحی آئی ہے۔ اندر کیوں نہیں جاتے… کہ اندر کیوں نہیں آتے؟کہا،ہم اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر ہو یا کتا ہو۔

سیدھی بات ہے ،سیدھی بات۔ تم لاکھ تاویلات کرو۔ ان تاویلات نے ہی دین برباد کیا ہے۔ تاویلات نے ہی ہمارا دین برباد کیاہے۔

میرے بزرگو اورعزیزو! تاویلات سے ہی تساہل پیدا ہوتا ہے۔ بقول حضرت تھانوی  کے کہ مصالح نے ہمارا دین کھویا ہے۔ مصلحت ہے، مصلحت ہے، ساری بے دینی مصلحت کی وجہ سے ہے۔ حضرت تھانوی فرماتے تھے کہ مصالح کو تو پیسا جاتا ہے۔ تب دین میں لذت پیدا ہوتی ہے۔ جس طرح مصالحے کے پیسنے سے کھانے میں لذت پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح دین کی لذت کس میں ہے ؟مصالح کو پیسنے میں ہے۔ مصالح کو پیسو تاکہ حکم پور اہو۔

جو لوگ علماء کی یا مشائخ کی تصویریں رکھتے ہیں ،وہ شرک کرتے ہیں، شرک کرتے ہیں۔ خدا کی قسم شرک کرتے ہیں۔ شرک ہے یہ۔ جو لوگ تبرک کے لیے علماء مشائخ کی تصویریں رکھتے ہیں، وہ شرک کرتے ہیں، شرک کرتے ہیں۔ صراحتاً شرک کرتے ہیں۔دنیا میں بت پرستی آئی ہی اسی راستہ سے ہے۔ پہلے بت نہیں ہوتے تھے ۔پہلے مشائخ کی تصویریں ہوتی تھیں۔ وہاں سے بت پرستی شروع ہوئی۔ ان کے مجسمہ بعد میں بنے۔ بت پرستی شروع ہی ہوئی تصاویر سے۔

حضرت جبرئیل علیہ السلام گھر سے باہر ہی وحی دے کے چلے جاویں ۔آپ بار بار کہیں کہ جبرئیل گھر میں کیوں نہیں آتے۔عرض کرتے ہیں کہ نہیں جی! جس گھر میں تصویر ہوتی ہے، ہم اس میں داخل نہیں ہوتے۔

جیب میں موبائل رکھ کے، ان کی نمازوں میں فرشتہ ہوتے ہوں گے کہ نہیں ہوتے ہوں گے۔ سب دھوکہ ، خدا کی قسم! سب کو دھوکہ، سب کو دھوکہ ہے، سب دھوکہ میں ہیں۔ ان کے ساتھ نماز میں شیاطین ہوتے ہیں ،فرشتہ ایک نہیں ہوتا۔ یاد رکھیو! میری بات کو ۔ مجھے یقین ہے اس کا ،کہ فرشتوں سے نماز میں کیفیت ہی اور ہوتی ہے۔ اللہ مجھے معاف فرماوے، اس کی توخبر ہی نہیں ہمارے مجمع کو کہ کیفیت کیا ہوتی ہے۔ یہ تو معمول پورا کرکے جاتے ہیں نماز کا۔ انہیں پتہ ہی نہیں کہ نماز کیا ہے؟ وہ تو فرشتوں کی حضوری سے تو کیفیت ہی اور ہوتی ہے، نمازی کی۔ سکینہ نازل ہوتا ہے۔ فرشتوں کا نزول ہوتا ہے۔ ان کی تو گدی پر شیطان سوار ہے۔ کسی فرشتہ کے ہونے کا امکان ہی نہیں ہے۔ لو جی! جب جبرئیل وحی دینے کے لیے بھی اندر داخل نہیں ہوسکتے، تو ہمارے پاس عام فرشتہ کیسے آجاویں گے؟ ْ؟ سب کا یہ حال ہے، سب کا۔ کیا عوام، کیا علماء ،کیا علماء کی اولادیں، سب دھوکے میں ہیں۔ ہم ٹھیک کررہے ہیں۔ تم لوگوں کے موبائل… تصویروں کے… اور سمجھتے ہیں کہ مشائخ کی تصویریں رکھنا برکت کی چیز ہے۔ حالانکہ شرک ہے، شرک۔ یہ عقیدے کی خرابی ہے۔

میں بہت ہی پریشان ہوں! دیکھو کیا ہوتے ہم، اور کیا بن رہے؟ کہاں جارہے؟ کیا ہمارا کام تھا ؟کیا ہماری منزل تھی ؟کیا ہماری ترقی ہوتی؟

تبلیغ کو کلمہ ، نماز ٹھیک کرنے کی تحریک سمجھا ہوا ہے۔ نہ کوئی خوف ہے دل میں، نہ کوئی خطر ہے ، نہ کسی وعید کا عذاب کا خوف ہے ،نہ کسی وعدے کا شوق ہے۔ مجھے تو بڑا رنج ہے، سچی بات ہے!!!

ہائے ہائے ایک ضرورت کی چیز تھی موبائل۔ لوگوں نے اسے کیا بنادیا۔ جس کی جیب میں دیکھو گے… کیمرہ۔ میں تو قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ فرشتے اس کے قریب ہی نہیں پھٹک سکتے ۔یہ لاکھ تاویلات کرے، فرشتے قریب نہیں آنے کے۔ شیطان ان کے ساتھ ہے، فرشتے ساتھ نہیں ہوسکتے۔ مجھے یقین ہے پورا!!!

اور عمل کرنے والے سب دھوکے میں ہیں ۔سب دھوکے میں ہیں۔ حضرت فرماتے تھے: جو عمل اللہ کا قرب نہ پیدا کرے وہ تو اللہ سے دوری پیدا کرتا ہے۔ عمل سے ایک ہی کام ہوسکتا ہے۔ اللہ کا قرب یا اللہ سے دوری۔

جتنے بیٹھو ہونا تم سب… سب کی جیبوں میں شیطان ہے۔ اور سب کا خیال یہ ہے کہ ہم بڑی ترقی کررہے ہیں۔ میں نے چلہ میں یہ سیکھ لیا۔ میں نے چار مہینہ میں یہ سیکھ لیا۔کچھ نہیں۔ سب دھوکے میں ہیں۔ شیاطین ہمارے دوست ہیں۔ وہ ہمارے ساتھ ہیں بس۔ انہوں نے ہی ہمیں سمجھایا ہوا کہ ہاں تو نے بہت کچھ سیکھ لیا تبلیغ میں۔ کچھ نہیں، کچھ نہیں۔

مولانا الیاس صاحب اس دن سخت بیمار ہوگئے، جب ایک آدمی نے یہاں جماعت میں بائیں ہاتھ سے پانی پی لیا۔ اور ان کی حالت خراب ہوگئی کہ جماعت میں نکلا ہوا اور بائیں ہاتھ سے پانی پی رہا! اب میں کیا کروں، میرا تو کام کا مقصد احیائے سنت تھا اور یہ تو بائیں ہاتھ سے پانی پی رہا۔

اس وقت حکیم صاحب آئے کہ کیا ہوگیا، کیا ہوگیا؟کیسی طبیعت ہے ؟بخار تو نہیں ہے۔؟بخار بھی نہیں ہے۔ اتنا ضعف کیوں ہے؟ رو رہے کہ کیا کروں! آج میں دیکھ رہا تھا کہ ہماری جماعت میں ایک آدمی وہ بائیں ہاتھ سے پانی پی رہا، خلاف سنت۔ اور حضرت کی حالت خراب!

میں تو سوچ رہا تھا کہ اس کام سے ہونا کیا تھا ہو کیا رہا؟اور سب سمجھ رہے ہیں کہ بہت۔ خوب کام پھیل رہا۔ خوب ترقی ہورہی۔ کوئی ترقی نہیں ہے۔ اگر باطل کا باطل ہونا ،نہ کھلے… تو یاد رکھنا سب دھوکے میں ہیں۔ اگر باطل کا باطل ہونا نہیں کھلتا …کام کرنے والوں پر… تو سمجھ لیں کہ گمراہی کی طرف ہیں۔ ورنہ باطل کا باطل ہونا کھل جانا چاہیے ،دعوت سے۔ جو حق وباطل کی تمیز نہ کرسکے ،وہ ہدایت پر ہے ہی نہیں۔ ہدایت پر تو وہ ہوتا ہے، جو حق وباطل میں تمیز کرسکے۔

مجھے بڑا دکھ ہوا! آج سچی بات ہے کہ ہمارا مجمع حرام میں گرفتار ہے اور سمجھتا ہے کہ ہم کام کررہے ہیں۔ اللہ کے واسطے! اس عذا ب سے اپنے آپ کو بچاؤ اور اس سے توبہ کرو۔ یہ اس زمانہ کا ایسا فتنہ ہے جس کو لوگ فتنہ نہیں سمجھتے۔ کیا مزہ اس نماز میں، جس میں فرشتہ کی مصاحبت نہ ہو۔ جس میں فرشتوں کا ساتھ نہ ہو۔ جس میں فرشتہ کا نزول نہ ہو۔ مولانا یوسف صاحب رحمة اللہ علیہ جیسے ہی بڑھتے مصلیٰ کی طرف …جیب میں اگر ایک چوّنی بھی ہوتی ،تو نکال کر باہر دے دیتے یا باہر کہیں رکھ دیتے… اور فرماتے کہ جیب میں بت پڑا ہوا ہے پیسوں کا۔ پتہ نہیں کہ نماز ہوگی کہ نہیں ہوگی؟؟؟

میرے دوستو عزیزو! عمل کا تعلق فتوے سے نہیں، تقوے سے ہے۔ قبولیت کا تعلق محض تقوے سے ہے۔ جس نے اپنا عمل کیا، اللہ کے یہاں قبول کروانے کی فکر ہوتی ہے ناں! ان باریکیوں کو وہ دیکھتے ہیں۔ اس لیے کہ میں کیا بتاؤں ،مفتی بننا آسان ہے، متقی بننا مشکل ہے۔ مفتی تو بہت مل جاویں گے، سینکڑوں… لیکن متقی نہیں ملتے۔ اور یاد رکھنا جو آدمی متقی نہ ہو، مفتی ہو ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ وہ اللہ سے ڈرے گا ہی نہیں فتویٰ دینے میں۔

ہماری بات یاد رکھیو! کسی چیز کی حرمت کی بنیاد ٹیکنالوجی نہیں ہے۔ ورنہ باطل چیزوں کی شکلیں بدل بدل کر تمہیں دیں گے کہ وہ حرام تھا، یہ حلال ہے۔ اس لیے تحریم کی اساس اور بنیاد ٹیکنالوجی نہیں ہے۔ یہ یاد رکھیو میری بات۔ اور یہ بات تم سے کوئی نہیں کہنے کا دنیا میں۔ اس کا بھی مجھے اندازہ ہے۔ کیونکہ حضرت فرماتے تھے کہ بے دینی کی اساس نظام عالم سے متاثر ہونا ہے۔ یہ بے دینی کی بنیاد ہے۔ جو بھی نظام کائنات سے متاثر ہوگا ،اس کو حق کا فتویٰ دینے میں مشکل پیش آئے گی۔ جو بھی ہوگا…جو بھی نظام عالم سے متاثر ہوگا…وہ حق بات کہنے میں گھبرائے گا۔ عموم بلویٰ کہہ کہہ کے کہ عام لوگوں کے لیے مشکل ہے لہٰذا اس بارے میں تھوڑا سا تساہل برتا جاوے۔ بس یہ ہوگا حرام کا دروازہ کھولنا۔ یہاں سے حرام کا دروازہ کھل جائے گا۔

Flag Counter