ظلم واستبداد کے مضبوط پنجے موڑ دے
حضرت مولانا سید نظام الدینؒ
چشمِ حسرت بن کے پھر ہندوستاں کی سمت دیکھ
غم نصیبوں، بے کسوں، آفت زدوں کی زندگی
تو اگر چاہے کمال نوحہ خوانی دیکھنا
اُٹھ ذرا جاکر گروہ مفلساں بھی دیکھ لے
تیر بن بن کر یہ آہیں دل کو برماتی نہیں!
آشیاں کی گود میں برق تپاں سے بے خبر
حیف ہی حیف، وہ آزاد فطرت کیا ہوئی؟
بادہٴ گلگوں کی لذت، جام رنگیں کے مزے؟
بڑھ کے پرچم تھام لے اور بن میر کارواں
ظلم واستبداد کے مضبوط پنجے موڑ دے
اور طریق زندگی میں رہرو آزاد بن
نوجوانِ ہند اُٹھ اور آسماں کی سمت دیکھ
دیکھنی ہو گر تجھے فاقہ کشوں کی زندگی
تو اگر چاہے زوال نوجوانی دیکھنا
اپنی آنکھیں کھول اور جنت نشاں بھی دیکھ لے
اُف یہ غم پرور نگاہیں تجھ کو تڑپاتی نہیں!
گلستاں میں رہ کے تو بادِ خزاں سے بے خبر
تیری غیرت کیا ہوئی، تیری حمیت کیا ہوئی؟
تابکے لوٹا کرے گا خواب شیریں کے مزے؟
تابکے ڈھونڈا کرے گا تو نشانِ رفتگاں؟
مرد ہے تو اس نظام اہرمن کو توڑ دے
چھوڑ دے تقلید مغرب، چھوڑ دے رسمِ کہن
خواب غفلت سے تجھے اب جاگ جانا چاہیے
اور دنیا کو پیام نو سنانا چاہیے