راحت صرف دین میں ہے
ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی
حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالیٰ ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)
الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلاھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․
أما بعد! فأعوذ بالله من الشیٰطن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․
﴿إِنَّ الدِّیْنَ عِندَ اللّہِ الإِسْلاَمُ﴾․ ( آل عمران، آیت:19)
قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: خیر القرون قرنی، ثم الذین یلونھم، ثم الذین یلونھم․(مسند البزار، مسند بریدة بن الحصیب، رقم الحدیث:4506،149/2)
صدق الله مولانا العظیم، وصدق رسولہ النبی الکریم، ونحن علی ذلک لمن الشٰھدین والشٰکرین، والحمدلله رب العالمین․
الله تعالیٰ کا ارشاد ہے، ”بے شک زندگی گزارنے کا الله تعالیٰ کے ہاں سب سے بہترین طریقہ اسلام ہے۔“ نیز، سرور کائنات جناب رسول صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمام زمانوں، تمام صدیوں میں سب سے بہترین زمانہ، سب سے بہترین صدی وہ میری صدی ہے۔ اس سے بہتر صدی، اس سے بہتر قَرن اور اس سے بہتر زمانہ نہ پہلے گزرا ہے اور نہ آئندہ آئے گا۔
یہ دو ارشادات ہیں۔ ایک الله تعالیٰ کا ارشاد ہے اور دوسرا الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ ان دونوں کو اگر ملائیں تو بات بہت واضح ہو جاتی ہے کہ الله کے ہاں جو دین اور طریقہ ہے، وہی ہے جسے محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اختیا رکیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم یہ ارشاد فرمارہے ہیں کہ تمام زمانوں میں سب سے بہترین زمانہ میرا یعنی محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا زمانہ ہے۔
غور کیجیے کہ پوری دنیا میں جتنے بھی انسان ہیں، کالے ہوں، سفید ہوں، مشرقی ہوں، مغربی ہوں، شمال میں ہوں، جنوب میں ہوں، مسلمان ہوں یا کافر ہوں، ہر آدمی․․․ ہر انسان اس دنیا میں راحت چاہتا ہے۔ دنیا میں کوئی بھی آدمی ایسا نہیں ملے گا جو یہ چاہے کہ مجھے تکلیف پہنچے۔ یہ جتنی بھاگ دوڑ ہے، جتنی محنت ہے، جتنی کوشش ہے، جتنی ایجادات ہیں، ان سب کے پیچھے اگر کوئی فلسفہ ہے تو یہی کہ مجھے زیادہ سے زیادہ راحت مل جائے۔
ایک دور تھا کہ لوگ بیل گاڑیوں میں سفر کرتے تھے۔ اب بھی ایسے لوگ زندہ ہوں گے، جنہوں نے بیل گاڑی میں سفر کیا ہو گا۔ تانگے کا زمانہ تو ہم سب نے دیکھا ہے۔ اس سے پہلے گھوڑے تھے، اونٹ تھے، خچر تھے، گدھے تھے۔ اور لوگ انہی پر بڑے لمبے لمبے سفر کرتے تھے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ان اسفار میں مشقت تھی۔ چونکہ آدمی راحت کا متلاشی ہے، راحت طلب کرتا ہے، اس لیے اس نے کوشش و محنت کی جس کے نتیجے میں آج جیٹ طیارے، بوئنگ طیارے، ائیر بس، ریلیں، بسیں، کاریں وغیرہ دوڑ رہی ہیں۔چنانچہ آج سے پہلے جو سفر ہوا کرتا تھا، اس سفر میں اور آج کے سفر میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
میں نے یہ ایک مثال دی ہے، ورنہ زندگی کے ہر شعبے میں ہر آدمی یہ چاہتا ہے کہ میں راحت میں رہوں، میں آرام میں رہوں، میں سکون میں رہوں۔
یہاں آدمی سے ایک بہت بڑی غلطی ہوتی ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اگر میں نے مذہب کو اختیار کیا تو میری ساری راحت ختم ہو جائے گی۔ یہ بہت بڑی بھول ہے، یہ بہت بڑی غلطی ہے۔ یہیں سے راستے تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ایک جنت کا راستہ ہے، ایک جہنم کا راستہ ہے۔ اس غلط سوچ کی وجہ سے انسان غلط راستے پر چل پڑتا ہے۔
آپ مجھے بتائیے کہ اس کائنات کے خالق الله تعالیٰ ہیں ،اس میں جو کچھ بشمول انسانوں کے، ہم اور آپ کے، اس سب کے مالک الله تعالیٰ ہیں۔ جب تک الله تعالیٰ چاہیں گے، یہ کائنات رہے گی او رجب چاہیں گے تو ختم ہو جائے گی۔ یہ طے ہے۔اس میں کوئی شک وشبہ نہیں۔
ہم اور آپ بھی الله تعالی کی مخلوق ہیں یا نہیں؟ہیں!
جس وقت تک الله تعالیٰ چاہتے ہیں، ہم اس دنیا میں رہتے ہیں اورجب چاہتے ہیں ، موت دے دیتے ہیں۔ ہم اس معاملے میں بااختیار نہیں کہ مجھے تو ساٹھ سال نہیں چاہییں، اسی سال چاہییں، یا مجھے تو اسی سال نہیں مجھے تو سو سال چاہییں۔ کسی انسان کو اس بارے میں کوئی اختیار نہیں۔جب پوری کائنات کے خالق او رمالک الله ہیں، میرے اور آپ کے خالق اور مالک الله تعالیٰ ہیں، تو کیا الله تعالیٰ مجھے اور آپ کو راحت نہیں دینا چاہتے؟ عقل کے خلاف بات ہے یہ کہ الله تعالیٰ میرے خالق بھی ہوں، مالک بھی ہوں، میری زندگی او رموت کا اختیار بھی ان کوہو اور الله تعالیٰ مجھ سے آپ سے ،ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والے بھی ہوں، الله تعالیٰ رحیم بھی ہوں، کریم بھی ہوں، رحمان بھی ہوں ، حنان بھی ہوں، منان بھی ہوں، ودود بھی ہوں ،یہ ساری وہ صفات جن میں محبت ہی محبت ہے․․․ پھر الله تعالیٰ مجھے اور آپ کو تکلیف پہنچائیں، راحت نہ پہنچائیں․․․ یہ بات عقل قبول نہیں کرتی۔
دراصل، غلطی ہمار ی ہے۔ آپ مجھے بتائیے کہ سرورکائنات صلی الله علیہ وسلم کو اپنی امت سے محبت ہے یا ناراضگی ہے؟ معمولی درجے کی محبت ہے یا بہت زیادہ محبت ہے؟ ہر مومن کا جواب یہی ہوگا کہ ایسی محبت ہے کہ کوئی محبت کرنے والا آپ صلی الله علیہ وسلم سے محبت میں مقابلہ نہیں کرسکتا۔ دوسری بات یہ بتائیے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی امت کا بھلا چاہتے ہیں یا برا چاہتے ہیں؟ راحت چاہتے ہیں یا تکلیف؟یقینا، بھلا چاہتے ہیں۔ اب یہ بتائیے کہ جب الله تعالیٰ بھی ہم سے محبت کرتے ہیں، الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم بھی ہم سے محبت کرتے ہیں تو پھر کیا اسلام میں کوئی تکلیف کی چیز ہے ؟ ممکن ہی نہیں!
یہ سب ہماری سمجھ کا پھیر ہے، سمجھ کی غلطی ہے۔ اسی غلطی کی وجہ سے انسان وہ غلط فیصلہ کرتا ہے، کیوں کہ وہ نفس اور شیطان کے داؤ میں پھنس چکا ہے۔
سرور کائنات جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی صاحب زادی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر اور لاڈلی بیٹی حضرت فاطمة الزہراء رضی الله عنہا کا نکاح اپنے چچا زاد بھائی حضرت علی رضی الله عنہ سے ہوا۔ حضرت علی ابو طالب کے بیٹے تھے۔ ابو طالب آپ صلی الله علیہ وسلم کے چچا ہیں تو حضرت علی آپ صلی الله علیہ وسلم کے چچازاد ہیں۔ نکاح کے بعدحضرت فاطمہ رضی الله عنہا گھر کے کام وہ خود کرتی تھیں۔ چناں چہ چکی بھی خود چلاتی تھیں۔ اس چکی چلانے کی وجہ سے ہاتھوں میں آبلے پڑ گئے۔ خود مشک میں پانی بھر کر لاتی تھیں۔ اس مشک کے اٹھانے سے گردن کے پاس نشان پڑ گیا۔ حضرت علی رضی الله عنہ شوہر ہیں۔ انہیں بھی اپنی بیوی سے، آپ صلی الله علیہ وسلم کی لخت جگر سے خوب محبت تھی۔ دیکھتے اور دل ہی دل میں کڑھتے تھے۔ ایک دن حضرت علی رضی الله عنہ نے دیکھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس لونڈی اور غلام آئے ہیں تو حضرت علی رضی الله عنہ گھر آئے اور آکر حضرت فاطمہ رضی الله عنہاسے کہا کہ تمھارے ابا جان کے پاس لونڈی او رغلام آئے ہوئے ہیں، تم جاکر ان سے اپنے گھر کا حال کہو او ران سے درخواست کر وکہ ایک خادمہ، ایک لونڈی ہمیں بھی دے دیں تاکہ گھر کے کاموں میں جو مشقت ہے، اس میں سہولت ہو جائے۔ حضرت فاطمہ رضی الله عنہا آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں گھر آکر حاضر ہوئیں۔ وہاں پہنچیں تو آپ صلی الله علیہ وسلم گھر پر موجود نہیں تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا نے پوچھا کہ کیسے آنا ہوا؟ حضرت فاطمہ رضی الله عنہا نے بتا دیا کہ اس لیے آنا ہوا او رگھر واپس آگئیں۔
جب آپ صلی الله علیہ وسلم گھر تشریف لائے تو حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے بتایا کہ فاطمہ آئی تھیں او را س کام سے آئی تھیں۔ چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی صاحب زادی کے گھر تشریف لے گئے۔ عشاء کی نماز کے بعد کا وقت ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم گھر میں داخل ہوئے تو حضرت فاطمہ رضی الله عنہا اٹھنے لگیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ لیٹی رہو۔ باپ بیٹی میں بے تکلفی بھی ہوتی ہے۔ چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی الله عنہا کو اٹھنے نہیں دیا۔ پھر پوچھا کہ بیٹی! تم میرے گھر آئی تھیں، کیا کام تھا؟ حضرت فاطمہ رضی الله عنہا نے بہت شرماتے شرماتے یہ عرض کیا کہ اے الله کے رسول! گھر میں یہ حالات ہیں او رمجھے پتہ چلا تھا کہ آپ کے پاس لونڈی، غلام ، خادم، خادمائیں آئی ہوئی ہیں، تو آپ اگر ایک خادمہ ہمیں بھی دے دیں تو میرا گھر کا کام آسان ہوجائے گا۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا، اے بیٹی! کیا میں تمہیں اس سے کہیں اچھی چیز نہ دوں؟ حضرت فاطمہ رضی الله عنہا نے فرمایا: اے الله کے رسول! میں تو اچھی چیز چاہتی ہوں۔ اگر آپ کے پاس اس سے اچھی چیز ہے ، تو ہمیں دے دیں، تو آپ صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا، اے بیٹی، رات کو سوتے وقت33 مرتبہ سبحان الله، 33 مرتبہ الحمدلله،33 مرتبہ لا إلہ إلا الله،33 مرتبہ الله اکبر پڑھ لیا کرو۔ یہ لونڈی اور غلام سے کہیں زیادہ بہتر ہیں۔
”أخبرنا علی أن فاطمة رضی الله عنہا اشتکت ما تلقی من الرحی مما تطحن، فبلغھا أن رسول الله صلی الله علیہ وسلم أتی بسبي فأتتہ تسألہ خادما فلم توافقہ، فذکرت لعائشة، فجاء النبی صلی الله علیہ وسلم، فذکرت ذلک عائشة لہ، فأتانا وقد أخذنا مضاجعنا، فذھبنا لنقوم، فقال: علی مکانکما․ حتی وجدت برد قدمہ علی صدری، فقال: ألا أدلکما علی خیر مما سألتمانی؟ إذا أخذ تما مضا جعکما فکبرا الله أربعا وثلاثین، واحمدا ثلاثا وثلاثین، وسبحا ثلاثا وثلاثین، فإن ذلک خیر لکما مما سألتماہ“(الجامع الصحیح للبخاری، کتاب فرض الخمس، باب الدلیل علی أن الخمس لنوائب رسول الله صلی الله علیہ وسلم والمساکین، رقم الحدیث:313)
آپ بتائیے کہ کیا خدانخواستہ خدانخواستہ آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی بیٹی کی تکلیف چاہتے ہیں یا راحت چاہتے ہیں؟ آپ راحت چاہتے ہیں۔ کوئی باپ اپنی بیٹی کی تکلیف چاہ سکتا ہے ؟ اور آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی لخت جگر کی تکلیف چاہ سکتے ہیں؟ ممکن ہی نہیں، معقول ہی نہیں، ہم اور آپ نہیں چاہتے تو آپ صلی الله علیہ وسلم کیسے چاہیں گے؟ ممکن ہی نہیں، لیکن بات وہی ہے کہ ایک دو راہا ہے، اس دو راہے پر ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہمیں اِدھر جانا ہے یا اُدھر جانا ہے۔ یہاں شیطان کھڑا ہے، شیطان ہمیں کھینچ رہا ہے۔ چمک دمک کے ساتھ شیطان ہمیں کھینچ رہا ہے․․․دنیا اور اس کی آسائشوں کی طرف۔
قرآن کی ایک آیت ہے: ﴿الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُہُم بِذِکْرِ اللّہِ أَلاَ بِذِکْرِ اللّہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوب﴾․(سورہ الرعد، آیت:28)
خوب اچھی طرح یاد رکھیے، خبردار! الله تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ دلوں کا اطمینان الله تعالیٰ کے ذکر میں ہے۔ اطمینان دولت میں نہیں ہے، کرنسی نوٹ میں نہیں ہے، بڑی بڑی عمارتوں میں چین سکون نہیں ہے۔
اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ خدا نخواستہ، خدانخواستہ اسلام آپ کو تجارت سے روکتا ہے یا اسلام آپ کو کسب معاش سے روکتا ہے ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” التاجر الصدوق الأمین مع النبیین والشھداء والصدیقین․“(سنن الترمذی، کتاب البیوع، باب التجار وتسمیة النبی صلی الله علیہ وسلم إیاھم، رقم الحدیث، :1209،515/3)
یعنی وہ تاجر جو امانت دار ہے، وہ تاجر جو سچا ہے، قیامت کے دن انبیاء کے ساتھ ہو گا۔ جب صفیں بنیں گی تو اس قسم کا تاجر انبیاء کے ساتھ ہو گا، صدیقین کے ساتھ ہو گا، شہداء کی صف میں ہوگا۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے خود تجارت کی ہے۔
ہمیں ہر حال میں اسلام کو ترجیح دینی ہے۔ہر حال میں، ہر جگہ، موت قبول کر لیں، لیکن یہاں مخالفت نہیں چلے گی۔ الله رب العزت کے احکامات سب سے پہلے کہ الله تعالیٰ کا یہ حکم ہے، الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کا یہ طریقہ ہے۔ ہم کسی کا حکم نہیں مانیں گے۔ الله کا حکم مانیں گے۔ ہم الله کے رسول صلی الله علیہ وسلمکے طریقے پر چلیں گے۔
آپ بتائیے کہ الله کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: خیر القرون قرنی، سب سے بہترین دور، سب سے بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے۔ کیا آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج کی اس جدید ترین دنیا میں کہ یہ زمانہ اس سے بہتر ہے؟ ممکن ہی نہیں۔ عدالتیں بھری پڑی ہیں،جیلیں بھری پڑیں ہیں، پاگل خانے بھرے پڑے ہیں، ہر آدمی ڈپریشن کا شکار ہے، دوائیں کھا رہا ہے، گولیاں کھا رہا ہے۔
یہ طے ہے کہ الله تعالیٰ کے احکامات پر چلنے ہی میں کام یابی ہے الله کے رسول الله ﷺکے طریقوں پر چلنے ہی میں کام یابی ہے۔
ہم میں سے بہت سے لوگ وہ ہیں، جنہوں نے اسلام کو پڑھا ہی نہیں، بس اتنا جانتے ہیں کہ آپ ﷺ ہمارے نبی ہیں۔ آپ ﷺ آئے تھے۔ تیرہ سال مکہ میں گزارے، دس سال مدینہ میں گزارے، پھر حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ کا زمانہ ہے، پھر فاروق اعظم رضی الله عنہ کا زمانہ ہے، پھر حضرت عثمان رضی الله عنہ کا زمانہ ہے، پھر حضرت علی رضی الله عنہ کا زمانہ ہے۔ اتنا تو ہم جانتے ہیں، لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ ہوائیں الله نے مسخّر کر دی تھیں، چاند، سورج ، تارے مسخّر تھے، زمین مسخّر تھی، ہر چیز مسخّر تھی۔
آج کیا ہے؟ جدید ترین ایجادات ہیں، بارش کی پیشین گوئیاں کی جاتی ہیں، آلات ہیں، سب کچھ ہے، مگر کیا بارش ہو رہی ہے؟ کر سکتا ہے کوئی بارش؟ الله کے حکم کے بغیر زمین سے کوئی غلہ نکال سکتا ہے؟
یہ تمام ذخائر جو الله تعالیٰ نے زمین کے اندر محفوظ کیے ہیں، یہ سب الله کی مخلوق کے لیے ہیں، آپ کے لیے ہیں، لیکن ان کا وہ استعمال جو صحابہ کرام رضی الله عنہم کے زمانے میں تھا کہ دو رکعات پڑھیں، اے الله! پانی نہیں ہے، اے الله! اناج نہیں ہے، ساری چیزیں، دعا مانگتے، الله تعالیٰ قبول فرماتے، کیوں؟ اس لیے کہ تعلق الله سے جڑا ہوا تھا، تعلق محمد رسول الله کی سنتوں سے جوڑا ہوا تھا، ہم ان چیزوں سے واقف نہیں کہ وہ زمانہ کیسے گزرا ہے۔
آج ساری چیزوں کے ہوتے ہوئے ہم محتاج ہیں
اسباب کا اختیار کرنا، جدید ترین ایجادات کا اختیار کرنا اسلام کی حدود میں رہتے ہوئے ممنوع نہیں ہے، لیکن میں پھر اپنی بات کہوں گاکہ سب سے پہلے اسلام ہے۔ ہر چیز میں ہم سب سے پہلے الله کی طرف رجوع ہوں۔ ہم الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے طریقوں کو دیکھیں، ہم اس پر عمل کریں۔ ہم اس دنیا میں بھی، چین ، راحت اور سکون سے ہوں گے اور آخرت میں چین ، راحت ، سکون تو ہو گی ہی۔
لیکن اگر خدانخواستہ، خدا نخواستہ الله کو چھوڑ کر، الله تعالیٰ کے احکامات کو چھوڑ کر الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے طریقوں کو چھوڑ کر اور نہ صرف چھوڑ کر، بلکہ نافرمانی کرکے اور نہ صرف یہ کہ نافرمانی کرکے، بلکہ نافرمانی پر اصرار کرکے، بہت سے احکامات ہم جانتے ہیں، ہمیں پتہ ہے ،بہت سی سنتوں سے ہم واقف ہیں، ہم جانتے ہیں کہ الله کے رسول کی سنت ہے، لیکن ہم نے نافرمانی اختیار کی ہوئی ہے اور نہ صرف نافرمانی اختیار کی ہوئی ہے ،بلکہ اس پر اصرار ہے تو نقصان ہی نقصان ہے۔ مثلاً، آج آپ دیکھیں کہ گلی گلی بینک کھلے ہیں۔ ہر طرف سود پھیلا ہوا ہے۔ سود کا ادنیٰ ترین گناہ کہ جیسے آدمی اپنی ماں کے ساتھ زنا کرے۔ اور، آج پورا معاشرہ اس میں ڈوبا ہوا ہے۔ ”عن أبی ہریرة قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: الرّبا سبعون جزء اً أیسرھا أن ینکح الرجل أمہ“(مشکوٰة المصابیح، کتاب البیوع، باب الربا، الفصل الثالث ، رقم الحدیث:2826)
جب تک ہم یہ حرام نہیں چھوڑیں گے او رجب تک ہم حلال اختیار نہیں کریں گے، جب تک ہم الله کے احکامات پر نہیں چلیں گے اور الله کے رسول ﷺ کے طریقوں کواختیار نہیں کریں گے، چاہے کچھ بھی کر لیں، انجام ذلت ، انجام بے سکونی، انجام تکلیف اور پریشانی ہو گا۔ اس کے برخلاف، اگر الله تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے، الله کے رسول الله ﷺ کے طریقوں کو اختیا رکرتے ہوئے زندگی گزاریں گے، تو سکون ہی سکون ہوگا۔
الله تعالیٰ اپنے بندے کو تکلیف نہیں پہنچانا چاہتے۔ الله کے رسول ﷺ اپنے امتی کو تکلیف نہیں پہنچانا چاہتے۔ ممکن ہی نہیں کہ وہ کوئی ایسی رہبری کریں، کوئی ایسی راہ نمائی کریں کہ جس سے آپ کا امتی تکلیف میں آئے۔ یہ عقل مانتی ہی نہیں۔ الله تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔
﴿رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ، وَتُبْ عَلَیْْنَا إِنَّکَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ﴾․ وصلی الله تعالیٰ علی خیرخلقہ محمد وعلی آلہ وأصحابہ اجمعین، برحمتک یا أرحم الراحمین․