Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شعبان المعظم 1437ھ

ہ رسالہ

16 - 18
اپنی روٹھی کتابوں کو منا لیجیے

احتشام الحسن، متعلم جامعہ فاروقیہ کراچی
	
بیسیوں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے اوائل سے سائنسی دنیا کی گاڑی برق رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے ۔آئے روز نئی نئی ایجادات وتخلیقات کی بھر مار ہے ۔سوتے جاگتے ، اٹھتے بیٹھتے اور کھاتے پیتے جدید ٹیکنالوجی کا بھوت سوار ہے ۔ جن ہاتھوں میں کبھی کتاب ہوتی تھی ،اب ان کے ہاتھو ں میں موبائل ،آئی پیڈ،ٹیبلٹ اور لیپ ٹاپ وغیرہ آگئے ہیں ۔کتابی کیڑے اب کتابی دنیا سے نکل کر فیس بک ،ٹیوٹر ،ایمو ،وٹس اپ اور متعدد سوشل ویب سائٹس میں گم ہوگئے ہیں ۔ کتاب سے صدیوں پرانا تعلق اور رشتہ ٹوٹتا جارہا ہے ،بلکہ منوں مٹی تلے دفن ہوچکا ہے۔

سوشل میڈیا پر لوگ مختلف رنگ و نسل کے دوست تلاش کرتے ہیں، یہ بے وفا دوست ہمیشہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہوتے ہیں ۔جب کہ کتاب باوفا ساتھ ہے اور ترقی کی راہوں میں قندیل کی مانند ہے ۔حضرت عمر بن عبد العزیز فرماتے ہیں :”میں نے کتاب سے زیادہ مخلص دوست نہیں دیکھا“۔اللہ تعالیٰ نے صدیوں پہلے ایک کتاب اپنے محبوب پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی ،جو زندگی کے ہر موڑ پر ترقی کی سیڑھی ثابت ہوتی ہے۔”سقراط“کہتا ہے :وہ گھر جس میں کتابیں نہ ہوں، اس جسم کی طرح ہے جس میں روح نہ ہو ۔”سمرد“رقم طراز ہے :”کسی گھر میں کتب خانہ کا قائم ہونا اس اینٹوں اور پتھروں کے بے جان گھر میں جان ڈالنا ہے “۔”ای پی وٹیہیل“لکھتا ہے :”کتابیں وقت کے لیے بے پایاں سمندر میں روشنی کے مینار ہیں“۔”ملٹن“ کی رائے ہے کہ:”ایک اچھی کتاب انسان کے لیے زندگی کا بہترین سرمایہ ہے۔” برناڈشا “کا خیال ہے کہ :”جو شخص اچھی کتابیں پڑھنے کا شوق نہیں رکھتا وہ معراجِ انسانی سے گرا ہوا ہے “۔ایک عرب شاعر نے کہا ہے:”محبوبي من الدنیا کتابي“۔دنیا میں میری محبوب ترین چیز میری کتاب ہے #
        مست ہو کر دیکھتے ہیں طالبانِ معرفت
        بادہٴ اسرار کا لبریز ساغر ہے کتاب

علامہ شیخ ہمزان  کا کتابوں سے عشق ضرب المثل ہے ۔علامہ ابن جوزی  نے ان کی وفات کے بعد خواب دیکھا کہ :”آپ ایک ایسے شہر میں ہیں، جس کی دیواریں کتابوں کی ہیں ،آپ کے اردگرد بھی بے حد و حساب کتابیں ہیں اور آپ مطالعہ میں مشغول ہیں ۔ان سے پوچھا گیا کہ :یہ کتابیں کیسی ہیں ؟فرمایا:میں نے اللہ سے سوال کیا تھا کہ:” جس چیز کے ساتھ میں دنیا میں مشغول تھا ،یہاں بھی مجھے وہی مشغولیت نصیب فرما ،تو اللہ نے مجھ کو وہی مشغولیت نصیب فرمائی “۔حضرت ابن الاعرابی نے فرمایا:
        لنا جلساء ما نمل حدیثھم
        ألباء مامونون غیباً ومشھداً
یقینا یہ کتاب ہی ایسی ہم نشین ہے کہ جس کی گفتگو بارِ خاطر نہیں ہوتی ،بڑی رغبت اور دھیان سے اس کی بات کو سنا جاتا ہے اور فہم و شعور کی گرہوں کو کھولا جاتا ہے ،علم و دانش کو پاتا ہے ۔

کتابیں ایسے بزرگوں کا مدفن ہیں ،جو مرنے کے بعد بھی مرتے نہیں ۔کتب خانہ وہ مرکز ہے ،جہاں آفتاب علم کی پرنور شعاعیں اور خوب صورت کرنیں ہمیشہ کے لیے انسانی دماغوں کو روشن کرنے کے لیے مجتمع ہیں ۔کسی باذوق شخص کا قول ہے کہ :”عمدہ کتاب حیات ہے، نہیں ،بلکہ ایک لافانی چیز ہے اور یہ خود ہی لافانی نہیں بلکہ اپنے لکھنے والوں کو ،ان کو جن کا اس میں ذکر ہوتا ہے اور بعض اوقات پڑھنے والوں کو بھی لافانی بنا دیتی ہے،کیوں کہ عمدہ کتابوں نے انسانوں کے اخلاق و طبائع پر اپنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں ،خیالات میں عظیم الشان تغیر پیدا کیا ہے ،ملکوں کی کایا پلٹ دی ہے،قوموں کے سوئے ہوئے جذبات میں حیرت انگیز طور پر ہلچل مچادی ہے ،مردہ دلوں کو زندہ جاوید بنا دیا ہے ،قوموں کے انسانیت کے کھوکھلے ڈھانچوں میں روح پھونک دی ہے “۔

الغرض!جدید آلات کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے ،مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم اپنے آبا ء کے عظیم علمی ورثے کو پس پشت ڈال دیں اور ان کے پجاری بن جائیں ۔آج ہماری کام یابی و کام رانی اور ہمارا عروج کتب بینی میں مضمر ہے ۔ان کتابوں سے ہی ہم ایک مضبوط و منظم معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں ۔تو آئیے! کم ہمتی ،سستی ،احساس کمتری اورلغویات کو پرے پھینک کر ،اپنے آباء کے عظیم خزانے کے وارث بن جائیں کہ خوش بختی آپ کی راہ تک رہی ہے …کام رانی آپ سے ملنے کو بے تاب ہے …ہمت کیجیے اور اپنی روٹھی کتابوں کو منا لیجیے …گلے لگا لیجیے…!!!

Flag Counter