Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شعبان المعظم 1437ھ

ہ رسالہ

10 - 18
نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کا وقت

مفتی محمد راشد ڈسکوی
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی

ایک ساتھی کے سوال کے جواب میں بندہ نے بتایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول نمازِ فجر کے وقت ہو گا، اس سے اگلے دن اسی ساتھی کا فون آیا کہ بہشتی زیور میں تو لکھا ہوا ہے کہ نزولِ عیسیٰ عصر کے وقت ہو گا۔ اس پر بندہ کشمکش میں پڑ گیا کہ یہ کیا ہو گیا؟ اسی وقت بندہ نے کہا کہ اگر ایسا ہی ہے تو پھر یہی ٹھیک ہو گا، مجھے غلطی لگی ہو گی۔ پھر جب بہشتی زیور اٹھا کر دیکھا تو وہاں واقعتا یہی مذکور تھا ، تشویش اس بات پر تھی کہ میرے ذہن میں نمازِ فجر کے وقت کی تعیین کس بنا پر بیٹھی ہوئی ہے؟!اسی جستجو میں مزید تلاش کی تو مفتی نظام الدین شامزئی صاحب رحمہ اللہ کی کتاب ”عقیدہ ظہورِ مہدی“ میں بھی یہی بات ملی، ان دونوں کتابوں میں حوالہ حضرت شاہ رفیع الدین صاحب رحمہ اللہ کے ایک رسالہ ”قیامت نامہ“ کا دیا گیا تھا، حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ کا وہ رسالہ تلاش کر کے اس میں بھی دیکھا تو وہاں علامہ برزنجی  کی کتاب ”الاشاعة“کا حوالہ موجود تھا۔

اس پر مزید تحقیق کی تو راجح اور اصح قول نمازِ فجر کے وقت ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہونا سامنے آیا، نہ کہ نماز ِعصر کے وقت۔ پوری تفصیل قارئین کے فائدے کی خاطر نذرِ قرطاس کی جاتی ہے:

بہشتی زیور کی عبارت
”دجال ملکِ شام پہنچے گا، جب دمشق کے قریب ہو گا، تو حضرت مہدی علیہ الرضوان وہاں پہلے سے پہنچ چکے ہوں گے اور لڑائی کی تیاری میں مشغول ہوں گے کہ عصر کا وقت آ جائے گا، موٴذن اذان دے گا اور لوگ نماز کی تیاری میں ہوں گے کہ اچانک حضرت عیسی علیہ السلام دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے آسمان سے اُتر تے نظر آئیں گے اور جامع مسجد کے مشرق کی طرف والے منارے پر آکر ٹھہریں گے، وہاں سے زینہ لگا کر نیچے تشریف لائیں گے……الخ“۔

حضرت حکیم الامت مولانااشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ مضمون احادیث میں اس طرح مسلسل نہیں آیا، بلکہ حضرت شاہ رفیع الدین صاحب رحمہ اللہ نے بہت سی متفرق احادیث کو جمع کر کے ترتیب دیا ہے۔ (بہشتی زیور، حصہ پنجم، تھوڑا سا حال قیامت اور اس کی نشانیوں کا،ص: 501، 502، دارالاشاعت)

”عقیدہ ظہورِ مہدی“ اور ”قیامت نامہ“ کا حوالہ
حضرت مولانا مفتی نظام الدین شامزئی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”عقیدہ ظہور مہدی“ میں حضرت شاہ رفیع الدین صاحب رحمہ اللہ کے رسالے ”قیامت نامہ“)ص:14، مطبوعہ ہمدرد پریس دہلی)سے ہی یہ مضمون نقل کیا ہے۔

حضرت شاہ رفیع الدین صاحب  کی ذکر کردہ تحریر کا مأخذ علامہ برزنجی کی کتاب ”الاشاعة“ (ص: 169) ہے ۔ اور آگے علامہ برزنجی  نے یہ مضمون ابن العربی کی کتاب ”الفتوحات المکیہ“ سے نقل کیا ہے، جس میں نماز عصر کے وقت نزول کا ذکر ہے۔

ابن العربی رحمہ اللہ کا قول
ابن العربی رحمہ اللہ کی عبارت ملاحظہ ہو:
”ینزل علیہ عیسیٰ ابن مریم بالمنارة البیضاء بشرقي دمشق بین مھرودتین متکئا علی ملکین: ملک عن یمینہ وملک عن یسارہ، یقطر رأسہ ماء مثل الجمان، ینحدر کأنما خرج من دیماس، والناس في صلوٰة العصر، فیتنحی لہ الإمام من مقامہ، فیتقدم فیصلي بالناس، یوٴم الناس بسنة محمد صلی اللہ علیہ وسلم“․ (الفتوحات المکیة، الباب السادس والستین والثلث مأة، في معرفة وزراء المھدي: 6/51، دار الکتب العلمیة)

ایسے موقع پر (جس کا ذکر ماقبل میں گزرا)حضرت عیسیٰ علیہ السلام دمشق کے مشرقی جانب ، سفید مینارے پر دو زرد چادروں میں لپٹے ہوئے اتریں گے، اس حال میں کہ آپ دو فرشتوں پر ٹیک لگائے ہوئے ہوں گے، ایک فرشتہ آپ کی دائیں جانب ہو گا اور دوسرا بائیں جانب۔ آپ کے سر مبارک سے موتیوں کی مانند پانی کے قطرے ٹپک رہے ہوں گے، جیسا کہ آپ ابھی غسل خانہ سے نکلے ہوں، اس وقت لوگ نمازِ عصر کے لیے تیار کھڑے ہوں گے۔ امام (آپ کو دیکھ کر) آپ کے لیے اپنے مصلی سے پیچھے ہٹ جائے گا،(تاکہ آپ نماز پڑھائیں )تو آپ آگے بڑھ کر لوگوں کو نماز پڑھائیں گے، اور سنت محمدی علی صاحبہا السلام کے مطابق امامت کرائیں گے۔

قولِ محقق
تتبع کتب کے بعد اندازہ ہوا کہ یہ محض ابن العربی کا اپنا قول ہے، انہوں نے اس قول کی دلیل میں کسی روایت کو پیش نہیں فرمایا ، صرف اس مقام سے کچھ آگے سنن ترمذی کی ایک روایت نقل کی ہے ، جو صحیح مسلم میں بھی موجود ہے، لیکن اس روایت میں کہیں بھی عصر کے وقت نزول کا ذکر نہیں ہے۔

اس موضوع پر مقدور بھر کوشش کرنے کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لفظِ ”عصر “کی ”فجر “کے ساتھ لفظی مشابہت کی وجہ سے کتابت کی غلطی سے ایسا تغیر ہو گیا ہے، کیوں کہ بہت ساری کتب تفاسیر، کتب احادیث، شروح احادیث، کتب علم الکلام اور عربی و اردو فتاویٰ جات میں نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کا وقت : ”صبح کا وقت /نمازِ فجر / بوقتِ سحر“ مذکور ہے، نا کہ نمازِ عصر کا وقت،مثلا: تفسیر ابن کثیر، جامع البیان للطبری، الدر المنثور، سنن ابن ماجہ، مسند احمد بن حنبل، مستدرک علی الصحیحین، مجمع الزوائد، تکملہ فتح الملہم، الحاوي للفتاوي، الفتاویٰ الحدیثیہ، فتاوی عزیزیہ، جواہر الفقہ، معارف الحدیث، آپ کے مسائل اور ان کا حل وغیرہ۔

علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے تو اپنی تفسیر اور تاریخ میں نزول عیسی علیہ السلام سے متعلق احادیث متواترہ ذکر کرنے کے بعد ان سے اخذ کردہ فوائد ذکر کرتے ہوئے صاف لکھا ہے کہ نزول نماز فجر کے وقت ہو گا۔ ملاحظہ ہو:

”فھٰذہ أحادیث متواترة عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم … وفیھا دلالة علی صفة نزولہ ومکانہ من أنہ بالشام، بل بدمشق عند المنارة الشرقیة، وأن ذٰلک یکون عند إقامة صلاة الصبح…إلخ“․ (تفسیر ابن کثیر، سورة النساء، رقم الآیة: 155۔159، 4/363، موٴسسة قرطبة)

پس یہ (تمام)احادیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ منقول ہیں…… اور ان احادیث میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی کیفیت، نازل ہونے کی جگہ پر راہ نمائی ملتی ہے کہ آپ ملک شام، بلکہ (ملکِ شام کے شہر) دمشق کے مشرقی مینارے پر اتریں گے اور یہ کہ یہ اترنا نماز صبح کی جماعت کھڑی ہونے کے وقت ہو گا…

وأنہ ینزل علی المنارة البیضاء بدمشق، وقد أُقیمت صلاة الصبح، فیقول لہ إمام المسلمین: تقدم یا روح اللہ! فصل، فیقول: لا، بعضکم علی بعض أمراء، تکرمة اللہ ھٰذہ الأمة“․ (البدایة والنھایة، قصة عیسی بن مریم، صفة عیسیٰ علیہ السلام وشمائلہ وفضائلہ: 2/526، دار ھجر للطباعة والنشر)

اور یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دمشق کے سفید مینار پر اتریں گے، اس وقت نماز صبح کی اقامت کہی جا چکی ہو گی، تو آپ کو (دیکھ کر )مسلمانوں کا امام کہے گا، اے روح اللہ! آگے تشریف لائیے اور (ہمیں) نماز پڑھائیے، تو اس کے جواب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام ارشاد فرمائیں گے: نہیں، اللہ تعالیٰ کا اس امت پریہ اعزاز ہے کہ تم میں سے بعض، دوسرے بعض پر امیر ہیں۔

خلاصہ کلام یہ کہ عصر کے وقت میں نزول ِ عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ماسوا مذکورہ بالا تین کتب کے کہیں کچھ نہیں ملا، ہر جگہ نمازِ فجر کے وقت کی تعیین ہی ملی، اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ہے کہ عصر کے وقت نزول کی تردید پر سوائے حضرت مولانا سرفراز خان صفدر صاحب نور اللہ مرقدہ کے، دیگرشارحین یا محدثین کرام وغیرہ کا کوئی کلام نہیں ملا، واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب وعلمہ أکمل و أتم۔

امامِ اہل سنت، حضرت اقدس ، شیخ الحدیث والتفسیر مولانا سرفراز خان صفدر صاحب نور اللہ مرقدہ اپنی کتاب ”توضیح المرام فی نزول مسیح علیہ السلام “ میں ایک مقام پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول پر قادیانیوں کی کتب سے ہی دلائل دیتے ہوئے ، تیسرے حوالے (مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ: حجج الکرامة ، ص:418 میں ابن واطیل  وغیرہ سے روایت لکھی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام عصر کے وقت آسمان پر سے نازل ہوں گے۔ تحفہ گولڑویہ،ص:184) کے بعد لکھتے ہیں کہ:

یہ تین حوالے ہم نے مرزا غلام احمد قادیانی کے نقل کیے ہیں، جن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے نازل ہونے کی تصریح ہے اور اپنے اقرار اور بیان سے بڑھ کر آدمی کے لیے اور کیا حجت ِ ملزمہ ہو سکتی ہے؟! صحیح احادیث کے پیش ِ نظر جن کا ذکر اسی پیشِ نظر کتاب میں باحوالہ ہو چکا ہے، حضرت عیسیٰ علیہ الصلاة والسلام کا نزول عصر نہیں، بلکہ بوقتِ صبح ،صلاة صبح ہو گا، کما مرّ۔ (توضیح المرام فی نزول مسیح علیہ السلام، عیسائی بھی مسیح علیہ السلام کے رفع اور نزول کے قائل اور ان کی آمد کے منتظر ہیں، ص: 72، طبع پنجم، اگست/2010ء، مکتبہ صفدریہ)

رہ گئی یہ بات کہ پھر اتنے بڑے حضرات ِ اکابر نے وقتِ عصر کیسے ذکر کر دیا؟؟ تو جاننا چاہیے کہ ان اکابرین سے اس مسئلے میں سہو ہو جانے سے ان کی شانِ میں فرق نہیں پڑتا، بلکہ یہ تو دلیل ہے کہ معصوم عن الخطا صرف حضرات انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات ہیں اور کوئی نہیں۔ نیز! یہ سہو اپنے سے متقدم کے اوپر اعتماد کرتے ہوئے نقل در نقل میں خطا کی قبیل سے ہے اور ایسا صرف انہی سے نہیں، بلکہ بہت سے حضرات اکابرین سے صادر ہونا مشاہد ہے۔

مذکورہ بالا تفصیل کے بعد مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے نزول کا وقت ”نمازِ فجر “ ہی بیان کیا جائے اور لکھا جائے، تاوقتیکہ نماز ِ عصر کے وقت کی تصریح صحیح روایات سے سامنے آجائے۔

Flag Counter