Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شعبان المعظم 1437ھ

ہ رسالہ

5 - 18
سود کی اخلاقی او رمعاشی تباہ کاریاں

استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
	
ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)

اب بہتر معلوم ہوتا ہے کہ ہم سود کی اخلاقی اور معاشرتی تباہ کارویوں اور نقصانات کا مختصر جائزہ لیں۔

واضح رہے کہ ہر برائی وغیرہ کے نقصان دہ پہلو کے ساتھ ساتھ اس میں کوئی نہ کوئی نفع کا پہلو بھی ہوتا ہے، اسی نفع بخش پہلو کی وجہ سے وہ برائی رواج پا جاتی ہے۔قتل ،زنا، چوری، ڈاکہ اور شراب نوشی وغیرہ سب برائیاں اسی قسم کی ہیں کہ ان میں زانی ، چور، ڈاکو، قاتل اور شرابی کا کوئی نہ کوئی فائدہ ضرور ہوتا ہے،اگر اس کے نقصان دہ پہلو کا بھی جائزہ لیا جائے تو یہ چیزیں بہت خطرناک ہیں ،اس لیے ہر عقل مند شخص ان جرائم کو برا ہی سمجھتا ہے۔اسی طرح اگر کسی چیز میں نفع اگر ہنگامی یاوقتی ہو اور اس کا ضرر دائمی ہو تو وہ چیز بھی برائی کہلائے گی اور ایسے ہی اگر کسی چیز میں انفرادی وشخصی فائدہ ہو، لیکن اس کا نقصان پوری قوم یا ملت کو پہنچے تب بھی وہ چیزبرائی کہلائے گی۔

یہی حال سود کا ہے کہ اس میں عارضی طور پر فائدہ اور مال بڑھتا نظر آتا ہے۔ لیکن اس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتناپڑتا ہے۔ ہر شخص اپنے فائدے کے لیے دوڑا چلا جاتا ہے اور رفتہ رفتہ پوری قوم اس مصیبت میں پھنس جاتی ہے اور ان کی اخلاقیات او رانسانیت مردہ ہو جاتی ہے، مال وزر کی ہوس میں اپنی حیا اور عزت تک کو داؤ پر لگا دیا جاتا ہے اور اس طرح سود خور صرف دنیا کا بچاری بن کر رہ جاتا ہے ۔

پھر اس سود نے ہمارے معاشی نظام میں گھس کر اتنی اہم جگہ حاصل کر لی کہ دیکھنے والا اسے معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہتا ہے اور یہ سمجھتا ہے، کہ اس کے بغیر معاشی نظام چلنا ممکن نہیں، اسی سے کچھ لوگ مضطرب ہو کر سود کے جواز کی راہ نکالنے کی کوشش کرنے لگے اور ان کی محدود عقلیں سود کو ناگزیر سمجھنے لگیں۔

لیکن عقل مند تو وہی ہے جو بیماری کو بیماری کہے اور اس سے بچے اور دوسروں کوبھی بچائے اور بچنے کی ترغیب دے، جب کہ آج بھی یورپ کے بعض ماہرین معاشیات اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہ معیشت کی ریڑھ کی ہڈی نہیں، بلکہ ریڑھ کی ہڈی میں پیدا ہو جانے والا ایک کیڑا ہے، جو مسلسل ریڑھ کی ہڈی کو کھائے چلا جارہا ہے ۔

بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سودی ادارے مثلاً بینک وغیرہ سے پیسہ لے کر جو خود کاروبار نہیں کرتے عوام سے رقوم لے کر ان لوگوں کو قرض فراہم کرتے ہیں جو کاروبار کر رہے ہیں اور اس طرح مارکیٹ میں تجارت پروان چڑھتی رہتی ہے، ظاہر ہے کہ ہر شخص کاروبار تو نہیں کرسکتا، لہٰذا عام افراد اپنا سرمایہ بینکوں میں جمع کرا دیتے ہیں او ربینک انہیں متعین سود ادا کر دیتا ہے، لہٰذا اس میں کوئی برائی نہیں۔

لیکن دیکھا جائے کہ کیا گندی بھٹیوں کو چھوڑ کر صاف ستھرے ہوٹلوں پر شراب بیچنے سے شراب پاک وحلال ہو جاتی ہے ؟ او رکیا عصمت فروشی کے بد نام اڈوں کو چھوڑ کر سینما گھر یا نائٹ کلب میں بے حیائی اور عصمت دری جائز ہو گی ؟ اگر نہیں تو اسی طرح مہاجنی سود کے طریقہ کار کو تبدیل کرکے بڑے بڑے بینک بنانے سے سود بھی جائز نہیں ہو گا۔بعض لوگوں کو یہ اشکال بھی پیش آتا ہے کہ بینکوں کی موجودہ صورت میں بہرحال عوام کو فائدہ تو ملتا ہی ہے۔ اگرچہ کم ہی کیوں نہ ہو ، اگر یہ طریقہٴ کار موجود نہ ہو تو اس کا نتیجہ یہی ہو گا جو پہلے زمانہ میں تھا کہ لوگوں کا خزانہ دفینوں کی شکل میں زمین ہی میں رہا کرتا تھا، جس سے نہ ان کو فائدہ ہو گا اور نہ دوسروں کو ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام نے جس طرح سود کو حرام قرار دیا ہے، اسی طرح اس کا دروازہ بھی بند کیا ہے کہ پوری قوم وملت کا سرمایہ چند ہاتھوں میں سمٹ جائے۔ اوراس مال پر ادائیگی زکوٰة کا فریضہ عائد کرکے ہر شخص کو اس پر مجبور کر دیا کہ اس مال کو کاروبار میں لگا کر بڑھایا جائے، تاکہ یوں ہی پڑ اپڑا صرف زکوٰة ادا کرنے سے ختم نہ ہو جائے ، لہٰذا ہر شخص کو یہی فکر رہے گی میرا مال کاروبار وغیرہ میں لگ کر بڑھتا ہی رہے ، پس اس طرح سے اس کا مال اس کے لیے بھی نفع بخش ہو گا اور دوسروں کے لیے بھی۔پس نہ یہ صحیح ہے کہ پوری ملت کا مال چند افراد کو پالے اور نہ یہ صحیح ہے کہ بڑے بڑے خزانے زمینوں میں دفن رہیں۔ہر شخص اپنے ذاتی سرمایہ سے تجارت کرے اور مارکیٹ میں چھوٹے بڑے کئی تاجر ہوں، ہر چیز کی قیمت خرید وطلب کے حساب سے طے پائے اوراس طرح پورے ملک کی خوش حال معیشت پروان چڑھے۔

یہ تو سودی بینکوں کے نقصان کا ایک سر سری جائزہ تھا، اگر تفصیل میں جاکر ان کے نقصان پر لکھا جائے اور ان کی خرابیوں کو گنا جائے تو پوری کتاب بھی ناکافی ہے ۔

لیکن حالیہ معیشت میں جب ان بڑے بڑے سود خوروں کو بھی اندازہ ہوا کہ سود میں بڑے بڑے نقصان کا اکثر اندیشہ رہتا ہے تو انہیں بھی خطرات لاحق ہوئے، چناں چہ انہیں کاروباری تحفظ فراہم کرنے کے لیے بڑی بڑی انشورنس کمپنیاں وجود میں لائی گئی، جو انہیں یہ تحفظ فراہم کرتی ہیں کہ ان سودی اداروں کے بڑے نقصان کی صورت میں یہ کمپنیاں ان کے نقصان کی تلافی کریں گی ،لیکن اس شرط پر کہ یہ ادارے ابتدا میں اور ہر سال ایک متعین رقم ان کمپنیوں میں جمع کرائیں گے ،پھر اگر ادارہ پر کوئی نقصان یا تباہی وغیرہ نہیں آئی تو اس کی اصل رقم بھی ڈوب گئی اور اگر نقصان کی وجہ سے بیمہ کمپنی نے نقصان کی تلافی کی تو اس کی رقم کا کئی گنا اس ادارے کو مل گیا، پس سود کی لعنت سے بچنے کے بجائے اسے قمار کا سہارا دیا گیا؟!

اور پھر اسی تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھیے اور انداز کیجیے کہ ان بیمہ کمپنیوں کے ذریعے سے کس طرح بڑے سرمایہ داروں کا نقصان بھی عوام پر ڈالا گیا ہے ۔

ان بیمہ کمپنیوں میں بھی تمام عوام ہی کا سرمایہ جمع رہتا ہے اولاً تو عوام میں سے کسی کو اکثر حوادث پیش آتے ہی نہیں، ایک آدھ غریب کو کوئی حادثہ پیش آبھی گیا تو اس کے نقصان کی تلافی کر دی جاتی ہے لیکن ان بیمہ کمپنیوں سے اکثر جن لوگوں کے نقصان کی تلافی کی جاتی ہے ،وہ وہی بڑے سرمایہ دار ہیں جو بینکوں سے بھاری قرض لے کر کاروبار کرتے ہیں اوران کے کاروبار کے نقصان کا نوے فی صد حصہ تو ویسے ہی بینک کے سرمایہ پر تھا، جو عوام کا جمع شدہ تھا، لیکن اس کا دس فی صد نقصان بھی خود اس نے برداشت نہ کیا، بلکہ بیمہ کمپنی کے ذریعے وہ بھی عوام کی جمع شدہ رقموں پر ڈال دیا۔

اس مختصر سے کلام سے یہ بات سمجھ میں آگئی ہو گی کہ تمام سودی اداروں کا وجود انسانیت کے لیے فقروفاقہ اور تنگ دستی کا باعث ہے، ہاں! چند مال دار افراد کے اموال میں اس سے اضافہ بھی ہوتا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہوا کہ ملت بگڑتی ہے اور چند افراد مال دار بنتے ہیں او رملک کا سرمایہ سمٹ کر ان کے ہاتھ میں آجاتا ہے، جس سے ملک کی معاشی واقتصادی صورت حال انتہائی بگڑ جاتی ہے۔

پس ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام لوگ ان سودی اداروں سے چھٹکارا حاصل کریں اور تمام اسلامی ممالک اس نظام کو یکسر ختم کر دیں ۔

الله تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے اور سود کی لعنت سے بچائے، آخر میں سود کے بارے میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی دو حدیثیں نقل کرکے بحث ختم کرتے ہیں۔

صحیح مسلم میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا الله کی لعنت ہو سود لینے والے پر اور دینے والے پر اور سودی معاملات پر گواہی دینے والے پر اور سودی معاملات کا وثیقہ لکھنے والے پر اور فرمایا کہ یہ سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔ ( صحیح مسلم، کتاب المساقاة، باب الربا، رقم:1598،دارا حیاء التراث العربی)

صحیح بخاری میں ہے کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ سات مہلک چیزوں سے بچو! صحابہ کرام ث نے دریافت فرمایا کہ یا رسول الله! وہ کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا : پہلی :الله کے ساتھ (عبادت یا اس کی مخصوص صفات میں ) غیر الله کو شریک ٹھہرانا، دوسری: جادو کرنا، تیسری: کسی شخص کو ناحق قتل کرنا ، چوتھی: سود کھانا، پانچویں: یتیم کا مال کھانا، چھٹی: جہاد کے وقت میدان سے بھاگنا، ساتویں: کسی پاک دامن عورت پر تہمت باندھنا۔ (صحیح البخاری، باب قول الله تعالیٰ:﴿ان الذین یاکلون اموال …﴾، کتاب التفسیر،3/1017، رقم:2615، دار ابن کثیر)

﴿وَإِن کَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَی مَیْْسَرَةٍ وَأَن تَصَدَّقُواْ خَیْْرٌ لَّکُمْ إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ، وَاتَّقُواْ یَوْماً تُرْجَعُونَ فِیْہِ إِلَی اللّہِ ثُمَّ تُوَفَّی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُونَ﴾․(سورہ بقرہ، آیت:280-281)
اور اگر ہے تنگ دست تو مہلت دینی چاہیے کشائش ہونے تک اور بخش دو تو بہت بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم کو سمجھ ہواور ڈرتے رہو اس دن سے کہ جس دن لوٹائے جاؤ گے الله کی طرف، پھر پورا دیا جائے گا ہر شخص کو جو کچھ اس نے کمایا اور ان پر ظلم نہ ہو گا

ربط آیات:ربا کی حرمت نازل فرماکر سودی معاملات حرام قرار دیے تو اس کے بعد سود خوروں کے اس قاعدے کا رد فرماتے ہیں کہ اگر مہلت ختم ہونے پر مقروض مزید مہلت ادائیگی کے لیے مانگتا تو اس مزید مہلت پر بھی سود لیتے تھے۔چناں چہ فرماتے ہیں کہ اگرمقروض مفلس یا تنگ دست ہو تو قرض دینے والے کو چاہیے کہ اسے کشادگی تک مہلت دے دے اور اگر معاف ہی کر دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے۔

تنگ دست مقروض کو مہلت دینے کے بارے میں احادیث
ترمذی میں ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے کسی سابقہ امت میں سے ایک شخص کے متعلق فرمایا کہ وہ الله تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہو گا، لیکن اس کے پاس کوئی نیکی نہ ہو گی، الله تعالیٰ فرمائیں گے دیکھو! اس نے کوئی نیکی کی ہے ؟ دریافت کرنے پر وہ شخص عرض کرے گا کہ میرے پاس نیکی تو کوئی نہیں ہے، البتہ ایک بات یہ ہے کہ میں تجارت کرتا تھا، نوکر چاکر تھے ، لوگ مجھ سے قرضہ بھی لیتے تھے ، میں نے نوکروں کو حکم دے رکھا تھا کہ تنگ دست کو مہلت دے دیا کرو ، ایسے شخص پر سختی نہ کیا کرو، اس پر حق تعالیٰ شانہ فرشتوں کے سامنے فرمائیں گے ”نحن احق“ ہم درگذر کرنے کے زیادہ لائق ہیں ، یہ شخص دنیا میں تنگ دستوں سے در گزر کیا کرتا تھا، لہٰذا آج میں نے اسے معاف کر دیا۔(سنن الترمذی، با ب حسن المعاملة والرفق، رقم:4694، ط: مطبوعات اسلامیہ)

اسی لیے فرمایا کہ اگر تم قرضہ معاف کر دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے، اگر تم اس عمل کی حقیقت کو جانتے ہو۔

ایک او رحدیث میں مروی ہے کہ ایسا شخص جو تنگ دست کو مہلت دے یا اسے معاف کر دے وہ روز قیامت الله تعالیٰ کے عرش کے سایہ میں ہو گا۔(صحیح مسلم: رقم الحدیث:1563)

تجارتی سود کی حرمت پر ایک قرینہ
اس آیت سے اشارةً ایک اعتراض کی بھی تردید ہو جاتی ہے۔
آج کل کے تاریک دل اور بند دماغ لوگ ”روشن خیالی“ کے لبادہ میں ملبوس ہو کر جب مغرب کی سود خوری کے باوجود ان کی ظاہری ترقی سے مرعوب ہو جاتے ہیں تو ان کی اتباع میں سود کو اپنانے کا ایک بہانہ یہ بھی گھڑتے ہیں کہ قرآن کے نزول کے وقت جو سود رائج تھا وہ مہاجنی سود تھا، وہ یہ کہ غریب ونادار لوگ اپنی ناگزیر ضرورت زندگی حاصل کرنے کے لیے مہاجنوں سے قرض لینے پر مجبور ہوتے تھے اور یہ مہاجن ان مظلوموں سے بھاری بھاری سود وصول کرتے تھے، اسی سود کو قرآن نے ربا قرار دیا ہے اور اسی کو حرام ٹھہرایا ہے، رہے یہ تجارتی کاروباری قرضے، جو آج کل رائج ہیں، اس زمانے میں نہ ان کا دستور تھا اور نہ قرآن نے اس کے بارے میں کچھ فرمایا ہے۔

ان کے جواب کے لیے یہ کافی ہے کہ زمانہٴ نزول قرآن میں صرف مہاجنی سود ہی نہیں، بلکہ تجارتی سود بھی رائج تھا، دیکھیے قرآن کریم کی یہ ذکر کردہ آیت ﴿ وَاِنْ کَانَ ذُو عُسْرَة…﴾․اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ سود پر قرض لینے والے بہت کم ہی تنگ دست ہوا کرتے تھے، کیوں کہ” اِن “کا لفظ عموماً قلیل الوقوع مواقع کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جب کہ کثیر الوقوع مواقع کے لیے لفظ ”اذا“ استعمال کیا جاتا ہے، پس لفظ ”ان“ کے استعمال سے معلوم ہوا کہ سود پر قرض لینے والے تنگ دست کم ہی ہوا کرتے، جب کہ مال دار حضرات زیادہ ہوتے تھے۔ اور ظاہر ہے کہ مال دار شخص تجارتی یا کاروباری مقصد ہی سے سود لیا کرتا ہے، جب کہ تاریخی شواہد بھی خاصے موجود ہیں ،جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول قرآن کے زمانہ میں بھی عرب میں تجارتی سود رائج تھا۔ تفصیل کے لیے حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کی کتاب ” مسئلہ سود“ صفحہ29 ملاحظہ فرمائیں۔

احکام
1.. جو شخص تنگ دست ہو اسے مہلت دینا واجب ہے۔ ہاں جب وہ قرض لوٹانے کی وسعت رکھتاہو اس وقت اس سے مطالبہ کرنا درست ہے۔ (ردالمحتار علی الدرالمختار، مطلب قضایا القاضی علی ثلاثہ اقسام4/496 ،دارالفکر)

2.. او راگر وہ خود کو مفلس ظاہر کرتا ہو، لیکن یہ شبہ ہو کہ یہ قرض لوٹا سکتا ہے، جان بوجھ کر چھپا رہا ہے تو یہ معاملہ حاکم کی عدالت میں پیش کیا جائے، پھر عدالت کے حکم سے اسے گرفتار کرکے جیل میں بھیج دیا جائے، یہاں تک کہ وہ قرض لوٹا دے، لیکن اگر اس کی حالت دیکھ کر حاکم کو بھی یہ اندازہ ہو کہ اگر اس کے پاس وسعت ہوتی تو وہ ضرور قرض لوٹا دیتا ، لہٰذا یہ مفلس ہے، اسے پھر سے مہلت دیدے۔ (رد المحتار علی الدرالمختار، مطلب قضایا القاضی علی ثلاثہ اقسام4/496 ،دارالفکر)

﴿ واتقوا یوماً ترجعون…﴾
ربا کے چھوڑنے اور مفلس کو مہلت دینے کا حکم بظاہر طبائع پر گراں تھا ،اس لیے اس آیت میں کسی قدر ترہیب کا انداز اختیار کیا گیا۔لہٰذا فرماتے ہیں کہ ڈرو اس دن سے جس میں تم الله کی طرف لوٹائے جاؤ گے، پھر ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ إِذَا تَدَایَنتُم بِدَیْْنٍ إِلَی أَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکْتُبُوہُ وَلْیَکْتُب بَّیْْنَکُمْ کَاتِبٌ بِالْعَدْلِ وَلاَ یَأْبَ کَاتِبٌ أَنْ یَکْتُبَ کَمَا عَلَّمَہُ اللّہُ فَلْیَکْتُبْ وَلْیُمْلِلِ الَّذِیْ عَلَیْْہِ الْحَقُّ وَلْیَتَّقِ اللّہَ رَبَّہُ وَلاَ یَبْخَسْ مِنْہُ شَیْْئاً فَإن کَانَ الَّذِیْ عَلَیْْہِ الْحَقُّ سَفِیْہاً أَوْ ضَعِیْفاً أَوْ لاَ یَسْتَطِیْعُ أَن یُمِلَّ ہُوَ فَلْیُمْلِلْ وَلِیُّہُ بِالْعَدْلِ وَاسْتَشْہِدُواْ شَہِیْدَیْْنِ من رِّجَالِکُمْ فَإِن لَّمْ یَکُونَا رَجُلَیْْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّہَدَاء أَن تَضِلَّ إْحْدَاہُمَا فَتُذَکِّرَ إِحْدَاہُمَا الأُخْرَی وَلاَ یَأْبَ الشُّہَدَاء إِذَا مَا دُعُواْ وَلاَ تَسْأَمُوْاْ أَن تَکْتُبُوْہُ صَغِیْراً أَو کَبِیْراً إِلَی أَجَلِہِ ذَلِکُمْ أَقْسَطُ عِندَ اللّہِ وَأَقْومُ لِلشَّہَادَةِ وَأَدْنَی أَلاَّ تَرْتَابُواْ إِلاَّ أَن تَکُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِیْرُونَہَا بَیْْنَکُمْ فَلَیْْسَ عَلَیْْکُمْ جُنَاحٌ أَلاَّ تَکْتُبُوہَا وَأَشْہِدُوْاْ إِذَا تَبَایَعْتُمْ وَلاَ یُضَآرَّ کَاتِبٌ وَلاَ شَہِیْدٌ وَإِن تَفْعَلُواْ فَإِنَّہُ فُسُوقٌ بِکُمْ وَاتَّقُواْ اللّہَ وَیُعَلِّمُکُمُ اللّہُ وَاللّہُ بِکُلِّ شَیْْء ٍ عَلِیْمٌ﴾․(سورہ بقرہ،آیت:282)
اے ایمان والو ! جب تم آپس میں معاملہ کرو ادھار کا کسی وقت مقرر تک تو اس کو لکھ لیا کرو اور چاہیے کہ لکھ دے تمہارے درمیان کوئی لکھنے والا انصاف سے ،اور انکار نہ کرے لکھنے والا اس سے کہ لکھ دیوے جیسا سکھایا اس کو الله نے سو اس کو چاہیے کہ لکھ دے اور بتلاتا جاوے وہ شخص کہ جس پر قرض ہے اور ڈرے الله سے جو اس کار ب ہے اور کم نہ کرے اس میں سے کچھ، پھر اگر وہ شخص کہ جس پر قرض ہے بے عقل ہے یا ضعیف ہے یا آپ نہیں بتلا سکتا تو بتلاوے کار گزار اس کا انصاف سے اور گواہ کرو دو شاہد اپنے مردوں میں سے، پھر اگر نہ ہوں دو مرد تو ایک مرد اور دو عورتیں ان لوگوں میں سے کہ جن کو تم پسند کرتے ہو گواہوں میں، تاکہ اگر بھول جائے ایک ان میں سے تو یاد دلا دے اس کو دوسرا اور انکار نہ کریں گواہ جس وقت بلائے جاویں اور کاہلی نہ کرو اس کے لکھنے سے، چھوٹا ہو معاملہ یا بڑا، اس کی میعاد تک، اس میں پورا انصاف ہے الله کے نزدیک اور بہت درست رکھنے والا ہے گواہی کواور نزدیک ہے کہ شبہ میں نہ پڑو، مگر یہ کہ سودا جو ہاتھوں ہاتھ لیتے دیتے ہو اس کو آ پس میں تو تم پر کچھ گناہ نہیں اگر اس کو نہ لکھو اور گواہ کر لیا کرو جب تم سودا کرو اور نقصان نہ کرے لکھنے والا او رنہ گواہ اور اگر ایسا کرو تو یہ گناہ کی بات ہے تمہارے اندر، اور ڈرتے رہو الله سے اور الله تم کو سکھلاتا ہے اور الله ہر ایک چیز کو جانتا ہے

تفسیر: مالی لین دین کے متعلق احکام
آیت مذکورہ میں مالی لین دین کے معاملات کے بارے میں کچھ احکام مذکور ہو ئے ہیں۔

جن کا خلاصہ یہ ہے:
1..  اگر کوئی ایسا مالی معاملہ ہو جس میں قیمت یا اس کے بدلے ملنے والا مال کچھ عرصے کے لیے تاخیر سے ادا کیا جاتا ہے، مثلاً زید نے عمرو سے کہا کہ یہ پانچ سو روپے لو اور اس کے بدلے میں اس قدر گندم مجھے پانچ یا چھ مہینے بعد ادا کر دینا یا پھر عمرو نے زید سے کہا کہ یہ لو گندم رکھ لو اور اس کی قیمت مجھے اتنے عرصے بعد دے دینا تو ایسے معاملہ میں تحریری دستاویز لکھ لینا چاہیے یہ حکم استحبابی ہے ،اس قسم کے لین دین کو فقہا کی اصطلاح میں بیع سلم کہا جاتا ہے، اس کی بہت سی شرائط ہیں، جو کتب فقہ میں مذکور ہیں، ایک شرط یہ ہے کہ اس میں دونوں فریقین کی طرف سے رقم اور مال اور اسی طرح مدت کا معیّن ہونا ضروری ہے ۔

2.. تحریری دستاویز لکھنے والے کے لیے مستحب ہے کہ جب اسے لکھنے کو کہا جائے تو انکار نہ کرے ( اگر چاہے تو اپنی جائز اجرت کا مطالبہ کرے اور) پوری دیانت کے ساتھ اس دستاویز کو لکھے۔

3..  لکھنے والے شخص کو طرفین میں سے وہ شخص خود لکھوائے جس کے ذمہ میں مال واجب ہے، تاکہ یہ دستاویز اقرار نامہ کہلائے اور لکھوانے والے کو چاہیے کہ الله کا خوف دل میں رکھے اور بغیر کوئی کمی کیے بالکل ٹھیک سے لکھوائے۔

4..  پھر اگر دستاویز لکھوانے والا، یعنی مدیون دستاویز لکھوانے سے عاجز ہو تو چاہیے کہ اس کی طرف سے اس کا کوئی وکیل آکر کاتب سے لکھوائے، یعنی اگر مدیون مجنون ، بچہ ، یا ناسمجھ ہو تو اس کا ولی اور اگرزبان اور علاقے کے فرق کی وجہ سے کاتب سے نہ لکھوا سکے تو اس کا ترجمان اور اگر سخت مریض یا انتہائی کمزور بوڑھا شخص ہو تو اس کا وکیل کاتب کو دستاویز لکھوائے ۔

5..  اور اس دستاویز کے لکھنے پر ہی بس نہ کیا جائے، کیوں کہ یہ خصومات اور مقدمات میں گواہی یا ثبوت نہیں بن سکتی لہٰذا اس پر دو گواہ بھی مقرر کیے جائیں ۔ اگر دو مرد گواہ میسر نہ ہوں تو ایک مر داور دو عورتیں گواہ بنالی جائیں۔

6.. گواہوں میں ضروری ہے کہ وہ مسلمان ہوں ( جیسا کہ ”رجالکم“ یعنی تمہارے مردوں سے مفہوم ہوتا ہے ) آزاد ہوں اور عادل ہوں (جیسا کہ”مِمَّنْ تَرضَوْن“ یعنی جن کی عدالت پر تم راضی ہو سے مفہوم ہوتا ہے) ۔

7.. لین دین کا معاملہ، خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو، ان کو اس طرح لکھ لینا مستحب ہے، یہ طریقہ انصاف کے زیادہ لائق ہے او راس سے گواہوں کو بھی یاد دہانی رہتی ہے اور معاملہ، صاف کا صاف رہتا ہے۔

8..  ہاں اگر دست بدست لین دین ہو رہا ہو تب اسے نہ لکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اس میں بھی چاہیے کہ کم از کم گواہ تو بنا لیے جائیں، ہو سکتا ہے کہ بعد میں بیچنے والا کہے کہ مجھے تو میرے مال کی قیمت ملی ہی نہیں۔

9.. کاتب اور گواہوں کو تکلیف پہنچانا حرام ہے، وہ اس طرح کہ قرض خواہ اپنی کسی مصلحت کے لیے گواہ کو کسی اور بات پر مجبو رکرے یا مقروض اپنے مفاد کے لیے اسے گواہی چھوڑنے پر جبر کرے۔ اور اسی طرح گواہی کے لیے آنے جانے کا خرچ بھی طرفین برداشت کریں، گواہ پر نہ ڈالیں اور کاتب اگر اجرت مانگے تو اسے بھی ادا کی جائے۔

ان احکام کے بعد ارشادہے کہ یہ تمام احکام سکھلا کر الله نے تم پر احسان کیا ہے، لہٰذا اس سے ڈرو اور ان کی رعایت رکھو کیوں کہ الله ہر چیز کے بارے میں جانتا ہے۔(جاری)

Flag Counter