Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شعبان المعظم 1437ھ

ہ رسالہ

4 - 18
”تخصص فی الفقہ الاسلامی“ : اہمیت، مقصد اور گزارشات

مفتی محمد حنیف احمد
متخصص جامعہ فاروقیہ کراچی، ورفیق دارالافتاء تجوید القرآن ، کوئٹہ

مآخذ میں تلاش کرنا
شرعی تکییف کے بعد مسئلہ سے متعلق باب متعین ہو جائے گا،اب مسئلہ کا حکم معلوم کرنے کے لیے متعلق باب کا عربی مآخذ سے مطالعہ کیا جائے گا۔ شرعی تکییف سے جس طرح مسئلہ سے متعلق با ب متعین ہوگیا تھا اسی طرح عربی کتب میں تلاش سے مسئلہ کا حکم شرعی بھی معلوم ہو جائے گا۔اس حوالہ سے بہت ساری باتیں ہیں،لیکن اکثر کا ذکر اصول فتاویٰ کی کتب میں موجود ہے،اس کو یہاں ذکر نہیں کیا جائے گا،جوباتیں یہاں ذکر کی جائیں گی ان میں پہلی بات یہ ہے کہ مسئلہ کے حکم کی تلاش ان کتب میں سے شروع کی جائے جن کو مأخذ ،اصول اور أمہات کتب کی حیثیت حاصل ہے۔یا پھر کتب فن میں کسی خاص بنیاد پرایک خاص امتیاز حاصل ہو۔

جو کتب مذکورہ حالت سے متصف نہ ہوں،ان سے حوالہ نہ لکھا جائے۔مثال کے طور پرمبسوط سرخسی،فتاویٰ قاضی خان ،فتاویٰ بزازیہ،فتح القدیر،البحر الرائق، الھدایہ، مجمع البحرین اور اس کی شرح جو ”ابن ملک“ نے لکھی ہے اور بدائع الصنائع، درمختار، رد المحتار وغیرہ وہ کتابیں ہیں جن کو فقہ حنفی میں اہم مراجع اور مأخذ کا مرتبہ حاصل ہے۔اور نقل مذہب میں کا فی معتمد ہیں، بخلا ف ان کتب کے جن پر نقل مذاہب کے حوا لہ سے تواتناخاص اعتمادنہیں کیا جاسکتا ، جتنا ا عتمادان پراس حوا لہ سے کیا جا سکتا ہے کہ وہ مذاہب ِفقہیہ اور ان کے دلائل کے لیے ایک معجم ہیں اور کسی مسئلہ سے متعلق جو اقوال اور ادلہ یکجا ان میں پائے جا سکتے ہیں، دیگر کتب میں اس طور پر یکجا نہ ہوں گے، چناں چہ الفقہ الاسلامی وادلتہ،کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ،الموسوعة الفقہیہ الکویتیہ وغیرہ جیسی کتابیں اسی طرز کی ہیں۔

اسی طرح کسی فقہی مسئلہ کی تخریج کے لیے ان کتب سے حوالہ دینا اصول افتاء کے خلاف ہے کہ جن کتابوں کا موضوع ہی سرے سے فقہ نہیں، مثلاً: فقہی مسئلہ کا حکم تفاسیر، احادیث یا سیرة وغیرہ پر لکھی گئی کتب سے تلاش کرنا۔

مذکورہ بالا کتب کے اپنے مقام اور مرتبہ سے انکار نہیں، صرف بات اصول تحقیق اور اصول افتاء کی ہے کہ احتیاطاً مسئلہ کا حکم بیان کرنے کے لیے ان مآخذ سے مراجعت کی جائے ، جن سے مسئلہ کے حکم میں خود مذکورہ کتب میں بھی مراجعت کی گئی ہے، بلکہ انصاف کی بات یہ ہے کہ اگر بالفرض مسلک حنفی کے علاوہ کسی اور مسلک کا موقف کسی مسئلہ کے بارے میں معلوم کرنا ہو تو فقہ حنفی کے معتمد کتب پر بھی اس بارے میں اعتماد کرنا اصول تحقیق اور احتیاط کے خلاف ہے،بلکہ ضروری ہے کہ خود اسی مسلک کی ہی کتب معتمدہ کی طرف مراجعت کی جائے۔اس اصول پر تب عمل ہوسکتا ہے کہ کتب سے واقفیت اور تعارف حاصل ہو ، ان میں سے باعتبار معتمد علیہ ہونے کے الأھم، فالأھم کا علم ہو۔ لیکن ان سب باتوں کے برعکس اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ کسی حکم ِشرعی کی دلیل کے لیے کوئی بھی عربی کتاب ہاتھ آجاتی ہے تو اس سے استدلال کرکے حکم بیان کر دیا جاتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ محض مسئلہ شرعی کی تائید کے لیے ایک عبارت کی تلاش ہوتی ہے ،جو ایک عربی عبارت ہو اور بس اس کے موثوق بہا اورغیر موثوق بہا ہونے کی طرف کوئی خیال ہی نہیں کیا جاتا، حالاں کہ محض عربی زبان میں ہونا کسی کتاب کے معتمد ہونے کی ہرگز دلیل نہیں۔

مسائل فقہیہ کے مأخذ اصلی قرآن اور حدیث ہیں، مسائل یا تو انہیں دو اصول میں مصرح ہوں گے ، یا پھر انہی کی روشنی میں بواسطہ اجماع یا قیاس کے ثابت ہوں گے۔اتنی بات یقینی ہونے پر مسائل فقہ کی تخریج میں ضروری ہے کہ اوَّلاً اس کا حکم آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ علی ٰ صاحبہا الف الف تحیہ میں تلاش کیا جائے اور یقینا ”تخصص فی الفقہ الاسلامی“ کے مفہوم میں یہ امر داخل ہے کہ فقہ کے مسائل کا ثبوت ان کے اصول سے معلوم ہو،احکام فرعیہ میں صرف کتب فروع پر اکتفا ایک عام آدمی کا طریقہ ہے، کسی متخصص کا نہیں اور کسی مسئلہ شرعیہ سے متعلق خود شارع علیہ الصلوٰة والسلام کے فرامین مقدسہ سے ناواقفیت ،ذوق فقہی سے ناواقف اور نابلد آدمی میں ہی پائی جاسکتی ہے۔ کسی آدمی کی علم فقہ میں مہارت ہی کیا مہارت ہوگی کہ جس کے پاس اپنی تائید میں اللہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے فرامین موجود نہ ہوں۔ان دلائل نقلیہ سے ناواقف شخص کی وجہ سے ہی تقلید سے آزاد اور منکر لوگوں کو اعتراض کا موقع اور جرا ت ملتی ہے۔البتہ اس راہ میں احتیاط بھی بہت ضروری ہے کہ کہیں مسائل شرعیہ کے دلائل کی تلاش میں ٹھوکریں ہی نہ کھانے لگ جائے، اس کے لیے اس موضوع پر تصنیف شدہ مواد مثلاً: احکام قرآن للجصاص، والتھانوی وغیرہ اور اعلاء السنن وغیرہ سامنے رکھنا ضروری ہو گا۔

علم فقہ میں کامل اور صحیح معنوں میں مہارت تب مسلم ہوگی جب علم اصول ِفقہ پر بھی دست رس ہو اور علم اصول فقہ میں انہی فقہ کے مآخذ اصلیہ ہی سے بحث ہوتی ہے،جس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ہر مسئلہ کا تعلق اور ثبوت قرآن اور حدیث سے بلا واسطہ یا بواسطہ اجماع وقیاس ہے۔ تو معلوم ہوا کہ مسائل فرعیہ کے لیے ثبوت دلائل نقلیہ کا جاننا علم فقہ کا حصہ ہے،پھر کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ جس کی بنا پر دلائل نقلیہ سے قطع نظر کرکے محض فقہی عبارات پر اکتفا کیا جائے!!

آخر فقہ میں وہ اختصاص ہی کیا اختصاص ہوگا کہ جس میں متخصص کو یہ علم نہ ہو کہ فلاں مسئلہ پر قرآن کی آیت یا کوئی حدیث موجود ہے یا نہیں ؟

اس لیے ضروری ہے کہ حل مسئلہ کے دوران دلائل نقلیہ کو ضرور بالضرور پیش نظر رکھا جائے۔

اکابرین کی تحقیقات سے تائید
”تخصص فی الفقہ الاسلامی“ کا زمانہ ایک تمرینی اور تدریبی زمانہ ہوتا ہے،اس دوران آدمی کو اپنے علم پر جتنی کم اعتمادی ہوگی،اتنی ہی یہ کم اعتمادی اس کے علم کی ترقی اور گہرائی کا سبب ہوگی۔اوراتنی ہی خطا سے محفوظ رہنے کا سبب ہوگی،کیوں کہ اپنے اوپر کم اعتمادی کے نتیجے میں ان ماہرین کی طرف رجوع کرے گا جن پر اس کو اعتماد حاصل ہے ۔اس سے اپنی تائید حاصل ہوگی یا پھر اپنی غلطی کا علم ہوجائے گا۔

اسی بنا پر مسئلہ کا حکم کتب عربیہ میں تلاش کرلینے کے بعد تیسرا مرحلہ یہ ہے کہ اسی مسئلہ سے متعلق ماہرین فن کے فتاویٰ ،مضامین اور تحقیقات وتحریرات دیکھ لی جائیں۔کیوں کہ مسئلہ کا حکم شرعی معلوم کرنے کے لیے اپنی حتیٰ المقدور کوشش کے باوجودعین ممکن ہے کہ اس میں کسی حوالہ سے خطا ہوچکی ہو، یا ہوسکتا ہے کہ کتب عربی میں جو حکم مذکور ہے عرف کی بنا پر اب فتویٰ اس کے خلاف ہو، یا وہ حکم ایسی قید سے مقید ہو جو دیکھنے والے کی نظر سے نہ گذری ہو ،یا اس کے علاوہ تمام وہ اسباب جس کی وجہ سے حکم شرعی میں تبدیلی آسکتی ہے ان میں سے کوئی موجود ہو۔اس حوالہ سے مسئلہ کو یقینی بتانے کے لیے ضروری ہے کہ ماہرین فن کی طرف مراجعت کی جائے۔

اس سے جس طرح مسئلہ کے اندر اپنی ذاتی تحقیق کے خطا وصواب سے آگاہی ہوگی اسی طرح ان ماہرین کے مضامین، تحریرات اور فتاویٰ سے مسئلہ کے حکم شرعی کے اندر تحقیق کا انداز بھی معلوم ہو گا۔ عبارات سے فلاں حکم شرعی کیسے اخذ کیا، فلاں عبارت میں صریح حکم سے عدول کرکے عرف یا ضرورت کا اعتبار کب کیا،جواب لکھنے میں الفاظ کتنے محتاط استعمال کیے اورکیا الفاظ لکھے؟اسی طرح اور بہت ساری اہم چیزیں انہی فتاویٰ اور تحریرات سے اخذ کی جاسکتی ہیں۔

مسئلہ کے اندر اپنی کی ہوئی تحقیق کو ماہرین فن کے فتاویٰ اور تحریرات پر پیش کرنا اور اپنی تحقیق کی توثیق کرانا اس کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ یہ عمل مسئلہ کو خود انہی ماہرین فن کی نگرانی میں حل کرنے کے مترادف ہے تو مبالغہ نہ ہوگا ۔مطلب یہ کہ جس طرح کوئی متعلم اپنا کوئی عملی کام انجام دیتاہے اور پھر توثیق کے لیے اپنے اس استاذ پر پیش کرتا ہے جس کی نگرانی میں یہ کام انجام کو پہنچاہے تو یہ استاذ اس کی تصویب کرتا ہے یا اس کی اصلاح کرتا ہے، اصلاح کی صورت میں استاذ عملی طور پر اس کی راہ نمائی کرتا ہے ، بعینہ اسی طرح جب کوئی متخصص اپنے حل کردہ مسئلہ کے جواب کا فقہ کے معاصر ارباب حل وعقد کی تحقیقات سے موازنہ کرتا ہے تو اس کی مدد سے اوّلاً خود اپنی تحقیق میں صواب اور خطا کا پتہ لگا تا ہے۔خطا کی صورت میں خود اسی ماہر فن کی تحریر سے خطا زائل کرے گا ،تو گویا کہ اس تحریر اور فتاویٰ کے واسطہ سے خود اسی عالم کی نگرانی میں متخصص کی اس مسئلہ کے بارے میں تحقیق انجام کو پہنچی۔

لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ ان فتاویٰ اور مقالات فقہیہ کی مراجعت تب مفید ہوگی جب کہ صرف اور صرف اپنی تحقیق کی تو ثیق کرنے کے لیے ہواور اگر کوئی آدمی مسئلہ پر اپنی محنت کیے بغیر، مأخذ سے تلاش کیے بغیر، اسی طرح اس میں ذاتی رائے قائم کیے بغیر، ابتداء ً ہی ان فتاویٰ میں حکم تلاش کرکے نکالے تو ایک متخصص کے حق میں یہ ایک لغو امر ہے، جوکہ متخصص کا اپنا وقت ضائع کرنے کے برابر ہے ،کیوں کہ ان فتاویٰ کی مراجعت کرنے سے متخصص کا مقصد اصلی صرف حکم نکالنا نہیں، بلکہ اپنی تحقیق کی توثیق کرنا اور ان سے انداز تحقیق اخذ کرنا ہے اور یہ مقصد تب ہی حاصل ہوگا جب کہ مسئلہ پر اپنی پوری تحقیق کرلینے کے بعد ان فتاویٰ کی طرف مراجعت کی جائے ۔

چوتھی بات
ان تین مراحل کے بعد مسئلہ کا جواب مکمل ہوجائے گااور جتنی احتیاط سے یہ مراحل طے کیے جائیں گے اتنا ہی جواب محتاط ہو گا۔ البتہ وہ مسائل جس میں حکم عدم جواز کا ہو اور اس کا کوئی شرعی حل بھی ہو تو ان مسائل کا اختتام مذکورہ تین مراحل پر نہیں ہوتا، بلکہ ایک چوتھا مرحلہ ہے ، جس سے اس طرح کے مسئلہ کی تکمیل ہوگی اور وہ یہی ہے کہ جب کسی مسئلہ کا شرائط وقیود کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی ممکنہ شرعی حل موجود ہو تو اس کا ذکر کیا جائے، تاکہ قربِ قیامت کے اس مشکل دور میں امت سہولت کے ساتھ حرام سے بچتے ہوئے حلال اختیار کر سکے۔ اس کے بغیر جواب گو درست ہو، البتہ مکمل نہ کہلائے گا اور اس عدم ِتکمیل کو غیر درست ہونا بھی کہا جاسکتا ہے۔مثلاً فرض کریں کہ چند لوگوں کی ایک جماعت ایک بڑے پیمانے پر تجارت کرتی ہے اس میں بہت ساروں کے ان پر قرضے ہیں، ان کے دوسروں پر قرضے ہیں، بہت سارا سرمایہ لگا کر بہت سارا مال خرید ا گیا ہے، لیکن کسی بنا پر ان کی تجارت غیر شرعی ہے تو شرعی حل ہونے کے با وجود اب صرف اور صرف ان کو یہ کہہ دینا کہ یہ معاملہ غیر شرعی ہے، ایک غیر مکمل اور ناقص مسئلہ بتا نا ہے اور ان کو ایک بہت بڑی مشکل کے مقابلہ میں لا کھڑا کرنا ہے اور ان کے لیے دین کے معاملہ میں عسر پیدا کرنا ہے۔ضروری ہے کہ انہیں شرعی حل بتلانے کے ساتھ ساتھ اُن کو اُن کی تجارت کا جائز رُخ بھی بتا یا جائے۔

یہ چارامور تھے جن کو مسئلہ حل کرتے وقت پیش نظر رکھنا ضروری ہے، ان سے جس طرح مسئلہ میں درستگی کے امکانات بڑھتے ہیں اسی طرح یہ فقہی ملکہ میں اضافہ کے باعث بھی ہیں،جوکہ ”تخصص فی الفقہ الاسلامی“ کا اولین مقصد ہے،لیکن انہیں چار کے ذکر سے انحصار مراد نہیں۔ان کے علاوہ اور بھی بہت امور ہوسکتے ہیں جو متخصص کے حق میں کسی بھی حوالہ سے مفید ثابت ہوسکتے ہیں ،جوکہ ماہر فن اساتذہ سے معلوم کیے جاسکتے ہیں۔

تیسرا مرحلہ:مقالہ نویسی
شعبہ ”تخصص فی الفقہ الاسلامی“ کا تیسرا مرحلہ مقالہ لکھنے کا ہوتاہے،جو کسی ایسے موضوع پر لکھا جا تاہے،جس کا فقہ سے تعلق ہو۔ اس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ کیا متخصص اس مقررہ مدت تک اس فن سے منسلک رہ کر اتنی صلاحیت کا حامل ہو چکاہے کہ کسی متعلقہ فن پر کوئی جامع ومانع تحریر یا مضمون لکھ سکے یا نہیں، جس کے نتیجہ میں اس پر اعتماد کرتے ہوئے آئندہ حلِ مسئلہ کی اجازت دی جا سکے۔ یعنی یہ مقالہ تخصص کے اس فن میں صاحبِ استعداد ہونے یا نہ ہونے کا معیار ہوتا ہے۔

جب اتنی بات طے ہے کہ مقالہ معیار ہوتا ہے متخصص کی استعداد کا؛ تو ضروری ہے کہ مقالہ بھی معیاری ہو ، یعنی: وہ اس قابل ہو کہ اس کے ذریعہ صحیح طور پر متخصص کی استعداد جانچی جاسکے ، ورنہ تو ہر کس وناکس تخصص کی سند کا مستحق ٹھہرے گا ،جب کہ سند اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ حامل ِسند متعلقہ فن میں ماہر ہے اور اس فن میں اس کی بات قابل اعتبار ہے۔ اگر مقالہ معیاری نہ ہو تو ایک غیر مستحق شخص بھی سند ِافتاء کا مستحق ہو گا۔ اب غیر مستحق شخص کی یہ تصدیق کرنا کس قدر خطرناک ہے؟! تو یہ کتب اصول افتاء سے بالکل واضح ہے۔

یہ بات اس لیے کہی گئی کہ ہمارے اکثرتخصصات کے شعبوں میں جو مقالے لکھوائے جاتے ہیں، وہ معیاری نہیں ہوتے یا تو کسی اردو یا عربی کتاب کی تخریج کروا لی جاتی ہے ،یا دار الافتاء سے جاری شدہ فتاویٰ کی ترتیب اور تبویب ذمہ لگائی جا تی ہے۔(اگرچہ کسی قدر اس کی افادیت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے)اور اگر کوئی مضمون لکھوایا جاتا ہے تو اس میں کوئی حدود وقیود نہیں ہوتے۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اس مضمون میں اپنے مافی الضمیر کا کتنا اظہار ہوا اور دیگر کتب سے نقل کتنا کیا گیا ہے، اگر انصاف کی نظر سے اس مضمون کو دیکھا جائے تو وہ مضمون نہیں، بلکہ چند کتب کے منتخبات کا مجموعہ ہوگا۔ اگر مقالہ جا ت کی یہ ابتر حالت ہو تو افتاء کے مستحق کو غیر مستحق سے کیسے الگ کیا جائے؟ اس طرح ہر متخصص مطلقاً سند افتاء کا مستحق ہو جائے گا ۔افتاء کی اہلیت نہ رکھنے والا اگر فتویٰ دے اور فتویٰ دینے میں غلطی ہوگئی (جیسا کہ غیر اہل سے غلطی کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں )تو کیا اس کے اس گناہ میں وہ شخص شریک نہ ہوگا جس نے اس غیر اہل کو سند دے کر فتویٰ دینے پر جری کر دیا؟ یہ تنقیدی باتیں لکھتے ہوئے ہاتھ کانپتا ہے اور کاش یہ باتیں کوئی اور لکھتا، لیکن ان کے مبنی بر حقیقت ہونے نے یہ کچھ قلم بند کرنے کی جرأت دے دی۔

اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مقالہ لکھوانے سے قبل متخصص سے وہ کتابیں مطالعہ کروائی جائیں، جن سے مقالہ اور مضمون کی تعریف وحقیقت، امتیازی مقالہ کی شرائط وخصائص بیان ہوں اورجن کے مطالعہ کرنے سے مقالہ لکھنے میں ایک نہج اپنا سکے۔ اس کے بعد ہی متخصص سے کسی اہم موضوع پر مقالہ لکھوایا جائے، تب ہی یہ مقالہ کسی قدر معیاربنانے کے قابل ہوگا۔

آج کل چوں کہ فقہ حنفی میں تخصص کا رواج بڑھ چکا ہے ،اس لیے محسوس ہوا کہ متخصص کے لیے چند اصول قلم بند کیے جائیں، جس سے وہ اپنے مقصد میں کام یاب ہونے کے لیے مدد لے سکے ، اس لیے اس بارے میں جو ہدایات کسی سے سنی تھیں یا خود جس کا تجربہ ہواتھا لکھ لیں۔ اللہ جل جلالہ اس کو اپنی بارگاہ میں قبول فرماکر نجات کا سبب بنائیں۔آمین

اخیر میں ہر پڑھنے والے بھائی سے عرض ہے کہ اگر بالفرض کسی بھی حوالہ سے اس مضمون کے پڑھنے سے اسے فائدہ حاصل ہوتو نجات اُخروی کی دعاء سے ضرور نوازے۔

Flag Counter