Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شعبان المعظم 1437ھ

ہ رسالہ

15 - 18
ایک بیوی کا اپنے شوہر کو تسلی دینا

مولانا محمد حبیب الرحمن حسامی
	
حدیث میں واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت جابر کا چھے سات برس کا بڑا ہونہار بچہ بیمار ہوا، اس زمانے کے مطابق دوا وغیرہ کی گئی، مگر بچہ اچھا نہ ہوا، ادھر حضرت جابر کو اچانک سفر پیش آیا تو انہوں نے اپنی بیوی سے کہا میرا جانا ضروری ہے اور بچے کی حالت ایسی ہے، لہٰذا تم اچھی طرح اس کا علاج کروانا، میں جلدی آجاؤں گا۔ یہ فرماکر حضرت جابر چلے گئے او رجب آنے کا دن ہوا تو بچہ کا انتقال ہو گیا، آپ گھر میں تشریف لائے تو بیوی نے دانش مندی، دیانت داری اور ہوشیاری سے کام لیا( ورنہ آج کی طرح کوئی بیوی ہوتی رونا شروع کر دیتی، مگر وہ دانش مند خاتون تھیں) اس لیے حضرت جابر کے آنے کا وقت ہوا تو اپنے آپ کو سنبھالا اور صورت ایسی بنائی کہ کسی غم کا اظہار نہیں ہو رہا تھا اور بچہ کو اندر لٹادیا، اس کی لاش پر چادر ڈال دی، حضرت جابر رضی الله عنہ آئے تو ( جیسے عرب کا دستور) بیوی نے بڑھ کر استقبال کیا، مصافحہ کیا او راپنے شوہر کا ہاتھ چوما، حضرت جابر نے آتے ہی پوچھا بچہ کہاں ہے؟ کہا الحمدلله! خدا کا شکر ہے عافیت میں ہے او ربڑی خیر سے ہے ( یہ جھوٹ بھی نہیں ہے کیوں کہ عافیت سے مراد انہوں نے اخروی عافیت لی ہے) انہوں نے اس جملہ کو سن کر اطمینان کا سانس لیا، پھر بیوی نے ان کے ہاتھ دھلائے ، کھانا کھلایا، اس لیے کہ اگر آتے ہی صدمہ کی خبر سنا دیتی تو ان پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا، کھانا کھلاتے کھلاتے کہا میں آپ سے ایک مسئلہ پوچھنا چاہتی ہوں، بتلائیے اس میں شریعت کا حکم کیا ہے ؟ فرمایا پوچھو! توبیوی نے کہا اگر کوئی شخص ہمارے پاس امانت رکھوائے اور اس کی میعاد مقرر کرے کہ اتنے سال یا اتنے دن کے لیے رکھواتا ہوں، مقررہ میعاد کے بعد واپس لے لوں گا تو شریعت کا اس مسئلے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ فرمایا: اس کا حکم ظاہر ہے کہ اس کو ٹھیک وقت پر ادا کرنا چاہیے ( بیوی نے کہا) اگر امانت کے ادا کرتے ہوئے دل گھٹنے لگے اور دل نہ چاہے؟ فرمایا دل نہ چاہنے کا مطلب کیا ہے؟ چیز دوسروں کی ہے، اس کو وقت پر لوٹا دینا لازم ہے، بیوی نے کہا کہ جب ایسا مسئلہ ہے تو سن لیجیے، ہمارا بچہ ہمارے پاس خدا کی امانت تھا، الله تعالیٰ نے سات سال کے لیے دیا تھا، آج اس امانت کو الله نے واپس لے لیا ہے، لہٰذا ہم کو اس بچہ کے وصال پر گھٹنے کا کوئی حق نہیں تو شوہر نے اپنی بیوی کے اس عمل سے خوش ہو کر دعا دی۔

ایسا ہی ایک واقعہ حضرت ابو طلحہ رضی الله عنہ کی بیوی کا بھی ہے کہ انہوں نے تو اپنے بچہ کے وصال کی اطلاع شوہر کے آنے کے بعد رات گزار کر صبح کے وقت دی، اس پر ان کے شوہر خوش ہوئے اور اس حسنِ سلوک کو سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے اس رات جماع کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا ہاں! تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا الله تعالیٰ تم دونوں میں برکت دے۔ ( بخاری،1/173، باب من لم یظھر حزنہ عند المصیبة)

ہماری مائیں بہنیں اس واقعہ سے سبق حاصل کریں، اپنے اندر ایسا جذبہ پیدا کریں کہ شوہر کو ہر معاملہ میں تسلی دینے والی بنیں ، خاص طور پر مصائب وحالات کے وقت تسلی دیا کریں۔

شوہر کی اجازت کے بغیر نفل روزہ نہ رکھے
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے، انہوں نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے نقل کیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جب عورت کا شوہر اس کے پاس موجود ہو تو وہ اس کی بغیر اجازت نفلی روزہ نہ رکھے۔ (بخاری2/782، باب صوم المرأة باذن زوجھا تطوعا) اس حدیث پاک میں شوہر کے حقوق ادا کرنے کی طرف نظر رکھی گئی ہے، کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ اچانک شوہر کوئی کام بتا دے یا کوئی ضرورت کا تقاضا کرے یا کچھ او ربھی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، ان تمام وجوہات کی طرف نظر رکھتے ہوئے پیارے رسول صلی الله علیہ وسلم نے روزہ نفلی کو اجازت کے ساتھ رکھنے کا حکم فرمایا ہے، غور کا مقام ہے کہ یہاں پر شوہر کی اطاعت وفرماں برداری کی کس قدر عظمت معلوم ہوتیہے کہ خاوند کا خیال رکھتے ہوئے دینی امور او رمعبودِ حقیقی کی عبادت( فرائض کے علاوہ) میں تخفیف کرنے کا حکم دیا گیا ہے، فرض نمازوں میں بھی لمبی لمبی سورتیں تلاوت کرنے سے منع کیا گیا ہے ،تاکہ خاوند کو تکلیف نہ ہو، یاد رہے کہ نفل روزہ وغیرہ کو خاوند کی اجازت پر جو موقوف رکھا گیا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خواتین حتمی ومستقل طور پر نفل عبادت ہی نہ کریں، بلکہ وہ شوہر کی اجازت سے نوافل کو ادا کرسکتی ہیں، مقصود شوہر کی اطاعت ہے اور نافرمانی اور ناشکری سے بچنا ہے، یہ الگ بات ہے کہ بیوی اگر شوہر سے اس طرح کے نفل عمل کرنے کی اجازت طلب کرنے تو عموماً انکار نہیں کرتے، بلکہ خوش ہو کر اجازت دیتے ہیں۔

اپنی خواہش کے لیے کسی کو طلاق نہ دلوائیں
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی عورت ( کسی شخص سے) اپنی ( دینی) بہن کے بارے میں یہ نہ کہے کہ اس کو طلاق دے دو اور اس عورت کو طلا ق دلوانے کا مقصد یہ ہو کہ وہ اس کے پیالہ کو خالی کر دے ( یعنی اس کو طلاق دلوا کر اس کے سارے حقوق خود سمیٹ لے اور اس سے خود نکاح کرلے) کیوں کہ اس کے لیے وہی ہے جو اس کے مقدر میں لکھا جا چکا ہے۔ (صحیح بخاری2/774، باب الشروط لا تحل فی النکاح) یعنی اپنی نفسیات کی خاطر، محض تکمیل لذات کے لیے، سابقہ منکوحہ کو طلاق دلانا بڑی غلط اور معیوب بات ہے، مقدرات میں الله تعالیٰ نے جو لکھ دیا ہے وہ ہو کر رہتا ہے، اس طرح کی حرکات اورنظریات سے طرح طرح کے حالات پیش آتے ہیں، آباد گھر برباد ہوسکتا ہے اور کسی بھی بہن کے ساتھ ایسامعاملہ برتنے سے کیا ملے گا؟ اس لیے پیارے آقا صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: مومن وہی ہے جو اپنے بھائی کے لیے وہی چاہے جو اپنے لیے چاہتا ہے۔ ( مسلم1/50 ،باب الدلیل ان من خصال الایمان…)۔

Flag Counter