Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شعبان المعظم 1437ھ

ہ رسالہ

3 - 18
کام یاب اُستاذ کی صفات

حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر
	
سوال کے ذریعہ اذہان کو مشغول کرنا
تعلیم کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ استاذ پڑھاتے وقت طلباء کے سامنے ایک یا ایک سے زائد سوال پیش کرکے سب کے اذہان کو مشغول کردے، تاکہ وہ جواب سوچیں، پھر ان سے جواب سنے۔اگر جواب صحیح ہے تو ان کی تصویب کرے۔وگرنہ صحیح جواب کی طرف ان کی راہ نمائی کرے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وَسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعلیم میں یہ اسلوب بھی اختیار فرماتے تھے، خصوصاً جب کسی کا امتحان لینا مقصودہو۔ نیز اس انداز سے طلباء میں سوچنے اور حقائق میں غوروفکر کرنے کی عادت پڑتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وَسلم نے حضرت معاذبن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب یمن کا گورنراور قاضی بناکر بھیجنا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وَسلم نے اُن سے سوال کیا کہ لوگوں کے مقدمات کا فیصلہ کیسے کروگے؟ اس پر حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے تفصیلی جواب دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا جواب سن کر ان کی تصویب فرمائی اور اس پر اللہ کا شکرادا کیا۔ تعلیم و تدریس کے ان اسالیب کے علاوہ اور بھی مختلف انداز ہیں، جن کا تعلق تعلیم کے اَعلیٰ مراحل سے ہے، اس لیے اُن کو یہاں ذکرنہیں کیاگیا، لہٰذا عربی کے اساتذہ کرام کو چاہیے کہ مذکورہ بالااسالیب میں سے جو اسلوب بھی مناسب سمجھیں اسے موقع و محل اور مخاطب کے اعتبار سے استعمال میں لائیں۔

درس کی تیاری
عربی پڑھانے والے اساتذہ کرام اگر چاہتے ہیں کہ وہ کام یاب مدرس بنیں اور طلباء ان سے خوب فائدہ اٹھائیں، تو انہیں چاہیے کہ ہر سبق پڑھانے سے پہلے اسے خوب دیکھیں اور اچھی طرح اس کا مطالعہ کریں، اگر کسی عبارت یا لفظ میں طباعت کی غلطی دیکھیں تو اسے درست کردیں اور پڑھاتے وقت طلباء سے بھی وہ غلطی درست کرالیں۔ نیزسبق پڑھانے سے پہلے سبق کامکمل نقشہ ذہن میں بنالیں کہ آپ اسے کس طرح طلباء کو پڑھائیں گے۔

تنبیہ
یاد رہے کہ کتابوں میں کبھی کاتب کی غلطی سے (جو عموماً غیرعلماء ہوتے ہیں)یا حروف جوڑتے وقت یا ٹائپ کرتے وقت بعض آیاتِ کریمہ، اسی طرح احاد یث شریفہ یا کسی عبارت میں طباعت کی غلطیاں رہ جاتی ہیں، لہٰذا ایسی ا غلاط کوبجائے اس کے کہ مصنف کی طرف منسوب کرکے اسے تحریف کا مرتکب قرار دیا جائے، جو کہ ایک موٴمن کی دیانت کے خلاف ہے، بلکہ اُسے دُرست کرلینا چاہیے۔ خصوصاً جب کہ وہ عالم ثقہ، بااعتماد اور اہلِ علم میں مسلمہ شخصیت بھی ہو۔

ترغیب
طلباء کے دلوں میں ترغیب کے ذریعہ علم اور اُس مضمون کا شوق پیدا کرنا ایک کام یاب استاذ کی صفات میں سے ہے، تاکہ طلباء کے ذہنوں میں اس علم اورمضمون کی اہمیت پیدا ہو اور وہ اس علم کوشوق ورغبت سے حاصل کریں۔ اس کے لیے استاذ کو کتب حدیث میں ”کتاب العلم“کا مطالعہ کرکے اس میں سے چندمطلوبہ احادیث کا اِنتخاب کرنا چاہیے۔

طلباء کے ساتھ شفقت ورحمت
ایک معلم کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کے ساتھ نہایت مشفق اور ہمدرد ہو، حضور صلی اللہ علیہ وَسلم میں یہ صفت بدرجہ اتم موجود تھی، آپ معلم ہونے کے ساتھ ایک والد کی طرح مشفق اور مہربان بھی تھے، آپ کی زبان نہایت پاکیزہ تھی، آپ نے کبھی گالی گلوچ سے کام نہیں لیا، ایک صحابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”میں نے آپ سے بہتر نہ آپ سے پہلے کوئی معلم دیکھا، نہ آپ کے بعد، خدا کی قسم! نہ آپ نے مجھے ڈانٹا، نہ مجھے مارا اور نہ مجھے برا بھلا کہا۔“

ایک کامیاب معلم کی خوبی یہ ہے کہ وہ نہایت بلند اخلاق کا مالک ہو۔

نیز ایک معلم کا کمال یہ ہے کہ تعلیم کے ساتھ شاگردوں کی صحیح تربیت بھی کرے اور خود اپنی ذات کو بطورِ عملی نمونہ پیش کرے، آپ صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں قرآن کا ارشاد ہے:

”آپ ان کی تربیت اور تزکیہ فرماتے ہیں“۔

اور قرآن نے آپ کی زندگی کو پوری امت کے لیے بطورِ اُسوہٴ حسنہ پیش کیا۔

لہٰذا اُستاذ کو طلباء پر نہایت شفیق اور ان کے ساتھ نرمی اور رحم کا سلوک کرنا چاہیے، اُستاذ طلباء کو اپنی اولاد کی طرح عزیز سمجھے، ان کی تعلیم پر خصوصی توجہ دے۔ ان کی تربیت، علم، اخلاق اور اَچھی عادات اپنانے میں ان پراس طرح محنت کرے جس طرح اپنی اولاد کے لیے کرتا ہے۔

طلباء کی نگرانی
اُستاذ کے فرائض منصبی میں یہ بھی داخل ہے کہ درس گاہ اور درس گاہ سے باہر حتی الامکان طلباء پر نگاہ رکھے اور دیکھے کہ وہ علم میں آگے بڑھ رہے ہیں یا نہیں؟خصوصاً اس مضمون میں جس کو وہ استاذ انہیں پڑھارہا ہے اور دیکھے کہ کیا وہ درس گاہ میں سبق کے دوران توجہ سے بیٹھتے ہیں؟ کیا وہ محنت کرتے ہیں؟ تکرار اور مطالعہ کرتے ہیں؟ اسباق میں پابندی سے حاضر ہوتے ہیں یانہیں؟ وغیرہ۔ نیز جہاں تک ممکن ہو ان کی اخلاقی حالت کا بھی خیال رکھے، وقتاً فوقتاً ان کے حالات معلوم کرتا رہے کہ وہ درس گاہ سے باہر کیسے رہتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وَسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کی خبرگیری فرماتے تھے، اگر کسی کو نہ دیکھ پاتے توپوچھتے کہ فلاں کیوں نہیں آئے؟ اگر معلوم ہوا کہ وہ بیمار ہیں تو آپ ان کی بیمارپُرسی کے لیے تشریف لے جاتے۔

عربی زبان کی قدرومنزلت
ایک طالب علم میں بنیادی طور پر علم کا شوق اور اس کے حصول کا جذبہ ہونا چاہیے، تاکہ وہ علم کو اپنا مقصد بناکر اسے حاصل کرنے کے لیے پوری پوری محنت کرے۔ طالبِ علم میں علم کا شوق اوراس کی محبت کبھی فطری ہوتی ہے، افراد کے اعتبار سے اس میں قلت و کثرت کااعتباراگرچہ رہتاہے اور بعض میں یہ شوق بہت ہی کم ہوتا ہے۔ دونوں صورتوں میں اسے پیدا کرنے اور اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس میں استاذ کے عمل اور کردار کو بڑادخل ہے۔ ایک عقل مند اور تجربہ کار استاذ ہی طلباء میں یہ شوق و ذوق پیدا کرسکتا ہے اور اسے مزید آگے بڑھاسکتا ہے۔ اس کا اچھا اور آسان طریقہ یہ ہے کہ استاذ تعلیم شروع کرنے سے پہلے اور تعلیم کے دوران وقتاً فوقتاً طلباء کے سامنے علم اور علماء کے فضائل، ان کامرتبہ ومقام ،خصوصاً عربی زبان کی فضیلت اور اس کی اہمیت بیان کرتا رہے اورطلباء کو بتائے کہ عربی زبان کی قدرومنزلت دینی، اجتماعی اور سیاسی ہراعتبار سے بہت اونچی ہے۔ عربی زبان قرآنِ کریم اور وحی کی زبان ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان ہے، جو سب سے زیادہ فصیح وبلیغ اور جَوَامِعُ الکَلِم کے حامل تھے، لہٰذا شرعی احکام کو اس کے صاف ستھرے مصادر سے براہِ راست حاصل کرنے اور اسلامی ثقافت کو اسلام کی علمی تُراث سے حاصل کرنے کے لیے عربی زبان پر دست رس ضروری ہے، خصوصاً اسلام کے دورسے پہلے کی عربی زبان جس میں یہ قرآن نازل ہوا، اس سے قرآن کے سمجھنے میں مدد ملتی ہے، کیوں کہ یہی لوگ اس کے پہلے مخاطب تھے، اس لیے ایک مسلمان طالب علم کے سامنے عربی سیکھنے کا یہی اعلیٰ مقصد ہونا چاہیے۔ جہاں تک عربی زبان کی اجتماعی اور سیاسی اعتبار سے اہمیت ہے، تو یہ عرب، اِسلامی ممالک اور اُمت اِسلامیہ کے مختلف افراد کے درمیان ایمان کے بعد مضبوط ترین رابطہ ہے۔ چناں چہ جب عربی جاننے والے دومسلمان ایک مشرق اور دوسرا مغرب کا رہنے والا باہم ملتے ہیں، تو ان کے لیے آپس میں افہام وتفہیم بہت آسان ہوجاتی ہے۔ ہر ایک دوسرے کے سامنے اپنے دلی جذبات اور محبت کا اِظہار کرسکتا ہے ، ایک دوسرے کے حالات اور مسائل سے براہِ راست مطلع ہوسکتا ہے، جب کہ بسااوقات عالمی اجنبی خبر رساں ایجنسیاں مسلمانوں کے حالات کو مسخ کرکے پیش کرتی ہیں، جو ان کے لیے مزید پریشانی کا سبب بنتی ہیں۔ اگر عربی سیکھنے والوں میں ایسے طلباء بھی ہوں جو علم کے بجائے زبان کو بحیثیت زبان سیکھنا چاہتے ہیں تو ان کو بھی شوق دلایاجائے کہ اگروہ کسی عرب ملک میں ملازمت یا سیاحت کے لیے جائیں گے تو وہ عربی زبان جاننے کی بنا پر اپنے مقصد میں زیادہ کام یاب رہیں گے۔ اب یہ ایک اچھے تجربہ کار استاذ کا کام ہے کہ عربی کی تعلیم کے دوران ایسے طلباء کی روحانی اور فکری تربیت کرے اور ان کو دین اور دینی اعمال کی طرف دعوت دے۔ اگر عربی کا استاذ کسی مسجد میں امام اور خطیب ہے تو اسے چاہیے کہ اپنے مقتدیوں کو عربی زبان سیکھنے کی ترغیب دے، ان کے لیے مسجد یا مسجد سے متصل کسی ہال میں ان کے پڑھانے کا انتظام کرے۔ روزانہ یا ہفتہ میں تین دن ان کو پڑھائے اور ان کی ذہنی اور دینی تربیت کرے۔ اگر عربی کا استاذ کسی غیرمسلم ملک میں ہے اور وہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اور عربی پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں تو اسے چاہیے کہ ان کے لیے بھی عربی پڑھانے کا انتظام کرے۔ اور دورانِ تعلیم ان کے سامنے نہایت حکمت کے ساتھ اسلام کے محاسن اور اس کی عمدہ اور آسان تعلیمات کا تذکرہ کرتا رہے، شاید یہی بات ان کے لیے ہدایت کا سبب بن جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان پیش نظر رہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وَسلم نے حضر ت علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا کہ: اگر اللہ تعالیٰ تمہاری وجہ سے کسی ایک شخص کو بھی ہدایت نصیب کردے تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ نیز مقتدیوں کو عربی پڑھانے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ وہ عربی سیکھنے کے بعد جمعہ کا خطبہ او رنماز میں پڑھی جانے والی سورتیں اور مختلف اوراد کسی درجہ میں سمجھنے لگیں گے۔ اس طرح امام اور مقتدیوں میں بحیثیت استاذو شاگرد مزید ایک قلبی اور روحانی تعلق بڑھ جائے گا اور ایسے مسائل بھی رونما نہیں ہوں گے جو عموماً امام اور مقتدیوں کے درمیان بُعد کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔

آخری بات
آخر میں اپنی ان معروضات کی روشنی میں اپنی تعلیمی برادری کی خدمت میں چند گزارشات پیش کرتا ہوں۔

ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ایک معلم اور استاد کا اسلام میں کیا مقام ہے، معلمین حضرات حقیقت میں انبیائے کرام علیہم السلام کے وارث ہیں: العلماء ورثة الانبیاء اور مرتبہ عظیم کے ساتھ عظیم تر ذمہ داریاں بھی انہیں پر عائد ہوتی ہیں۔

اس لیے ہم صدقِ دِل سے یہ عہد کریں کہ ہم اپنے اندر وہ تمام صفات پیدا کریں گے جو ایک معلم کامل میں مطلوب ہیں اور اپنے سامنے ہمیشہ معلم کامل صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کو بطورِ معیار کے رکھیں گے۔

ہم ان اوصاف کو اپناتے ہوئے اپنی علمی درس گاہوں کا معیار بلندکریں، ہمارے مدارس، ہمارے اسلامی اسکولز، ہماری اسلامی یونی ورسٹیاں، ہمارے علمی ادارے اپنے تعلیمی معیار میں تربیتی اعتبار سے، نظام کے اعتبار سے، اخلاق کے اعتبار سے، وقار کے اعتبار سے، صفائی کے اعتبار سے ، نظامت کے اعتبارسے اتنے بلندہوں کہ طلباء ان کی طرف کھنچے ہوئے آئیں اور کسی دوسری طرف اپنا رُخ نہ کریں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وَسلم کی سیرت سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ” اللہ تعالیٰ کویہ بات پسند ہے کہ جب تم کوئی کام کرو تو اسے خوش اسلوبی سے کرو“۔

ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اگر ہماری کوتاہیوں سے ہمارے علمی اداروں کا معیارِ تعلیم پست ہوا اور ہمارے بچوں نے غیر مسلموں کے تعلیمی اداروں کا رخ کیا اور اس کے نتیجہ میں وہ اپنے دین سے منحرف ہوئے اور اپنے قومی اور وطنی جذبہ سے محروم ہوئے تو اس کی ذمہ داری اور وبال سب پر پڑے گا اور اس کا جواب ہمیں کل اللہ کے سامنے دینا ہوگا اور اس ذمہ داری کا احساس ہر فرد کو ہونا چاہیے، خصوصاً تعلیمی اداروں کے ذمہ دار حضرات اور وزارتِ تعلیم کے سرکردہ افراد کو۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو خصوصاً تعلیمی میدان میں کام کرنے والوں اور اساتذہ و معلمین کو معلم کامل صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔ واللہ ولی التوفیق

Flag Counter