Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شعبان المعظم 1437ھ

ہ رسالہ

2 - 18
عصرِ حاضر میں اشتغال بالحدیث کی ضرورت

مولانا عبدالماجد رفیق
رفیق شعبہ تخصص فی الحدیث واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی

محدثین کی قربانیوں کا نتیجہ
سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر محدثین کرام نے اشتغال بالحدیث اور حفاظتِ حدیث کی خاطر اتنی قربانیاں کیوں دیں؟ فقر وفاقہ کی مشقتیں کیوں برداشت کیں؟ دور دراز کے اسفار کیوں کیے؟ روایتِ حدیث اور اس کی اشاعت کے لیے اتنی تگ ودو او رمحنت کیوں کی؟ حفاظت حدیث کے سلسلے میں کڑی شرائط ، فنی باریکیاں او راحتیاطی تدابیر کیوں اختیار کیں؟ محض حصول ثواب کی خاطر؟ نہیں! اس کے لیے تو اور راہیں بھی بہت ہیں، خوا مخواہ خود کو تکلیف میں ڈالنے کی قطعاً ضرورت نہ تھی، دراصل وہ لوگ سمجھتے تھے کہ اگر علم حدیث ہی مسلمانوں سے اٹھ گیا تو یہ امت جہالت وظلمت کی وادی میں بھٹک کر رہ جائے گی او رپھر کوئی مسیحا نہ مل سکے گا۔

لہٰذا الله تعالیٰ نے ن کی قربانیوں کی لاج رکھی او رامت مسلمہ میں علم حدیث کی عمومی فضا بنی اور اس امت کا سفینہ بڑے بڑے طوفانوں کا مقابلہ کرتا چلا آرہا ہے۔ وضع حدیث اور فتنہ انکار حدیث کی تاریخ اور اس کی کوکھ سے جنم لینے والے ابلیسی طوفانوں پر اگر ایک نظر ڈالی جاتے تو ہمیں محدثین کی کاوشوں، قربانیوں اور تکالیف کی قیمت ک ااندازہ ہو سکتا ہے۔ تاریخ اسلامی میں جتنے بھی فتنے اٹھے، ان سب میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات سے بغاوت کا عنصر مشترکاہے ، یہی وجہ ہے کہ آج سے کچھ عرصہ قبل مستشرقین نے امتِ مسلمہ کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا او رعلمِ حدیث کے راستے ایک سیلابی ریلا چھوڑا۔آج کے ان تمام فتنوں سے نمٹنے کے لیے ایک چیز بے حد ضروری ہے کہ ہمیں بھی ان محدثین کے راستے پر چل کر تمام طبقاتِ اسلامیہ میں اشتغال بالحدیث کی ایک عمومی فضا پیدا کرنا ہو گی۔

عصرِ حاضر میں شیطان کے حواریوں کا کردار
آج کے اس دور میں شیطان اوراس کے حواریوں نے فحاشی وعریانی اور عیاشی وبدمعاشی کی راہ دِکھلا کر امت مسلمہ کو دین سے دور کر دیا اور دوسری طرف مسلماوں کے ہر مرض کا شافی علاج رکھنے والی دوا ”علم حدیث“ پر شکوک وشبہات کی بھر مار کر دی۔ یوں ہماری مثال اس مریض کی سی ہے جو اپنے مرض میں تڑپ رہاہو، اس کے پاس علاج کی دوا تو موجود ہو، مگر اُس کے ہاتھ اِس تک پہنچنے سے قبل ہی کوئی اُسے اِس تریاق کے متعلق بے یقینی اور وساوس میں مبتلا کر دے، اب یہ مریض یا تو تڑپتا ہی رہے گا یا پھر وساوس کی پروا کیے بغیر دواسے اپنا علاج کر لے۔

انکارِ حدیث کے نئے محرکات وعوامل
مغربی نو مسلم فاضل محمد اسد(Leopold Weiss) نے سنت سے دامن چھڑانے اور حدیث کا انکار کرنے کا حقیقی سبب ( جس کے داعی اس دور میں پھر اُس کا بیڑا اٹھا رہے ہیں ) نئی نسل کی نفسیات او رمغربی تہذیب کے غلبہ اور طاقت سے مکمل واقفیت کی روشنی میں بیان کیا ہے کہ مغربی تہذیب کی قدروں او رپیمانوں او راس کے طرزِ زندگی اور فیشن اور سنت نبوی علی صاحبہا الف تحیة میں کبھی جوڑ نہیں ہو سکتا او راس زندگی کو، جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے گہری محبت اور آپ کی ذات پر مکمل اعتماد او رسنت کے مراجع او رمآخذ پر پورے یقین اور اطمینان پر مبنی ہو، مغربی تہذیب کی تعظیم وتقدیس او راس کو علم انسانی کی آخری دریافت سمجھنے کے تصور کے ساتھ جمع نہیں کیا جاسکتا، غالباً بعض اسلامی ممالک کے حکام اور سیاسی لیڈران کے سنت پر حملہ اور انکارِ حدیث کا یہی سبب ہے، محمد اسد لکھتے ہیں:

” آج جب کہ اسلامی ممالک میں مغربی تہذیب کا اثر ونفوذ بہت بڑھ چکا ہے، ہم اُن لوگوں کے تعجب انگیر رویہ میں جن کو ”روشن خیال مسلمان“ کہا جاتا ہے ایک اور سبب پاتے ہیں، وہ یہ کہتے ہیں کہ ایک ہی وقت میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرنا،زندگی میں مغربی تہذیب کو اختیار کرنا ناممکن ہے، پھر موجودہ مسلمان نسل اس کے لیے تیار ہے کہ ہر مغربی چیز کو عزت کی نگاہ سے دیکھے اور باہر سے آنے والے ہر تمدن کی اس لیے پرستش کرے کہ وہ باہر سے آیا ہے اور طاقت ور اور چمک دار ہے، مادی اعتبار سے یہ افرنگ پرستی ہی اس واقعہ کا سب سے بڑا سبب ہے کہ آج احادیثِ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور سنت کا پورا نظام رواج نہیں پارہا ہے، سنتِ نبی صلی الله علیہ وسلم ان تمام سیاسی افکار کی کھلی اور سخت تردید کرتی ہے، جن پر مغربی تمدن کی عمارت کھڑی ہے، اس لیے وہ لوگ جن کی نگاہوں کو مغربی تہذیب وتمدن خیرہ کر چکا ہے، وہ اس شکل سے اپنے کو اس طرح نکالتے ہیں کہ حدیث وسنت کا بالکلیہ یہ کہہ کر انکار کر دیں کہ سنتِ نبی صلی الله علیہ وسلم کا اتباع مسلمانوں پر ضروری نہیں، کیوں کہ اس کی بنیاد ان احادیث پر ہے، جو قابل اعتبار نہیں ہیں اورمختصر عدالتی فیصلہ کے بعد قرآن کریم کی تعلیمات کی تحریف کرنا اور مغربی تہذیب وتمدن کی روح سے انہیں ہم آہنگ کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔“

جو لوگ یہ کوشش کر رہے ہیں کہ امتِ اسلامیہ کو اس حیات بخش اور ہدایت وقوت عطا کرنے والے صفا وشفاف سرچشمہ (حدیث کے حجت ہونے اور اس کی قدر ومنزلت میں شکوک وشبہات پیدا کرنے کے ذریعہ) سے محروم کر دیں او راس پر سے امت کااعتماد اٹھ جائے ، وہ اس عظیم نقصان سے شاید ناواقف ہیں، جو اس امت کو پہنچا رہے ہیں، وہ شاید نہیں جانتے کہ اپنی نامحمود کوشش سے وہ اس امت کو اپنی میراث سے محروم ، اپنے آغاز سے بے تعلق اپنی اصل سے برگشتہ وحیران بنا رہے ہیں اور وہ معاملہ کر رہے ہیں جو یہودیت ومسیحیت کے دشمنوں نے یا انقلابِ زمانہ نے ان مذاہب کے ساتھ کیا، اگر وہ باہوش وحواس یہ کام انجام دے رہے ہیں تو اس امت اور اس دین کا ان سے بڑھ کر کوئی دشمن نہیں، کیوں کہ اس کے بعد نئے سرے سے پھر اس دینی ذوق کووجود بخشنے کا کوئی ذریعہ نہیں رہ جاتا، وہ ذوق جو صحابہ کرام رضی الله عنہم کا امتیاز تھا او رجو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی براہِ راست صحبت ، یا اس حدیث پاک کے واسطہ کے بغیر ( جو اس عہد کی سچی تصویر، اس عہد کی کیفیات سے بھرا ہوا او راس کی عطربیزیوں سے معطر ہے) پیدا نہیں کیا جاسکتا۔ (حدیث کا بنیادی کردار، ص:43-41)

ابلیسی کردار کے مقابلے میں اشتغال بالحدیث کی اشدّ ضرورت
الحمدلله آج امتِ مسلمہ میں ہر فتنے کا مقابلہ کرنے والے ہر سطح پر افراد موجود ہیں، باقاعدہ ادارے اور تنظیمات مستقلاً کام کررہے ہیں، لیکن اگر ہم حقیقت حال کا ذرا باریک بینی سے جائزہ لیں تو ہمیں صاف دکھائی دے گا کہ ہمارے ان اداروں اور تنظیمات وغیرہ سے ملنے والے نتائج ان نتائج سے بہت کم ہیں جو کل تک ایک ایک فرد اور شخص کی محنت سے نکلتے تھے۔ آخر کیوں؟؟؟

ہم ذرا جائز لیں کیا ہمارے دین کے ان دفاعی، اشاعتی اور حفاظتی اداروں اور منصوبوں میں اشتغال بالحدیث کی عمومی فضا بھی قائم ہے یا نہیں؟ کیا ہمارے اند ران محدثین کے طرز پر کام کرنے والے اور علمِ حدیث کو دین کے ہر شعبے میں ہادی بنا کر پیش کرنے والے لوگ بھی موجود ہیں یا نہیں؟

اے کاش! اگر امتِ مسلمہ کا ایک مختصر سا طبقہ ہی صرف اسی کام کے لیے اپنی زندگیاں پیش کردے جو علمِ حدیث کی روشنی لے کر ہمارے تمام تر اداروں اور تنظیمات کو پرکھیں اور اشتغال بالحدیث کا وہی گزرا ہوا زمانہ ہمارے سامنے آجائے۔ مگر افسوس ہے کہ عوام تو علم حدیث سے ویسے دور ہو چکی ہے اور ادھر ہمارے اندر ترغیب وترہیب، وعظ ونصیحت اور فضائل ودلائل کو علمِ حدیث کی روشنی میں عام کرنے والے اور احادیثِ رسول کو اصولِ حدیث اور جرح وتعدیل کی کسوٹی پر پرکھ کر امت تک پہنچانے والے بھی بہت کم ہوتے چلے جارہے ہیں۔

عصرِ حاضر میں اشتغال بالحدیث کیسے؟
اشتغال بالحدیث کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے اندر حدیثِ رسول کا عام ماحول پیدا ہو جائے، ہمارے خطباء سے لے کر سامعین تک، مصنفین سے لے کر قارئین تک، علماء سے لے کر عوام تک اور حکم رانوں سے لے کر رعایا تک، معاشرے کے تمام افراد بحیثیت مسلمان حدیثِ رسول صلی الله علیہ وسلم سے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق تعلق پیدا کریں۔ یہی تعلق سنت کی راہ دِکھلائے گا اور ہمیں تمام تر دینی فتنوں سے محفوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ ہماری دنیاوی ترقی کا بھی یہی سبب ہے، جس طرح تبلیغی جماعت میں فضائلِ اعمال کی تعلیم ضروری ہوتی ہے، بالکل اسی طرح ہمارے تمام طبقات میں ان کے منصوبوں اور شعبوں کے مطابق مستند اور منتخب احادیث کی تعلیم وترویج اور افہام وتفہیم کا ماحول پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔

اسی طرح اس بات کا بھی خاص خیال رکھا جائے کہ لوگوں کے سامنے من گھڑت واقعات، بے سند قصے اور انتہائی ضعیف اور واہی احادیث کو بیان نہ کیا جائے، اس سے لوگوں کے عقائد اور اعمال کا ستیاناس ہو جاتا ہے اور لوگ اسلامی تعلیمات سے متعلق افراط وتفریط کا شکار ہو جاتے ہیں۔ نیز یہ چیزیں صحیح العقیدہ، صاف وشفاف اور معتدل مزاج اسلامی معاشرے کی تشکیل میں بہت بڑی رکاوٹ بنتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت مطہرہ میں ہر سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے آگے نقل کرنے سے منع کیا گیا ہے اور ایسے شخص کو جھوٹا کہا گیا ہے اور رہی بات آپ صلی الله علیہ وسلم کی طرف ایسی بات کو منسوب کرنا جو آپ صلی الله علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے ( خواہ وہ بات بظاہر اچھی اور بھلی ہی کیوں نہ ہو ) نہ صرف حرام، بلکہ اشد الحرام ہے۔ اسی لیے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے کبھی ” کفی بالمرء کذباً ان یحدّث بکلّ ماسمع“․(مقدة صحیح مسلم، باب النھی عن الحدیث بکل ماسمع، رقم الحدیث:7) (آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو بیان کرے) ارشاد فرماکر او رکبھی” من حدث عنی حدیثا وھو یُری أنہ کِذب فھو أحد الکاذبَین․“( جامع الترمذی، باب ماجاء فی من روی حدیثا وھو یری أنہ کذت، رقم الحدیث:2662) (جس نے مجھ سے ایسی بات بیان کی کہ اُس کا خیال یہ ہے کہ وہ جھوٹی ہے، تو وہ دو جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا ہے) اور”من کذب عليّ متعمّدا فلیتبوأ مقعدہ من النار“ (صحیح البخاری، باب اثم من کذب علی النبی، رقم الحدیث:110)(جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا اُسے چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے) کی وعید سنا کر اخبار واحادیث میں تساہل برتنے پر سخت ڈرایا ہے۔

تخصص فی علوم الحدیث اُمید کی ایک کرن
آج زمانہ آواز دے رہا ہے ان لوگوں کو جو آگے بڑھیں اور راہِ ابوہریرہ رضی الله عنہ پر چل کر دیوانہ وار الله کی رضا کی خاطر اس عظیم کام کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں او رمسلسل محنت، لگن، شوق، اخلاص اور جذبہٴ قربانی کے اعوان وانصار کے ذریعے عصرِ حاضر کے جدید اور مفید وسائل کمپیوٹر وغیرہ سے اساتذہ اور ماہرین کی زیرِنگرانی صحیح استفادہ کرتے ہوئے دین کے تمام شعبوں میں روح پھونک دیں۔

الحمدلله ثم الحمدلله، اُمید کی ایک کرن برصغیر میں دکھائی دے رہی ہے، تخصص فی علوم الحدیث کا ایک بہترین سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ کاش کہ اس سلسلے سے منسلک خوش قسمت افراد اپنی ذمہ داری کا احساس بھی بیدار رکھتے ہوں اور وہ بالکل وہی ذمہ داری کو نبھانے کا جذبہ لے کر اُٹھیں جو ذمہ داری حضراتِ سلف نے نبھالی ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تخصص فی علوم الحدیث کے شعبے سے وابستہ ہونے کے بعد جب باحث پر علمِ حدیث کی متعدد راہیں اور اس کے متنوع علوم فنون کھلتے ہیں اور ان میں سلف نے جو سینکڑوں کتابیں تصنیف کی ہیں ، ان سے وہ متعارف اور ان کے مناہج پر مطلع ہوتا ہے تو اُس وقت اس کے دل میں ( درس نظامی کی تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے کے باوجود) علوم حدیث سے ناواقفیت او ران سے اپنے تہی دامن ہونے کا احساس وشعور بیدار ہوتا ہے اور اس پر نصف نہار کی طرح یہ حقیقت آشکار ہو جاتی ہے کہ علم حدیث تو ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے، جو اپنے اندر لا تعداد قیمتی موتیوں او رجواہر کو سموئے ہوئے ہے اور ایک ایسا بحربے کنار ہے جس سے بیسیوں نہریں نکلتی ہیں، جو بے شمار اسلامی علوم وفنون کو رونق وشادابی بخشتی ہیں اور شریعت مطہرہ کی حسین وادی کو سیراب کرتی ہیں۔ اے کاش! یہ احساس وشعور ہمارے تمام دینی، علمی او رتحقیقی اداروں سے منسلک افراد میں پیدا ہوجائے اور علومِ حدیث کی افادیت اور سلف کے اس عظیم خزانے سے محرومی کا ہم سب کو ادراک ہو جائے۔” وما ذلک علی الله بعزیز“

حفاظتِ حدیث کے سلسلے میں محدثین، فنی باریکیوں، علمی مشوگافیوں اور عالی خدمات کا علامہ حالی مرحوم نے ”مسدسِ حالی“ میں کیا خوب نقشہ کھینچا ہے #

گروہ ایک جویا تھا علمِ نبی کا
لگایا پتا جس نے ہر مفتری کا
نہ چھوڑا کوئی رخنہ کذبِ خفی کا
کیا قافیہ تنگ ہر مدعی کا
کیے جرح وتعدیل کے وضع قانوں
نہ چلنے دیا کوئی باطل کا افسوں
اس دھن میں آساں کیا ہر سفر کو
اسی شوق میں طے کیا بحروبر کو
سُنا خازنِ علمِ دیں جس بشر کو
لیا اس سے جاکر خبر اور اثر کو
پھر آپ اس کو پرکھا کسوٹی پہ رکھ کر
دیا اور کو خود مزا اس کا چکھ کر
کیا فاش راوی میں جو عیب پایا
مناقب کو چھانا، مثالب کو تایا
مشائخ میں جو قبح نکلا جتایا
ائمہ میں جو داغ دیکھا بتایا
طلسمِ ورع ہر مقدس کا توڑا
نہ مُلاّ کو چھوڑا، نہ صوفی کو چھوڑا
رجال اور اسانید کے جو ہیں دفتر
گواہ ان کی آزادگی کے ہیں یکسر
نہ تھا ان کا احساں یہ اک اہلِ دیں پر
وہ تھے اس میں ہر قوم وملت کے رہبر
لبرٹی میں جو آج فائق ہیں سب سے
بتائیں کہ لبرل بنے ہیں وہ کب سے؟

Flag Counter