Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شعبان المعظم 1437ھ

ہ رسالہ

14 - 18
نعمان بن ثابت کو امام اعظم ابو حنیفہ کیوں کہتے ہیں؟

محمد اسلم متعلم جامعہ فاروقیہ کراچی
	
حضرت امام ابو حنیفہ کا اصل نام نعما ن ہے، کنیت ابو حنیفہ اور لقب امام اعظم ہے، بعض لوگ آج کل امام اعظم ابو حنیفہ کے نام اور لقب دونوں پر اعتراض کرتے ہیں ،ان مخالفین کے عام طور پر دو بڑے اعتراضات سامنے آتے ہیں:
1..حنیفہ امام صاحب کی بیٹی کا نام ہے اور کہتے ہیں یہ کتنا کمزور مذہب ہے، جس میں نسبت لڑکی کی طرف کی جارہی ہو۔
2.. دوسرا اعتراض یہ ہے کہ سب سے بڑے امام تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ہیں آپ لوگ ابو حنیفہ کو امام اعظم کیوں کہتے ہیں۔

ان لوگوں کے ان اعتراضات کو دیکھ کر ان کی جہا لت کا پتا چل جاتا ہے ،ان لوگوں کو نہ ہمارے امام کی تاریخ کا علم ہے، نہ ان لوگوں کا عربیت سے کوئی تعلق ہے، اگر ان لوگوں کو ہمارے امام کی تاریخ کا علم ہوتا یا ان کا عربیت سے کچھ تعلق ہوتا تو اس قسم کے اعتراضات کبھی نہ کرتے ۔

جہاں تک ہمارے امام کی تاریخ کا تعلق ہے تو اس کا علم اس لیے نہیں ہے کہ امام ابو حنیفہ کا صرف ایک ہی بیٹا تھا ،جس کا نام حماد تھا، اس کے علاوہ امام صاحب کا نہ کوئی بیٹا تھا نہ کوئی بیٹی۔ یہ کتنا بڑا الزام ہے کہ امام صاحب کی بیٹی کا نام حنیفہ تھا، جس کی وجہ سے ابو حنیفہ کو ماننے والے ان کی نسبت لڑکی کی طرف کر رہے ہیں؟! اگلی بات یہ ہے امام اعظم کی کنیت ابو حنیفہ کیوں ہے؟ تو یہ بات سمجھ لیجیے کہ کنیت دو قسم کی ہوتی ہے ۔۱۔کنیت نسبی۔۲۔کنیت وصفی ۔کنیت نسبی کا معنی یہ ہے کہ باپ کی بیٹے کی طرف نسبت کیے جانے کی وجہ سے وہ باپ کی کنیت ہو جاتی ہے، جیسے رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی کنیت ابو القاسم ہے تو چوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے کا نام قاسم تھا ،پس قاسم کی نسبت محمدصلی الله علیہ وسلم کی طرف ہونے کی وجہ سے حضورصلی الله علیہ وسلم کی کنیت ابو القاسم نسبی ہے ۔

اور دوسری قسم کنیت وصفی اس کا معنی یہ ہے کہ یہ کنیت اولاد کی طرف نسبت کی وجہ سے نہیں ہوتی، بلکہ کسی مخصوص وصف کی وجہ سے ہوتی ہے جو صرف اسی شخص میں نمایاں ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ وصف اس شخص کی کنیت کی حیثیت اختیار کرجاتا ہے ،اب کنیت وصفی کو بھی مثال سے سمجھ لیں، جیسے حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کا نام عبدالله بن ابی قحافہ ہے ابوبکر ان کی کنیت ہے ان کے بیٹے کا نام بکر نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کو ابوبکر کہا جاتا ہو بلکہ بکر عربی زبان میں پہل کرنے والے کو کہتے ہیں، جب حضورصلی الله علیہ وسلم نے اعلان نبوت فرمایا تو سب سے پہلے ان کی تصدیق کر نے والے حضرت عبد اللہ بن ابی قحافہ تھے، جب حضور صلی الله علیہ وسلم نے دولت مانگی تو ساری دولت دینے میں حضرت عبد اللہ بن ابی قحافہ نے پہل کی جب حضورصلی الله علیہ وسلم نے کنواری لڑکی نکاح کے لیے مانگی تو پہل عبد اللہ بن ابی قحافہ نے کی، جب حضورصلی الله علیہ وسلم مکہ سے مدینہ گئے تو ہجرت میں پہل حضرت عبد اللہ بن أبی قحافہ نے کی ۔

جب حضور غزوء احد میں گئے تو حضور صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ پہل عبد اللہ بن ابی قحافہ نے کی، جب حضورصلی الله علیہ وسلم دنیا سے پردہ فرماگئے تو حضور صلی الله علیہ وسلم کے مصلی پر کھڑے ہونے میں پہل عبد اللہ بن ابی قحافہ نے کی، جب حضورصلی الله علیہ وسلم اپنے مزار تشریف لے گئے تو حضور صلی الله علیہ وسلم کے مزار میں سب سے پہل عبد اللہ بن ابی قحافہ نے کی یہاں تک کے جب پیغمبر خداصلی الله علیہ وسلم جنت میں جائیں گے تو ان کے ساتھ سب سے پہلے جانے والا عبد اللہ بن ابی قحافہ ہی ہوگا، غرض یہ کہ ہر کام میں پہل کی،اسی لیے ان کی کنیت ابو بکر پڑگئی ،اس وجہ سے نہیں کہ ان کے بیٹے کا نام بکر تھا، بلکہ ان کی اس صفت کی وجہ سے کہ ہر کام میں وہ پہل کرتے تھے۔

اسی طرح حضرت علی رضی الله عنہ کی کنیت ابو تراب ہے۔ تراب ان کے بیٹے کا نام نہیں تھا تو ان کی کنیت ابو تراب کیسے پڑگئی؟ وہ اس طرح کہ حضور صلی الله علیہ وسلم اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی الله عنہا کے گھر تشریف لے گئے، دروازے پر دستک دی اور فرمایا علی ہیں؟ فاطمہ  نے کہا موجود نہیں۔ تو حضور علیہ السلام مسجد نبوی میں تشریف لے گئے، دیکھا کہ حضرت علی مسجد میں مٹی پر لیٹے ہوئے ہیں اور جسم مبارک کو مٹی لگی ہوئی ہے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا :قم یا ابا التراب !اے مٹی والے اٹھ جا۔ حضورصلی الله علیہ وسلم نے حضرت علی کو کہا ابو التراب۔ تراب نہ حضرت علی کے بیٹے کا نام ہے اور نہ بیٹی کا تو یہ کنیت وصفی ہوئی نہ کہ نسبی۔ اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ کا نام عبد الرحمن بن صخر ہے ،ابو ہریرہ ان کی کنیت ہے ،ایک مرتبہ آپ رضی الله عنہ حضورصلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ  کی آستین کا دامن کھلا ہوا تھا، جس میں بلی کا بچہ تھا، عربی زبان میں ہریرہ بلی کے بچے کو کہاجاتا ہے تو ابو ہریرہ عبدالرحمن بن صخر کی کنیت بن گئی اب یہ کنیت وصفی ہوئی نہ کہ نسبی اسی طرح ابو حنیفہ بھی کنیت وصفی ہے نہ کہ نسبی اب امام میں آخر وہ کو نسا وصف تھا جس کی بنیاد پر انہیں ابو حنیفہ کہا جاتا ہے، وہ یہ کہ حنیفہ کا ایک معنی عربی زبان میں دوات کے ہیں اور امام صاحب کی مجلس میں بیٹھنے والے ہر وقت قلم ودوات لے کر امام صاحب کے علوم کو مرتب کرتے تھے، اتنے علوم مرتب کیے کہ ان کی وجہ سے کنیت ابو حنیفہ بن گئی اور حنیفہ کا ایک معنی خالص کا آتا ہے ،اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ﴿ واتبع ملة ابراہیم حنیفا﴾ابراہیم علیہ السلام خالص دین والے تھے ،باطل سے بالکل الگ تھے ،امام اعظم  نے اس شریعت کو مرتب کیا، جو بالکل خالص ہے، اسی وجہ سے کنیت ابو حنیفہ بن گئی، ابو حنیفہ کا معنی ہوا دین خالص کو مرتب کرنے والا اور جو لوگ کہتے ہیں حنیفہ امام اعظم کی بیٹی کا نام ہے تو ان کے پاس نہ تاریخ کا علم ہے اور نہ عربیت کا ۔

ایک اہم نکتہ
ابو بکر کا نام، جو کہ عبد اللہ ہے، لوگ اس کو اتنا نہیں جانتے جتنا ان کی کنیت ابو بکر کو جانتے ہیں۔ اسی طرح امام اعظم ابو حنیفہ  کا نام نعمان بن ثابت ہے جسے لوگ نہیں جانتے، بلکہ ان کی کنیت یعنی ابو حنیفہ کو نام سے زیادہ جانتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک مشن ابو بکر کا تھا اور ایک مشن ابو حنیفہ کا تھا، ابو بکر کا مشن دین پھیلانا تھا اور ابو حنیفہ کا مشن دین لکھوانا تھا، اللہ تبارک و تعالیٰ کو ان دونوں کا مشن اتنا پسند آیا کہ ان کا نام عبداللہ اور نعمان پردہ خفا میں چلا گیا اور ان کا مشن قیامت تک زندہ رہا ،اس نکتہ کے ذکر کرنے کے بعد امام اعظم ابو حنیفہ کا مخالف ابو حنیفہ کہہ کر مخالفت کر ے گا ،ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کا مخالف ابو بکر کہہ کر مخالفت کرے گا: تھوڑی سی تو شرم کرنی چاہیے، ابو حنیفہ بھی کہتے ہو مخالفت بھی کرتے ہوا؟بو بکر بھی کہتے ہو مخالفت بھی کرتے ہو؟ اس کا مطلب تو ایسے ہے جیسا کہ اللہ کے نبی کا نام محمدصلی الله علیہ وسلم ہے جس کی بار بار تعریف کی گئی ہے اب جو کہتا ہے میں محمد کو نہیں مانتا یا جو محمد سے مخالفت کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں اس شخص کو نہیں مانتا جس کی تعریف خود رب ذوالجلال نے کی ہے، اسی طرح جو ابو حنیفہ کی مخالفت کرتا ہے اس کا مطلب بھی یہ ہے کہ جس نے دین خالص کو مرتب کیا میں اس کو نہیں مانتا اور اس کی مخالفت کرتا ہوں ۔

دوسرا اعتراض :
آپ حنفی لوگ ابو حنیفہ کو امام اعظم کیوں کہتے ہو؟ اس کا جواب میں چند مثالوں سے دینا چاہتا ہوں، وہ یہ کہ سب سے بڑے صدیق یعنی سچے تو اللہ کے نبی صلی الله علیہ وسلم ہیں تو پھر ابو بکر صدیق اکبر کیوں کہا جاتا ہے ؟اسی طرح سب سے بڑے فاروق یعنی حق و باطل میں فرق کرنے والے تو اللہ کا نبی صلی الله علیہ وسلم ہیں تو پھر عمررضی الله عنہ کو فاروق کیوں کہتے ہو؟سب سے بڑا بہادر تو اللہ کا نبی ہے تو پھر حضرت علی کو حید ر کرار کیوں کہتے ہو؟ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ابو حنیفہ حضورصلی الله علیہ وسلم سے بھی بڑے امام ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ائمہ فقہاء میں سب سے بڑے امام ابو حنیفہ ہیں، اسی طرح صدیق اکبر صحابہ کی جماعت میں ابو بکر ہیں اور فاروق بین الحق و الباطل عمر ہیں ۔بڑے بہادر صحابی حضرت علی  ہیں اور انبیاء کی جماعت کے سب سے بڑے امام اللہ کے نبی محمد صلی الله علیہ وسلم ہیں، آج کے غیر مقلد ین کا نفرنسیں کرتے ہیں اور اس کا نام رکھتے ہیں امام اعظم رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اور کہتے ہیں کہ امام اعظم اللہ کے نبی صلی الله علیہ وسلم ہیں اور یہ حنفی مسلک والے ابو حنیفہ کو امام اعظم کہتے ہیں، یہ حنفی شرک فی الرسالت کرتے ہیں، یہ مشرک ہیں، اب بیچارے ان پڑ ھ کے پاس دلیل نہیں ہوتی وہ یہ سمجھتے ہیں کہ واقع میں یہ توصحیح بات کرتے ہیں، حنفیوں کی یہ بات تو بالکل غلط ہے اور اسی لیے وہ غیر مقلدین کے چنگل میں پھنستے ہیں ،یہ بات خوب سمجھ لیجیے کہ غیر مقلد دلیل کم دیتے ہیں اور ڈھکوسلے زیادہ مانگتے ہیں، دلیل اور ڈھکو سلہ سمجھانے کے لیے میں ایک مثال ذکر کرنا چاہتا ہوں ،وہ یہ کہ ایک بابا جی گھوڑا گاڑی چلا رہے تھے مین روڈ پر اور ان کے پیچھے F.S.Cکا ایک اسٹوڈنٹ بائیک پہ آرہا تھا اچانک باباجی نے گھوڑا گاڑی کو دائیں طرف موڑ دیا، دونوں ٹکرا گئے، اس نوجوان کو غصہ آگیا اور اس نے بابا جی سے کہا ۔اگر آپ کو گھوڑا گاڑی موڑنی تھی تو کم از کم اشارہ تو دیتے؟! باباجی کہنے لگے آپ کو یہ اتنا بڑا روڈ نظر نہیں آرہا تھا جو میرے پیچھے آگئے تو نوجوان خاموش ہو گیا؟کیوں کہ کالج میں اسٹوڈنٹ نے اصول پڑھے، ڈھکوسلے نہیں پڑھے اسی طرح آج کے ان پڑھ یا کالج کے اسٹوڈنٹ وغیرہ غیر مقلد ین کے ڈھکو سلوں کی وجہ سے دلیل نہ ہونے کی صورت میں خاموش ہو جاتے ہیں اور لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حنفیوں کے پاس دلائل نہیں ہیں حالاں کہ ایسا نہیں ہے ،بلکہ وہ ڈھوسلے مانگتے ہیں اورہمارے پاس ڈھکوسلے نہیں ،بلکہ دلائل ہیں، اگر غیر مقلد ین دلیل کی بنیاد پر بات کریں تو قریب ہے کہ سارے غیر مقلدین حنفی بن جائیں ،لیکن وہ ایسا کرتے نہیں ۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے : #
        واذ أتتک مذمتی من ناقص
        فھی الشھادة لی بأنی کامل
اگر کسی ناقص العقل کی جانب سے میری مذمت آپ کے پاس پہنچے تو یہی کافی ہے میری حقیقت جاننے کے لیے کہ میں کامل ہوں۔

Flag Counter