Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شعبان المعظم 1437ھ

ہ رسالہ

13 - 18
نبی کریم ﷺ کی اطاعت

حکیم ا لامت مولانا اشرف علی تھانویؒ
	
منکرین پر جنوں کے اثر نہ ہونے کی وجہ
اب ایک شبہ یہ ہے کہ جو منکر ہیں ان کو کیوں نہیں لپٹتا؟ تو سمجھو کہ انسان میں ایک قوت دافعہ بھی ہے اس کا خاصہ یہ ہے کہ اگر یہ تخیل کرے کسی چیز کے دفعہ کا تو وہ چیز اسے نہیں ستا سکتی، انسان کی قوت فاعلہ بھی جن سے زیادہ ہے اور قوت دافعہ بھی تو اگر کوئی شخص یہ خیال کرکے بیٹھ جاوے کہ مجھے کوئی نہ ستاوے گا تو اس کو کوئی نہیں ستا سکتا او راگر کوئی کہے کہ پھر اس سے تو منکر ہی اچھے، وہ انکار کی بدولت اُن کے ضرر سے تو بچے ہوئے ہیں۔ پس ہم بھی انکار سے یہ کام لیں تو میں کہتا ہوں کہ ہم آیت الکرسی سے یہ کام کیوں نہ لیں اور سورہٴ جن سے کیوں نہ لیں؟ اب بحمدالله اس کے متعلق سب باتیں محقق ہو گئیں۔ اب اس میں یہ تاویل کرنا کہ آیت میں جن سے وہ لوگ مراد ہیں کہ جو چھپ کر قرآن سنا کرتے تھے یہ نری تحریف ہے، ذرا کسی تاریخ سے یہ تو بتلاؤ کہ جو چھپ کر قرآن سنا کرتے تھے انہوں نے اپنی قوم میں جاکر اسلام پھیلایا ہو۔

جنات کے جنتی ہونے کی تحقیق
اب وہ مسئلہ بتلاتا ہوں کہ اُس میں علماء کا اختلاف ہوا ہے، وہ یہ کہ اگر جن عمل صالح کریں تو ان کو جنت ملے گی یا نہیں؟ ایک قول امام صاحب رحمة الله علیہ کا ہے کہ عذاب سے تو بچیں گے، لیکن جنت میں جانے کا حکم نہیں کیا جاسکتا او راسی آیت سے استدلال کیا ہے کہ اس میں ایمان لانے پر مغفرت اور عذاب سے نجات کا وعدہ ہے، جنت کا وعدہ نہیں تو امام صاحب نے بہت احتیاط کی ہے کہ جس کی تصریح نہ تھی اس میں توقف فرمایا، اصل قول تو امام صاحب کا اتنا ہے اور یہ بھی احتیاط کی بنا پر ہے کہ اثبات بھی نہ کریں او رانکار بھی نہ کریں، مگر اب مشہور قول ہے کہ وہ جنت میں نہ جاویں گے، باقی پھر کہاں ہوں گے؟ تو اس کے متعلق مختلف احتمال ہیں۔ بعض نے ارض جنت میں کہا ہے۔ یہ ہے امام صاحب کے مذہب کا حاصل، مگر جو میری سمجھ میں آتا ہے وہ عرض کرتا ہوں کہ ظاہر اً یہ امام صاحب کی احتیاط ہے اور یہ بھی ثابت نہیں کہ اخیر تک امام صاحب اسی قول پر رہے، کیوں کہ دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر جن اچھے عمل کریں گے تو جنتی ہوں گے ۔ میں تو اس کو قریب قریب قطعی سمجھتا ہوں، ایک تو سورہٴ رحمن میں جنت کی نعمتیں ذکر کرکے فرمایا ہے ﴿فَبِأَیِّ آلَاء رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ﴾(اے جن وانس!) اپنے رب کی کون سی نعمت کا انکار کرتے ہو) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت کی نعمتیں دونوں ہی کو ملیں گی۔ نیز یہ بھی فرمایا کہ﴿لَمْ یَطْمِثْہُنَّ إِنسٌ قَبْلَہُمْ وَلَا جَانٌّ ﴾( یعنی حوروں کو ان سے پہلے نہ کسی انسان نے ہاتھ لگایا، نہ کسی جن نے) تو اگر جن کا احتمال ہی نہ تھا تو یہکیوں فرمایا اور اس سے بھی صاف کہ ﴿فریق فی الجنة وفریق فی السعیر﴾ ایک فریق جنت میں ہو گا اورایک فریق دوزخ میں ہو گا۔ تو دو فریق فرمائے ہیں، تیسرا فریق نہیں فرمایا اور یہ یقین ہے کہ دوزخ سے بچے رہیں گے۔ تو اب اگر وہ جنت میں نہ جاویں تو تیسرا فریق ہونا لازم آتا ہے، نہ وہ فریق فی الجنة میں داخل ہوئے ،نہ فریق فی السعیر میں۔

اعراف کے مکین
اب رہی یہ بات کہ بعض آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگ اعراف میں بھی رہیں گے، پس تیسرے فریق کا بھی ثبوت ہوا، مگر یہ شبہ بہت جلد زائل ہو جاوے گا۔ کیوں کہ اُسی مقام پر فرماتے ہیں﴿ادْخُلُواْ الْجَنَّةَ لاَ خَوْفٌ عَلَیْْکُمْ وَلاَ أَنتُمْ تَحْزَنُون﴾(تم جنت میں داخل ہو جاؤ، تم پر کوئی خوف نہیں نہ تم رنجیدہ ہو گے) اس میں دو تفسیریں ہیں، ایک تو وہ جو میں اختیارکرتا ہوں کہ یہ اہلِ اعراف کا قول ہے ،وہ دوزخیوں کو چھڑانے کے لیے اہل جنت کے بارے میں کہیں گے کہ﴿أَہَؤُلاء الَّذِیْنَ أَقْسَمْتُمْ لاَ یَنَالُہُمُ اللّہُ بِرَحْمَةٍ﴾( کیا یہ وہی لوگ ہیں کہ جن کے بارے میں تم قسمیں کھاتے تھے کہ الله تعالیٰ ان پر رحمت نہیں کرے گا۔)﴿قِیُلَ لَھُمْ﴾( دیکھو انہیں یہ کہہ دیا گیا کہ)﴿ادْخُلُواْ الْجَنَّة الخ﴾․( تم جنت میں چلے جاؤ ،تم پر کوئی خوف نہیں اور نہ تم رنجیدہ ہو گے۔)

دوسرا ایک قول اور ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے اہل اعراف کے لیے﴿ادْخُلُواْ الْجَنَّة﴾ یعنی تم بھی جنت میں د اخل ہو جاؤ۔ سو اس آیت میں تو دونوں احتمال ہیں۔ مگر میں دوسری آیت سے استدلال کرتا ہوں، فرماتے ہیں:﴿وَبَیْْنَہُمَا حِجَابٌ وَعَلَی الأَعْرَافِ رِجَالٌ یَعْرِفُونَ کُلاًّ بِسِیْمَاہُمْ وَنَادَوْاْ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَن سَلاَمٌ عَلَیْْکُمْ لَمْ یَدْخُلُوہَا وَہُمْ یَطْمَعُون﴾․(سورہ اعراف، آیت:46)
(ان دونوں کے درمیان ایک آڑ ہو گی اور اعراف کے اوپر بہت سے آدمی ہوں گے وہ لوگ ہر ایک کو ان کے قیافہ سے پہچانیں گے او رجنت والوں کو پکار کر کہیں گے کہ السلام علیکم ابھی یہ اہل اعراف جنت میں داخل نہ ہوئے ہوں گے او ران کے اُمید وار ہوں گے۔)

اس سے معلوم ہواکہ اہل اعراف کے جنت میں داخل ہونے کی امید ہو گی اور عالم آخرت عالم انکشاف حقائق ہے، وہاں غلط امید نہیں ہو سکتی۔ دوسرا استدلال اور ہے کہ سورہٴ حدید میں ہے:﴿ فَضُرِبَ بَیْْنَہُم بِسُورٍ لَّہُ بَابٌ بَاطِنُہُ فِیْہِ الرَّحْمَةُ وَظَاہِرُہُ مِن قِبَلِہِ الْعَذَابُ﴾․

(پھر ان کے درمیان ایک دیوار قائم کر دی جاوے گی، جس میں ایک دروازہ ہو گا کہ اس کے اندرونی جانب میں رحمت ہو گی اور بیرونی میں عذاب ہو گا۔) مگر اس سے قبل سمجھیے کہ حدیث میں ہے کہ تین قسم کے لوگ ہوں گے، ایک وہ کہ اُن کے حسنات زیادہ ہوں گے سیئات سے وہ تو جنت میں جائیں گے ،دوسرے وہ جن کے سیئات اور حسنات برابر ہوں گے، یہ لوگ اعراف میں ہوں گے، اب سنیے﴿بِسُورٍ لَّہُ بَابٌ﴾ کو مفسرین نے بالاجماع اعراف کہا ہے تو اس کے دوزخ میں ایک طرف عذاب ہے او رایک طرف رحمت ہے تو وہاں دونوں طرف کا اثر ہے۔ اب دوسرا مقدمہ یہ سمجھیے کہ مومن میں سے جو جاویں گے وہ گناہوں کی سزا ملنے کے بعد جنت میں جاویں گے تو اہلِ اعراف جوان سے اصلح حالاً ہیں ،وہ کیوں جنت میں نہ جاویں گے؟! اور گفت گو اُن جنوں میں ہو رہی ہے جو صالح ہوں، ہاں! اس کے ہم بھی قائل ہوں گے کہ جنوں میں بھی تین قسم کے لوگ ہوں گے، اُس میں سے ایک قسم کے لوگ وہ بھی ہیں جن کے حسنات وسیئات برابر ہوں گے اور وہ اولاً اعراف میں ہوں گے ،مگر کچھ دنوں کے بعد پھر جنت میں جاویں گے۔

اعراف کے مکینوں کے بارے میں غلط فہمی
اور اس اعراف کے متعلق ایک او ربات یاد آئی جو عوام میں مشہورہے اور بالکل غلط ہے، وہ یہ کہ رستم اور نوشیروان اور حاتم طائی یہ سب اعراف میں رہیں گے۔ لوگوں کی بھی عجیب حالت ہے، اپنی طرف سے جو چاہتے ہیں کہہ دیتے ہیں، گویا یہ اس محکمہ کے حاکم ہیں کہ اُن کے اختیار میں ہے جس کو جہاں چاہیں بھیج دیں۔ خوب سمجھ لو کہ اگر ان کا خاتمہ کفر پر ہوا ہے تو محض سخاوت یا شجاعت یا عدالت کی وجہ سے جنت کے مستحق نہیں ہو سکتے۔ کسی کے اندر کتنی ہی خوبیاں ہوں جب تک ایمان نہ ہو گا سب بیکار ہیں۔ مجھے یہ شعر یاد آتا ہے #
        شاہدآں نیست کہ موئے ومیانے دارد
        بندہٴ طلعت آں باش کہ آنے دارد
ترجمہ:”محبوب وہ نہیں جو پتلی کمر اور عمدہ بال رکھتا ہو، بلکہ محبوبیت ایک آن اورادا میں ہوتی ہے۔“

مسلمانوں کی پسندیدہ صفت جوسبب ہے نجات کا
آج کل بعض لوگ کفار کی ظاہری خوبیاں دیکھ کر اُن کے مقابلہ میں مسلمانوں کو ذلیل سمجھتے ہیں، مگر سمجھیے کہ ان کا ایک ایمان سب کے مقابلہ میں ہے ،ان میں ایک ایمان کی آن ایسی ہے کہ اُس کے مقابلہ میں دوسروں کی ساری خوبیاں ہیچ ہیں، کیوں کہ #
        شاہد آں نیست کہ موئے ومیانے دارد
        بندہٴ طلعت آں باش کہ آنے دارد
ایک شخص نے مجھ سے خود اپنا مرض بیان کیا کہ مجھ کو ایک عورت سے تعشق ہو گیا ہے، میں نے کہا کہ وہ عورت خوب صورت ہے؟ کہنے لگا کہ میں اُس کی ایک آن پر عاشق ہوا ہوں تو جوآن پر عاشق ہو اُس سے یہ کہنا کہ اس کی ناک تو چپٹی ہے حماقت ہے۔ آپ تعجب کریں گے کہ بعض کو بڈھوں کے ساتھ بھی عشق ہوتا ہے۔ مشہور ہے کہ لیلےٰ بڑھیا ہو گئی تھی، مگر مجنوں اسی کے پیچھے دیوانہ تھا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اُس کے حسن پر عاشق نہ تھا، کیوں کہ #
        عشقہائے کز پئے رنگ بود
        عشق نبود عاقبت ننگے بود
ترجمہ:”جو عشق محض رنگ وروپ پر ہوتا ہے وہ واقع میں عشق نہیں ہوتا، محض ننگ ونام ہوتا ہے۔“

تو بات کیا ہے لیلےٰ میں؟ کوئی آن تھی جو مجنوں کو پسند آگئی تھی، ورنہ صورت تو اُس کی یہ تھی #
        گفت لیلےٰ راہ خلیفہ کاں توئی
        کز تو مجنوں شد پریشان وغوی
ترجمہ:”لیلےٰ سے خلیفہ نے پوچھا کہ تو وہی ہے جس سے مجنوں پریشان اور عقل گم کردہ ہو گیا ہے؟“
        از دیگر خواباں تو افزوں نیستی؟
        گفت خامش چوں تو مجنوں نیستی
ترجمہ:”دوسرے حسینوں سے تو کسی بات میں زیادہ تو ہے نہیں، پھر یہ کیا بات ہے؟ اُس نے جواب دیا جب تو مجنوں نہیں تو خاموش ہی رہ۔“

تو مسلمانوں کی یہ ادا، جس کو ایمان کہتے ہیں، ایسی ہے کہ حق تعالیٰ کو یہ پسند ہے، آپ دوسرے اخلاق کو لیے پھرتے ہیں۔ تو حاتم طائی وغیرہ میں گو اخلاق تھے، لیکن اگر ایمان نہ تھا تو الله میاں کو یہ اخلاق نرے پسند نہیں تو اُن کے لیے زبردستی اعراف تجویز کرنا یہ غلطی ہے۔ غرض اعراف کا ذکر اس پر آگیا تھا کہ بعض لوگوں نے جنوں کو اعراف میں کہا ہے تو امام صاحب رحمة الله علیہ نے اول نظرمیں ممکن ہے فرما دیا ہو۔ یہ ہے میرا خیال اس کے متعلق۔ خیر یہ تو متعلقات تھے۔

اتباع اور انقیاد کے منافع
اب میں اصل مقصود کا پھر اعادہ کرتا ہوں او ربیان کو ختم کرتا ہوں کہ غور کرو کہ حضور صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے نائب داعی ہیں تو اُن کے ساتھ وہی برتاؤ کرو جو کہ داعی سے کرتے ہو۔ پھر میں ایک بشارت دیتا ہوں کہ اگر اُن کا اتباع کرکے عمل کرو گے تو دو دولتیں ملیں گی، ایک تو حلاوت اعمال میں کہ وہ مغنی (بے پروا کرنے والی) ہو گی اسرار کے دریافت کرنے سے، اُس مزہ میں ایسے مستغرق ہوں گے کہ پھر اسرار کی طرف توجہ بھی نہ کریں گے۔ دوسری دولت یہ نصیب ہو گی کہ جن اسرار پر مرتے پھرتے ہیں اُن کا دروازہ بھی کھلے گا۔ پھر آپ حکمائے اُمت سے اور فقہائے امت سے ہوں گے۔ اور یہ کمال تقویٰ سے حاصل ہوتا ہے۔ مولانا محمد قاسم صاحب رحمة الله علیہ نے کیا کسی دوسرے عالم سے زائد پڑھا تھا؟ نہیں۔ پھر اُن میں کیا بات تھی؟ یہی تقویٰ کی برکت تھی۔ حدیث میں ہے کہ :”من عمل بما علمہ الله علم الله مالم یعلم“ مولانا (رومی) فرماتے ہیں:
ترجمہ:” بے کتاب وبے معین واستاد کے انبیاء جیسے علوم اپنے اندر پاؤ گے۔“

اب میں ختم کرتا ہوں او رکہتا ہوں کہ دعا کرو کہ خدا تعالیٰ عمل کی توفیق دے اور میں کہتا ہوں کہ اگر دین کی ضرورت سے نہیں تو تمدن ہی کی ضرورت سے ان حجتوں کو ترک کرو، اس سے ہمارے اجتماع کا شیرازہ منتشر ہے، جب تک آپ اس ﴿ لِمَ﴾ اور﴿کَیفَ﴾ کو نہ چھوڑیں گے مذہب کو نہیں پکڑ سکتے اور جب تک مذہب نہ ہو گا اجتماع نہ ہو گا۔ یہی راز ہے ہماری پریشانی کا ،اب دعا کرو خدا عمل کی توفیق دے۔

”وصلی الله تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد واٰلہ واصحابہ اجمعین․“

Flag Counter