Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شعبان المعظم 1437ھ

ہ رسالہ

17 - 18
مبصر کے قلم سے

ادارہ
	
تبصرہ کے لیے کتاب کے دو نسخے ارسال کرنا ضروری ہے۔ صرف ایک کتاب کی ترسیل پر ادارہ تبصرے سے قاصر ہے۔ تبصرے کے لیے کتابیں صرف مدیر الفاروق یا ناظم شعبہ الفاروق کو بھیجی جائیں (ادارہ)

تذکرہ حضرت علامہ تونسوی رحمةاللہ علیہ
تالیف: مولانا محمد عبدالغفار تونسوی
صفحات:1000 سائز:20x30
ناشر: جامعہ عثمانیہ، جامع مسجد قباء، تونسہ شریف، ضلع ڈیرہ غازی خان، پنجاب

حضرت مولانا محمد عبدالستار تونسوی رحمة الله علیہ کا شمار دینی خدمات کے حوالے سے دارالعلوم دیوبند کے نامور او رممتاز ترین فضلاء میں ہوتا ہے۔ آپ نے صحیح بخاری شریف شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمةالله علیہ سے پڑھی اور بعد ازاں حضرت مدنی  ہی کے مشورہ سے رد رافضیت کو رس امام اہل سنت حضرت مولانا عبدالشکور لکھنوی رحمة الله علیہ سے کیا، درس وتدریس ، وعظ ونصیحت، رد فرق باطلہ اور تبلیغی و دینی دیگر خدمات کے علاوہ آپ کا اہم اور نمایاں کارنامہ ردّ رفض ہے کہ رافضیت کی تردید میں آپ کو اتھارٹی کی حیثیت حاصل تھی اور آپ نے اس انتہائی شاطر وچالاک فتنے کی سرکوبی کے لیے دن رات ایک کیے رکھا، اس فتنے کے بارے میں صحیح اور حقیقی معلومات حاصل کرنے اور اس کی بنیادی واہم کتب تک رسائی حاصل کرنے کے لیے آپ نے اندرون وبیرون ملک سفر کیے۔ شیعوں کے اہم مناظرین ومحققین کے ساتھ تقریباً باون مناظرے آپ نے کیے اور ان تمام مناظروں میں آپ نے اہل سنت والجماعت کا سر فخر سے بلند کیا او رآپ کام یاب وکام ران رہے۔ نیز فتنہ رفض کی سرکوبی کے لیے آپ نے اندرون ملک دوروں، مناظروں، مباحثوں اور جلسوں کے علاوہ بیرون ملک بھی دورے، جلسے او رمناظرے کیے، اس سلسلے میں مدینہ منورہ بھی تشریف لے گئے اور علمائے حرمین کی درخواست پر شیعہ عقائد کے رد میں”بطلان عقائد شیعہ“ نامی کتاب تالیف کی جو لاکھوں کی تعداد میں سعودی حکومت کی طرف سے شائع کرکے تقسیم کی گئی اور بعد ازاں”کشف الغوامض عن عقیدة الروافض“ کے نام سے شائع ہوئی اور وقت اشاعت سے لے کر اب تک مدینہ یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے۔

زیر نظر کتاب حضرت تونسوی رحمة الله علیہ کی حیات وخدمات کے تعارف پر مشتمل ہے جسے ان کے لائق فرزند وجانشین حضرت مولانا محمد عبدالغفار تونسوی دامت برکاتہم العالیہ صاحب نے مرتب کیا ہے۔ کتاب کے مندرجات کو درج ذیل بڑے عنوانات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ حضرت علامہ تونسوی کے آباء واجداد کا مختصر تذکرہ ، تذکرہ حضرت علامہ تونسوی، حضرت تونسوی کے چند مناظرے، حضرت علامہ تونسوی کی تصنیفات وتالیفات ، روافض کے عقائد ونظریات ، روافض اور نکاح موقت، سفر آخرت، حضرت علامہ تونسوی کے ملفوظات وارشادات، نقوش وتأثرات، نامور شخصیات کے تعزیتی پیغامات، اخبارات وجرائد کا خراج تحسین، منظوم خراج عقیدت، آخر میں اسناد وتحریرات کا عکس، جامعہ عثمانیہ اور جامع مسجد قباء تونسہ شریف کی تصاویر شامل کی گئی ہیں۔

حضرت تونسوی رحمة الله علیہ نے فتنہ قادیانیت کی سرکوبی میں بھی نمایاں خدمات سر انجام دی ہیں۔ زیر نظرکتاب میں اس سلسلے کا ایک اہم واقعہ نقل کیا گیا جس کو یہاں ذکر کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ چناں چہ مؤلف لکھتے ہیں:

”1985“ کے آخر میں تونسہ شریف کے مضافات میں واقع بستی، شیر گڑھ، میں یہ واقعہ پیش آیا کہ علاقہ کے ایک مرزائی وڈیرے سردار امیر محمد قیصرانی کو وفات کے بعد مسجد میں دفن کر دیا گیا۔ جب یہ خبر عام ہوئی تو حضرت والد صاحب نے جامعہ عثمانیہ میں تمام مکاتب فکر کے علماء کا اجلاس طلب کرکے پرزور احتجاج کرتے ہوئے انتظامیہ سے اس مرزائی کے ناپاک وجود کو مسجد سے نکالنے کا مطالبہ کیا۔

لیکن انتظامیہ کی بے حسی اور عدم دلچسپی کے باعث جب اس سانحہ کو دو ماہ کا وقت گزر گیا تو تمام مکاتب فکر کی طرف سے ضلعی انتظامیہ کے اس ناروا رویہ کے خلاف ایک متفقہ احتجاجی جلوس کا پروگرام بنایا گیا جو 28/فروری1986ء کو حضرت والد صاحب کی قیادت میں ڈی سی آفس کی طرف روانہ ہوا۔

اس جلوس میں کم وبیش ایک لاکھ کے قریب افراد شریک تھے۔ محبت نبوی کو اپنے دلوں میں بسائے ہوئے مسلمانوں کا یہ جم غفیر کچہری روڈ پر پہنچا تو ڈپٹی کمشنر ڈیرہ غازی خان نے پولیس کی بھاری نفری سے جلوس کو روکا، حضرت والد صاحب نے ڈپٹی کمشنر کی موجودگی میں بلاخوف لومة لائم ببانگ دہل حق گوئی کا فریضہ ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ:

”مرزائی کے ناپاک وجود کو مسجد سے فی الفور نکالا جائے، اگر حکومت نے سُستی کی اور مسلمانوں کے جائز وحق مطالبہ کی پرواہ نہ کی تو ملک میں ایسی آگ بھڑک اٹھے گی جس کو حکومت سنبھال نہیں سکے گی۔“

لیکن انتظامیہ نے پہلے سے طے شدہ اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ختم نبوت کے ان پروانوں پر آنسو گیس اور لاٹھی چارج شروع کر دیا۔ بعض رافضی پولیس اہلکار موقع پاکر حضرت والد صاحب کے قریب پہنچ گئے اور آپ کو بہیمانہ تشدد کا نشان بنایا جس سے آپ کا سر اور جسم شدید متاثر ہوا اور کاری زخم آئے۔

اگلے دن جب حضرت والد صاحب اور سینکڑوں مسلمانوں کے زخمی ہونے کی خبر اخبارات میں چھپی تو ملک بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور شہر شہر احتجاج شروع ہو گیا، ملتان میں بھی ایک بہت بڑا احتجاجی مظاہرہ ہوا جس سے خطاب کرتے ہوئے علماء نے انتظامیہ سے کہا کہ24 گھنٹے کے اند ر اندر مرزائی کے ناپاک وجود سے مسجد کو فوراً پاک کیا جائے ورنہ حالات کی ذمہ دار حکومت خود ہو گی۔

چناں چہ حضرت والد صاحب اور ختم نبوت کے دیگر پروانوں کا لہو رنگ لایا اور حکومت نے اگلے دن10/ بجے ہی اس مرزائی کی ناپاک لاش کو مسجد سے نکال کر اس کے گھر کے صحن میں دفن کر دیا۔“

یہ کتاب حضرت تونسوی رحمة الله علیہ کی حیات وخدمات کے تعارف کے حوالے سے ایک عمدہ، بہترین او رجامع علمی کاوش ہے۔ مؤلف نے امت کے اس علمی ودینی سرمایے کو منظر عام پر لاکر علماء او رطلباء، عوام الناس پر احسان عظیم کیا ہے۔ الله تعالیٰ ان کی اس کاوش کو قبول فرماکر اسے امت کے لیے مفید ونافع بنائے۔ کتاب کافونٹ سائز کافی بڑا رکھا گیا ہے جو کتاب کے حسن ومطالعہ کو متاثر کررہا ہے۔ اگرفونٹ سائز کو مناسب ومتوازن کر دیا جائے تو یہ کتاب کے حسن وافادیت میں اضافے کا باعث ہو گا۔

کتاب کی جلد بندی مضبوط اور طباعت واشاعت معیاری ہے۔

انگوٹھے چومنے سے متعلق ..بعض فقہاء احناف کی ایک عبارت کی تحقیق
تالیف: مفتی محمد راشد ڈسکوی
صفحات:120 سائز:23x36=8
ناشر: مکتبہ عمر فاروق، شاہ فیصل کالونی نمبر4، کراچی نمبر25

جیسا کہ نام سے واضح ہے کہ زیر نظر کتاب میں بوقت اذان انگوٹھے چومنے سے متعلق بعض فقہائے احناف کی ایک عبارت کی تحقیق پیش کی گئی ہے جو حاشیہ ابن عابدین، حاشیہ الطحطاوی علی مراقی الفلاح اور تفسیر جلالین کے حاشیہ میں نقل کی گئی ہے۔ یہ عبارت ایک عام قاری اور طلبہ کے لیے تشویش کا باعث بن سکتی تھی، لہٰذا مؤلف نے اس کے اصل مصادر ومراجع کو تلاش کرکے ان مصادر ومراجع کی حیثیت واستناد پر تحقیقی کلام، مذکورہ کتب میں اس کے اندراج کی وجہ اور حقیقت حال کو بیان کرکے ٹھوس دلائل اور علمی طرز واسلوب میں اس کا بہترین جواب تحریر کیا ہے۔

اس کتاب کو دو ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے، جن میں سے باب اول میں بوقت اذان انگوٹھے چومنے کی زیر بحث عبارت کی تحقیق پیش کی گئی ہے، جب کہ باب ثانی میں اکابر علمائے دیوبند کے انگوٹھے چومنے سے متعلق فتاوی جات جمع کیے گئے ہیں۔ کتاب پر صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم الله خان زید مجدہم اور جامعہ فاروقیہ کراچی کے استاذ حدیث وشعبہ افتاء کے رکن رکین حضرت مولانا مفتی عبدالباری صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی تقاریظ بھی شامل کی گئی ہیں۔

یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک جامع وعمدہ تحریر ہے، علماء، طلبہ اور اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے حضرات کو اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

کتاب کا ٹائٹل کارڈ کا ہے اور طباعت واشاعت میں سلیقہ مندی نمایاں ہے۔

Flag Counter