Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1437ھ

ہ رسالہ

9 - 19
ریل گاڑی، بس، کشتی اور ہوائی جہاز میں وضو اورنماز

مفتی محمد راشد ڈسکوی
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی

جناب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے سفر کو عذاب کا ایک ٹکڑاقرار دیا ہے، ارشاد فرمایا: ”سفر عذاب کا ٹکڑا ہے، یہ تم میں سے سفر کرنے والے کو اس کی نیند سے، اس کے کھانے سے اور اس کے پینے سے روکتا ہے، چناں چہ جب تم میں سے سفر میں جانے والا اپنی حاجت پوری کر لے تو وہ اپنے اہل وعیال کی طرف جلد لوٹ آئے“۔

”السفر قِطعةٌ مِن العذابِ، یَمنَع أحدَکم طعامَہ وشرابَہ ونومَہ، فإذا قَضٰی نَھمَتَہ، فلیُعَجِّل إلی أھلِہ“․ (صحیح البخاري، کتاب الحج، باب: السفر قطعة من العذاب، رقم الحدیث: 4081)

سفر کو عذاب کا ٹکڑا کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں مسافر سفر کی مشقت، تھکاوٹ، گرمی سردی کے پیش آنے ، دشمنوں یا ہلاکت یا سامان وغیرہ کی چوری کے خوف ، اہل وعیال کی جدائی اور اکثر وبیشتر سفر کے ساتھیوں کی بداخلاقیوں اور ان کی طرف سے پہنچنے والی اذیتوں کی بنا پر پُرسکون نیند اور اس کی لذت، کھانے پینے، راحت وآرام اور اطمینان وسکون کے ساتھ عبادات کی ادائیگی پر قادر نہیں ہوتا، اس کے علاوہ احباب کی جدائی، نفس کا مجاہدہ، خیالات کا منتشر ہو جاناوغیرہ بھی پایا جاتا ہے۔ اور کبھی تو یہ حالات، احساسات اور کیفیات اتنی زیادہ حاوی ہو جاتی ہیں کہ انسان ان کے سامنے عاجز ہو جاتا ہے، کچھ اسی قسم کی حالت وکیفیت کو سمجھنے کے لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب اس قول کو سامنے رکھا جائے تو بات کو سمجھنا آسان ہو جائے گا، فرمایا: ”لو لا أني أزِید علی رسولِ اللہ صلی الله علیہ وسلم لقلت: ”العذاب قطعة من السفر“․

حضرت عمر رضی اللہ عنہ یوں فرماتے ہیں کہ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ میرے اس قول سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے قول پر زیادتی لازم آئے گی تو میں کہہ دیتا کہ سفر عذاب کا ٹکڑا نہیں بلکہ عذاب سفر کا ٹکڑا ہے(”العذاب قطعة من السفر“) لیکن چوں کہ ان الفاظ سے آپ صلی الله علیہ وسلم کے قول پر زیادتی لازم آ رہی ہے، اس لیے میں یہ الفاظ نہیں کہہ رہا۔

یہ قول علامہ نفراوی مالکی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”الفواکہ الدواني“ میں نقل کیا ہے، ملاحظہ ہو: الفَواکِہُ الدَّواني علی رسالة ابن أبي زید القَیْرواني، باب في السلام والاستیذان: 2/545،دار الکتب العلمیة) لیکن اسی قول کو علامہ سرخسی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”المبسوط“میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو:المبسوط للسرخسي، کتاب الإجارات، باب انتقاض الإجارة، 16/4، دار المعرفة)․

اسی طرح حجاج بن یوسف کا قول مشہور ہے:
”لولا فرحة الإیاب لما عذبت أعدائي إلا بالسفر“․ کہ اگر (میرے سامنے) سفر سے واپس لوٹنے والوں کی خوشی نہ ہوتی تو میں اپنے دشمنوں کو صِرف سفر(کرنے)کا عذاب ہی دیتا۔

الغرض سفر کسی نہ کسی مجبوری کی وجہ سے ہر کسی کو اختیار کرنا ہی پڑتا ہے اور یہ بات بھی ہے کہ زمانہ قدیم میں ذرائع سفر اور تھے اور موجودہ زمانہ میں ذرائع سفر کی بھی بہت ساری ترقی یافتہ شکلیں موجود ہیں، جن کے ذریعے سفرکی بے شمار تکالیف کا مداوا بھی ہو چکا ہے، ایسے میں ضروری ہے کہ جس طرح ہر شخص سفر میں جانے سے قبل زاد ِ راہ کا بندوبست کرتا ہے، سفر میں متوقع استعمال کی اشیاء کو جمع کرتا ہے، حتی الوسع سفر کو آرام دہ بنانے کی خاطر بہت پہلے سے تیاری کرتا ہے کہ سفر میں کسی قسم کی دشواری پیش نہ آئے، ایسے ہی ان جدید ذرائع سفر کے استعمال کے دوران درپیش عبادات کے احکامات اور ان کی ادائیگی کی ممکنہ صورتوں کا بھی علم حاصل کیا جائے، تا کہ دورانِ سفر عبادات کی صحیح انجام دہی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے ہاں سرخ رو ہوا جا سکے، چناں چہ سوچا گیا کہ ان سواریوں (مثلا: بس، ریل گاڑی، کشتی، بحری جہاز اور ہوائی جہاز وغیرہ )میں سفر کرتے ہوئے وضو ونماز سے متعلقہ مسائل ایک جگہ جمع کر دیے جائیں(اگرچہ متفرق طور پر مختلف فقہی کتب بالخصوص اردو کتب ِ فتاوی میں موجود ہیں)۔تاکہ کوئی بھی مسلم اپنی زندگی کے اس موڑ سے متعلقہ مسائل دینیہ سے ناواقف نہ رہے۔

اکثر اوقات دیکھنے میں یہ آیا کہ مسافر حضرات اپنے سفر میں ضرورت پڑنے والی ہر شے کی تو خوب فکر کرتے ہیں، لیکن سفر میں کون کون سی نماز آئے گی؟ اس کی ادائیگی کی کیا ترتیب بسہولت بن سکے گی؟ وضو کرنے کے لیے کیا تدابیر اختیار کرنا مفید رہے گا؟ وغیرہ وغیرہ

اس بارے میں شہیدِ اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”سفر میں بعض پکے نمازی بھی نمازیں قضا کر دیتے ہیں، عذر یہ ہے کہ ایسے رش میں نماز کیسے پڑھیں؟یہ بڑی کم ہمتی اور غفلت کی بات ہے اور پھر ریل میں کھانا پینا اور دیگر طبعی حوائج کا پورا کرنا بھی تو مشکل ہوتا ہے، لیکن مشکل کے باوجود ان طبعی حوائج کو بہر حال پورا کیا جاتا ہے، آدمی ذرا سی ہمت سے کام لے تو مسلمان کیا، غیر مسلم بھی نماز کے لیے جگہ دے دیتے ہیں اور سب سے بڑھ کر افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض لوگ حج کے مقدس سفر میں بھی نماز کا اہتمام نہیں کرتے، وہ اپنے خیال میں تو ایک فریضہ ادا کرنے جا رہے ہیں، مگر دن میں خدا کے پانچ فرض غارت کر دیتے ہیں، حاجیوں کو یہ اہتمام کرنا چاہیے کہ سفرِ حج کے دوران ان کی ایک بھی نماز باجماعت فوت نہ ہو، بلکہ ریل میں اذان واقامت اور جماعت کا بھی اہتمام کرنا چاہیے“۔

(آپ کے مسائل اور ان کا حل، مسافر کی نماز، ریل گاڑی میں نماز کس طرح ادا کی جائے؟: 4/100)

اس لیے اگر ان مسائل کا بغور ایک بار بھی مطالعہ کر لیا جائے یا کم از کم سفر سے قبل ایک بار نظر سے گذار لیے جائیں یا دوران ِ سفر اپنے ہم راہ رکھ لیے جائیں توبھی ان شاء اللہ نفع سے خالی نہیں۔

ٹرین میں وضو کیسے کیا جائے؟
بسا اوقات ریل گاڑی میں مسافروں کا ازدھام اس قدر ہوتا ہے کہ بیت الخلا تک جانا تو درکنار، ایک سیٹ سے دوسری سیٹ تک جانا بھی انتہائی دشوار ہوتا ہے، پھر اس پر مستزاد نماز کے لیے جگہ کا ملنا اور بھی زیادہ دشوار ہوتا ہے، تو اس صورت میں بھی طہارت کے حصول اور نماز کی ادائیگی کی حتی المقدور کوشش کرنا لازم ہے، مثلا:
1... اگر سفر کسی ایسے اسٹیشن سے شروع کیا جا رہاہے، جہاں آپ کے علم کے مطابق ٹرین کچھ دیر اسٹیشن پر رُکی رہے گی، تو ایک نظر بیت الخلا میں ڈال لی جائے، وہاں نَلوں میں پانی آ رہا ہے یا نہیں؟! اگر پانی موجود ہو تو بہت اچھا، بصورت ِ دیگر ایک کام تو یہ کر لیا جائے کہ اسٹیشن پر ہی وضو کر لیں اور جہاں تک ممکن ہو اپنا وضو محفوظ رکھے، تا کہ کم از کم ایک نماز تو اس وضو سے ادا کی جا سکے۔
2... کسی اسٹیشن پر گاڑی رکے اور وہاں پانی نظر آجائے، تو وہاں وضو کر لیں، اگرچہ ابھی نماز کا وقت نہ ہوا ہو، کیوں کہ عین ممکن ہے کہ جب نماز کا وقت آئے تب بسہولت پانی میسر نہ ہو سکے۔
3... وضو کے لیے کسی بوتل ، گیلن وغیرہ میں پانی اپنے ہم راہ رکھے، تاکہ بوقت ضرورت وضو کیا جا سکے۔
4... اس کی ایک بہترین صورت تبلیغی جماعت والوں کو (بالخصوص محرم مستورات کی جماعتوں کو)اختیار کرتے دیکھا گیا کہ اپنے ہم راہ سپرے والی بوتل (جو حجام حضرات حجامت کے وقت بال وغیرہ گیلے کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں)پانی کی بھر کر رکھتے ہیں، پھر ایک شخص دوسرے کے اعضائے وضو پر پانی کا سپرے اس حد تک کرتا ہے کہ اعضائے وضو سے پانی کے قطرے گرنا شروع ہو جاتے ہیں، وضو کرنے والا اپنے اعضائے وضو کو اچھی طرح مَل لیتا ہے، اس طرح بہت کم پانی میں نہایت سہولت کے ساتھ وضو ہو جاتا ہے، نیچے کیچڑ وغیرہ کا بھی زیادہ اندیشہ نہیں ہوتا اور اندیشہ ہو بھی تو نیچے کوئی بالٹی، برتن یا کپڑا وغیرہ رکھ لیا جائے ، تو یہ مسئلہ بھی باقی نہیں رہتا، تاہم اس طریقے کے اختیار کرنے میں یہ ضروری ہے کہ اعضائے وضو سے پانی ٹپکنے والی صورت بن جائے، ورنہ محض گیلا ہاتھ پھیرنے سے وضو نہیں ہو گا، اس صورت کے اختیار کرنے میں مستورات کے لیے بھی بہت بڑی سہولت ہے کہ وضو کے لیے انہیں زیادہ پریشان نہیں ہونا پڑتا، سچ بات تو یہ ہے کہ اگر نیت صحیح اور پختہ ہو تو راستے خود بخود بنتے چلے جاتے ہیں۔

ٹرین میں وضو کرنا ممکن نہ ہو تو کیا کیا جائے؟
اور اگر وضو کے لیے پانی دست یاب نہ ہو سکے اور وقت قضا ہو رہا ہو توایسی صورت میں وضو کے بجائے تیمم کرنا ہو گا، مگر اس تیمم کے لیے شرط یہ ہے کہ ریل کے کسی ڈبے میں بھی پانی نہ ہو اور ایک میل شرعی (1.83کلومیٹر، احسن الفتاوی: 2/56)کے اندر پانی موجود ہونے کا علم نہ ہو، جہاں ریل رُکتی ہو۔

ٹرین میں غسل کی حاجت ہو جائے تو کیا کریں؟
بذریعہ ٹرین سفر کرتے ہوئے رات میں غسل کی حاجت پیش آ جائے، تو اس بارے میں مندرجہ ذیل تدابیر اختیار کرتے ہوئے غسل کیا جا سکتا ہے:
1...قریبی اسٹیشن معلوم کرے، جہاں کچھ نہ کچھ دیر ٹرین نے ٹھہرنا ہو، اس اسٹیشن کے آنے سے پہلے پہلے ڈبے کے بیت الخلا میں جا کر اپنے کپڑوں کی ناپاکی والی جگہ کو دھو کر پاک کر لے، پھر جسم پر (ٹانگوں وغیرہ پر) لگی ہوئی نجاست کو بھی دور کر لے، پھر اسٹیشن پر اتر کر وہاں بنے ہوئے بیت الخلا یا غسل خانوں میں جا کر جلدی سے فرائض ِ غسل پورے کر لے، وہاں ممکن نہ ہو اور اسٹیشن پر کوئی مسجد ہو، اس کے غسل خانوں یا بیت الخلا میں غسل کرنے کی کوشش کر لی جائے، یہ بھی ممکن نہ ہو تو اسٹیشن پر موجود پانی فروخت کرنے والوں سے پانی قیمتا خرید کر اس سے غسل کر لے، اس بارے میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

” غسل اسٹیشن پر مشکل نہیں، لنگی باندھ کر پلیٹ فارم پر بیٹھ کر سقّہ کو پیسے دے کر کہہ دے کہ مشک سے پانی چھوڑ دے اور اس سے قبل ٹانگیں وغیرہ ریل کے پائخانہ یا غسل خانہ میں جا کر پاک کرے ۔ یا برتن میں پانی لے کر، یا اگر نل میں پانی موجود ہو تو اس سے (ریل کے یا اسٹیشن پر بنے ہوئے) پائخانہ یا غسل خانہ میں بھی غسل ممکن ہے، ہمت کی ضرورت ہے، ایسی حالت میں تیمم درست نہیں۔(امداد الفتاوی، کتاب الطہارة، فصل فی التیمم، ریل میں تیمم جنابت کی شرط: 1/97)

2...عموماً ٹرین میں اتنا پانی موجود ہوتا ہے کہ اس سے غسل کیا جا سکے، اگر اس ڈبہ کے بیت الخلا میں پانی نہ ہو، جس میں سفر کر رہا ہے، تو دوسرے ڈبوں میں جا کر پانی تلاش کرے، جس ڈبے میں بھی پانی ہووہاں غسل کر لے، اس سلسلے میں اگر کوئی برتن یا بالٹی وغیرہ سفر میں ساتھ ہو تو اس میں پانی بھر کے احتیاط کے ساتھ، اسراف سے بچتے ہوئے غسل کے فرائض پورے کیے جا سکتے ہیں، اپنی طبیعت کے خلاف ایسی جگہ میں غسل کرنے کے لیے بس تھوڑی سی ہمت کی ضرورت ہوتی ہے اور جب معاملہ آخرت کا ہو تو ایمان والوں کو اس طرح کی ناگواریوں کی پروا نہیں کرنی چاہیے، بالخصوص جب کہ ایسے وقت اور ایسی جگہ میں ایسے عمل پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ، اس کی محنت ومشقت کے مقابلے میں بہت زیادہ انعام واعزاز ملنے والا ہو۔

البتہ! بسا اوقات موسم کے اعتبار سے ٹرین میں پانی بہت زیادہ ٹھنڈا ہونے کا امکان ہوتا ہے اور قویٰ کے اعتبار سے مبتلا بہ ؛ نوجوان یا بوڑھا اور صحت مند یا مریض اور مرد یا عورت کوئی بھی ہو سکتا ہے، لہٰذا اپنی برداشت کے بقدر اس پانی کا جائزہ لے لے، عام طور پر ٹھنڈا پانی تھوڑا تھوڑا لے کر بدن کے مختلف اعضا پر یکے بعد دیگرے بہایا جائے تو قابلِ برداشت ہوتا ہے، یک دم پورے بدن پر بہا لینا ممکن نہیں ہوتا، چناں چہ اسی طرح بتدریج اعضا کو دھونا ممکن ہو تو ایسا کر لے، ورنہ نماز کے باقی وقت کے مطابق پانی کا ٹھنڈا پن دور ہونے کا انتظار کرے۔ اور اگر پانی اتنا ٹھنڈا ہو کہ اعضا شَل ہو جانے کا اندیشہ قویہ ہو تو غسل موٴخر کردے اور تیمم کر لے، (جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے)۔ اس بارے میں حضرت مولانا مفتی محمود الحسن گنگوہی صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

” اول اس جگہ (ٹرین کے بیت الخلا میں جگہ کو پاک کرنے کے لیے یا اس جگہ کے ناپاک ہونے کا شک ختم کرنے کے لیے)پانی بہا دے، پھر تھوڑا تھوڑا پانی ڈال کر غسل کرے، ہاں اگر پانی اتنا ٹھنڈا ہے کہ بدن شل ہو جائے تو تیمم کر لے، پھر جب قابلِ برداشت پانی مل جائے تو غسل کر لے“۔ فقط واللہ اعلم
(فتاوی محمودیہ، کتاب الصلاة، باب صلوٰة المسافر، سفر کے چند ضروری مسائل: 7/544)

3... بالفرض ٹرین کے بیت الخلا میں اتنا تھوڑا پانی ہو کہ وہ وضو کے لیے تو کافی ہو جائے گا، مگر غسل کے لیے کافی نہیں ہو گا تو یہ شخص اس پانی سے ناپاکی دور کر کے وضو کے فرائض پورے کر لے اور غسل کے لیے تیمم کر لے، لیکن اس تیمم کے صحیح ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا خیال رکھنا ضروری ہے، ورنہ تیمم درست نہیں ہو گا:
1... ٹرین کے کسی ڈبے میں بھی پانی نہ ہو، جس سے غسل کے فرائض ادا ہو سکیں۔
2...راستے میں ایک میل شرعی (1.83کلومیٹر ،احسن الفتاوی: 2/56)کے اندر اسٹیشن نہ ہو، جہاں پانی کا موجود ہونا معلوم ہو؛ یا اسٹیشن تو ہو، لیکن چلتی ٹرین کے وقت کے اندر اندر وہاں رکنے کی کوئی صورت نہ ہو؛ یا ٹرین کا وہاں رکنا معلوم ہو، لیکن وہ اتنی دیر وہاں نہ ٹھہرتی ہوکہ وہ اسٹیشن پر غسل کر سکے۔
3... تیمم کسی پتھر، اینٹ یا مٹی والی چیز پر کیا جائے؛ یا پھر ٹرین کے تختوں پر پڑی ہوئی گرد وغبار سے تیمم کر لیا جائے، بشرطیکہ وہ گرد وغبار اتنی مقدار میں جمع ہو چکی ہو کہ اس سے تیمم ہو سکے۔
4... اگر مندرجہ بالا شرائط میں سے کوئی شرط نہ پائی جائے تو جس طرح بھی ممکن ہو،اشارے وغیرہ سے اس وقت تو نماز پڑھ لے، مگر بعد میں غسل کر کے نماز کا اعادہ کرنا ضروری ہو گا۔

”ومن لم یجد الماء وھو مسافر أو خارج المصر بینہ وبین المصر میل أو أکثر، یتیمم بالصعید“․ (ھدایة، کتاب الطھارة، باب التیمم: 1/49)

”(والمحصور فاقد) الماء والتراب (الطھورین) بأن حبس في مکان نجس، ولا یمکنہ إخراج تراب مطھر، وکذا العاجز عنھما لمرض (یوٴخرھا عندہ، وقالا: یتشبہ) بالمصلین وجوبا، فیرکع إن وجد مکانا یابساً، وإلا یوٴمي قائماً، ثم یعید کالصوم، (بہ یفتی، وإلیہ صح رجوعہ) أي: الإمام کما في الفیض․ (التنویر مع الدر المختار، کتاب الطھارة، ص: 39، دار الکتب العلمیة)

ریل گاڑی میں اذان کہنا
جس طرح مقام پر رہتے ہوئے نماز کے لیے اذان دینا مسنون ہے اسی طرح سفر کرنے والا اکیلا ہو یا جماعت کے ساتھ، اس کے لیے بھی دوران ِ سفر ٹرین میں بھی اذان دینا مسنون ہے،اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ڈبے کے دروازے کے پاس کھڑے ہو کر ایک شخص اذان دے دے، یہ اذان پورے ڈبے کے لیے کافی ہو جائے گی، اسی طرح ہر ڈبے میں مستقلاًاذان دینا مسنون ہو گا، اگرچہ ایک ڈبے میں دی جانے والی اذان کی آواز دوسرے ڈبے میں پہنچ چکی ہو۔

”(وکرہ ترکھما) معاً (لمسافر) ولو منفرداً (وکذا ترکھا) لا ترکہ لحضور الرفقة (بخلاف مصل) ولو بجماعة (في بیتہ بمصر) أو قریة لھا مسجد“․ قولہ: ”لمسافر“ أي: سفراً لغویاً أو شرعیاً کما في أبي سعود ط․ قولہ: ”ولو منفرداً“؛ لأنہ إن أذن وأقام صلی خلفہ من جنود اللہ ما لا یری طرفاہ، رواہ عبد الرزاق․ وبھٰذا ونحوہ عرف أن المقصود من الأذان لم ینحصر في الإعلام، بل کل منہ، ومن الإعلان بھذا الذکر نشراً لذکر اللہ ودینہ في أرضہ، وتذکیراً لعبادہ من الجن والإنس الذین لا یری شخصھم في الفلوات، فتح․… قولہ: ”ببیتہ“ أي: فیما یتعلق بالبلد من الدار والکرم وغیرھما… والظاھرأنہ لا یشترط سمعہ بالفعل، تأمل“․(حاشیة ابن عابدین، کتاب الصلاة، باب الأذان: 2/63، دار عالم الکتب)

ٹرین میں ہر نماز کے لیے اِقامت ضروری ہے
دوران سفر ٹرین میں نماز کے وقت جب اذان دی جائے اورایک سے زیادہ افراد مل کر جماعت کرائیں ، تو ان کے لیے جماعت سے قبل اقامت کہنا بھی مسنون ہے، حتی کہ اگر ایک ڈبے میں یکے بعد دیگرے کئی جماعتیں ہوں تو ہر جماعت کے لیے الگ سے اقامت کہنا مسنون ہے۔ تاہم تنگی وقت یا کثرتِ ازدحام کے پیشِ نظر ایک مرتبہ اقامت ہونے کے بعد اگلی جماعتوں کے لیے ترکِ اقامت بہتر معلوم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

”والضابطة عندنا: أن کل فرض أداءً کان أو قضاءً یوٴذن لہ ویقام سواء أداہ منفرداً أو بجماعة“․ (الفتاوی الھندیة، کتاب الصلاة، الباب الثاني في الأذان وإقامة: 1/55، رشیدیة)

والإقامة مثلہ، أي: مثل الأذان في کونہ سنة الفرائض، فقط․ البحر الرائق، کتاب الصلاة، باب الأذان: 1/446، دار الکتب العلمیة)

ریل گاڑی میں نماز کس طرح پڑھے؟
وضو یا تیمم کے بعدکسی قریبی اسٹیشن پر اتر کر نماز ادا کرنا ممکن ہو تو نیچے اتر کر نماز ادا کی جائے، لیکن اس بات کا اچھی طرح اطمینان کر لیا جائے کہ وہاں ٹرین کم از کم اتنی دیر رکے گی بھی کہ دو رکعت نماز ادا کی جاسکے، (یا نہیں) ورنہ نیچے اترنے کے بجائے ٹرین میں ہی نماز ادا کی جائے۔

اور ٹرین کے ڈبوں کے دروازوں کے پاس یا راستے میں اگر قبلہ رُخ کا لحاظ رکھنا ممکن ہو تو ڈبے کے اندر ہی نماز ادا کر لے۔شریعت کی طرف سے ایسے موقع پر نمازیوں کے لیے حکم ہے کہ اپنی نماز اتنی مختصر کریں کہ فریضہ بھی ادا ہو جائے اور اس کی نماز کی وجہ سے دوسرے مسافر بھی تنگی کا شکار نہ ہوں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ دین سے ناواقف لوگ ٹرین کے اندر ہوں یا اسٹیشن پر، دوسروں کی راحت یا تنگی کی پرواہ کیے بغیر نماز شروع کردیتے ہیں اور بڑے خشوع وخضوع کے ساتھ نماز میں مشغول رہتے ہیں، جب کہ دوسرے لوگ اپنی آمد ورفت میں ان کی لمبی نماز کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں اور تکلیف اٹھاتے ہیں، تو اُن کا یہ فعل جہاں اُن کے لیے گناہ کا باعث ہوتا ہے، وہاں! عام لوگوں کے دین سے اور زیادہ دور ہونے کا ذریعہ بنتا ہے۔

اسی طرح جو حضرات نئے نئے تبلیغی جماعت کے ہم راہ دین کی محنت سیکھنے کے لیے نکلتے ہیں، وہ سفر وحضر میں نمازوں کا خوب اہتمام کرتے ہیں، تبلیغی خروج کے دوران ماشاء اللہ ٹرین کے ڈبوں میں اذان دینے کا اہتمام کرتے ہیں اور باجماعت نماز کی ترتیب بناتے ہیں، ان حضرات کا شوق بہت مبارک اور قابل قدر ہے کہ سفر تک میں نماز اور وہ بھی باجماعت ادا کرنے کا اہتمام کرتے ہیں، تاہم بسا اوقات احکامات دینیہ سے ناواقفیت اور احکامات کے فرق مراتب کے عدمِ علم کی وجہ سے افراط وتفریط میں مبتلا ہو جاتے ہیں، مسئلہ اس طرح ہے کہ مسافر کے لیے حالت ِسفر میں فرض نماز چار رکعت سے کم ہو کر دو رکعت رہ جاتی ہے، سنتوں کی ادائیگی معاف ہو جاتی ہے، بلکہ فرض نماز کو بھی مختصر ادا کرنے کا حکم ہے، ایسے میں نماز کو باجماعت ادا کرنا(جو کہ حالتِ اقامت میں سنت موٴکدہ تھا، اب) حالتِ سفر میں مستحب یا زیادہ سے زیادہ سنت غیر موٴکدہ قرار پائے گا۔ جب کہ دوسری طرف کسی مسلمان کو تکلیف دینا،یا اس کے لیے کسی بھی طرح اذیت کا باعث بننا، (بالخصوص جب کہ کوئی بیمار، بوڑھا یا مریض وغیرہ بھی ہو) مکروہ تحریمی، بلکہ حرام ہے۔ چناں چہ! مسافروں سے بھری ٹرین میں (جہاں ہر قسم کے معذور وغیر معذور افراد سفر کر رہے ہوں)ڈبوں کے درمیان والے راستوں میں اس طرح جماعت کروانا کہ ان کی وجہ سے دوسرے مسافر تنگی کا شکار ہوتے ہوں درست نہیں ہو گا ، ایسے میں اکیلے اکیلے انفرادی نماز کا ثواب ان شاء اللہ جماعت کی نماز سے زیادہ ہو گا ، اس لیے کہ اس نیت میں یہ بات شامل ہے کہ میں اس طرح نماز پڑھ کے دوسروں کو تکلیف، پریشانی اور اذیت سے بچانا چاہتا ہوں۔

اور ٹرین میں سفر کرتے ہوئے اگر بہت زیادہ اژدہام ہو، کھڑے ہونے کی جگہ نہ ہو تو اپنے ہم سفر ساتھیوں سے نماز ادا کرنے کے لیے جگہ مانگ لینی چاہیے،اگر جگہ مل جائے تو فبہا، ورنہ اس وقت تو بیٹھ کر نماز ادا کر لی جائے ، لیکن بعد میں اعادہ کرنا لازم ہو گا۔

”العذر إن کان من قبل اللہ لا تجب الإعادة، وإن کان من قبل العبد، وجبت الإعادة“․ (البحر الرائق، کتاب الطھارة، باب: التیمم: 1/142)

ریل گاڑی میں دورانِ نماز استقبالِ قبلہ کا حکم
نماز صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک اہم اور لازمی شرط نمازی کا پوری نماز میں قبلہ رُخ ہونا ہے۔اگر نمازی کا رُخ قبلہ کی جانب نہ ہو تو نماز نہیں ہو گی، حتی کہ اگر نماز کے دوران ہی نمازی کو علم ہو جائے کہ وہ قبلہ رُخ نہیں رہا، تو بھی اس پر لازم ہے کہ وہ قبلہ کی جانب پھر جائے، ورنہ نماز نہیں ہو گی۔

وفي الخلاصة: ”استقبال القبلة شرط إن قدر علیہ، وإلا فیکتفي بالجھة … ولو حول المصلي وجھہ عن القبلة من غیر عذر فسدت صلاتہ“․ (الفتاوی التاتارخانیة، کتاب الصلاة، الفصل الثاني في الفرائض: 1/316، قدیمي)

آج کے دور میں دوران سفر قبلہ معلوم کرنا کوئی ناممکن یا مشکل کام نہیں ، بس تھوڑے سے اہتمام کی ضرورت ہے،مثلاً: سفر سے قبل اپنے ساتھ قبلہ نما (قطب نما) رکھ لیا جائے اور اس کی مدد سے قبلہ کی تعیین کر لی جائے۔سورج، چاند اور دوسرے ستاروں کی مدد سے بھی قبلہ رُخ کی تعیین ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بعض اسٹیشنوں پر تیر کی مدد سے سمتِ قبلہ واضح کی گئی ہوتی ہے، اس سے سمتِ قبلہ کی تعیین بآسانی ممکن ہو سکتی ہے۔ چلتی ٹرین میں سمتِ قبلہ کی تعیین کی سب سے آسان صورت یہ ہے کہ راستے میں ٹرین کے دائیں بائیں گذرنے والی آبادیوں میں بنی ہوئی مساجد کے محراب کو دیکھ کر قبلے کا رُخ متعین کر لیا جائے۔ (جاری)

Flag Counter