Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1437ھ

ہ رسالہ

14 - 19
ماضی ،حال اورمستقبل دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی

مولانا محمد قاسمی پرتاب گڑھی
	
عملی زندگی میں ماضی ،حال اور مستقبل کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، کام یابی کے میدان میں حصہ لینے والے لوگ ہمیشہ گذشتہ کل ،موجودہ آج اورآئند ہ کل پر نظر رکھتے ہیں،عملی زندگی میں اس کے بغیر کام یابی نہیں ملتی۔ ماضی کے تجربات ہوں،اسی کی روشنی میں حالیہ لائحہ عمل ہوتو مستقبل میں نتیجہ ثمر آورہواکرتا ہے ۔اوراگر کوئی لائحہ عمل اس سے عاری ہو تو اس کا ناکام ہونا تقریباً طے ہوتاہے۔چناں چہ آئندہ زندگی میں وہی طالب علم کام یاب ہوتاہے،جوزمانہٴ حال میں ماضی کے تجربات اور علوم سے بہرہ ورہو۔ایسے ہی وہی بادشاہ اچھی حکومت کرسکتاہے ،جسے گذشتہ کل کے احوال کی واقفیت ہو،اوراس کی روشنی میں وہ مستقبل کے لیے فیصلے لے۔اور وہی مسافر منزل مقصود کو پہنچ سکتا ہے ؛جسے معلوم ہوکہ وہ کہاں سے آرہاہے،اس وقت کہاں کھڑا ہے اوراسے کہاں جاناہے ۔خدانحواستہ اگر وہ ان امور سے بے خبرولاپروا ہے ،تو درحقیقت وہ پاگل یامجنوں ہے،جس کی نہ کوئی منزل ہے اورنہ مقصود،تبھی تو اسے نہ ماضی کاپتہ ہے ،نہ حال کی خبر اور نہ مستقبل کی پروا۔ اسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے عربی فلسفی شاعر متنبی کہتاہے #
        تَصْفُو الْحَیَاةُ لِجَاہِلٍ أوْغَافِلٍ
        عَمَّا مَضٰی فِیْہَا وَمَا یُتَوَقَّعُ

خوش گواراورمزیدا رزند گی اسی احمق کی ہوتی ہے ،جو ماضی سے نابلداورمستقبل سے بے پروا ہو۔یعنی ماضی اورمستقبل سے بے خبرشخص احمق اوربے وقوف ہوتا ہے۔چناں چہ تاریخ کی کتابیں، سوانح حیات اور دستاویزات اسی وجہ سے مرتب اورجمع کی جاتی ہیں،کہ آئندہ ان سے استفادہ کیا جائے ۔ یہ بحث ایسی فلسفیانہ بھی نہیں کہ اس کے لیے مقدمات ترتیب دینے کی ضرورت ہو،دنیاوی زندگی میں ہمارے روزانہ کے امور اسی اصول کے تحت انجام پاتے ہیں۔ہمیں کچھ کرنا ہوتا ہے تو ہم اس کے متعلق کچھ معلومات حاصل کرتے ہیں،پھر اسی کی روشنی میں آئندہ مستقبل کے لیے پلان بناتے ہیں۔چناں چہ ہماری تمام تر ترقیاں اوربلندیاں اسی اصول کی کارفرمائیاں اور نتیجہ ہیں کہ ماضی میں ہمارے بڑوں نے ایک تجربہ کیا ،بعد والوں نے اس کی روشنی میں مزید قدم بڑھایا ،پھر آئندہ چل کروہ تجربہ ایک حیرت انگیز حقیقت کی شکل میں نمودار ہوا۔جہاز یوں ہی ایک بارگی نہیں اڑنے لگا اورنہ ٹرینیں اورگاڑیاں ایک بارگی دوڑنے اورفراٹے بھرنے لگیں، بلکہ قطرے کو گہر ہونے تک نہ جانے کتنے مراحل آئے،کتنے تجربات ہوئے،تب یہ حقیقتیں سامنے آئیں۔

ہماری لیبارٹیوں اورتحقیقی اداروں میں یہی کام ہوتاہے ،اسی کام کے لیے انہیں بنایا گیا ہے کہ نئی دھاتوں اورمادوں کو تلاش کیاجائے،پھراس میں موجود طاقت کا اندازہ لگایا جائے،حسب ضرروت اس میں دوسری دھاتیں ملائی جائیں اوراس میں اس طرح کا عمل دخل کیا جائے کہ آئندہ چل کر وہ مادہ ایک حقیقت کی شکل اختیارکرلے۔اس پورے عمل کا خلاصہ کیا جائے تو وہ صرف اتنا ہے کہ مادہ کے ماضی کو دیکھاجاتاہے ،پھراسی کی روشنی میں مستقبل کے لیے حال میں اسے تجربات کے عمل سے گزاراجاتا ہے۔ چناں چہ سائنس داں اورمصنوعات کے ماہرین اسی غرض سے دنیا کی خاک چھانتے رہتے ہیں اورآئے دن کوئی نہ کوئی چیز ایجادہوتی رہتی ہے۔انسانوں کے اس تجرباتی تصرف سے نہ کوئی بحری حیوان محفوظ ہے اورنہ کوئی خشکی والا جانور،کیا شجر اورکیا حجر ،کیا پانی اورکیا ہوا ،سب اس کی تجرباتی چیرہ دستیوں سے حیران وپریشان۔ وہ سب کے ماضی ،حال اورمستقبل کے پیچھے لٹھ لے کر پڑا ہوا ہے۔

ہاں! البتہ اگر وہ کسی چیز کے ماضی وحال اورمستقبل سے غافل ہے، تو وہ صرف اس کی اپنی ذات ہے ،اس بابت اس کا تغافل مجرمانہ حد تک بڑھا ہواہے ، وہ اس کی طرف ادنی توجہ دینے سے بھی گریز اں ہے ۔چناں چہ اسے دنیا کی ہرچیز کے ماضی ،حال اورمستقبل پر مطلع ہونے کا شوق جنون کی حد تک ہے ،مگر اپنی ذات سے اسے کوئی سروکار نہیں،اس بابت وہ قطعاً سوچنے کا روادارنہیں کہ وہ اس دنیا میں کہاں سے آیاہے،کیوں آیا ہے؟اور آئندہ اسے کہاں جاناہے؟ ﴿نَسُوا اللّٰہَ فَأنْسَاہُمْ أنْفُسَہُمْ﴾ ترجمہ: (لوگوں نے) اللہ کو بھلادیا،تو اپنے آپ کو بھول بیٹھے۔ اس بابت نہ اس کی کوئی تحقیق آتی ہے،نہ اس کے لیے کوئی تحقیقی ادارہ اورریسرچ سینٹر ہی قائم کیاجاتاہے۔ حالاں کہ انسان کو سب سے پہلے اسی کی تحقیق ہونی چاہیے ،اس لیے کہ جب وہ اپنی ذات کے بارے میں ہی بے خبرہے،تو آئندہ کی منزل وہ کس طرح طے کرے گا اور اس کے لیے وہ کون سی تیاری کرے گا ۔ یہ طرز عمل انتہائی مہلک اور خطرناک نتائج کا پیش خیمہ ہے ،اسے کسی طرح بھی عقل مندی اور ہوش مندی نہیں کہا جاسکتا ،بل کہ یہ ایسی جہالت ،نادانی اور تاریکی ہے کہ جس کے بعد نہ کوئی جہالت ہے اورنہ تاریکی۔ایسے علم سے کیا فائدہ، جس سے اپنی ذات کاعرفان حاصل نہ ہو سکے ؟اورایسی مال داری سے کیافائدہ ،جس سے اپنی ذات کو نفع نہ پہنچ سکے؟ اورایسے اجالے کا کیا فائدہ ،جس سے اپنی ذات کو روشنی کی کرن دست یاب نہ ہو۔ تف ہو ایسی تحقیق پر اور لعنت ہو ایسے علم پر!

ہاں!اس بابت غوروفکر اورتیاری کی دعوت اسلام دیتا ہے ،چناں چہ دینی واسلامی اداروں ،مسجدوں اورخانقاہوں میں صبح وشام اسی کی تعلیم ہوتی ہے اور انسان کے مستقبل کی تیار ی کرائی جاتی ہے ۔ جولوگ ان اداروں میں رہتے ہیں،وہ اپنے ماضی کی روشنی میں ، مستقبل کی جنت تک رسائی کے لیے تکنیک اورگرسیکھتے ہیں… تو دینی درس گاہوں میں کام کرنے اوران سے وابستہ لوگ درحقیقت انسانیت کے محسن ہیں،لہٰذااہل دنیا کو ان کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ تمام اہل دنیا نہ سہی ،کم ازکم اپنے آپ کو” کلمہ گو“ اورمسلمان بتلانے والوں کوتو بہر حال ان کی قدر ہونی چاہیے کہ چلو! یہ لوگ سب کی طرف سے انتہائی اہم ذمہ داری کو نبھارہے ہیں۔ جس کی وجہ سے قرآن وسنت کے علوم زندہ ہیں،اللہ اوراس کے رسول کی ہدایات چلتی پھر تی صورتوں میں نظر آرہی ہیں۔ مگر یہ کیا بد بختانہ اورمعاندانہ طرز عمل ہے کہ ان علماء واہل مدارس پر الٹے الزامات لگائے جاتے ہیں اورجملے کسے جاتے ہیں کہ یہ لوگ یہیں پڑے ہیں، اور دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ؟اللہ تعالی ہم سب کی حفاظت فرمائے۔

دینی امور میں مشغول لوگوں کو ان واہیات جملوں اوراحمقانہ حرکتوں سے پریشان نہ ہوناچاہیے کہ دینی خدمت اوردینی تعلیم کافروغ ہی درحقیقت انسانیت کی اصل خدمت ہے، انہیں علو م کی بدولت آئند ہ کل کام یابی ممکن ہے ۔بقیہ دیگر تمام چیزیں فناکے گھاٹ اترنے والی ہیں،ان کے منافع وقتی اورجزوی ہیں ۔اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے اوردین پر ثابت قدمی نصیب کرے۔

Flag Counter