ابھی وقت ہے، توبہ کیجیے
محترم شفیق الدین الصلاح
یہ دنیا دارالامتحان ہے، اس دنیاوی زندگی کے ہر عمل سے یا تو انسان کی اُخروی زندگی سنو ررہی ہے یا خراب، الله تعالیٰ نے اس بے حقیقت دنیا میں حضرتِ انسان کو اسی غرض کے لیے بھیجا ہے کہ کون سا بندہ میری طرف سبقت کرتا ہے اور کون مجھ سے اعراض اور روگردانی کرکے نفس وشیطان کا دوست اور چیلہ بنتا ہے۔
چناں چہ خدائے تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً ﴾․(سورة ملک:2)
زندگی دے رکھی ہے تاکہ معلوم ہو جائے تم میں سے نیک اور اچھے عمل کرنے والے۔
الله تعالیٰ نے ہر انسان کے اندرخیروشر کا مادہ رکھا ہے اور پھر اس کو ایک خاص قسم کی قدرت واختیار دے رکھا ہے کہ یہ اپنے قصد وارادے سے گناہ کا راستہ اختیار کرتا ہے یاکہ پھر نیکی واطاعت کا طریق؛ لیکن انسان کا ازلی دشمن نفس وشیطان اس کو ورغلا کر ضلالت وگم راہی کے راستے پر ڈالنے کی کوشش کرتا ہے اور اسے اپنا مقلد اور پیروبنانے کی فکر میں لگا رہتا ہے اور اس کے دل ودماغ میں نیکیوں کی نفرت وکراہت ڈالتا ہے، جب کہ ہمارے رب کریم کو کہاں یہ منظور ہے کہ اس کا کنبہ وعیال نافرمان بن جائے اور اس ابدالآباد ہمیشہ والی زندگی میں نامراد اور آگ کا انگارہ بن جائے، بلکہ اس کریم رب کا منشا ومقصود بندے کا نفس وشیطان کے پھندے سے نکل کر بارگاہ ایزدی میں کام یاب وکامران بن کر حاضر ہونا ہے چوں کہ بندہ ضعیف وکم زور ہے ظاہر ہے، بہت جلد متاثر ہو کر نافرمانی کی چنگل میں پھنس جاتا ہے، نفس وشیطان کا ہو کر اپنے مالک کو بھول جاتا ہے اور اس کے احکامات سے اعراض اور روگردانی کرنے لگ جاتا ہے، تو اس وجہ سے الله تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے معافی اور درگزر کا دروازہ کھول رکھا ہے کہ کسی بھی وقت میرے بندے کو احساس وندامت ہو جائے گی اور اس دروازے پر دستک دے کر مجھے پکار لے گا او رمجھے منالے گا، وہ تو کریم ہے، باوجود اتنی جفا کے اعراض نہیں کرتا، اپنے گناہ گاربندوں کو نہیں بھولتا،ان روٹھے ہوئے بندوں کو اپنے پاس آنے کی دعوت دیتا ہے ، توبہ کی تلقین کرتا ہے، گناہوں کی معافی کا وعدہ کرتا ہے اور بندے کی توبہ سے بے حد خوش ہوتا ہے، اس کی درگاہ سے کبھی ”لا“یعنی ”نہیں“ کی آواز نہیں آتی، چناں چہ ایک فارسی شاعر نے اس بات کی ترجمانی یوں کی ہے #
باز آ باز آ، ہر آنچہ ہستی باز آ
گر کافر وگبروبت پرستی بازآ
ایں در کہ ما در گہ نا امید نیست
صد بار اگر توبہ شکستی باز آ
ہماری درگاہ کی طرف ضرور واپس آؤ، جو کچھ بھی تم ہو واپس تو آجاؤ، اگر تم بت پرست وکافر بھی ہو تب بھی واپس آجاؤ، یہ ہماری درگاہ ناامیدی کی درگاہ نہیں ہے، سینکڑوں بار اگر توبہ توڑ چکے ہو تو بھی واپس آجاؤ اور توبہ کرو ،ہم توبہ قبول کریں گے۔
”المستطرف“نامی کتاب میں ہے کہ:
الله تعالیٰ نے حضرت داؤد پر وحی نازل کی، اے داؤد! اگر اعراض کیے ہوئے بندوں کو میرے انتظار، نرمی اور ان کے گناہوں کے چھوڑنے پر میرے شوق کا علم ہو جائے تو یہ سب کے سب میری ملاقات کے شوق میں مرجائیں گے اور ان کے سب اعضاء میری محبت میں کٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے۔ اے داؤد! یہ میرا حال ہے ان بندوں کے بارے میں جو مجھ سے اعراض کرتے ہیں، تو میری طرف آنے والوں کے لیے میری کیا شان ہو گی ؟ (المستطرف:345)
الله کی وسعتِ رحمت ہے کہ ہر حالت میں اجازت دے دی، ہم سے باتیں کر لو، ہمارا نام لے لو، ہر حالت میں سماعت ہو گی۔
الله تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ أَسْرَفُوا عَلَی أَنفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّہ﴾․(سورة الزمر:53)
ترجمہ:” میرے وہ بندے جنہوں نے نفس وشیطان کی پیروی کرتے ہوئے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے! اس رحمان ورحیم اور ثواب کی رحمت سے ناامید مت ہوں۔“
دوسری جگہ ارشاد باری ہے:﴿نَبِّءْ عِبَادِیْ أَنِّیْ أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِیْمُ﴾․(سورة الحجر:49)
میرے ان بھولے بھٹکے ہوئے بندوں کو خبر کر دو کہ میں بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہوں۔
اس کے علاوہ اور بھی بے شمار قرآنی آیات میں توبہ واستغفار کی بڑی ترغیب وتاکید آئی ہے، خوفِ طوالت سے اتنی بات پر اکتفا کیا جاتا ہے، چناں چہ آپ کا فرمان ہے:”یا ایھا الناس توبوا إلی الله واستغفروہ فإنی اتوب فی الیوم مأئة مرةٍ․“(مسلم)
اے لوگو! توبہ کرتے رہو کہ میں (باوجود معصوم ہونے کے) دن میں سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔
”إن الله یبسط یدہ باللیل لیتوب مسئِ النھار، ویبسط یدہ بالنھار لیتوب مسئِ اللیل، مالم یغرغر․“
کہ الله تعالیٰ پوری رات اپنی رحمت کے دروازے کھول کے رکھتا ہے، تاکہ دن کا گناہ گار شاید رجوع کر لے اور پورا دن اپنی رحمت کے دروازے کھول کے رکھتا ہے، تاکہ رات کا عاصی گناہ گار اپنے گناہوں پر نادم ہو کر لوٹ آئے، جب تک کہ اس بندے کو موت نہ آئے۔
حضرت صحابہ کرام توبہ استغفار کا بہت زیادہ اہتمام اور بڑی ترغیب دیا کرتے تھے، حضرت قتادہ فرماتے ہیں” کہ قرآن نے تم کو بیماری اور علاج دونوں بتلایا ہے، علاج تواستغفار ہے اور وہ بیماری نافرمانی او رگناہ ہے۔ (المستطرف:344)
حضرت علی کا فرمان ہے: کہ مجھے تعجب ہوتا ہے اس شخص پر جو ہلاک ہو جائے، جب کہ اس کے پاس نجات کا ذریعہ موجود ہو، پوچھا گیا وہ کیا ہے؟ فرمایا وہ توبہ واستغفار ہے ۔(حیاة الصحابہ)
حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ روئے زمین پر عذاب الہی سے اس کی دو پناہ گاہیں تھیں، ایک تو اٹھ گئی اور دوسری باقی ہے، لہٰذا اس دوسری پناہ گاہ کو اختیار کرو، جو پناہ گاہ اٹھ گئی، وہ تو سرکار دو عالم کی ذاتِ گرامی تھی اور جو باقی ہے وہ استغفار ہے۔
حضرت ابودرداء سے روایت ہے کہ خوش خبری ہے اس آدمی کے لیے جس کے اعمال نامہ میں تھوڑا بہت استغفار پایا گیا۔ ( حیاة الصحابة)
شیخ عبدالقادر جیلانی کا فرمان ہے: اے حاضرین! تمہارا پروردگار نہایت مہربان ہے، اس کے بندوں نے خواہ کتنی نافرمانیاں کی ہوں، مگر جب وہ اس کے آگے توبہ کے لیے سرجھکاتے ہیں اور ہر طرف سے کٹ کر اس کے ہو جاتے ہیں تو وہ ان کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کے گناہوں کو معاف فرماتا ہے، بشرحا فی سے مروی ہے کہ جب بندہ گناہ کا کام کر جاتا ہے تو گناہوں کے لکھنے پر مقرر کردہ فرشتوں کو الله فرماتے ہیں، سات ساعات تک اس کا انتظار کرو، اگر اس نے استغفار کیا تو نہ لکھنا اور اگر پھر بھی توبہ نہ کریں تو لکھ لینا۔ (المستطرف:344)
توبہ کیجیے! ابھی وقت ہے
”تنبیہ الغافلین“ میں الله کی رحمت کی وسعت کا ایک عجیب واقعہ لکھا ہے کہ پہلے زمانہ میں ایک گناہ گار شخص ہوا کرتا تھا، ایک دن اپنے گناہوں کے بارے میں سوچ رہا تھا اور جب اپنی نافرمانیوں پر نادم ہوا، تو صرف تین مرتبہ یہ کہا: ”اللھم غفرانک“ اس کے بعد اس کو موت آئی اورصرف اتنی ہی ندامت پر الله نے اس کی مغفرت فرما دی ، یہی وجہ ہے کہ خلیفہ عادل حضرت عمر بن عبدالعزیز نے حجاج بن یوسف کے اسی آخری کلمہ کی وجہ سے جو اس نے موت کے قریب زندگی کی آخری گھڑیوں میں کہہ دیا تھا” کہ اے الله! تیرے بندے اور بندیاں میرے بارے میں کہتے ہیں کہ تو مجھے معاف نہیں کرے گا ، مگر مجھے تجھ سے اُمید ہے، مجھے معاف فرما دے“ اس کی موت پر رشک فرماتے اورحضرت حسن بصری کو جب اس کی خبر دی گئی، تو فرمایاکہ شاید الله نے اس پُرامیدی پر اُس کی مغفرت کر دی ہو کہ ”رحمت حق بہانہ می جوید“ الله کی رحمت تو بہانہ ڈھونڈتی ہے صدیوں بت کے سامنے کھڑے ہو کر ”یاصنم“ کے ورد کرنے والے کے ایک مرتبہ بلاقصد ” یاصمد“ کہنے پر ”لبیک یا عبدی“ کی صدا آتی ہے، وہ تو کہتا ہے کہ جب بندہ مجھ سے ایک بالشت قریب ہوتا ہے، تو میں ایک ذراع (گز) قریب ہوتا ہوں اور جب بندہ ایک ذراع قریب ہوتا ہے تو میں ایک باع قریب ہوتا ہوں، جب میرا بندہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر جاتا ہوں۔(الاحادیث المنتخبة)
پس جب وہ اتنا مہربان اور کریم ہے، تو اس کی درگاہ سے ناامیدی کیوں ہو؟ اس کے پاس تو اگر آسمان وزمین کے درمیان خلا کے برابر گناہوں کے انبارلے جاؤ اور پھر ایک دفعہ کہہ دو کہ مجھے معاف فرما دے، تو وہ الله تمہارے سب گناہ معاف فرما دیں گے او راسے کوئی پروا نہ ہوگی، بندگی کا حق وہی ادا کرتا ہے جو اپنے گناہوں کو الله کے دربار میں پیش کرتا ہو … شیخ سعدی لکھتے ہیں #
بندہ ہماں بہ کہ زتقصیرِ خویش عذر بدرگاہ خدا آورد
ورنہ سزا وار خداوندیش کس نتواند کہ بجا آورد
بندہ وہی بندہ ہے جو اپنی کوتاہی کا عذر خدائے تعالیٰ کی بارگاہ میں لاوے کہ یہ عمل تو الله کو بہت ہی پسند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رات کے آخر میں الله کی طرف سے آواز لگتی ہے کہ ہے تم سے کوئی گناہ گار؛ جو مجھ سے گناہوں کی معافی طلب کریں اور میں معاف کرلوں؟ (گلستان:3)
لہٰذا توبہ واستغفار کو اپنے ذمہ لازم کیجیے اور بارگاہِ خداوندی کے ساتھ چمٹے رہیے، انسان تو خطا کا پتلا ہے، آدمی جب اپنی حالت میں غور کرے، تو وہ ہر وقت کوئی نہ کوئی بات گناہ کی اپنی ذات سے صادر ہوتے پائے گا، لہٰذا ضروری ہے کہ توبہ کو اپنا شیوہ بنالیں اورتوبہ کرتے رہا کریں، اگر توبہ ٹوٹ جائے، تو پھر کریں، ناامید نہ ہوں، الله پھر بھی قبول فرما دیں گے ۔ الله کے نبی کا فرمان ہے ”ما اصر من استغفر، وإن عاد فی الیوم سبعین مرة․“
اس نے گناہ پر اصرار نہیں کیا ، جس نے گناہ پر فوراً استغفار کیا، اگرچہ وہ گناہ دن میں ستر مرتبہ ہی کیوں نہ کیا ہو۔
ہمارے حضرت محترم حاجی عبدالوہاب صاحب مدظلہ توہر بیان میں استغفار کو لازم پکڑنے پر بہت زور دیتے ہیں اور بڑے وثوق کے ساتھ فرماتے ہیں کہ استغفار کی وجہ سے الله ہر ضیق سے ،ہر پریشانی سے نجات کے راستے نکال دیں گے اور غیر موھوم جگہ سے رزق کا بندوبست فرما دیں گے، حضرت فرماتے ہیں کہ کم از کم دن میں 300 مرتبہ استغفار کرنا کثرت میں داخل ہے اور مولانا یوسف کاندھلوی صاحب فرماتے تھے کہ ہر نیک کام کے بعد استغفار کرنا یہ گناہوں سے بچنے کا ایک عظیم نسخہ ہے ۔ ( ملفوظات واقتباسات)
توبہ واستغفار کے بے شمار فوائد وفضائل قرآن وحدیث میں بیان کیے گئے ہیں، جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔
گناہ معاف ہو جاتے ہیں، قحط سالی سے حفاظت ہوتی ہے ، مال وجائیداد میں برکت آتی ہے، اولاد میں کثرت ہوتی ہے، دنیاوی نعمتوں میں فراخی آتی ہے، عذاب الہٰی سے رکاوٹ ہو جاتی ہے، ہر پریشانی سے نجات ملتی ہے، ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ مل جاتا ہے، غیر موھوم جگہ سے رزق ملنا شروع ہو جاتا ہے، حافظہ کی تیزی کا سبب ہوا کرتا ہے، الله کی خوش نودی کا ایک بڑا ذریعہ ہے، اس کے بدولت آدمی کام یابی وکامرانی سے ہم کنار ہو جاتا ہے، دل منور ہوجاتا ہے وغیرہ۔
تو معلوم ہوا کہ توبہ واستغفار تو ہے مختصر عمل؛ لیکن بے شمار فضائل وبرکات کو حاوی ہے، یہی وجہ ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم دعا فرمایا کرتے کہ اے الله! مجھے ان لوگوں میں سے بنا جو نیکی کریں تو خوش ہوں اور جب برائی کریں تو استغفار کریں ۔ (سنن ابن ماجہ:282)اور آخری عمر میں الله کی طرف سے بھی حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو استغفار کا حکم کیا گیا۔ (سورہ النصر:3) اب جب اس عمل کی اتنی اہمیت ووقعت ہے، تو عہد کرتے ہیں کہ توبہ واستغفار کو اہتمام کے ساتھ کرتے رہیں گے ۔
طریقہ وشرائط استغفار وتوبہ
اب توبہ واستغفار کا طریقہ بقول مولانا اشرف علی تھانوی کے یہ ہے کہ قرآن وحدیث میں جو عذاب کے ڈراوے گناہوں پر آئے ہیں ان کو یاد کرے اور سوچے تو اس سے گناہ پر دل دکھنا شروع ہو جائے گا اور اس وقت چاہیے کہ زبان سے بھی توبہ کریں ۔ (بہشتی زیور:313)
اور امام نووی ۔ علیہ الرحمة۔ ”ریاض الصالحین“ میں رقم طراز ہیں:
علماء نے فرمایا ہے کہ ہر گناہ سے توبہ کرنا واجب ہے، پس اگر گناہ الله اور بندے کے درمیان میں ہو اور اس کے ساتھ کسی بندے کا حق متعلق نہ ہو، تو ایسے گناہ سے توبہ کرنے کی تین شرطیں ہیں:
1..فی الفور اس گناہ کو ترک کر دے۔
2..اپنے کیے پر ندامت کے آنسو بہائے۔
3..اور پکا عزم کرے کہ دوبارہ کبھی بھی اس گناہ کی طرف قدم نہیں اٹھاؤں گا۔ (اور ساتھ ساتھ یہ بھی لازم ہے کہ حقوق الله میں سے جس کی قضا ہو سکتی ہے نماز، روزہ ، زکوٰة، تو اس کی قضا بھی کریں اور علماء سے اس کے بارے میں دریافت کرے۔)
اور اگر گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہوتو اس سے توبہ کی چار شرطیں ہیں ، تین اوپر والی اور ایک یہ کہ حق والے کے حق سے اپنے ذمہ کو فارغ کر دے، پس اگر مال یا اس جیسی کوئی چیز ہو تو اس کو واپس کر دے، اگر اگر حدقذف یا کوئی او رحق ہو، تو اس کو اس کے لینے اورحاصل کرنے پر قدرت دے او راگر حق غیبت وغیرہ ہو، تو جاکر اس سے معافی مانگے، وغیرہ وغیرہ۔ اگر ان شرائط میں سے کوئی ایک بھی مفقود ہوگئی تو توبہ قبول نہ ہو گی۔ (باب التوبہ:18)
الله تعالیٰ ہم سب کو اور پوری امت کو توابین میں سے بنا دے۔ آمین!
”اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ الذِّیْ لاَ إِلَہَ إِلاَّ ھُوْالْحَیُّ الَقَیُومْ“