Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1437ھ

ہ رسالہ

12 - 19
نبی اکر م صلی الله علیہ وسلم کاکافروں کے ساتھ حسن سلوک

محترم محمد جاوید اشرف مدنی(مدینہ منورہ)
	
دینِ اسلام یہ اس صاف شفاف نظامِ زندگی کانام ہے جس میں ایک طرف خالق ومخلوق کے باہمی ربط وتعلق اور خالق جل مجدہ کے مخلوق پر کیا حقوق ہیں کی تعلیم دی گئی ہے ، تو دوسری جانب مخلوق میں سے بالخصوص انسانوں کو بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے خالق ومالک اللہ تعالی کے حقوق اداکرنے کے ساتھ ساتھ اس دنیا میں اپنے ہم جنس انسانوں کے ساتھ کس طرح زندگی گذاریں،بلکہ کائنات جس میں حیوانات ،نباتات اور جمادات وغیرہ بھی ہیں ان کے ساتھ کس طرح کا معاملہ زندگی میں ہو اس کا بھی سبق اسی دین اسلام میں دیا گیا ہے ،اس مذہب کے متبعین کو مسلمان یا مسلمین کہا گیا ہے،جو لوگ اس مذہب سے محروم ہیں ان کو اسلامی اصطلاح میں کفار ومشرکین ،اہل کتاب اور ملحدین کے ناموں سے جاناجاتاہے،اسلام چوں کہ وہ مذہب ہے جو تمام انسانوں کے لئے ہے ،اسلام کی تعلیم اپنے متبعین کو یہ ہے کہ وہ اسلام کی تبلیغ کا کام انجام دیں اور اس سے محروم انسانوں کو اس سے روشناس کرائیں،تاکہ وہ بھی اپنے خالق جل مجدہ کے دین کو اختیار کرکے دنیا وآخرت کی کامیابی سے ہمکنار ہوں،اسی مقصد عظیم کے لئے تمام انبیاء علیہم السلام کو اللہ تعالی نے بھیجا اورآخر میں پیغمبرِ اسلام سرور دو جہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے آخری نبی بناکر مبعوث کیا گیا جن کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہ آئے گا،آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی زندگی کا قیمتی حصہ تقریباً تئیس سال اسلام کی نشرواشاعت میں صرف فرمایا،اسی دعوتی مقصد کو لیکر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جہاں تک ہوسکا دنیا کے مختلف گوشوں میں پہنچے اور دعوت ِ اسلام کا عظیم کام انجام دیا،آج ان کی قبریں دنیا کے مختلف ملکوں میں موجود اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں، مگر ایک طویل ترین عرصہ سے اسلام کی نشرو اشاعت کا کام بالعموم مدہم وکمزور ہے ،انفرادی یا بعض اجتماعی کوششیں گرچہ کہیں نہ کہیں ہوتی رہیں مگر اس عظیم دعوت اسلام کی ذمہ داری اور منصبی فریضہ کی تبلیغ مسلمانوں سے جس درجہ مطلوب تھی اس اہتمام اور اس عظمت کے ساتھ کام نہ ہوا اور آج دنیا کی اکثر آبادی کفر وشرک یا الحادی افکار پر ہے ،لہٰذا امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس دین حنیف پر جہاں خود عمل پیرا رہے ، وہیں اس کی نشرواشاعت اور تبلیغی ذمہ داری سے بھی غافل نہ رہے ،عصر حاضر میں دوسری اقوام سے جو امت مسلمہ کا دعوتی تعلق ہے اس کو واضح کرنے کی اشد ضرورت ہے،آئندہ سطور میں لکھی جانے والی تحریر اسی تناظر میں ہے کہ سیرت وتاریخ کے تابندہ دعوتی نقوش کو ہم ذہن نشین کرکے داعی ومدعو کے رشتہ کو پہچانیں اور اسوہ رسول (صلی الله علیہ وسلم ) کو سامنے رکھتے ہوئے دعوتی فریضہ انجام دیں،واضح رہے کہ اس سلسلہ کے متعدد مضامین مضمون نگار کے قلم سے ہندوستان کے بعض معروف رسالوں میں شائع ہوچکے ہیں،بالخصوص ماہنامہ ارمغان میں اس کی متعدد قسطیں شائع ہوچکی ہیں،جن میں واضح کیا گیا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم غیر مسلمین کے لیے کتنے خیر خواہ تھے اور ان کی فلاح وکام یابی کے لیے کس قدر فکر مند تھے ،حتی کہ اس راہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی جان کی بازی تک لگادی، قرآن کریم کی متعدد آیات میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی اس دلی کیفیت کو بیان کیا گیاہے، مثلاً: ارشاد عالی ہے: ﴿لعلک باخع نفسک ألا یکونوا مؤمنین﴾(الشعراء:3) اے نبی ! شاید آپ اس رنج میں اپنے کو ہلاک کرلیں گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔ درج ذیل مضمون پاکستان کے معروف ومؤقر رسالہ ماہنامہ الفاروق کے لیے تحریر کیا گیا ہے،اس امید کے ساتھ کہ پاکستان میں ایک بڑی تعداد غیر مسلمین کی ہے، جن میں اسلامی چراغ روشن کرنے کی اشد ضرورت ہے، تاکہ وہ محروم بھی نور ایمانی سے روشن ہوکر دنیا وآخرت میں کام یاب وکامران ہوں۔ واللہ ولی التوفیق

حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
آپ صلی الله علیہ وسلم صحابہ کرام کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ شدید پیاس لگی ،آپ صلی الله علیہ وسلم کے اصحاب میں سے دوافراد (شاید علی وزبیررضی اللہ عنہما) حاضر ہوئے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان دونوں سے فرمایا: فلاں جگہ جاؤ، وہاں تمہیں ایک عورت ملے گی، اس کے ہم راہ ایک اونٹ ہے جس پر پانی کے دو گھڑے رکھے ہیں ،جاؤ اس عورت کو بلالاؤ ، یہ دونوں حضرات گئے توعورت کو اسی مقام پر پایا جہاں آپ صلی الله علیہ وسلم نے نشان دہی کی تھی،یہ عورت اونٹ پر سوار تھی اور اس کے دونوں طرف پانی کے دومشکیزے لٹکے ہوئے تھے،ان حضرات نے اس عورت سے کہا: رسول اللہ (صلی الله علیہ وسلم ) نے تمہیں بلایا ہے ، عورت بولی ،کون رسول اللہ ؟ کیا وہی جو ایک نئے دین کی دعوت دیتے ہیں؟ انھوں نے کہا: ہاں وہی ہیں جن کو تم سمجھ رہی ہواور فی الحقیقت وہ اللہ کے سچے رسول ہیں،الغرض یہ حضرات اس عورت کولے کر آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے ،آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے پانی میں سے کچھ پانی ایک برتن میں ڈال دیا جائے ،چناں چہ ایسا ہی کیا گیا ،پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس برتن کے پانی میں لعاب دہن شامل فرماکر کچھ پڑھا، پھر اس پانی کو اس کے مشکیزوں میں واپس ڈال دیاگیا،پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کے گھڑوں سے لوگ اپنے برتنوں میں پانی بھر لیں،چناں چہ صحابہ کرام نے تمام برتنوں میں جوکچھ اس وقت تھے پانی بھر لیا،(راوی حدیث حضرت عمران رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ پانی بجائے کم ہونے کے اس میں اضافہ ہی ہوا ) پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس خاتون کے کپڑے کو بچھوادیااور صحابہ کو حکم دیا کہ جوکچھ میسر ہو اس کولا کر دے دیں ،چنانچہ صحابہ کرام نے جوکچھ ہوسکا کھجور ،آٹا،ستو وغیرہ اس کولالا کر دیا، یہاں تک کہ اس کا کپڑا بھرگیا،تب آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کوحکم دیا کہ : اب تم یہ سب لے کر چلی جاؤ ،ہم نے تمہارے پانی سے کچھ بھی نہیں لیا،ہاں! اللہ تعالی نے ہمیں پانی عطافرمایا اور ہمیں سیراب کیا،یہ عورت واپس ہوگئی اور اپنے گھر والوں کے پاس آئی، اُن سے بتایا کہ آج میں تمہارے پاس ایسے شخص کے پاس سے آئی ہوں جو لوگوں میں سب سے بڑا جادوگر ہے یا یہ کہ وہ اللہ کے سچے رسول ہیں،یہ سننا تھا کہ اس عورت کے قبیلہ کے لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور تمام کے تما م لوگ اسلام میں داخل ہوگئے ۔ (بخاری رقم:337،والسنن الکبری للبیہقی واللفظ لہ رقم:127) یہ روایت بیہقی کی ہے، بخاری کے روایت کے الفاظ میں اس کا اضافہ ہے کہ مسلمانوں کے دعوتی وجہادی قافلے اس کے پاس سے گذرتے ،مگر اس قبیلہ والوں سے تعرض نہ کرتے، یہاں تک کہ ایک دن اس عورت نے قبیلہ والوں سے کہاکہ یہ حضرات رعایت میں تم سے تعرض نہیں کرتے، بہتر ہے کہ تم لوگ اسلام قبول کرلو، اس عورت کے کہنے پر سب قبیلہ والوں نے اسلام قبول کرلیا ۔ واللہ تعالی اعلم

مسلم شریف کی روایت میں مزید یہ اضافہ ہے کہ ا س عورت نے بتایا کہ وہ بچوں والی ایک بیوہ عورت ہے اور یتیم بچوں کی پرورش کرتی ہے،پھر جب یہ خاتون واپس اپنے قبیلہ میں تاخیر سے پہنچی تو ان لوگوں نے پوچھا آج تمہیں تاخیر کیوں ہوئی ؟ اس نے سارا قصہ سنایااور کہا:سچی بات یہ ہے کہ وہ اللہ کے سچے نبی ہیں، جیساکہ ان کا دعوی ہے ۔

حدیث شریف میں متعدد اہم باتیں ضمنا آگئیں،ایک اجنبی دشمن کافروں کی عورت کے ساتھ مسلمانوں کا سلوک کتنا رحیمانہ، کریمانہ، مشفقانہ اور احسان مندانہ تھا،عصر حاضر میں آج اس کے برعکس دشمن سے متعلق ہر چیز کو تباہ وبرباد کیا جاتاہے،مگر رحمت دوعالم صلی الله علیہ وسلم جس دین کو لے کرآئے اس میں ایسی بے رحمی کو دخل کہاں؟ دشمن سے دشمنی اپنی جگہ، مگر دشمنوں کی عورتیں،ان کے بچے ،ان کے مذہبی افراد بوڑھے وغیرہ، یعنی سماج کے کمزوروں پر خاص رحم اور خصوصی توجہ وعنایت کی اسلام میں تلقین کی گئی ہے، اس واقعہ میں یہ بھی ہوسکتا تھا کہ اس عورت کاسارا پانی لے کر چلے جاتے اور اس کو قتل کرکے لاش کوپھینک دیتے ،یہاں کوئی دیکھنے والا بھی نہ تھا،مگر ایسی کمینی حرکت کسی ایسے شخص سے ممکن نہیں جس نے نبی رحمت صلی الله علیہ وسلم کا لایا ہوا کلمہ لا الہ الا اللہ پڑھا ہو ۔

ان پاکیزہ ومقدس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جگہ اور کوئی ہوتا تو ایک تنہاعورت، وہ بھی بیا بان جنگل میں مل جاتی تو اس کو لقمہ تر سمجھ کر اس کی عزت سے کھلواڑ کرتا ،مگر یہاں اسلام کے ماننے والے تھے کہ جن کی نظر میں غیر عورت جہاں کہیں بھی ہو وہ اس کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں ،نا کہ اس کی عزت کو خاک میں ملانے والے۔

واقعہ میں یہ بھی ہوسکتا تھا کہ اس عور ت سے پانی لے کر اس کو واپس کردیا جاتا ،مگر سرور دو عالم صلی الله علیہ وسلم جو پیکر جود وسخا تھے کس طرح آپ سے یہ ممکن تھا،چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کو خوب اکرام کرکے اور عطایا ونوازشات کے ساتھ باعزت رخصت فرمایا کہ یہی آپ صلی الله علیہ وسلم کی شایان شان بات تھی ۔

سہیل بن عمرو کے زمانہ کفر کے احوال بھی ملاحظہ فرمائیں:
# حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم گذررہے تھے کہ اسامہ بن زید نظرآئے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کواپنی سواری پراپنے آگے سوارکرلیااور سہیل بن عمر و کے دونوں ہاتھ گردن تک بندھے ہوئے تھے ،یہی سہیل کہتے ہیں کہ :جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم مکہ میں (فتح مکہ کے وقت) داخل ہوئے تو میں اپنے گھر میں داخل ہوا اور اندر سے دروازہ بند کرلیااور عبد اللہ کو میں نے یہ پیغام بھیجاکہ وہ جاکرمحمد (صلی الله علیہ وسلم )سے میرے لیے امان لے لے،یاد رہے کہ یہ وہی عبد اللہ ابو جندل ہیں، جو صلح حدیبیہ کے موقع پر ابھی دوسال قبل بیڑیوں میں جکڑے ہوئے آئے تھے اور یہی ان کے والد سہیل اس پر راضی نہ تھے کہ ان کے اس بیٹے کو بیڑیوں سے نجات مل جائے اور یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوجائیں،مگر آج تقریباً دو سال بعد یہی باپ اپنے اسی بیٹے سے اپنی جان کی امان طلبی کی درخواست کررہے ہیں۔ بہر حال یہ صاحبزادہ حضرت عبد اللہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں ا ور عرض کرتے ہیں یا رسول اللہ ! کیا آپ میرے والد کو امان دیں گے ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم تو پہلے ہی سب کوامان دے چکے تھے ،آپ نے فرمایا: ہاں ،وہ امان میں ہے، اللہ کی امان میں،یہ فرماکر آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے آس پاس کے حضرات سے فرمایا: جن کو سہیل بن عمرو ملے توا س سے کوئی تعرض نہ کرے، میری ذات کی قسم! بلاشبہ سہیل صاحب عقل اور شریف النفس ہے،مگر سہیل جیسے شخص پر اسلام مخفی نہیں،یہ سننا تھاکہ سہیل کے بیٹے عبد اللہ نے جاکر اپنے باپ کو آپ صلی الله علیہ وسلم کی زبان سے نکلے ہوئے یہ پیار بھرے جملے سنائے ،جیسے ہی سہیل نے یہ جملے سنے تو کہا: اللہ کی قسم! (محمدصلی الله علیہ وسلم) بچپن میں اور بڑے ہوکر بھی نیک وصالح ہی رہے۔

امن ملنے کے بعد سہیل امن وامان کے ساتھ آتے جاتے ،یہاں تک کہ وہ وقت آیا جب آپ صلی الله علیہ وسلم فتح مکہ سے فارغ ہوکر غزوہ حنین کے لیے تشریف لے گئے تو اب سہیل بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہم راہ گئے، مگر ابھی بھی شرک وکفر پر ہی تھے ،یہاں تک کہ اسی سفر میں جعرانہ کے مقام پر سہیل نے اسلام قبول کیااور آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کو حنین کی غنیمت میں سے سو اونٹ عطا کیے ۔

موقع کی مناسبت سے سہیل ہی کا ایک واقعہ حدیث وسیرت کی کتابوں میں مذکور ہے، یہ بھی ذرادلچسپ ہے، ملاحظہ فرمائیں۔
اسلام کی شان وشوکت دن بدن بڑھتی رہی ،آپ صلی الله علیہ وسلم کے زمانہ میں اسلام کی خوب خوب نشرواشاعت ہوئی ،آپ صلی الله علیہ وسلم دنیا سے تشریف لے گئے تو وفاشعار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسلام کی دعوت اور دین حق کی نشرواشاعت میں کوئی کمی نہ چھوڑی !اپنی جان ومال اور اوقات غرض یہ کہ ہر عزیزترین چیزکو اسلام کے لیے قربان کردیا،حضرت ابوبکر کی قیادت وامارت میں اسلام کادرخت پھلتا پھولتا رہا،اگرچہ کچھ فتنے بھی سامنے آئے، مثلاً مانعین زکوة کافتنہ کہ کچھ لوگوں نے زکوة کی ادائیگی سے انکار کیا،اسی طرح ارتداد کافتنہ وغیرہ، مگر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جانثار صحابہ کرام کی جانفشانی وقربانی سے ان فتنوں کا سدباب کیا اور اسلام کا کارواں آگے ہی بڑھا،یہاں تک کہ وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے، ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کازمانہ آیا جو اسلام کی نشرواشاعت اور اس کے عظیم ترین دائرہ کا وسعت کا زمانہ ثابت ہوا ،عراق وروم اور فارس فتح ہوا ، شام فتح ہوکر قبلہ اول بیت المقدس مسلمانوں کو بذریعہ صلح یہود نے سپردکردیا،مصرپر اسلام کاجھنڈا لہرایا،بلکہ آگے بڑھ کراسلام کے شعاعیں مشرق ومغرب اور شمال وجنوب ہر چہار سمت پھیلیں اور لوگ اسلام کی آغوش میں آتے چلے گئے،انہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کازمانہ ہے، قریش کے کچھ سربرآوردہ لوگ حضرت عمر سے ملنے کے لیے آئے ،ان میں ابو سفیان اور یہ مذکورہ صحابی جن کا ذکر اوپر ہوا سہیل بن عمر و بھی تھے ،ان حضرا ت نے اطلاع کی کہ ہم فلاں فلاں ملنا چاہتے ہیں،اسی وقت میں کچھ اور فقراء مسلمین بھی حاضر ہوگئے، وہ بھی بغرض ملاقات آئے تھے ،ان میں حضرت بلال ،حضرت صہیب ،حضرت عماربن یاسر(رضی اللہ عنہم) تھے،اندر سے ملنے کی اجازت جن کو ملی وہ ان فقراء حضرات صحابہ کو ملی ،یہ دیکھ کر ابو سفیان جو اب مسلمان ہی تھے اور صحابیت کے درجہ سے مشرف ہوچکے تھے، تلملا گئے ،کہنے لگے :میں نے آج کی طرح نہیں دیکھا کہ ان غلاموں کو تو اجازت ِملاقات ملے اور ہم بیٹھے رہیں، ہماری طرف کوئی التفات وتوجہ ہی نہیں؟ اس موقع پر یہی سہیل بن عمر رضی اللہ عنہ گویا ہوئے : ا ے لوگو ! میں تمہارے چہروں اور غصہ کو دیکھ رہا ہوں ،پس اگر تمہیں غصہ ہی ہے تو اپنے اوپر غصہ ہو ،اِن (فقراء) کو دعوت اسلام پیش کی گئی تو انھوں نے اس کو بہت جلد قبول کیا اورتمہیں اسلام کی دعوت دی گئی تو تم پیچھے ہی رہے ،اس لیے جب یہ حضرات اسلام میں آگے رہے تواب انہی کو سبقت واولیت حاصل رہے گی، تمہیں اب ان سے آگے بڑھنے کا حق نہیں اور اب جب یہ آگے ہی رہے تو اب تو تمہارے لیے ان کے پیچھے رہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں،ہاں! اب تمہارے لیے یہی بہتر ہے کہ جہاد میں جاؤ اور اسلام کی نشرواشاعت میں محنت کرو، امید ہے کہ اللہ تعالی تمہیں جہاد کے شرف سے شرف یاب فرماکر شہادت سے نوازدیں ، یہ کہہ کر سہیل بن عمرو نے اپنا کپڑا جھاڑا اور اٹھ کھڑے ہوئے، یہاں تک کہ شام پہنچ گئے۔

ابن شاہین کی روایت کے مطابق سہیل بن عمرو کا قول ہے : اللہ کی قسم! میں مسلمانوں کے ساتھ ہر موقع پر آگے رہوں گا جس طرح کہ میں مشرکین وکفار کے ساتھ آگے آگے رہا اور اسی طرح اسلام کے لیے خرچ کروں گا جس طرح میں نے کفر وشرک کی راہ میں خرچ کیا، تاکہ معاملہ برابر سرابر ہوجائے ۔

انہی سہیل بن عمرو سے روایت منقول ہے کہ جس میں انھوں نے فرشتوں کو میدان بدر میں جنگ کرتے ہوئے قتل کرتے ہوئے اورقید کرتے ہوئے دیکھا۔

(دلائل النبوة:ج 3/53) حضرت امام شافعی رحمة اللہ علیہ کا قول الاصابة فی تمییز الصحابہ میں ابن حجر نے نقل کیا ہے جو سہیل بن عمرو رضی اللہ عنہ سے متعلق ہے: ”کان سہیل محمود الاسلام من حین اسلم “ فرماتے ہیں سہیل جب سے اسلام لائے ان کی اسلامی زندگی قابل تعریف ہی رہی ۔

حضرت سعید بن فضالہ انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :میں اور سہیل بن عمرو ایک مرتبہ ساتھ ہی تھے، حضرت ابو بکر کا زمانہ تھا ،میں نے سہیل کو یہ کہتے ہوئے سنا : اللہ کے راستہ میں تھوڑی دیر کا کھڑا ہونا اس سے افضل ہے کہ کوئی اپنے گھر میں ساری زندگی عمل کرے،پھر سہیل نے کہا: اب میں مرابط (اسلامی حدود پر حفاظتی ذمہ داری اداکرنا) ہی رہوں گا، یہاں تک کہ مجھے موت آجائے اور کبھی مکہ واپس نہ ہوں گا،چناں چہ سہیل نے اپنا یہ عہد پورا کیا اور تازندگی شام میں مرابط رہے، یہاں تک کہ عمواس کی مشہور طاعونی بلا میں سنہ 18ھ میں وفات پائی ۔ رضی اللہ عنہ وارضاہ ۔ (الاصابة 3/213)

Flag Counter