شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کی شخصیت
مولانا محمد نجیب قاسمی،ریاض
شیخ الحدیث10/ رمضان المبارک1315ھ) 12/فروری1898ء) کو ضلع مظفرنگر کے قصبہ کاندھلہ کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے، آپ کے والد شیخ محمد یحییٰ مدرسہ مظاہر العلوم (سہارن پور) میں استاذ حدیث تھے۔ آپ کے دادا شیخ محمد اسماعیل بھی ایک بڑے جید عالم تھے۔ آپ کے چچا شیخ محمد الیاس ہیں، جو فاضل دارالعلوم دیوبند ہونے کے ساتھ تبلیغی جماعت کے موسس بھی ہیں، جنہوں نے امت مسلمہ کی اصلاح کے لیے مخلصانہ کوشش کرتے ہوئے ایک ایسی جماعت کی بنیاد ڈالی، جس کے ایثارو قربانی کی بظاہر کوئی نظیر اس دور میں نہیں ملتی اور یہ جماعت ایک مختصر عرصہ میں دنیا کے چپہ چپہ میں، یہاں تک کہ عربوں میں بھی پھیل چکی ہے۔
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کے چچا زاد بھائی شیخ محمدیوسف بن شیخ محمد الیاس تھے، جنہوں نے عربی زبان میں تین جلدوں پر مشتمل حیاة الصحابہ تحریر فرمائی، جس کے مختلف زبانوں میں ترجمہ بھی ہوئے، جو عرب وعجم میں لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوئے اور ہور ہے ہیں، جن سے لاکھوں کی تعداد نے استفادہ کیا اور کررہے ہیں۔
اس خاندان نے عربی واردو میں سینکڑوں کتابیں تحریر کیں، لیکن خلوص وللہیت کی واضح علامت یہ ہے کہ ایک کتاب کے حقوق بھی اپنے لیے محفوظ نہیں کیے، بلکہ الله تعالیٰ سے اجر عظیم کی امید کے ساتھ اعلان کر دیا کہ جو چاہے شائع کرے، فروخت کرے، تقسیم کرے ، چناں چہ دنیا کے بے شمار ناشرین خاص کر لبنان کے متعدد ناشرین اس خاندان کی عربی کتابیں بڑی مقدار میں شائع کر رہے ہیں اور عربوں میں ان کی کتابیں بہت مقبول ہیں۔ سعودی عرب کے تقریباً تمام بڑے مکتبوں میں ان کی کتابیں ( مثلا اوجزالمسالک الی موطا امام مالک اور حیاة الصحابہ) دست یاب ہیں۔
12/سال کی عمر شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب نے مدرسہ مظاہر العلوم سہارن پور میں داخلہ لیا۔ دارالعلوم دیوبند کے بعد مدرسہ مظاہر العلوم سہارن پور برصغیر کا اہم اور بڑا مدرسہ شمار کیا جاتا ہے، جس کی بنیاد دارالعلوم دیوبند کے 6 ماہ بعد رکھی گئی تھی۔ شیخ الحدیث کے حدیث کے اہم اساتذہ میں شیخ خلیل احمد سہارن پوری، آپ کے والد شیخ محمد یحییٰ اور آپ کے چچا شیخ محمد الیاس تھے۔
والد کے انتقال کے بعد صرف 20 سال کی عمر میں (1335ھ میں) مدرسہ مظاہر العلوم سہارن پور میں استاذ ہو گئے۔1341ھ میں اپنے شیخ خلیل احمد سہارن پوری کے اصرار پر صرف 26 سال کی عمر میں بخاری شریف کا درس دینا شروع فرما دیا۔1345ھ میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے شہر مدینہ منورہ میں ایک سال قیام فرمایا او رمدرسہ العلوم الشرعیہ ( مدینہ منورہ) میں حدیث کی مشہور کتاب ابوداؤد پڑھائی۔ یہ مدرسہ آج بھی موجود ہے، جس کے ذمہ دار سید حبیب مدنی کے بڑے صاحبزادہ ہیں۔ مدینہ منورہ کے قیام کے دوران ہی اپنی مشہور کتاب اوجز المسالک کی تالیف شروع فرما دی تھی، اس وقت آپ کی عمر صرف 29 سال تھی۔1446ھ میں مدینہ منورہ سے واپسی کے بعد دوبارہ مظاہر العلوم میں حدیث کی کتابیں خاص کر بخاری شریف اور ابوداود پڑھانے لگے اور یہ سلسلہ 1388ھ یعنی 73 سال کی عمر تک جاری رہا۔ غرضیکہ آپ نے 50 سال سے زیادہ حدیث پڑھانے اور لکھنے میں گزارے اور اس طرح ہزاروں طلبہ نے آپ سے حدیث پڑھی، جو دین اسلام کی خدمت کے لیے دنیا کے کونے کونے میں پھیل گئے۔ شیخ الحدیث نے حج کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے متعدد سفر کیے۔1345ھ میں آپ اپنے استاذ شیخ خلیل احمد سہارن پوری کے ساتھ مدینہ منورہ میں مقیم تھے کہ آپ کے استاذ محترم کا انتقال ہو گیا اور وہ جنت البقیع میں اہل بیت کے قریب دفن کیے گئے۔ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کی بھی خواہش تھی کہ مدینہ منورہ میں ہی مولائے حقیقی سے جاملوں ، چنا ں چہیکم شعبان1402ھ24/مئی1982ء مدینہ منورہ میں آپ کا انتقال ہوا۔ ایک جم غفیر کی موجودگی میں مدینہ منورہ کے مشہور ومعروف قبرستان جنت البقیع کے اس خطہ میں د فن کیے گئے جہاں اب تدفین کا سلسلہ بند ہو گیا ہے ۔ مسجد نبوی کے تقریباً تمام ائمہ شیخ الحدیث کے جناز ے میں شریک تھے۔ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کے بھتیجے سید حبیب مدنی (سابق رئیس الاوقاف ،مدینہ منورہ) نے اپنی نگرانی میں شیخ الحدیث کی قبر ان کے استاذ شیخ خلیل احمد سہارن پوری کے جوار میں بنوائی، اس طرح دونوں شیوخ اہل بیت کے قریب ہی مدفون ہیں۔ دارالعلوم دیوبند کے استاذ او رمجاہد آزادی شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی نے چند مرحلوں میں تقریباً15 سال مسجد نبوی میں علوم نبوت کا درس دیا۔ ان کے بھتیجے سید حبیب مدنی ایک طویل عرصہ تک مدینہ منورہ کے گورنر کی سرپرستی میں مدینہ منورہ کے انتظامی امور دیکھتے رہے ،غرضیکہ وہ عرصہٴ دراز تک مساعد گورنر تھے۔ سعودی عرب میں کوئی بھی ہندی نژاد سعودی اتنے بڑے عہدہ پر فائز نہیں ہوا۔
حضرت عبدالله بن عمر کہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص مدینہ میں مر سکتا ہے ( یعنی یہاں آکر موت تک قیام کر سکتا ہے ) اسے ضرور مدینہ میں مرنا چاہیے، کیوں کہ میں اس شخص کی شفاعت کروں گا جو مدینہ منورہ میں مرے گا۔ (ترمذی)
شیخ الحدیث کو آخری عمر میں (1397ھ میں) سعودی شہریت (Saudi Nationality) بھی مل گئی تھی او رانہوں نے سعودی پاسپورٹ ہی سے ہندوستان کا آخری سفر اور اس سے قبل ساؤتھ افریقہ کا سفر کیا تھا۔شیخ الحدیث کے خلیفہ شیخ عبدالحفیظ عبدالحق مکی بھی سعودی ہیں، جو اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ1952 میں ہجرت فرماکر مکہ مکرمہ میں مقیم ہوئے، مکتبہ امدادیہ کے مالک ہیں ،اس مکتبہ سے ہندوپاک کے علما کی عربی کتابیں سعودی حکومت کی اجازت کے بعد بڑی تعداد میں شائع ہوتیہیں۔
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کی حدیث کی خدمات
شیخ الحدیث نے عربی اور اردو میں 100 سے زیادہ کتابیں تحریر فرمائی ہیں جن میں سے بعض اہم کتابوں کا مختصر تعارف عرض ہے:
”اوجز المسالک الی مؤطا الإمام مالک“ :یہ کتاب عربی زبان میں ہے،جو حدیث کی مشہور ومعروف کتاب موطا امام مالک کی شرح ہے۔ اس کتاب کی 18 جلدیں ہیں، جو آپ نے درس حدیث اور دیگر مصروفیات کے ساتھ1375ھ میں 30 سال کی جدوجہد کے بعد تحریر فرمائی۔ مدینہ منورہ کے قیام کے دوران اس کتاب کی تالیف شروع فرمائی تھی، اس وقت آپ کی عمر صرف 29 سال تھی۔ دنیا کے تقریباً تمام مکاتب فکر کے علماء اس کتاب سے استفادہ کرتے ہیں ۔ لبنان کے متعدد ناشرین اس کتاب کے لاکھوں کی تعداد میں نسخے شائع کر رہے ہیں ۔سعودی عرب کی تقریباً تمام ہی لائبریریوں اور مکتبوں کی یہ کتاب زینت بنی ہوئی ہے، مالکی حضرات اس کتاب کو نہایت عزت واحترام کے ساتھ پڑھتے اور پڑھاتے ہیں، یہاں تک کہ بعض مالکی علماء نے فرمایا ہے کہ ہمیں بعض فروعی مسائل سے واقفیت صرف اسی کتاب سے ہوئی ہے۔ بعض ناشرین نے اس کتاب کو 15 جلدوں میں شائع کیا ہے۔
”الابواب والتراجم للبخاری“ اس کتاب میں بخاری شریف کے ابواب کی وضاحت کی گئی ہے۔ بخاری شریف میں احادیث کے مجموعہ کے عنوان پر بحث ایک مستقل علم کی حیثیت رکھتی ہے، جسے ترجمة الابواب کہتے ہیں۔ شیخ زکریا نے اس کتاب میں شاہ ولی الله دہلوی او رعلامہ ابن حجر العسقلانی جیسے علماء کے ذریعہ بخاری کے ابواب کے بارے میں کی گئی وضاحتیں ذکر کرنے کے بعد اپنی تحقیقی رائے پیش کی ہے۔ یہ کتاب عربی زبان میں ہے اور اس کی 6 جلدیں ہیں۔
”لامع الداری علی جامع صحیح البخاری“ :یہ مجموعہ دراصل شیخ رشید احمد گنگوہی کا درس بخاری ہے، جو شیخ الحدیث کے والد شیخ محمد یحییٰ نے اردو زبان میں قلم بند کیا تھا۔ شیخ الحدیث مولانا زکریا نے اس کا عربی زبان میں ترجمہ کیا او راپنی طرف سے کچھ حذف واضافات کرکے کتاب کی تعلیق اور حواشی تحریر فرمائے۔ اس طرح شیخ الحدیث کی 12 سال کی انتہائی کوشش او رمحنت کی وجہ سے یہ عظیم کتاب منظر عام پر آئی۔ اس کتاب پر شیخ الحدیث کا مقدمہ بے شمار خوبیوں کا حامل ہے۔ یہ کتاب عربی زبان میں ہے اور اس کی 10 جلدیں ہیں۔
”بذل المجھود فی حل ابی داود“ یہ کتاب شیخ خلیل احمد سہارن پوری کی تحریر کردہ ہے، لیکن شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کی چند سالوں کی کوشش کے بعد ہی 1345ھ ہجری میں مدینہ منورہ میں مکمل ہوئی۔ اس کتاب کے متعلق کہا جاتا ہے کہ شیخ الحدیث نے اپنے استاذ سے زیادہ وقت لگا کر اس کتاب کو پایہٴ تکمیل تک پہنچایا۔ یہ کتاب عربی زبان میں ہے اور اس کی تقریباً20 جلدیں ہیں۔
”الکوکب الدری علی جامع الترمذی“یہ مجموعہ دراصل شیخ رشید احمد گنگوہی کا اردو زبان میں درس ترمذی شریف ہے ،جو شیخ الحدیث عربی زبان میں ترجمہ کرکے اپنی تعلیقات کے ساتھ مرتب کیا ہے۔ یہ کتاب عربی زبان میں ہے اور اس کی4 جلدیں ہیں۔
”جزء حجة الوداع وعمرات النبی“ اس کتا ب میں شیخ الحدیث نے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے حج اور عمر ہ سے متعلق تفصیل ذکر فرمائی ہے۔ حج اور عمرہ کے مختلف مسائل اور مراحل، نیزان جگہوں کے موجودہ نام جہاں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے قیام فرمایا تھا یا وہاں سے گزرے تھے ، ذکر کیا ہے ۔ یہ کتاب عربی زبان میں ہے۔
خصائل نبوی شرح شمائل ترمذی: امام ترمذی کی مشہور تالیف ”الشمائل المحمدیة“ کاتفصیلی جائزہ اوردوزبان میں تحریر کیا ہے۔ اس کتاب کاانگریزی ترجمہ بھی شائع ہو چکا ہے۔
شیخ الحدیث کی چند دیگر عربی کتابیں
وجوب إعفاء اللحیة، أصول الحدیث علی مذہب الحنفیة، اولیات القیامة، تبویب احکام القرآن للجصاص، تبویب تاویل مختلف الاحادیث لابن قتیبة، تبویب مشکل الأثار للطحاوی، تقریر المشکاة مع تعلیقاتہ، تقریر النسائی، تلخیص البذل، جامع الروایات والاجزاء ، جزء اختلاف الصلاة، جزء الاعمال بالنیات، جزء افضل الاعمال، جزء امراء المدینة، جزء انکحتہ صلی الله علیہ وسلم، جزء تخریج حدیث عائشة فی قصة بریرة، جزء الجہاد، جزء رفع الیدین، جزء طرق المدینة، جزء المبھمات فی الاسانید والروایات، جزء ماقال المحدثون فی الامام الاعظم، جزء مکفرات الذنوب، جزء ملتقط المرقاة، جزء ملتقط الرواة عن المرقاة، حواشی علی الھدایة، شرح سلم العلوم، الوقائع والدھور(تین جلدیں، پہلی جلد نبی اکرم صلی الله علیہ و سلم کی سیرت کے متعلق، دوسری جلد خلفائے راشدین کے متعلق اور تیسری جلد دیگر حکم رانوں کی تاریخ کے متعلق)۔
شیخ الحدیث کی چند اردو کتابیں
الاعتدال فی مراتب الرجال، آپ بیتی(7 جلدیں) اسباب اختلاف الائمہ، التاریخ الکبیر، سیرت صدیق، نظام مظاہر العلوم(دستور)، تاریخ مظاہر العلوم، شرح الالفیة(تین جلدیں)، اکابر کا تقویٰ، اکابر کا رمضان، اکابر علمائے دیوبند، شریعت وطریقت کا تلازم ( اس کا عربی زبان میں ترجمہ مصر سے شائع ہو چکا ہے) موت کی یاد، فضائل زبان عربی، فضائل تجارت اور فضائل پر مشتمل9 کتابوں کا مجموعہ فضائل اعمال۔
چند سطریں شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کی شخصیت کے متعلق تحریر کی ہیں، الله تعالیٰ قبول فرمائے۔ تفصیلات کے لیے دیگر کتابوں کے ساتھ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی کتاب( تذکرہ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا) کا مطالعہ فرمائیں۔