Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1437ھ

ہ رسالہ

8 - 19
اسلامی بینک ۔۔۔ حیلہ بینک

محترم اوریا مقبول جان
	
بنی اسرائیل ایک ایسی قوم ہے جس پر الله نے بار بار ذلت ومسکنت مسلط کی اور بار بار اپنے عذاب کا مزا چکھایا۔ قرآن کے ایک چوتھائی حصے سے بھی زیادہ میں الله تبارک وتعالی نے یہودیوں کی حیلہ سازیوں، مکروفریب، دجل ومکاری اور احکامات الہٰی کے انکار کے بارے میں بتایا ہے۔ اس میں علمائے یہود کے قصور اس قدر گھناؤنے تھے کہ الله کو ان پر لعنت بھیجنا پڑی۔ فرمایا: جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں۔ حالاں کہ ہم انہیں سب انسانوں کی راہ نمائی کے لیے اپنی کتاب میں بیان کرچکے ہیں، یقین جانو الله بھی ان پر لعنت بھیجتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی ان پر لعنت بھیجتے ہیں۔ (البقرہ، آیت:160)

یہ لوگ کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے تھے اور دوسرے حصے سے دنیاوی مفادات کی بنیاد پر انکار کرتے تھے، فرمایا: تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو، پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں گے ، ان کی سزا اس کے سوا کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل وخوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں۔ (البقرہ، آیت:85)

یہودیوں پر ایک عذاب ایسا بھی آیا کہ وہ بندر بنا دیے گئے۔ یہ عذاب اس وجہ سے آیا کہ انہیں ہفتے کے دن شرعی حیلہ کرنے سے منع کیا گیا تھا، لیکن وہ حیلے تراشتے اور طرح طرح کے طریقے ڈھونڈتے ،تاکہ الله کے اس حکم کا انکار بھی ہو جائے اور شرعی طور پر ان پر کوئی حرف نہ آئے۔ ہفتے کو دریا میں مچھلی پکڑنے پر ممانعت تھی۔

یہود نے بڑے، بڑے تالاب بنائے تھے، جن کی طرف پانی کا رخ موڑ دیتے۔ وہاں مچھلی آکر پھنس جاتی اور یوں وہ اسے اگلے دن پکڑ لیتے اور باقی اضافی مچھلی کا شکار بھی ہوتا رہتا۔ پھر تمہیں، اپنی قوم کے ان لوگوں کا قصہ تو معلوم ہی ہے جنہوں نے ہفتے کے دن کاروبار نہ کرنے کا قانون توڑا، ہم نے انہیں کہہ دیا کہ ہو جاؤ بندر اور اس حال میں رہو کہ ہر طرف سے تم پر پھٹکار پڑے۔ (البقرہ،آیت:66)

حیلہ سازی، بہانہ بازی اور مختلف طریقوں سے الله تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات سے روگردانی کا راستہ نکالنا علمائے یہود کا خاصہتھا۔ لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنی امت کے بارے میں ایسے ہی ایک خطرے سے آگاہ فرمایا“ تم پہلی امتوں کی اسی طرح پیروی کرو گے جس طرح بالشت بالشت کے برابر اور گز گز کے برابر ہوتا ہے۔ حتی کہ اگر وہ لوگ گوہ کے سوراخ میں گئے ہوں گے تو تم ان کی پیروی کرو گے۔ ہم لوگوں نے عرض کیا یا رسول الله ! کیا یہود ونصاری کی پیروی کریں گے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اور کون ہو سکتا ہے؟! (متفق علیہ)

یہی ہماری روش ہے کہ ہمارے بعض علماء بھی ویسے ہی حیلہ سازی کے ذریعے الله کے احکامات سے رو گردانی کا راستہ نکالتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان جس کے آئین میں سود کو ختم کرنے کی ذمے داری حکومت کی ہے اس کے صدر ممنون حسین کو یہ جرات ہوتی ہے کہ وہ علماء سے کہتے ہیں کہ ہاؤس بلڈنگ کے قرضے پر سود کی ادائیگی کے لیے راستہ نکالیں۔ ہاؤس بلڈنگ کے قرضے حکومت کے زیر انتظام دیے جاتے ہیں اور صدر محترم اپنے ماتحت محکمے کو سود سے منع نہیں کرسکتے، لیکن علماء سے کہتے ہیں کہ کوئی راستہ نکالیں۔ یعنی حکومت تو یہ حرام کھاتی رہے گی، آپ دینے والوں کی تسلی کے لیے کوئی راستہ نکالو۔ یہ توقع علماء سے کیوں لگائی گئی؟ اس لیے کہ اس مملکت خداداد پاکستان کے کچھ علماء نے ایک ایسے بینکاری نظام کو حیلوں کے ذریعے اسلامی بنا کر پیش کیا جس کی ساری کی ساری اساس ہی سودی نظام پر ہے۔ جب سپریم کورٹ نے اپنے تاریخ ساز فیصلے مورخہ 23/دسمبر1999ء میں بینکاری سود کو حرام قرار دیا تو اقتدار کے ایوانوں میں ہل چل مچ گئی۔ فوری طور پر جو پالیسی ترتیب دی گئی اس کے اہم ستون یہ تھے۔

عدالتوں کے ذریعے سود کے حرام ہونے کو متنازعہ رکھا جائے، تاکہ پوری قوم کنفیوژن کا شکار رہے۔

حکومت عدالت میں یہ مؤقف اختیار کرے کہ اسلام نے تواصل رباء کو حرام قرار دیا ہے، جب کہ بینکاری سود تو رباء ہے ہی نہیں۔

موجودہ جدید بینکاری کی طرز پر ایک اسلامی بینکاری نظام قائم کیا جائے، جو سودی نظام کے شانہ بشانہ چلتا رہے اور جسے اسلامی قرار دینے کے لیے شریعہ ایڈوائزر مقررکیے جائیں۔

یوں ایک ہی بینک لوگوں کو یہ سہولت دے کہ اگر وہ چاہیں تو اسلامی بینکاری کے تحت اکاؤنٹ کھولیں یا عام بینکاری کے تحت۔ یعنی چاہے تو اس بینک کی دکان سے حرام کاروبار کریں یا حلال۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ایک قصاب کی دکان پر خنزیر اور بکری کا گوشت بیک وقت دست یاب ہو۔ اس وقت 22 اسلامی بینک بیک وقت یہ سہولت فراہم کر رہے ہیں اور ان بینکوں میں بیٹھے شریعہ ایڈوائزر اور مفتیان کرام خاموش ہیں، بلکہ اسٹیٹبینک کا شریعہ ایڈیوائزری بورڈ بھی خاموش ہے۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک قصاب کی دکان پر خنزیر کا گوشت بھی بک رہا ہو اور آپ کہیں کہ میں تو اس بات کی تنخواہ لیتا ہوں کہ یہاں بکری کا گوشت خالص ہے یا نہیں؟ اگر اسلامی بینکاری واقعی حلال ہے تو مروجہ بینکاری کو بند کیوں نہیں کرتے؟ سب کچھ تو ویسا ہی ہے، عمارت، چیک بک، اے ٹی ایم کارڈ، قرضہ اسکیمیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ہم نے ہی تو حیلہ سازی سے انہیں قائم رکھا ہوا ہے۔ صرف ایک شرعی حیلہ بیان کردوں۔ اجارہ سکوک یہ ایک طرح کے بانڈ کی قسم ہے ۔ مثلاً واپڈا اگر ایک ڈیم بنانا چاہتا ہے تو وہ اپنے ڈائریکٹروں کی ایک کمیٹی بنائے گا جسے SPV یعنی Purpose Vehicle Siecial کہتے ہیں۔

یہ کمپنی اس ڈیم کی عالمی کنسلٹنٹ سے قیمت لگوائے گی، جسے Valuation کہتے ہیں۔ یہ قیمت اسلامی بینک اجارہ سکوک کی انوسٹمنٹ کے ذریعے ادا کر دیں گے، جس سے وہ ڈیم بنے گا۔ اب یہ کمپنی جو اسی ادارہ کے ڈائریکٹروں پر مشتمل ہو گی، ڈیم کوواپڈا کو استعمال کرنے کے لیے دے گی۔ اب واپڈا سے جو رقم کمپنی حاصل کرے گی اسے سود نہیں، کرایہ کہا جائے گا۔ اس پر سب سے مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ہر صبح اس ڈیم کا کرایہ سودی بینکوں کے سود کی شرح ناپنے کے نظام KIBOR یاLIBOR کے ذریعے ادا ہو گا۔ یعنی جس دن شرح کم اس دن کرایہ کم اور جس دن شرح زیادہ اس دن کا کرایہ زیادہ۔ کیا خوب صورت نفع اور نقصان کی حصہ داری نکالی ہے؟! کیا کسی عالم دین نے اپنا مکان کرائے پر دیا ہے اور ہر روز اس کا کرایہ KIBOR یاLIBOR کے ریٹ دیکھ کر وصول کرتا ہو؟! پوری کی پوری اسلامی بینکاری حیلہ سازی پر مبنی ہے، جسے اسلامی بینکاری تو نہیں، حیلہ بینکاری کہاجاسکتا ہے۔

لیکن اس حیلے کے بعد جو سب سے بڑا فریب اب ہونے جارہاہے وہ ایسا ہے جو پورے کے پورے اسلامی بینکاری کے نظام کو سودی مال سے تر کر دے گا اور اس کی منظوری اسٹیٹ بینک کے شریعہ ایڈوائزری بورڈ نے دے دی ہے۔ شاہد حسین صدیقی صاحب نے اس خطرناک فیصلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کچھ دن پہلے تحریر کیا تھا ” اسٹیٹ بینک اسلامی بینکوں سے سکوک کی مدت ختم ہونے کے قریب انہیں خرید کر مارکیٹ سے اربوں روپے وصول کرتا ہے، پھر یہ رقم اوپن مارکیٹ میں سودی بینکوں کو فراہم کر دی جاتی ہے: ”اسٹیٹ بینک اسے بیع مؤجل کہتا ہے۔ اس طرح کھاتے دار جو رقم اسلامی بینکوں میں پہنچاتے ہیں وہ خود بخود سودی بینکوں میں پہنچ جاتی ہے اور اس کی سود کی آمدنی سے جو منافع اسلامی بینک حاصل کرتے ہیں اسے خالصتاً اسلامی کہہ کر کھاتے داروں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اب تو خنزیر او ربکری کا گوشت بھی ایک کرد یا گیا ہے۔ حرام وحلال ایک جگہ ایسے گڈ مڈ کر دیے کہ پہچاننا مشکل ہے، لیکن میرے لیے حیرت کی بات یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کے شریعہ ایڈوائزری بورڈ جس میں ہر مسلک کے علماء شامل ہیں اس نے اس کی منظوری دے دی اور پوری امت کے علماء اس پر چپ ہیں،خاموش ہیں،مہربہ لب ہیں۔

شاید انہیں اس بات کی سنگینی کا احساس نہیں یا پھر انہوں نے سورہ بقرہ کی ان آیات کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیا ہے، جن میں کہا گیا ہے کہ سود الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے خلاف جنگ کا اعلان ہے۔ مکمل انکار کرنے والوں، الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے منکروں کا معاملہ تو الله روز قیامت پر چھوڑتا ہے، لیکن جو اسے مانتے ہیں اور پھر حیلہ سازی، مکروفریب، دجل وریا کاری او رمنافقت کے ذریعے اس کے احکامات میں دنیاداری کی گنجائش نکالتے ہیں تو ان پر آنے والے درد ناک عذابوں سے قرآن کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ شاید ہم کسی بڑے عذاب کو آواز دے رہے ہیں۔ جو الله ایک شدت والے زلزلے سے ہمیں خوف زدہ کرسکتا ہے، وہ زمین کو مزید جنبش بھی دے سکتا ہے، تاکہ ہم عبرت کے نشان بنا دیے جائیں۔ (بشکریہ، ایکسپریس)

Flag Counter