نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت
حکیم ا لامت مولانا اشرف علی تھانویؒ
بسم الله الرحمن الرحیم
﴿یَا قَوْمَنَا أَجِیْبُوا دَاعِیَ اللَّہِ وَآمِنُوا بِہِ یَغْفِرْ لَکُم مِّن ذُنُوبِکُمْ وَیُجِرْکُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِیْمٍ﴾․(سورہ احقاف، آیت:31)
ترجمہ:” اے قوم! الله کی طرف بلانے والے کا کہنا مانو اور اس پر ایمان لے آؤ، الله تعالیٰ تمہارے گناہ معاف کر دیں گے اور تم کو عذاب درد ناک سے محفوظ رکھیں گے۔“
جنات کا مقولہ
یہ ایک آیت ہے سورہٴ احقاف کی اور یہ قول نقل کیا گیا ہے بعض جنوں سے ،جس کا قصہ شان نزول سے معلوم ہوتا ہے اور یہ آیت مکی ہے، ہجرت سے قبل یہ واقعہ ہوا ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم صبح کی نماز پڑھ رہے تھے، آپ نے جو قرآن شروع کیا تو اُدھر سے جن گذرے تھے، انہوں نے اُس کو سنا اور چلے گئے ،مگر اس دفعہ مکالمت (بات چیت کرنے )سے مشرف نہیں ہوئے۔ ہاں دوسری بار مکالمت سے بھی مشرف ہوئے ہیں۔ اس دفعہ صرف قرآن سن کر لوٹ گئے اور اپنی قوم کے پاس جاکر قرآن کی تعریف کی اور اُس پر ایمان لانے کی رغبت دلائی۔ سو اُس موقعہ کی یہ ایک آیت ہے اور اُن جنوں کا مقولہ ہے جو انہوں نے اپنی قوم سے جاکر کہا ہے۔
الله پاک کی تصدیق
گو ظاہر میں یہ جنوں کا مقولہ ہے۔ لیکن اگر غور کرکے دیکھا جائے تو یہ حق تعالیٰ ہی کا ارشاد ہے، کیوں کہ یہ بات طے شدہ ہے کہ جس بات کو نقل کرکے اُس پر حق تعالیٰ انکار نہ فرمائیں تو وہ درحقیقت انہیں کا فرمان ہوتا ہے۔ کیوں کہ جب نقل کرکے انکار نہیں کیا تو اُس کو صحیح سمجھا۔
”الجواب صحیح“ کی حقیقت
تو ایسا ہوا جیسے مفتی فتویٰ لکھے اور کوئی دوسرا لکھ دے الجواب صحیح ”جواب درست ہے“ تو وہ فتویٰ اس مصدق کا بھی ہے۔ خاص کر ایسی حالت میں جب کہ فتویٰ لکھنے والا ایک نو آموز شاگرد ہو اور تصدیق لکھنے والا اُستاد ہو تو وہ اس صورت میں تو حقیقتاً اُسی استاد کا فتویٰ ہے اور اصل میں یہاں یہی مثال ہے کہ فتویٰ لکھنے والا ہو ایک نو آموز شاگرد۔ اور مصدق ہواستاد، کیوں کہ پہلی صورت میں جہاں مفتی شاگرد مصدق استاد نہیں ہے وہاں تو بعض دفعہ اصل مجیب زیادہ ہوتا ہے مصدق سے، مگر اس صورت میں کہ مفتی نو آموز شاگرد ہے۔ جواب دینے والا اصل میں کچھ نہیں۔ کیوں کہ وہ خود اس میں متردد ہے استاد کو اس لیے دکھلاتا ہے تاکہ اُس کی صحت پر اطمینان ہو جائے تو جب اُس نے استاد کو دکھلا لیا اور استاد نے اس پر صاد بنا دیا تو اب اس کو اطمینان ہو گیا تو وہ حقیقت میں استاد کا مضمون ہے، کیوں کہ جس شان کا یہ مضمون اب استاد کے صاد بنانے پر ہو گیا ہے پہلے اُس شان کا نہ تھا، کیوں کہ اب حجت ہے اور اس سے پہلے حجت نہ تھا تو جب حجیت کی حیثیت سے دیکھا جاوے گا تو وہ فتویٰ استاد کا کہا جاوے گا، نہ کہ شاگرد کا ۔ تو اسی طرح جب حق سبحانہ وتعالی کسی کا کلام نقل فرما دیں خاص کر ایسے کا کلام جو کہ فی نفسہ حجت نہ ہو، جیسے کسی غیر نبی کا کلام اور نقل کرکے پھر اُس کی تصدیق فرما دیں تو وہ کلام حقیقت میں حق تعالیٰ ہی کا کہا جاوے گا۔ اور کسی کلام کو نقل فرماکر سکوت کرنا یہ اُس کی تصدیق ہی کرنا ہے، کیوں کہ یہ بات غیر ممکن ہے کہ خدا ورسول کسی کے غلط کلام کو نقل کرکے سکوت کریں۔ ہم میں تو دب جانے کا احتمال ہے کہ ضرر کے خوف سے غلط بات پر سکوت کریں، مگر خدا ورسول میں تو یہ احتمال ہو ہی نہیں سکتا۔ خاص کر خدائے تعالیٰ میں کیوں کر ظاہر ہے کہ ان کو کوئی کیا ضرر پہنچا سکتا ہے؟
اور حضورصلی الله علیہ وسلم گو بشر ہیں۔ لیکن حق تعالیٰ نے فرما دیا ہے: ﴿وَیَخْشَوْنَہُ وَلَا یَخْشَوْنَ أَحَداً إِلَّا اللَّہَ﴾․(سورہ الاحزاب، آیت:39)
(کہ وہ احکام کو پہنچانے میں) بس خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہیں، کسی اور سے اندیشہ نہیں کرتے۔ قرآن میں دیکھیے اور تواریخ میں بھی کہ کوئی نبی کسی سفاک کے سامنے بھی نیچے نہیں دبا۔ انبیاء اتنے دلیر ہوتے تھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرمایا گیا کہ فرعون کو ذرا نرمی سے کہنا۔ یعنی اس قدر صاف اور دلیر تھے کہ اگر یہ ارشاد نہ ہوتا تو جانے کیا اکھاڑ بچھاڑ کر آتے اور نرمی سے کہنے میں ضرور فائدہ ہوتا ہے، گو خاص اس کو نہ ہو ۔ مگر دوسروں کو تو یقینا ہوتا ہے۔ نیز اس میں یہ حجت باقی نہیں رہتی کہ مجھے سوچنے کا موقع نہ دیا اور خدا کو یہ منظور ہے :﴿لِئَلاَّ یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّہِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُل﴾․(سورہ نساء:165) نرمی سے بات کرنے میں یہ مصالح ہوتے ہیں، اس لیے یہ فرمایا تھا کہ نرمی سے باتیں کرنا۔ غرض اس سے یہ معلوم ہوا کہ انبیاء کس قدر صاف اور نڈر ہوتے تھے۔
حتی کہ بعض انبیاء کو قتل کی نوبت آئی۔ انہوں نے قتل ہونا گوارا کیا۔ مگر کسی احکام کو نہ چھپایا۔ حالاں کہ اوروں کے لیے اجازت بھی ہے کہ ایسی حالت میں چھپالیں۔ چناں چہ ارشاد ہے ﴿إِلاَّ مَنْ أُکْرِہَ وَقَلْبُہُ مُطْمَئِنٌّ بِالإِیْمَانِ﴾․(سورہ النحل، آیت:106)
یعنی جو شخص کہ کلمہ کفر پر مجبور کیا جاوے اور قلب اُس کا ایمان کے ساتھ مطمئن ہو تو وہ اس عہد سے مستثنیٰ ہے۔ حضرت عمار رضی الله عنہ کو ایک ایسا واقعہ پیش آیا تھا، اُس وقت یہ آیت نازل ہوئی تھی۔ پس اُس وقت سے اس کی اجازت ہو گئی کہ ایسی حالت میں ایمان کو چھپالیں۔ سو امت کو تو اس کی اجازت دے دی گئی۔ گو واجب نہیں کیا گیا۔ لیکن انبیاء کو ایسی حالت میں بھی اجازت نہیں کہ کوئی حکم چھپائیں۔ چناں چہ ارشاد ہے:﴿ وَیَخْشَوْنَہُ وَلَا یَخْشَوْنَ أَحَداً إِلَّا اللَّہَ﴾․(سورہ الاحزاب، آیت:39) یعنی (تبلیغ احکام میں) وہ صرف خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور کسی سے نہیں ڈرتے تاکہ ڈر کی وجہ سے تبلیغ میں کچھ کوتاہی کرنے کا شبہ نہ ہو سکے اور تبلیغ کی قید ترجمہ میں اس لیے لگائی کہ یہ مقتضائے مقام ہے، نہ اس لیے کہ غیر تبلیغ میں ڈرتے ہیں، کیوں کہ انبیاء کسی وقت میں بھی کسی سے نہیں ڈرتے۔ معمولی اوقات میں بھی اُن کو اندیشہ نہیں ہوتا۔ چناں چہ واقعات سے یہ بات معلوم ہو سکتی ہے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم کو طرح طرح کے واقعات پیش آئے، مگر آپ ذرا بھی نہیں گھبرائے۔
حضور صلی الله علیہ وسلم کی بہادری
چناں چہ ایک سفر میں حضور کو یہ واقعہ پیش آیا کہ دوپہر کو آرام فرمانے کے لیے ایک درخت کے نیچے لیٹ گئے، صحابہ آپ سے ذرا فاصلہ پر تھے، اتفاق سے ایک کافر کا اُدھر سے گذر ہوا۔ اُس نے اس موقع کو بہت ہی غنیمت سمجھا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم تنہا سو رہے ہیں اور تلوار لٹکی ہوئی ہے۔ بس اس وقت جو ہو سکے کر لینا چاہیے۔ مگر اس کو یہ اندیشہ ہوا کہ اگر حضور صلی الله علیہ وسلم کی آنکھ کھل گئی اور تلوار پر حضورصلی الله علیہ وسلم نے قبضہ کر لیا تو سخت مشکل ہو گی، پھر اپنی ہی جان بچانی دشوار ہو گی۔ اس لیے اس نے پہلے آپ کی تلوار پر قبضہ کر لیا، پھر حضور صلی الله علیہ وسلم کوجگایا۔ اور کہا من یمنعک منی کہ اب آپ کو مجھ سے کون بچاوے گا؟ یہ ایسا وقت تھا کہ شجاع سے شجاع آدمی بھی گھبرا جاتا ۔ کیوں کہ اول تو ننگی تلوار سر پر دیکھ کر آدمی ویسے ہی بدحواس ہو جاتا ہے، خاص کر جب نیند سے جاگ کر ایسا واقعہ ہو وہ وقت کتنا وحشت کا ہوتا ہے۔ مگر آپ پر ذرا بھی وحشت کا اثر نہیں آیا اور آپ نے بالکل بے دھڑک جواب میں فرمایا کہ الله یعنی الله تعالیٰ بچاویں گے۔
مسبب الاسباب پر نظر
کیوں کہ آپ کو تو پورا بھروسہ تھا خدا تعالیٰ پر، ہم تو اسباب کو دیکھتے ہیں اور آپ کی نظر تھی مسبب پر، پھر آپ کو اس سے کس طرح خوف ہو سکتا تھا #
عقل در اسباب می دارد نظر
عشق می گوید مسبب را نگر
ترجمہ:”یعنی عقل تو اسباب پر نظر رکھتی، لیکن عشق مسبب کو دیکھتا ہے۔“
اس کی ایسی مثال ہے کہ گنوار آدمی تو انجن کو دیکھتا ہے او رجاننے والا انجن کو نہیں دیکھتا ،ڈرائیور کو دیکھتا ہے۔ اب اگرڈرائیور کہہ دے کہ تم فلاں جگہ آکر لین پر ٹھہر جانا میں انجن روک دوں گا۔ تو اُس شخص کو لین پرٹھہر جانے میں کچھ بھی خوف نہ ہو گا۔ اسی طرح انبیاء علیہم السلام چوں کہ مسبب کو دیکھتے ہیں، اس لیے اُن کو دوسروں سے نہ فکر ہوتی ہے، نہ تردد (اور)نہ اندیشہ۔
انبیاء علیہ السلام کا تدابیر اختیار کرنا
اب یہ بات کہ جب اُن کو کسی سے ڈر نہیں ہے تو پھر اپنی حفاظت کیوں کرتے ہیں؟ جیسا کہ حدیثوں میں ہے کہ آپ جنگ میں زرہ پہن کر تشریف لے جاتے تھے تو سمجھ لو کہ جو سبب ہے نہ ڈرنے کا وہی سبب ہے حفاظت اور تدبیر کا، وہ جیسے حق تعالیٰ کے وعدے کو سچا سمجھتے ہیں اُن کے حکم کو بھی واجب العمل سمجھتے ہیں۔ جب ان کا حکم ہوا کہ زرہ پہن کر تشریف لے جائیے تو زرہ پہن لی۔ تو اس کی یہ وجہ نہ تھی کہ آپ کی نظر اسباب پر تھی، بلکہ حق تعالیٰ نے چوں کہ تدبیر کو مشروع کیا ہے ۔ اس لیے آپ تدبیر کی رعایت فرماتے تھے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جیسے حق تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ کوئی کچھ نہ کر سکے گا، آپ اندیشہ نہ کریں، اسی طرح یہ بھی حق سبحانہ تعالیٰ ہی کا حکم ہے کہ اپنی حفاظت کے لیے تو انبیاء تدبیر مشروع ، محض اس لیے کرتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے اور انبیاء کی تو بڑی شان ہے، اس کو تو اولیاء بھی سمجھتے ہیں۔ اسباب کے اختیار کرنے میں ان کی بھی یہی نیت ہوتی ہے، بلکہ غلبہٴ حال سے اگر کوئی اسباب کو چھوڑ بھی دیتا ہے تو غیب سے اُس کی اصلاح ہوتی ہے۔
شاہ ولی الله کی حکایت
چناں چہ شاہ ولی الله صاحب نے فیض الحرمین میں لکھا ہے کہ مجھ کو تین باتوں پر مجبور کیا گیا، جو طبعاً مجھ پر گراں تھیں۔ مگر حکم مقدم ہے طبع پر، ایک تمسک بالاسباب (اسباب کو اختیا رکرنا)۔ دوسرے عدم خروج عن المذاہب الاربعہ(مذاہب اربعہ یعنی حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی سے خارج نہ ہونا) تیسرے علی کرم الله وجہہ پر شیخین کی تفضیل (یعنی ابوبکر وعمر رضی الله عنہما کو حضرت علی کرم الله وجہ پر فضیلت دینا)اور حکمت اس میں یہ ہے کہ اسباب اختیار کرنے میں ایک تو شان احتیاج کہ ہم حق تعالیٰ کے اس درجہ محتاج ہیں کہ اُن کے مقرر کیے ہوئے اسباب سے بھی بے نیاز نہیں ہیں۔ دوسرے اس میں پردہ داری ہے کہ عوام کو خبر نہیں ہوئی کہ متوکل ہیں۔ اسباب کا اختیار کرنا توکل میں پردہ ہے۔ عوام سمجھتے ہیں کہ کیا متوکل ہیں۔ نوکری کر رکھی ہے۔ مباشرت اسباب میں دو مصلحتیں تو یہی ہیں اور ان کے علاوہ اور خدا جانے کیا کیا مصلحتیں ہوں گی۔ پس اسباب کو ہر گز ترک نہ کرنا چاہیے۔
حضرت علی رضی الله عنہ کا جواب
حضرت علی رضی الله عنہ کا قصہ ہے کہ آپ سے ایک ملحد نے پوچھا کہ کیا آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ بیوقت موت نہیں آئی ہے، آپ نے فرمایا کہ ہاں۔ اس نے کہا کہ جب آپ کا یہ عقیدہ ہے تو پھر چھت کے اوپر سے کودیے۔ آپ نے فرمایا کہ خدا کی جانچ کرنا بھی بے ادبی ہے۔ یہ تو خدا کی جانچ ہے۔ ہاں! البتہ اگر اتفاق سے گر پڑیں گے تو گرتے وقت یہ عقیدہ لے کر چلیں گے کہ اگر اس وقت موت نہیں تو ہم مر نہیں سکتے۔ سو حضرت علی رضی الله عنہ کے اس جواب سے بھی معلوم ہوا کہ تدبیر کی مزاحمت کرنا ٹھیک نہیں، تدبیر ہو اور اس کے ساتھ توکل #
گر توکل مے کنی در کار کن
کسب کن پس تکیہ بر جبار
ترجمہ:”اگر تو کل کر وتو کام کے اندر توکل کرو یعنی کسب اور کام کرو اور ان کے اثر بخشنے میں الله تعالیٰ پر اعتماد کرو۔“
متوکل کو بالکل ترک اسباب کی اجازت نہیں
حتی کہ جو تارک اسباب ہیں ان کے لیے بھی مطلق ترک کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ بلکہ اس میں تفصیل کی ہے، بعض اسباب کے ترک کی اجازت ہے اور بعض کی نہیں، مثلاً امام غزالی رحمة الله علیہ نے لکھا ہے کہ جو ترک اسباب کرے اس کو دروازہ بالکل بند کرکے بیٹھنا جائز نہیں، اگر ایسا کرے گا تو گنہگار ہو گا۔ پس دروازہ بند کرنا متوکل کے لیے بھی ناجائز ہے۔ دروازہ تو کھلا رہے، ہاں! کواڑوں پر نظر نہ ہو۔ نظر صرف حق تعالیٰ پر ہو۔ لیکن ان دونوں باتوں کا جمع کرنا، یہ ہے بہت دشوار، ہر شخص کا کام نہیں ہے #
بر کفِ جامِ شریعت بر کف سندان عشق
ہر ہو سناکِ نداند جام سنداں باختن
ترجمہ:” شریعت اور عشق دونوں کے مقتضیٰ پر عمل کرنا ہر ہوسناک کا کام نہیں۔“
جانوروں کے لیے اختیار اسباب کا حکم
مباشرت اسباب کا حکم انسان کے واسطے تو ہے ہی خدا نے تو یہاں تک اس کی رعایت کی ہے کہ جانور جو کھاتے ہیں اُن کو بھی اسباب ہی کے واسطے سے دیا جاتا ہے ۔ چناں چہ حضور صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر تم خدا پر نظر کرو تم کو ایسا رزق ملے کہ جیسے پرندوں کو ملتا ہے ”تغدوخماصا وتروح بطانا“ صبح کو بھوکے جاتے ہیں اور شام کو بھرے ہوئے آتے ہیں۔ محققین نے لکھا ہے کہ تدبیر کی طرف یہاں بھی اشارہ ہے کہ گھونسلہ سے نکلنا ان کے لیے بھی شرط ہے تو جب رزق جانوروں کو بھی تدبیر ہی کے واسطے دیا جاتا ہے ۔ توخیال فرمائیے تدبیر کو کون باطل کر سکتا ہے۔ آخر وہ بھی تو سرکاری اوزار ہے، پھر اُس کو معطل کرنے کی کب اجازت ہو سکتی ہے؟
توکل وتدبیر کا اجتماع
پس جب توکل بھی حق تعالیٰ کی نعمت ہے اور تدبیر بھی تو دونوں کوجمع کرنا چاہیے۔ اب یہ بات کہ کس طرح سے جمع ہو۔ یہ ہرایک کے لیے جدا ہے، جیسی کسی میں قابلیت ہو گی اسی کے موافق اس کو اسباب اختیار کرنے کا حکم ہے۔ متوکل کے لیے اس کے مناسب او راہل اسباب کے لیے ان کے موافق مگر اسباب ہوں، ضرور بلا اسباب کے کام نہیں چل سکتا۔ ہاں! کسی سے کرامت یا معجزے کے طور پر بلا اسباب ہی کے کوئی کام ہو جاوے تو دوسری بات ہے، مگر وہ معمول نہیں ہو سکتا۔ زیادہ اسباب نہ ہوں تو اتنا ہی ہو کہ کواڑ کھول دے۔ مگر آمدورفت والوں پر نگاہ نہ ہو۔
اسباب کی مثال
اس کی ایسی مثال ہے کہ تنخواہ دیتی تو ہے سرکار، مگر ملتی ہے خزانچی کے ہاتھ سے… تو نظر سرکار پر ہو گی خزانچی پر نہ ہو گی کیوں کہ وہ تو محض محکوم ہے، اپنے اختیار سے کسی کو کچھ نہیں دے سکتا۔ اب اگر کوئی حاکم خزانچی کو روک دے تو تنخواہ مل چکی۔ بس تنخواہ دینے والی سرکار ہے اور خزانچی محض واسطہ ہے، لہٰذا خزانچی سے نہ بعید ہونا جائز، نہ اُس پر نظر کرنا جائز نظر اسی دینے والے ہی پر کرو۔ غرض اسباب کی رعایت تو سب کے لیے ضروری ہے ،البتہ اس کے درجات متفاوت ہیں ،اہل اسباب کے لیے اور درجے کے اسباب ہیں اور متوکل کے لیے اور درجے کے اسباب ہیں۔ تو اسباب اور تدبیر چوں کہ مشروع ہیں، اس وجہ سے حضور صلی الله علیہ وسلم جنگ میں زرہ پہنتے تھے۔ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ کو اندیشہ تھا یا اسباب پر نظر تھی ،سو آپ توکل اور تدبیر دونوں کو جمع فرماتے تھے اور واقعی تدبیر کو کس طرح چھوڑا جاسکتا ہے۔ یہ تو خدا تعالیٰ کی طرف سے خوان لگا ہے ، الله کا دسترخوان ہے جس پر توکل اور تدبیر دونوں نعمتیں جمع ہیں، اس میں توکل بھی ہے تدبیر بھی ہے، قسم قسم کی نعمتیں اس میں موجود ہیں ۔ پس سبب ہی سے منتفع ہونا چاہیے، یہ نہیں کہ ایک کو لے کر دوسری کو چھوڑ دیں۔ دیکھو اگر کوئی حاکم ہماری دعوت کرے اور چار طرح کے کھانے دسترخوان پر لگائے او رہم ان میں سے بعض کھائیں اور بعض نہ کھائیں تو اس پر ضرور عتاب ہو گا۔
غذا کی تحقیر نہ کرو
ایک بزرگ کی حکایت لکھی ہے کہ روٹی کھا رہے تھے۔ اس میں ایک ٹکڑا جلا ہوا تھا۔ اس کو اٹھا کر انہوں نے علیحدہ رکھ دیا۔ فوراً آواز آئی کہ کیوں صاحب کیا یہ فضول ہی بنا ہے؟ تمام آسمانوں کو چکر ہوا، فرشتوں کو چکر ہوا، کرہ ہوا کو حرکت ہوئی۔ تب یہ بنا۔ آپ کے نزدیک یہ فضول ہی ہے۔ یہ آواز سن کر وہ بزرگ ڈر گئے او راس جلے ہوئے ٹکڑے کو بھی کھا لیا۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جلے ہوئے ٹکڑے بھی کھایا کرو، کیوں کہ ہم کو اجازت دی ہے کہ اس کا تو اختیار ہے کہ جو مضر ہو اس کو نہ کھاؤ۔ لیکنحقیر سمجھ کر نہ چھوڑو۔ جیسے کہ اگر کسی کے ہاتھ سے ٹکڑا گر جاتا ہے تو اس کو یہ سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں کہ اگر ہم اس کو کھالیں گے تو لوگ ہم کو ندیدہ کہیں گے تو لوگوں کے ندیدہ سمجھنے کی پروا نہ کرنی چاہیے، بلکہ یوں سمجھو کہ ہاں! ہم ندیدہ ہیں۔ جب حق تعالیٰ ہی کو یہ پسند ہے کہ ہم اُن کی نعمتوں کے ندیدہ ہوں تو پھر ہم کیوں ندیدہ نہ ہوں #
چون طمع خواہد زمن سلطان دین
خاک بر فرق قناعت بدا زیں
ترجمہ:”یعنی جب حق تعالیٰ ہی ہم سے طمع کے خواہاں ہوں تو پھر قناعت پر خاک ڈالنی چاہیے“۔
مضر چیز چھوڑنے میں کیا نیت ہونی چاہیے؟
او رجو چیز تم کو مضر ہو اس کو بھی اگر چھوڑ دو تو یوں سمجھو کہ یہ تو فی نفسہ بڑی نعمت ہے، لیکن ہم اس کے متحمل نہیں ہیں، یہ دقیق ادب ہے۔
خواجہ بہاؤ الدین نقشبندی رحمة الله علیہ کے ادب کی حکایت
مجھے ایک حکایت یاد آئی خواجہ بہاؤ الدین نقش بندی رحمة الله علیہ کی کہ آپ کی نظر سے یہ حدیث گذری کہ حضور صلی الله علیہ وسلم جو کی روٹی کھاتے تھے اور بغیر چھانے ہوئے۔ بس یہ طریقہ تھا کہ آٹے میں پھونک مارکر بھوسی اُڑا دی، جو رہ گیا اُس کی روٹیاں پکالیں، حضور کے ہاں چھاننے کا طریقہ نہ تھا۔ جب آپ نے یہ حدیث دیکھی تو خدام سے فرمایا کہ سنت یہ ہے کہ جو کا آٹا بے چھنا ہو۔ یہ چھانناخلاف سنت ہے، پس آج سے چھانا نہ جاوے۔ چناں چہ آپ کے حکم کے بموجب ایسا ہی کیا گیا اور بے چھنے جو کے آٹے کی روٹی پکائی گئی۔ مگر اس کو جو کھایا تو سب کے پیٹ میں درد ہو گیا۔ اب یہ وقت ہے امتحان کا، کوئی بے ادب تو یہ کہتا کہ اچھا اتبا ع سنت کیا۔ جس سے یہ تکلیف ہوئی مگر وہ لوگ نہایت مؤدب تھے، کہنے لگے کہ درحقیقت ہم نے بے ادبی کی، حضور کے ساتھ برابری کا دعوی کیا کہ ہر عمل میں کمال حاصل کرنا چاہا او رہم نے کامل اتباع سنت کا دعویٰ کیا ،ابھی ہم اس قابل نہیں۔ ہم ضعیف ہیں ،ہم کو رخصت پر عمل کرنا چاہیے۔ پس آٹا تو جو ہی کا ہو، لیکن چھنا ہوا، ہم کو حضور سے ایک درجے نیچے ہی رہنا چاہیے، سبحان الله! کیا احترام ہے۔ اب مسلمانوں سے یہ بات کم ہوتی چلی جاتی ہے اور یہ تو بہت دقیق ادب تھا۔ اب تو بہت موٹے موٹے موقع پر استخفاف کرتے ہیں اور تحقیر کرتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ خواجہ بہاؤ الدین نقشبندی نے یہ ادب کیا کہ سنت میں کسی طرح کی کمی نہیں نکالی، بلکہ خو داپنے اندر ضعف سمجھا۔ (جاری)