والدین کی اہم ذمے داری، دینی ماحول کی فراہمی
مولانا خالد سیف الله رحمانی
انسان کی فطرت میں بنیادی طور پر خیر کا غلبہ ہے ، اس لیے ہر شخص سچائی، انصاف، دیانت داری، مروت اور شرم وحیا کو قابل تعریف سمجھتا اور اس کے مقابلہ میں جھوٹ، ظلم ، خیانت، بے مروتی اور بے حیائی کو ناپسند کرتا ہے، یہاں تک کہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص جھوٹ بولتا ہے، لیکن اگر کوئی شخص اس کو جھوٹا کہہ دے تو اس سے اس کو تکلیف پہنچتی ہے اور بعض اوقات یہ اپنے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے، انسان بعض دفعہ بے حیائی کا کام کرتا ہے، لیکن اپنے عمل پر پردہ رکھنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے، یہ دراصل فطرت کی آواز ہے، اس لیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہر بچہ اپنی فطرت کے اعتبار سے اسلام پر پیدا ہوتا ہے، یعنی الله کی فرماں برداری کے مزاج پر پیدا کیا جاتا ہے ، لیکن اس کے والدین اس کو یہودی یانصرانی بنا دیتے ہیں:”کل مولود یولد علی الفطرة، فابواہ یھودانہ او ینصرانہ او یمجسانہ․“(بخاری 1/185)
لیکن خارجی حالات کی وجہ سے بہت دفعہ انسان اپنی اصل فطرت سے ہٹ جاتا ہے، اس کا رحجان گناہ کی طرف بڑھنے لگتا ہے، ظلم وناانصافی، بے حیائی وبے شرمی، کبروغرور اور دوسروں کی تحقیر سے اس کے قلب کو تسکین ملتی ہے، یہ انسان کی اصل فطرت نہیں ہے، بلکہ خارجی عوامل کی وجہ سے پیدا ہونے والا انحراف ہے!
جو خارجی عوامل انسان پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں، وہ بنیادی طور پر دو ہیں: ایک ماحول، دوسرے تعلیم، تعلیم کا مطلب تو واضح ہے، ماحول کے اصل معنی گردوپیش کے ہیں،مطلب یہ ہے کہ آدمی جن لوگوں کے درمیا ن رہتا ہے، فکر ونظر اور عملی زندگی میں اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، پانی کی اصل فطرت ٹھنڈا ہونا ہے، وہ نہ صرف خود ٹھنڈا ہوتا ہے، بلکہ دوسرے کو بھی ٹھنڈک پہنچاتا ہے، لیکن جب سخت گرمی اور تپش کا موقع ہوتا ہے اور دُھوپ کی تمازت بڑھی ہوئی ہوتی ہے تو پانی بھی گرم ہو جاتا ہے اور پینے والوں کی پیاس بجھائے نہیں بجھتی، اسی طرح انسان پر اس کے ماحول کا اثر پڑتا ہے۔
اگر اس کو نیک، شریف، با اخلاق لوگوں کا ماحول میسر آجاتا ہے تو اس کی فطری صلاحیت پروان چڑھتی ہے اور اس کی خوبیاں دو چند ہو جاتی ہیں، اس کی مثال ایسی ہے، جیسے پانی میں برف ڈال دیا جائے کہ اس سے اس کی ٹھنڈک اور بڑھ جاتی ہے اور یہ پانی پیاسوں کے لیے اکسیر بن جاتا ہے، اگر اس کو غلط ماحول ملے تو اس کے اندر جو خوبیاں تھی وہ بھی بتدریج ختم ہو جاتی ہیں، اس کی مثال اس صاف شفاف پانی کی ہے، جس کے اند رکسی نے گندگی ڈال دی ہو۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ماحول کی اہمیت او راس کے اثرات کو ایک مثال کے ذریعہ سمجھایا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: نیک آدمی کی مثال اس شخص کی ہے جو مشک رکھے ہوئے ہو، اگر تم کو اس سے مشک نہ مل سکے تو خوش بو تو مل جائے گی او رخراب آدمی کی دوستی وہم نشینی کی مثال بھٹی دُھونکنے والے کی ہے، اگر تمہارا کپڑا نہ جلے تو کم سے کم اس کے دُھوئیں سے نہ بچ سکو گے۔ (بخاری، باب المناسک)
ماحول کی اسی اہمیت کی وجہ سے قرآن وحدیث میں اس کی خاص طور پر تاکید کی گئی ہے کہ انسان اچھے ماحول میں رہے اور خراب ماحول سے اپنے آپ کو بچائے، الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ تم راست گو اور راست عمل لوگوں کے ساتھ رہا کرو﴿کونوا مع الصادقین﴾․ (توبہ)
مدینہ تشریف لانے کے بعد اور فتح مکہ سے پہلے تمام مسلمانوں پر یہ بات واجب قرار دی گئی کہ وہ اپنے اپنے علاقہ کو چھوڑ کر مدینہ میں آکر مقیم ہو جائیں، چناں چہ جزیرة العرب کے طول وعرض سے صحابہ ہجرت کرکے مدینہ منورہ میں آباد ہو گئے، ہجرت کرنے والوں کی تعداد چندسو تھی، لیکن فتح مکہ کے موقع پرجو لوگ آپ کے ہم رکاب تھے، ان کی تعداد دس ہزار تھی اور ظاہر ہے کہ فتح مکہ کی مہم میں ایسا نہیں ہوا تھا کہ مدینہ بالکل خالی ہو جائے، بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کے علاوہ بہت سے جوان بھی مدینہ میں موجود رہے ہوں گے، تاکہ مدینہ کا تحفظ خطرہ میں نہ پڑ جائے، ان میں بیشتر لوگ ہجرت کرکے مدینہ آئے تھے، ہجرت کے حکم کا بنیادی سبب یہی تھا کہ لوگوں کو ایک معیاری دینی ماحول ملے، یہ ماحول ہی کا اثر تھا کہ جو لوگ ظلم وجور، قتل وقتال، بے حیائی وبے شرمی اور شراب وکباب کے لیے مشہور تھے، انہوں نے ایک ایسی بلند پایہ سوسائٹی کا نقشہ چھوڑا کہ انبیائے کرام کے سوا زمین کے سینے پر اور آسمان کے سائے میں اس کی کوئی مثال نہیں مل سکتی، یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بافیض صحبت اور ماحول کا اثر تھا۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے مختلف طریقوں پر ماحول سازی کا حکم دیا ہے، جیسا کہ گذرا، آپ نے اچھے لوگوں کی صحبت اختیار کرنے کی ترغیب دی ہے، آپ نے ارشاد فرمایا کہ فرض نمازوں کے علاوہ دوسری نمازیں گھروں میں پڑھو، یہ افضل طریقہ ہے۔ (بخاری)
حضرت عبدالله بن عمر سے آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے کہ گھر وں میں نماز پڑھا کرو، اس کو قبرستان نہ بناؤ۔ (مسلم)
فقہائے کرام نے بھی یہ بات لکھی ہے کہ فرض نمازوں کے پہلے اور بعد میں جو سنن مؤکدہ ہیں، انہیں گھر میں ادا کریں۔ (حاشیة الطحاوی)
غور کیجیے کہ مسجد سے زیادہ پاکیزہ جگہ کون سی ہو سکتی ہے اور نماز جیسی عبادت کے لیے کون سا مقام ہے جو اس سے زیادہ موزوں ہو، لیکن اس کے باوجود رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سنن ونوافل کو گھر میں پڑھنے کا حکم دیا، بظاہر اس کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ اس کی وجہ سے گھر کا ماحول دینی بنے گا، بچے جب اپنے بڑوں کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہیں تو اکثر وہ ان کی نقل کرنے لگتے ہیں اور نماز کی اہمیت ان کے تحت الشعور میں بیٹھ جاتی ہے۔
اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے گھر میں قرآن مجید کی تلاوت کرنے کی خاص طور پر ترغیب دی ہے، حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ، بلکہ اس میں تلاوت کیا کرو، خاص کر سورہٴ بقرہ کی کہ جس گھر میں سورہ بقرہ پڑھی جاتی ہے، شیطان وہاں سے بھاگ جاتا ہے۔ ( مسلم)
گھر میں تلاوتِ قرآن ایک ایسا عمل ہے جو ماحول بنانے میں بہت مؤثر ہوتا ہے، گھر کے بچوں کے ذہن میں بھی یہ بات راسخ ہو جاتی ہے کہ ہمیں قرآن مجید کی تلاوت کرنی چاہیے، اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے گھر میں ذکر کرنے کی فضیلت بیان کی ہے، آپ نے ارشاد فرمایا: جس گھر میں الله کا ذکر کیا جاتا ہے اور جس گھر میں الله کا ذکر نہیں ہوتا ہے، ان کی مثال زندہ اور مردہ شخص کی ہے۔ ( مسلم)
ماحول کا اثریوں تو ہر سن وسال کے لوگوں پر پڑتا ہے، لیکن بچوں پر اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے، انسان کے جسم میں سب سے پہلے دماغ کی نشو ونما ہوتی ہے اور دماغ کی ترقی کا مرحلہ تیز رفتاری کے ساتھ طے پاتا ہے، اسی لیے بچوں میں کسی بات کے اخذ کرنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہوتی ہے، وہ بولنے والوں سے الفاظ سیکھتا ہے، چلنے والوں سے چلنے کا انداز سیکھتا ہے، اپنے بڑوں سے اُٹھنے بیٹھنے او رکھانے پینے کے طریقے سیکھتا ہے، گانے سن کر گنگناتا ہے، گالیاں سن کر گالیاں ہی اس کی زبان پر چڑھ جاتی ہیں او راگر اچھی باتیں سنے تو ان کو دہراتا ہے، اگر باپ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھتا ہے تو رُکوع وسجدے کی نقل کرتا ہے، مسجد جاتے ہوئے دیکھتا ہے تو مسجد جانے کی کوشش کرتا ہے، لڑکے اپنے والد کے سر پر ٹوپی دیکھ کر ٹوپی پہننا چاہتے ہیں اور لڑکیاں اپنی ماں کے سر پر دوپٹہ او رجسم پر برقعہ دیکھ کر دوپٹہ او ربرقعہ پہننا چاہتی ہیں، غرض کہ اس کا ذہن تیزی سے ماحول میں پیش آنے والی چیزوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔
موجودہ حالات میں صورتِ حال یہ ہے کہ بچہ صبح سات بجے اسکول جانے کی تیاری کرتا ہے اور شام پانچ بجے یا اس کے بعد گھر واپس آتا ہے، جانے سے پہلے کا وقت سونے اور تیاری کرنے میں گذر جاتا ہے، واپسی کے بعد بھی مغرب تک کا وقت کھیل کود وغیرہ میں ، گویا ان کا پورا دن اسکول کے ماحول میں گذرتا ہے، مغرب کے تین ساڑھے تین گھنٹے کے بعد بچے سو جاتے ہیں، کیوں کہ ان کی عمر کے لحاظ سے انہیں آٹھ گھنٹہ سونا چاہیے، اس تین چار گھنٹے میں انہیں اسکول کا ہوم ورک بھی کرنا ہے او رکھنا پینا بھی ہے، اس لیے بہت کم وقت ایسا بچتا ہے، جس میں وہ اپنے والدین او ربھائی بہنوں کے ساتھ بیٹھیں، کچھ وقت مغرب کے بعد او رکچھ وقت فجر کے بعد، عمومی صورت حال یہ ہے کہ والد آفس اور کاروبار سے اتنی دیر سے آتے ہیں کہ بچے نیند کی آغوش میں جاچکے ہوتے ہیں، ماں کھانا پکانے اور اگر خدانخوستہ ٹی وی دیکھنے کا شوق ہو تو ٹی وی دیکھنے میں اپنا وقت گزار دیتی ہیں، اکثر بچوں کے لیے ماں باپ کے پاس کوئی وقت نہیں ہوتا۔
اسکول کا ماحول یہ ہے کہ اگر عیسائی مشنری اسکولوں میں گئے تو وہ صبح سے شام تک عیسائی طور طریقوں کو برتتے ہوئے دیکھتے ہیں، حضرت عیسی علیہ السلام کی تصویر اس طرح آویزاں ہوتی ہے کہ گویا وہ وخدا ہیں اور بندوں پر اپنا دست کرم رکھ رہے ہیں ، ہندوانتظامیہ کے تحت چلنے والے اسکولوں میں داخل ہوئے تو وہاں مورتیاں ہیں، وندے ماترم کا مشرکانہ ترانہ ہے، ہندو تہوار منائے جاتے ہیں اور کوشش کی جاتی ہے کہ بچوں پر ہندو آئیڈیالوجی نقش ہو کر رہ جائے، مسلمان انتظامیہ کے تحت جو اسکول ہیں ان میں معیار تعلیم کے پست ہونے کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت کا فقدان ہے، مخلوط تعلیم کا نظام ہر جگہ ہے، یونی فارم شرم وحیا کے تقاضوں سے آزاد ہیں، کلچرل پروگرام کے نام سے بے ہودہ ڈرامہ کرایا جاتا ہے اور لڑکیاں رقص کرتی ہیں، چند ہی مسلم اسکول اس سے مستثنیٰ ہیں اور وہ بہرحال قابل تحسین اور لائق تشکر ہیں۔
ان حالات میں ماں باپ کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنے گھر وں میں دینی ماحول بنائیں، چھٹی کے اوقات اور بچوں کی تعطیل کے ایام اپنے بچوں کے ساتھ گزاریں، ان اوقات میں انہیں ضروری دینی باتیں سکھائیں اور سمجھائیں، نماز اور تلاوتِ قرآن کا ماحول بنائیں، گھر کی خواتین ڈھکا چھپا باپردہ لباس پہنیں، گھر کے بڑے مرد وعورت آپسی گفتگو میں تہذیب وشائستگی او رباہمی ادب واحترام کا لحاظ رکھیں، زبان کی حفاظت کریں او رکوئی ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہ دیں جس میں بچوں سے تربیت کی باتیں کہی جاسکتی ہوں، موجودہ حالات میں اگر ہم نے بچوں کو دین واخلاق سے ہم آہنگ ماحول فراہم نہیں کیا تو آئندہ نسل کے لیے بڑا خطرہ ہے، کیوں کہ ہمارا تعلیمی نظام بھی دین واخلاق سے بے گانہ ہے اور تعلیم گاہ کا ماحول بھی اخلاقی بگاڑ کا شکار ہے، ان حالات میں اگر والدین نے بچوں کو مناسب ماحول فراہم کرنے کی کوشش نہیں کی تو یہ بچوں کے ساتھ یقینا بڑا ظلم ہے او ران کے والدین وسرپرست عندالله جواب دہ ہیں۔