متوازن غذا اور صحت کاباہمی تعلق
مولانا محمد عاصم مخدوم
صحت کے لیے اچھی غذا بہت اہم ہے، لیکن غذا ایسی ہونی چاہیے جو صحت کے لیے مفید ہو، ایسی چیزوں کے استعمال سے احتراز کرنا چاہیے جو صحت اور تن درستی کے لیے نقصان دہ ہوں۔ اس طرح جو چیزیں اچھی لگیں اور جن کی خواہش اور طلب طبیعت میں پائی جائے، وہی غذا میں شامل ہونی چاہیے۔ غیر مرغوب اور ناپسندیدہ غذا کو طبیعت قبول نہیں کرتی اور اس سے پورا فائدہ نہیں ہوتا۔
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے جب کھانا آتا تو اس کے بارے میں دریافت کرتے۔ اگر مزاج مناسب ہوتا تو استعمال کرتے، ورنہ استعمال نہیں فرماتے تھے۔ حضرت خالد بن ولید فرماتے ہیں: ”وکان قل ما یقدم یدہ لطعام حتی یحدث بہ وسمي لہ“ آپ صلی الله علیہ وسلم اپنا ہاتھ کسی کھانے کی طرف کم ہی بڑھاتے تھے جب تک کہ اس کے بارے میں گفتگو نہ کی جائے اور بتادیا نہ جائے۔ چناں چہ ایک مرتبہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے بھنا ہوا گوشت آیا۔ جب بتایا گیا کہ یہ گوہ کا گوشت ہے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے نہیں کھایا۔ حضرت خالد بن ولید نے پوچھا کہ کیا یہ حرام ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: حرام نہیں۔ ہمارے علاقے میں نہیں ہوتا اس لیے کراہت ہورہی ہے۔
حلال کو حرام نہ کرلیا جائے
ذوق اور مزاج کی اہمیت ہے۔ اس پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی، لیکن جو چیزیں حلال اور طیب ہیں ان سے خواہ مخواہ اجتناب صحیح نہیں۔ عملاً حلال کو حرام اور مباح کو ممنوع قرار دے لینا مزاج شریعت کے خلاف ہے۔ ایک شخص نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا: ”إن من الطعام طعاما أتحرج منہ“ کھانوں میں ایک کھانا ایسا ہے کہ اس کے کھانے میں مجھے تکلف اور حرج محسوس ہوتا ہے۔ آپصلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”لایتخلجن في نفسک شيء ضارعت منہ النصرانیة“ تمہارے دل میں ایسی کوئی چیز کھٹک اور تردد پیدا نہ کرے کہ اس کی وجہ سے تم نصرانیت سے مشابہت اختیار کرلو۔(ابوداؤد)
جن غذاؤں کو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرادیا ہے ان کے علاوہ سب ہی غذائیں حلال ہیں۔ ان کے جواز میں شک و تردد اور ان کے استعمال میں بلاوجہ تکلف اور تامل رہبانیت کی طرف لے جاتا ہے۔ اس معاملہ میں شریعت کا اصول حضرت عبداللہ بن عباس اس طرح بیان فرماتے ہیں: اہل جاہلیت بعض چیزیں (بغیر کسی کراہت کے) کھاتے اور بعض چیزوں کا کھانا ان کو ناپسند تھا۔ اس حال میں اللہ تعالیٰ نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو بعثت سے نوازا، اپنی کتاب نازل فرمائی، حلال کو حلال کیا اور حرام کو حرام ٹھہرایا۔ اس نے جس چیز کو حلال قرار دیا وہ حلال ہے اور جسے حرام کہا وہ حرام ہے اور جس چیز کا ذکر نہیں کیا اس سے اس نے درگذر کیا(اس کے کھانے پر مواخذہ نہ ہوگا)۔ (ابوداؤد)
غذائیں ایک دوسرے کی معاون ہوں
کھانے میں ایک سے زیادہ چیزیں ہوں تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اس بات کا خیال فرماتے تھے کہ وہ اپنی خصوصیات کے لحاظ سے ایک دوسرے کی معاون ہوں اور ان کا ایک ساتھ استعمال نقصان دہ نہ ہو۔ ام الموٴمنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کھجور کے ساتھ ککڑی کھاتے اور فرماتے کہ کھجور کی حدت کو ہم ککڑی کی ٹھنڈک سے توڑتے ہیں۔ (ابوداؤد)
اسی طرح روایات میں آتا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کھجور کے ساتھ مکھن استعمال فرماتے تھے۔ (ابوداؤد) یہ دونوں چیزیں بھی اپنی خصوصیات کے لحاظ سے ایک دوسرے کی معاون ہیں۔ کھجور کی خشکی مکھن سے دور ہوتی ہے۔
گندگی کھانے والے جانور نہ کھائے جائیں
اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ غذا صاف ستھری اور گندگی و آلائش کے اثرات سے بالکل پاک ہو۔ اس مقصد کی خاطر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان حلال جانوروں کا بھی گوشت کھانے اور دودھ پینے سے منع فرمایا ہے جو گندگی کھانے کے عادی ہیں، اس لیے کہ اس کے اثرات دودھ اور گوشت میں بھی منتقل ہوتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں: ”نہٰی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم عن أکل جلالة و ألبانہا․“ (ابوداؤد) رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے گندگی کھانے والے جانور کے کھانے اور اس کا دودھ استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے۔
اس سلسلہ کی بعض اور روایات بھی موجود ہیں، علامہ خطابی فرماتے ہیں کہ گندگی کھانے والے جانوروں کا گوشت کھانے سے ممانعت کے پیچھے پاکی، صفائی اور نظافت کا تصور ہے، اس لیے کہ گندگی جس جانور کی غذا ہوگی، اس کے گوشت میں بھی بدبو پائی جائے گی۔ یہ اس صورت میں ہے جب کہ گندگی اس کی زیادہ تر غذا ہو، لیکن اگر گھاس اور دانہ کے ساتھ گندگی بھی کھالے تو اسے جلالة (گندگی کھانے والا جانور) نہیں کہا جائے گا؛ جیسے مرغی حیوان ہے، بسااوقات گندگی کھالیتی ہے، لیکن یہ اس کی عام غذا نہیں، اس لیے اس کا کھانا مکروہ نہیں ہے۔(معالم السنن)
کھانے میں صفائی کا خیال رکھا جائے
کھانے میں صاف ستھری چیزیں استعمال کرنی چاہیے۔ گندی غذا بیماریوں کو جنم دیتی ہے۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں ایک مرتبہ پرانی کھجوریں پیش کی گئیں۔ آپصلی الله علیہ وسلم نے (انہیں کھانے سے پہلے) باریک کیڑے ان میں ڈھونڈ کر نکالے (اور انہیں صاف کیا)۔ (ابوداؤد)
حضرت عبداللہ بن ابی طلحہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے پرانی کھجوریں لائی جاتیں تو آپ صلی الله علیہ وسلم ان میں جو کیڑے ہوتے تھے، انہیں خوب اچھی طرح نکال لیتے تھے۔ (ابوداؤد)
کھانے پینے سے متعلق اسلام کے زریں اصول اور اسوہٴ حسنہ حفظان صحت کا موٴثر ذریعہ اور فلاح آخرت کا ضامن ہے۔
(ماہنامہ الحق نومبر 1993ء)
نیند، راحت بدن و روح
نیند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اس سے بدن اور روح کو راحت اور سکون حاصل ہوتا ہے۔ اسلام اس نعمت سے استفادہ کرنے کی خصوصاً رات کے وقت تلقین کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”اسی اللہ نے تمہارے لیے رات بنائی ہے، تاکہ اس میں سکون پاؤ“۔ (سورہ یونس:67) اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”اور اس کی نشانیوں میں سے تمہارا رات اور دن کو سونا اور تمہارا اس کے فضل کو تلاش کرنا ہے“۔ ﴿و من آیاتہ منامکم باللیل و النھار﴾(الروم:23) سورہ فرقان میں ارشاد ہے: ”اور اسی نے رات کو تمہارے لیے لباس اور نیند کو سکون کا باعث بنایا“۔ (الفرقان:47)
حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور سوجایا کرو کہ تم پر تمہارے جسم کا بھی حق ہے“۔ (مسلم )
بچوں کی صحت میں بھی حلال غذا اور نیند و راحت کا بہت دخل ہے، ورنہ بچے بہت سے لاعلاج امراض میں مبتلا ہوتے ہیں۔
اگر آج بھی متوازن اور سادہ غذا کا استعمال اپنی روزمرہ کی زندگی میں کیا جائے ،مغربی امپورٹڈ غذاؤں اور فاسٹ فوڈز سمیت کیمیکل سے بننے والی اشیاء سے گریز کیا جائے تو بہت سے امراض پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح بروقت علاج ومعالجے سے بھی بڑے امراض سے خلاصی ممکن ہے۔ لیکن اسلامی تعلیمات کا بغور جائزہ لیا جائے تو پبلک ہیلتھ کی پالیسی انتہائی موثر ہے۔ یعنی مرض شروع ہونے سے پہلے ایسی احتیاطی تدابیر متوازن غذا ،صفائی ستھرائی وغیرہ کا لحاظ رکھنا جس کی وجہ سے وبا پھوٹنے یا مرض عام ہونے کا اندیشہ ہی پیدا نہ ہو ، متوازن غذا صفائی وغیرہ یہ سب وہ عناصر ہیں جس کی وجہ سے ہم سینکڑوں امراض کا خاتمہ اس کا اثر شروع کرنے سے پہلے کرسکتے ہیں۔