Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1437ھ

ہ رسالہ

4 - 19
پستی کا علاج

استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
	
 ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)

﴿أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُواْ مِن دِیَارِہِمْ وَہُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَہُمُ اللّہُ مُوتُواْ ثُمَّ أَحْیَاہُمْ إِنَّ اللّہَ لَذُو فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَشْکُرُونَ، وَقَاتِلُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ سَمِیْعٌ عَلِیْم﴾․ (سورہ بقرہ، آیت:244-243)

کیا نہ دیکھا تو نے ان لوگوں کو جو نکلے اپنے گھروں سے اور وہ ہزاروں تھے موت کے ڈر سے؟پھر فرمایا ان کو الله نے کہ مر جاؤ، پھر ان کو زندہ کر دیا، بے شک الله فضل کرنے والا ہے لوگوں پر، لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے اور لڑو الله کی راہ میں او رجان لو کہ الله بے شک خوب سنتا جانتا ہے

ربط آیات: نکاح موت، طلاق کے احکام کے بعد اب جہا دکے احکام ایک تمہید کے ساتھ بیان کیے جارہے ہیں، گو احکام کے بیان میں تناسب کا لحاظ ضروری نہیں، مگر اس جگہ یہ خاص مناسبت ہے کہ اوپر موت اور طلاق کے احکام تھے اور جہاد کا موت سے تعلق تو ظاہر ہے او رموت کے واسطہ سے طلاق سے مناسبت ہے، کیوں کہ دونوں قاطع نکاح ہیں۔ (حل القرآن البقرة تحت آیة رقم:243)

تفسیر:موت کے خوف سے جہاد سے جی چرانا حماقت ہے
سابقہ امتوں میں سے کسی کا قصہ ہے، انہوں نے موت سے بچنے کے لیے کسی ایسے واقعے میں راہ فرار اختیار کی جس میں موت کا اندیشہ تھا۔ الله تعالیٰ نے انہیں مردہ فرماکر پھر زندہ فرما دیا، تاکہ وہ اس حقیقت کو جان سکیں کہ موت و حیات کے تمام فیصلے الله تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں، کسی حادثے اورکسی انسانی تدبیر کے ہاتھ میں نہیں۔ (تفسیر القرطبی، البقرة تحت آیة رقم:243) یہ امت کون سی تھی ، حادثہ کیاتھا ؟ اس پر قرآن کریم نے روشنی ڈالنے کی کوئی ضرورت محسو س نہیں کی، کیوں کہ اصل مقصدوعظ ونصیحت ہے، جو قوم اور واقعے کے ابہام کے باوجود حاصل ہے۔

معروف یہ ہے کہ یہ بنی اسرائیل کی ایک جماعت تھی، جو مقام طاعون سے یا میدان جہاد سے موت کے خوف سے بھاگی تھی، الله تعالیٰ نے بلاسبب ان پر موت طاری کر دی ، حضرت حزقیل عليه السلام کی دعا کی برکت سے دوبارہ انہیں زندہ فرما دیا۔ ( تفسیر ابن کثیر، البقرة تحت آیة رقم:243)

جہاد کوموت کا سبب جان کر اس سے جی چرانا حماقت ہے، اس سے اگلی آیت میں قتال فی سبیل الله کے لیے ابھارا ہے۔

صاحب المنار نے اس مقام پر مردہ او رزندہ ہونے کے مجازی معنی غلامی اور آزادی مراد لیے ہیں، یعنی وہ قوم دوسروں کی غلامی میں مردہ ہو گئی تھی پھر الله تعالیٰ نے آزادی بخش کر زندہ فرما دیا۔ (تفسیر المنار، البقرة تحت آیة رقم:243) گو معنی مجاز لینے کی گنجائش ہے، لیکن تَکلّف سے خالی نہیں۔

آیت سے متعلقہ چند شبہات
ان آیات میں مو ت کے بعد پھر دوبارہ دنیا ہی میں زندہ ہونے کا تذکرہ ہے، جب کہ قرآن کریم کی دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ موت صرف ایک بار ہی آئے گی ﴿لاَیَذُوقُونَ فِیْہَا الْمَوْتَ إِلَّا الْمَوْتَةَ الْأُولَی﴾․(الدخان:56)( نہ چکھیں گے وہاں موت مگر جو پہلے آچکی) اور حیات کاملہ صرف قیامت کے دن ملے گی﴿اللَّہُ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یَجْمَعُکُمْ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ﴾․ (الجاثیہ:26) ( الله ہی جلاتا ہے تم کو، پھر مارے گا تم کو، پھرا کٹھا کر ے گا تم کو قیامت کے دن) بظاہر آیتوں کے مفہوم میں تعارض محسوس ہوتا ہے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ جن آیات میں موت کے ایک ہونے اور قیامت سے قبل زندگی ملنے کی نفی ہو رہی ہے ۔ اُن آیات میں عادت ِالہی کا تذکرہ ہے، کہ موت ایک بار ہی ملے گی، اٹھنا قیامت کے روز ہے، اورجس آیت پر بحث ہو رہی ہے اس میں خرقِ عادت او رمعجزہ کا ذکر ہے، لہٰذا دونوں میں کوئی تعارض نہیں۔

دوسرا شبہ تناسخ کا ہے، ہندو مذہب کا عقیدہ ہے کہ انسان کے مرنے کے بعد اس کی روح کو دوسرا جسم ملتا ہے ،اچھے برے اعمال کی جزا اورسزا میں اچھا برا جسم ملے گا۔ اس واقعے سے تناسخ کا شبہ اس لیے نہیں ہونا چاہیے کہ یہاں دوسری زندگی سابقہ جسم ہی کو مل رہی ہے اور اس میں کوئی جزا وسزا کا تصور بھی نہیں۔

اس آیت کے ذیل میں مفسرین نے ایک واقعہ یہ بھی لکھا ہے کہ ایک بستی میں طاعون کی وبا پھیلی، جس کی وجہ سے کچھ لوگ بستی چھوڑ کر چلے گئے، وبا کا زور ختم ہوا تو واپس آگئے، پیچھے رہ جانے والے مریضوں نے کہا کاش! ہم بھی بھاگ جاتے، اگلی بار طاعون آیا تو اکثریت بستی چھوڑ کر بھاگ گئی، ان کی تعداد کم وبیش تیس ہزار تھی، الله تعالیٰ نے دو فرشتے بھیج کر اعلان کرایا” مُوتْوا“ تو سب مر گئے، الله تعالیٰ کے ایک نبی حضرت حزقیل عليه السلام وہاں سے گزرے تو انہوں نے ان کی حیات لوٹانے کی دعا فرمائی، تاکہ یہ قوم الله تعالیٰ کی قدرت کا مشاہدہ کر سکے، چناں چہ ان کی دعا سے انہیں پھر زندگی بخشی گئی۔ (التفسیر الکبیر للرازی، البقرة تحت آیة رقم:243)

اس واقعے کی وجہ سے بعض مفسرین نے یہاں طاعون سے فرار ہونے کی بحث چھیڑی ہے کہ جہاں طاعون پھیلا ہو وہاں سے نکلنا حرام ہے اور دوسروں کو وہاں جانا بھی جائز نہیں ۔ یہاں شبہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مقام طاعون مضر ہے تو وہاں سے نکلنے پر پابندی کیوں؟ اگر مقام طاعون مضر نہیں تو وہاں جانے پر پابندی کیوں؟ اس کے جواب میں علامہ دریا آبادی صاحب لکھتے ہیں:

” اصل یہ ہے کہ وبا زدہ مقام سے بھاگنے اور ہٹنے کے معنی یہ ہیں کہ اگر ایک کو اجازت ملی تو سب ہی بھاگنا شروع کریں گے اور شہر خالی ہو جائے گا ، اس بھگدڑ(Panic) سے آبادی کو جن مالی ،معاشی ، تمدنی ، اخلاقی نقصانات سے دو چار ہونا پڑے گا۔ وہ بالکل ظاہر ہیں اور بہ کثرت تجربہ ومشاہدہ میں بھی آچکے ہیں، پھر ایک طرف یہ عادت اگر ہمت ، ثبات قلب، شجاعت او رباہمی ہم دردی کے منافی ہے تو دوسری طرف اسباب ظاہری پر ضرورت سے زیادہ تکیہ واعتماد کی دلیل اور توکل، اعتماد علی الله کے منافی اور ایک مذہبی قوم کے بالکل غیر شایاں ہے ، لیکن جہاں وبا ہے اور موت کا بازار دھڑا دھڑ گرم ہے وہاں بے دھڑک داخل ہوجانا او راحتیاط نہ برتنا، ایک طرف اسباب ظاہری کو بالکل نظر انداز کر دینا ہے او ردوسری طرف انسان میں جو درجہ خوف واندیشہ طبعی کارکھ دیا گیا ہے، اس کے مقتضیٰ کو پامال کرنا ہے ان متضاد پہلوؤں کے درمیان اعتدال اور سلامتی کی راہ ڈھونڈ نکالنا اسلام ہی جیسے حکیمانہ مذہب کا کام تھا، اس نے عقلی او رطبعی دونوں پہلوؤں کی رعایت رکھ کر یہ معتدل اور عادلانہ حکم دیا کہ جہاں طاعون ہو وہاں نہ خواہ مخواہ جاؤ، نہ خواہ مخواہ وہاں سے نکل بھاگو۔“ (تفسیر ماجدی، البقر: آیة رقم:243)

طاعون زدہ مقام کا شرعی حکم
طاعون ایک مہلک اور خطرناک مرض ہے، گزشتہ قوموں میں یہ عذاب الہٰی کا درجہ رکھتا تھا، لیکن اس امّت کے لیے شہادت کا درجہ رکھتا ہے ، چناں چہ آپ عليه السلام نے فرمایا: جس کی موت طاعون میں ہوئی ہو وہ شہید ہے۔ (صحیح بخاری،رقم الحدیث:5730)متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ طاعون زدہ مقام سے باہر نکلنا جائز نہیں اورباہر والوں کے لیے اس مقام میں داخل ہونا جائز نہیں ،چناں چہ بخاری شریف کی حدیث میں ہے:

”جب تم کسی جگہ کے متعلق طاعون کا سنو تو وہاں جانے سے اجتناب کرو اور اگر تم اسی مقام پر ہو تو اس جگہ سے فرار ہونے کی غرض سے باہر مت نکلو۔ ( صحیح بخاری، رقم الحدیث:5730)

﴿مَّن ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّہَ قَرْضاً حَسَناً فَیُضَاعِفَہُ لَہُ أَضْعَافاً کَثِیْرَةً وَاللّہُ یَقْبِضُ وَیَبْسُطُ وَإِلَیْْہِ تُرْجَعُون﴾․(سورہ بقرہ، آیت:245)
کون شخص ہے ایسا جو کہ قرض دے الله کو اچھا قرض؟ پھر دوگنا کر دے الله اس کو کئی گنا اور الله ہی تنگی کر دیتا ہے اور وہی کشائش کرتا ہے او راسی کی طرف تم لوٹائے جاؤگے

ربط آیات: جب الله تعالیٰ نے جہاد اور قتال کا حکم دیا تو اس آیت کریمہ میں جہاد میں مال خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے، کیوں کہ قتال فی سبیل الله کے لیے مال کی ضرورت پڑتی ہے ۔ (تفسیر القرطبی، البقرة تحت آیة رقم:245)

تفسیر:قتال فی سبیل الله کے لیے مال خرچ کرنے کی ترغیب
الله تعالیٰ ہر چیز کا مالک ہے او رغنی ہے، اسے کسی سے قرض لینے کی حاجت نہیں ، یہاں الله تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کو مجازاً خدا کو قرض دینے سے تعبیر کیا گیا ہے ، جس طرح قرض کا عوض ضرور دیا جاتا ہے اسی طرح انفاق فی سبیل الله کا عوض او راجر ضرور ملے گا ۔ الله تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے افلاس کا اندیشہ خاطر میں نہ لانا چاہیے، کیوں کہ معاشیات کے سارے قانون اور اسباب الله تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں ، قرآن کریم جہاں مادی اور ظاہری اسباب کی مکمل رعایت رکھتا ہے ،وہاں قدم قدم پہ یہ یاد دلاتا ہے کہ زندگی کے ہر شعبے اور لمحے میں مسبب الاسباب ذات صرف الله تعالیٰ ہی ہے :﴿وَاللّہُ یَقْبِضُ وَیَبْسُطُ ﴾ وہی تنگی کرتا ہے اور وہی کشائش پیدا کرتا ہے۔

﴿أَلَمْ تَرَ إِلَی الْمَلإِ مِن بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ مِن بَعْدِ مُوسَی إِذْ قَالُواْ لِنَبِیٍّ لَّہُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِکاً نُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ قَالَ ہَلْ عَسَیْْتُمْ إِن کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الْقِتَالُ أَلاَّ تُقَاتِلُواْ قَالُواْ وَمَا لَنَا أَلاَّ نُقَاتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِن دِیَارِنَا وَأَبْنَآئِنَا فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْْہِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْاْ إِلاَّ قَلِیْلاً مِّنْہُمْ وَاللّہُ عَلِیْمٌ بِالظَّالِمِیْنَ، وَقَالَ لَہُمْ نَبِیُّہُمْ إِنَّ اللّہَ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوتَ مَلِکاً قَالُوَاْ أَنَّی یَکُونُ لَہُ الْمُلْکُ عَلَیْْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْکِ مِنْہُ وَلَمْ یُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ قَالَ إِنَّ اللّہَ اصْطَفَاہُ عَلَیْْکُمْ وَزَادَہُ بَسْطَةً فِیْ الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللّہُ یُؤْتِیْ مُلْکَہُ مَن یَشَاء ُ وَاللّہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ، وَقَالَ لَہُمْ نِبِیُّہُمْ إِنَّ آیَةَ مُلْکِہِ أَن یَأْتِیَکُمُ التَّابُوتُ فِیْہِ سَکِیْنَةٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَبَقِیَّةٌ مِّمَّا تَرَکَ آلُ مُوسَی وَآلُ ہَارُونَ تَحْمِلُہُ الْمَلآئِکَةُ إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لآیَةً لَّکُمْ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْن﴾․ (سورہ بقرہ، آیت:248-246)
کیا نہ دیکھا تونے ایک جماعت بنی اسرائیل کو موسی کے بعد، جب انہوں نے کہا اپنے نبی سے، مقرر کر دو ہمار لیے ایک بادشاہ، تاکہ ہم لڑیں الله کی راہ میں، پیغمبر نے کہا کیا تم سے یہ بھی توقع ہے کہ اگر حکم ہوتم کو لڑائی کا تو تم اس وقت نہ لڑو ؟وہ بولے ہم کو کیا ہوا کہ ہم نہ لڑیں الله کی راہ میں اور ہم تو نکال دیے گئے اپنے گھروں سے اور بیٹوں سے پھر جب حکم ہوا ان کو لڑائی کا تو وہ سب پھر گئے ،مگر تھوڑے سے ان میں کے اور الله تعالیٰ خوب جانتا ہے گناہ گاروں کو اور فرمایا ان سے ان کے نبی نے بے شک الله نے مقرر فرما دیا تمہارے لیے طالوت کو بادشاہ ،کہنے لگے کیوں کر ہو سکتی ہے اس کو حکومت ہم پر؟ اور ہم زیادہ مستحق ہیں سلطنت کے اس سے اور اس کو نہیں ملی کشایش مال میں، پیغمبر نے کہا بے شک الله نے پسند فرمایا اس کو تم پر اور زیادہ فراخی دی اس کو علم او رجسم میں اور الله دیتا ہے ملک اپنا جس کو چاہے اور الله ہے فضل کرنے والا سب کچھ جاننے والااو رکہا بنی اسرائیل سے ان کے نبی نے کہ طالوت کی سلطنت کی نشانی یہ ہے کہ آوے تمہارے پاس ایک صندوق کہ جس میں تسلی خاطر ہے تمہارے رب کی طرف سے اور کچھ بچی ہوئی چیزیں ہیں ان میں سے جو چھوڑ گئی تھی موسی اور ہارون کی اولاد، اٹھالاویں گے اس صندوق کو فرشتے، بے شک اس میں پوری نشانی ہے تمہارے واسطے اگر تم یقین رکھتے ہو

ربط: بنی اسرائیل کی پستی کا علاج، قتال فی سبیل الله کی ترغیب
ان آیات کریمہ میں بھی جہاد کی ترغیب وتاکید کا بیان ہے، بنی اسرائیل کا ایک واقعہ ذکر کرکے اس راہ کی مشکلات اور مصائب اور اس کے نتائج پر روشنی ڈالی گئی ہے، اس واقعے کے ذکر کرنے کا مقصد اہل ایمان کو قتال فی سبیل الله کے لیے مستعد رکھنا ہے، مسلمان اگر اپنے کھوئے ہوئے وقارکو بحال کرنا چاہتے ہیں تو انہیں بھی اسی راہ پہ چلنا پڑے گا۔

تفسیر :طالوت کی قیادت میں جہاد کا آغاز
یہ واقعہ حضرت موسی عليه السلام کے عہد نبوت کے تین صدیوں بعد کا ہے، جب حضرت عیسی عليه السلام کی بعثت میں کوئی ہزار گیارہ سو سال کی مدّت باقی تھی۔ ( تفسیر حقانی البقرة، تحت آیة رقم:246)

بنی اسرائیل کے مذہبی ،اخلاقی ، سیاسی حالات انتہائی ابتری کا شکار تھے ۔ دشمن قوم عمالقہ نے انہیں شکست دے کر تخت وتاج سے محروم کر دیا تھا۔ ان کی شورش مسلسل بڑھتی جارہی تھی اور اسرائیلیوں میں لڑنے کی ہمت نہ تھی ، ان پر دشمنوں کے رعب کا یہ عالم تھا کہ لڑائی شروع ہونے سے پہلے ہی اپنے کئی شہر خالی کر دیے۔

ان حالات میں قوم کے چند معاملہ فہم اور سمجھ دار لوگوں نے اس وقت کے نبی حضرت شموئیل عليه السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر ایک بادشاہ اورامیر کے تقرر کی التجا کی، جس کی قیادت میں منظم اورمتحد ہو کر دشمنوں سے انتقام لیا جاسکے ۔ حضرت شموئیل عليه السلام خود ضعیف العمر ہو چکے تھے، آپ نے فراست ایمانی اور قوم کی افتاد طبیعت کے تجربوں کی بنا پر فرمایا ایسا نہ ہو کہ امیر بھی مقرر ہو جائے او رجہاد بھی فرض ہوجائے ، لیکن تم انکار کرنے لگو۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ قوم میں قائدانہ اہلیت کی کمی نہ تھی، بلکہ اصل کمزوری قومی ہمت وعزم کی تھی، اس لیے آپ عليه السلام نے بادشاہی کے تقرر کے جواب میں قوم کی بنیادی کمزوری کی طرف توجہ دلائی، لیکن انہوں نے جواب میں کہاوطن اور بچوں سے محروم ہونے کے بعد ہم جہاد سے کیسے جی چرائیں گے ؟ جہاد کی فرضیت کے بعد حضرت شموئیل عليه السلام کا اندیشہ صحیح نکلا ،اکثر لوگ اپنے دعووں کے باوجود بزدلی اور پست ہمتی کا شکار ہو گئے ۔ حضرت شموئیل عليه السلام نے قوم کے ایک نوجوان، فنون حرب کے ماہر ، طویل القامت، طالوت کو حکم خدا وندی سے بادشاہ مقرر فرما دیا ۔ بنی اسرائیل نبوت اور حکومت کو دو مخصوص قبیلوں کا حق سمجھتے تھے اور طالوت کسی تیسرے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے، جب سلطنت کی باگ ڈور ان کے ہاتھ آئی تو بنی اسرائیل برافروختہ ہوکر کہنے لگے، ہم طالوت سے زیادہ امارت کا استحقاق رکھتے ہیں ، اس کے انتخاب کا کیا جواز ؟ وہ تو کوئی مالی کشادگی بھی نہیں رکھتا، حضرت شموئیل عليه السلام نے اس کا پہلا جواب تو یہ دیا کہ یہ انتخاب خدائی ہے، انسانی نہیں ۔ دوسرا جواب یہ دیا کہ لشکری قیادت کے لیے بنیادی طور پر دو صفات کی ضرورت ہوتی ہے ایک علم، جس کے ذریعے انسان نازک موقعوں پر فوری اور درست فیصلوں کی طرف قدم اٹھاتا ہے اور ملک گیری کے طور طریقوں سے واقف ہوتا ہے ۔

دوسرا توانا جسم، طالوت ان دونوں چیزوں میں تم سے ممتاز اور قائدانہ صفات کا مالک ہے ۔ اس کی قیادت کی ایک غیبی علامت یہ بھی ہے کہ تابوتِ سکینہ بغیر کسی سعی اور کوشش کے تم تک واپس پہنچ جائے گا۔ ”تابوت سکینہ“ ایک خاص صندوق کا نام ہے، جس میں تورات کی تختیاں، عصائے موسی عليه السلام او رحضرت ہارون عليه السلام کی پگڑی وغیرہ تھی۔ (تفسیر القرطبی، البقرة تحت آیة رقم:248)

یہ صندوق بنی اسرائیل کا قو می ورثہ تھا، جسے سفر وحضر او رامن وجنگ میں اپنے ساتھ رکھتے اور سکون دل پاتے، جب دشمنوں نے چڑھائی کر کے مال واسباب لوٹا تو تابوت سکینہ بھی ساتھ لے گئے، بنی اسرائیل اس کی واپسی کے لیے بے تاب تھے۔ ادھر خدا کا کرنا ایسا ہوا دشمن قوم عمالقہ جب تابوت سکینہ لے کر اپنی آبادی میں پہنچی تو ان پر مختلف وباؤں او رمصیبتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا، انہوں نے نعوذ بالله تابوت کو نحوست کی پوٹلی سمجھ کر ایک بیل گاڑی پہ لاد کر بستی کے باہر ہنکا دیا ،جسے فرشتے بنی اسرائیل کے پاس لے آئے۔ یہ ایک غیبی تائید تھی طالوت کی بادشاہی کے تقرر کی، جس کے بعد بنی اسرائیل ان کی قیادت پر آمادہ ہو گئے( تابوت سکینہ کے متعلق اب یہودیوں کا عام خیال یہ ہے کہ یہ ہیکل سلمانی کی بنیادوں میں محفوظ ہے) ۔

﴿فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ قَالَ إِنَّ اللّہَ مُبْتَلِیْکُم بِنَہَرٍ فَمَن شَرِبَ مِنْہُ فَلَیْْسَ مِنِّیْ وَمَن لَّمْ یَطْعَمْہُ فَإِنَّہُ مِنِّیْ إِلاَّ مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِیَدِہِ فَشَرِبُواْ مِنْہُ إِلاَّ قَلِیْلاً مِّنْہُمْ فَلَمَّا جَاوَزَہُ ہُوَ وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ مَعَہُ قَالُواْ لاَ طَاقَةَ لَنَا الْیَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنودِہِ قَالَ الَّذِیْنَ یَظُنُّونَ أَنَّہُم مُّلاَقُو اللّہِ کَم مِّن فِئَةٍ قَلِیْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً کَثِیْرَةً بِإِذْنِ اللّہِ وَاللّہُ مَعَ الصَّابِرِیْنَ ، وَلَمَّا بَرَزُواْ لِجَالُوتَ وَجُنُودِہِ قَالُواْ رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَیْْنَا صَبْراً وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ، فَہَزَمُوہُم بِإِذْنِ اللّہِ وَقَتَلَ دَاوُودُ جَالُوتَ وَآتَاہُ اللّہُ الْمُلْکَ وَالْحِکْمَةَ وَعَلَّمَہُ مِمَّا یَشَاء ُ وَلَوْلاَ دَفْعُ اللّہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الأَرْضُ وَلَکِنَّ اللّہَ ذُو فَضْلٍ عَلَی الْعَالَمِیْنَ، تِلْکَ آیَاتُ اللّہِ نَتْلُوہَا عَلَیْْکَ بِالْحَقِّ وَإِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْن﴾․ (سورہ بقرہ، آیت:252-249)
پھر جب باہر نکلا طالوت فوجیں لے کر، کہا بے شک الله تمہاری آزمائش کرتا ہے ایک نہر سے، سو جس نے پانی پیا اس نہر کا تو وہ میرا نہیں اورجس نے اس کو نہ چکھا تو وہ بے شک میرا ہے، مگر جو کوئی بھرے ایک چُلّو اپنے ہاتھ سے، پھر پی لیا سب نے اس کا پانی، مگر تھوڑوں نے ان میں سے، پھر جب پار ہوا طالوت اور ایمان والے ساتھ اس کے تو کہنے لگے طاقت نہیں ہم کو آج جالوت اور اس کے لشکروں سے لڑنے کی، کہنے لگے وہ لوگ، جن کو خیال تھا کہ ان کو الله سے ملنا ہے، بارہا تھوڑی جماعت غالب ہوئی ہے بڑی جماعت پر الله کے حکم سے او رالله صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اورجب سامنے ہوئے جالوت کے اور اس کی فوجوں کے تو بولے اے رب ہمارے، ڈال دے ہمارے دلوں میں صبر اور جمائے رکھ ہمارے پاؤں اور مدد کر ہماری اس کافر قوم پر پھر شکست دی مؤمنوں نے جالوت کے لشکر کو الله کے حکم سے او رمار ڈالا داؤد نے جالوت کو اور دی داؤد کو الله نے سلطنت او رحکمت اور سکھایا ان کو جوچاہا او راگر نہ ہوتا دفع کرادینا الله کا ایک کو دوسرے سے تو خراب ہو جاتا ملک، لیکن الله بہت مہربان ہے، جہاں کے لوگوں پر یہ آیتیں الله کی ہیں، ہم تجھ کو سناتے ہیں ٹھیک ٹھیک اور توبے شک ہمارے رسولوں میں ہے

تفسیر:اسرائیلیوں کا امتحان اور جالوت او راس کے لشکریوں کی شکست
جب طالوت لشکر لے کرمہم کے لیے روانہ ہوئے تو الله تعالیٰ نے ان کو امتحان میں ڈال کر کھرّا کھوٹا ظاہر کرنا چاہا، کیوں کہ میدان جنگ میں چند لوگوں کے فرار ہونے سے پورے لشکر پر شکست کا نفسیاتی اثر پڑتا ہے۔ اس لیے جو لوگ جنگ کی مشکلات کا سامنا نہیں کرسکتے وہ وہاں پہنچنے سے پہلے ہی اپنا رخ موڑ لیں،میدان جنگ میں وہی آئیں، جو پرکٹھن حالات میں بھی استقامت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں، چناں چہ حضرت طالوت نے اعلان فرمایا کہ الله تعالیٰ تمہیں ایک نہر کے ذریعے آزمانے والے ہیں، جو اس آزمائش میں پورا اترے گا وہی ہمارا رفیق کاربن سکے گا۔ اس نہر سے کوئی پانی مت پیے، اگر کسی کو پینا ہی ہے چلو بھر سے زیادہ نہ پیے ۔ طالوت نے یہ اعلان نبی وقت حضرت شموئیل عليه السلام کی ہدایت سے فرمایا تھا، اس لیے اس کی نسبت الله تعالیٰ کی طرف فرمائی ۔ بنی اسرائیل کا لشکر تھکاہارا اور پیاسا اس نہر پر پہنچا تو صبر وضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے، لشکر کی اکثریت نے جی بھر کر پانی پیا ،کچھ لوگوں نے چلوّ بھر پانی پر اکتفا کیا یا پیاہی نہیں ،بس یہی لوگ اس امتحان پر پورے اترے، ان کی تعداد کیا تھی ؟ حضرت براء بن عازب رضي الله عنه فرماتے ہیں ہم صحابہ کرام آپس میں کہا کرتے تھے کہ اصحاب بدر کی تعداد اصحاب طالوت کے برابر تھی ( یعنی تین سو تیرہ تھی) ۔(تفسیر القرطبی، البقرة تحت آیة رقم:249) جی بھر کر پانی پینے والے دشمن کا لشکر جرار دیکھ کر ہمت ہار گئے اور واپس لوٹ گئے۔ چلوّ بھرکر پانی پینے والے بھی خوف زدہ ہوئے، لیکن انہیں ان لوگوں نے سمجھایا جنہوں نے عزیمت پر عمل پیرا ہوکر پانی پیا ہی نہیں تھاکہ فتح اور شکست کا دار ومدار قلت اور کثرت تعداد پر نہیں، بلکہ اخلاص اور للہیت پر ہے، کتنے چھوٹے چھوٹے گروہ الله تعالیٰ کی نصرت وحکمت سے بڑے بڑے لشکروں پر غالب آگئے، چناں چہ لقائے الہٰی کے جذبے سے سرشار ہو کر اہل ایمان کا یہ مختصر سا قافلہ میدان کار زار میں پہنچ گیا۔ دشمنوں کا لشکر جرار پوری رعونت اور نخوت کے ساتھ سامنے تھا، طالوت اور ان کے ساتھیوں نے بارگاہ الہی میں صبرو استقامت، فتح ونصرت ، دشمن کی ہزیمت وشکست کے لیے گڑگڑا کر دعا فرمائی، کفر کی ہزیمت کے لیے بد دعا کرنا اہل ایمان کا شیوہ ہے ،لڑائی چھڑی اورمٹھی بھر سرفروشوں نے جالوت اوراس کے لشکریوں کے پیر اکھاڑ دیے، حضرت داؤد عليه السلام جو ابھی تک منصب نبوت پر فائز نہیں ہوئے تھے اور لشکری کی حیثیت سے طالوت کے ساتھ تھے ، آپ نے جالوت کے چہرے کانشانہ لے کر ایک زور دار پتھر پھینکا، جو ٹھیک نشانے پر لگا اور جالوت کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔ نتیجے میں اہل ایمان کو فتح نصیب ہوئی۔

حضرت داؤد عليه السلام کو نبوّت اور خلافت سے سرفراز فرمانا
طالوت نے اپنی صاحب زادی حضرت داؤد عليه السلام کے عقد نکاح میں دی، طالوت کے بعد زمام اقتدار آپ کے ہاتھ میں آئی اور نبوّت سے بھی سرفراز فرمایا گیا، یوں ان میں بادشاہت اور نبوّت جمع ہو گئیں، آیت کریمہ میں”َالْحِکْمَةَ“ سے نبوّت مراد ہے۔ ( تفسیر روح المعانی، تحت آیة رقم:251) ﴿وَعَلَّمَہُ مِمَّا یَشَاء ُ﴾ اور ان کو زرہ بنانے کا فن، پرندوں کی بولیاں، سپاہ گیری، سیاست ملکی اور جو الله تعالیٰ نے چاہا اس کی تعلیم دی۔

جہاد کے مشروع ہونے کی ایک حکمت”قانون مدافعت“
﴿وَلَوْلاَ دَفْعُ اللّہِ النَّاسَ﴾… الله تعالیٰ نے جہاد کو مشروع فرماکر کفر وشرک ظلم وستم کا سدباب فرمایا ہے۔ اگر الله تعالیٰ اپنے فضل سے جہاد کی اجازت نہ دیتے تو کفروشرک اور ظلم وستم سے زمین بھر جاتی اور ہر طرف فساد ہی فساد ہوتا۔ ”بعضہم“ میں ضمیر کفار وفجار کی طرف لوٹ رہی ہے اور ببعض سے مؤمنین اور صلحاء مراد ہیں، یعنی اگر اہل ایمان کفر وعصیان کو بزور بازو شکست نہ دیں تو اہل کفرو طغیان طاقت ور ہو کر الله تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکامات بزور قوّت مٹا دیں۔ لیکن الله تعالیٰ فضل واحسان کرنے والی ذات ہے، وہ ہمیشہ ایسے ظالموں کی سرکوبی کے لیے اہل ایمان کی ایک جماعت پیدا کرد یتی ہے۔

تصدیق رسالت
﴿تِلْکَ آیَاتُ اللّہِ نَتْلُوہَا عَلَیْْکَ بِالْحَقِّ وَإِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ…﴾ اس آیت کریمہ میں الله تعالیٰ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی نبوت ورسالت کی تصدیق فرما رہے ہیں کہ بنی اسرائیل کا یہ مکمل واقعہ اور اس کی جزئیات کی تفصیل مثلاً ہزاروں کی تعداد میں موت سے ڈر کر بھاگنا، پھر ان کا مرنا اور نبی کی دعا سے دوبارہ زندہ ہونا ، بادشاہ مقرر کرنے کی فرمائش کرنا، طالوت کی امارت پرنکتہ چین ہونا، لشکریوں کا آزمائش پر پورا نہ اترنا، بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہر کا پانی پی لینا، تھوڑی سی جماعت کا امتحان پر پورا اترنا، الله تعالیٰ کا انہیں فتح سے ہم کنار کرنا، یہ سب باتیں آپ نے کسی تاریخ میں نہیں پڑھیں، بلکہ وحی کے ذریعے آپ کو بتائی گئی ہیں، جو آپ کے دعوی نبوت پر صداقت کی دلیل ہے اور بے شک آپ الله کے رسولوں میں سے ہیں ۔

بنی اسرائیل کے اس واقعے سے حاصل ہونے والے فوائد
٭...موت وحیات الله تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے ،موت کے خوف سے طاعون زدہ مقام چھوڑنا یا میدان جہاد سے فرار ہونا حماقت ہے۔
٭...قتال فی سبیل الله او رانفاق فی سبیل الله اسلام اور اہل اسلام کی عزت ، جان ومال کی بقا کے لیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں ۔
٭...قتال فی سبیل الله ظالموں سے نجات کا فطری راستہ ہے ، عزت ووقار کے حصول کے لیے ”اقتصادی ترقی“ کو محور بنانا اہل ایمان کا شیوہ نہیں۔
٭...جہاد جب امیر کی اطاعت میں ہو تو منظم ہوتا ہے او رکام یابی کی راہیں کھلتی ہیں۔
٭...امیرکے انتخاب میں خاندان ، مال ودولت ، قوم قبیلے کا لحاظ نہ رکھاجائے، بلکہ تقوی اور اہلیت پیش نظر رکھی جائے ۔
٭...جہاد کے لیے عملی یعنی فنون حرب سے واقفیت او رجسمانی صلاحیت کے حصول میں لگے رہنا چاہیے۔
٭...مادی اسباب پر بھروسے کے بجائے ہمیشہ الله تعالیٰ پر اعتماد اوراسی سے فتح ونصرت طلب کی جائے ۔
٭...خواہش پرستی قتال فی سبیل الله کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
٭...فتح قلت تعداد او رکثرت تعداد سے نہیں، بلکہ الله تعالیٰ کی مدد سے ملتی ہے۔
٭...لقائے الہی کاجذبہ مجاہد کو سراپا عزم وہمت بنا دیتا ہے ۔
٭...کمزور دل لوگوں کو لڑائی چھڑنے سے پہلے ہی الگ کر دیا جائے، تاکہ عین قتال میں ان کے فرار ہونے سے مجاہدین کے جذبے میں کوئی فرق نہ پڑے۔
٭... دشمن کی مادی طاقت او رعسکری مشقیں دیکھ کر مرعوب ہونے کے بجائے الله تعالیٰ کی قدرت کا استحضار رکھنا چاہیے۔
٭... دشمن پر جلد قابو پانے کے لیے ان کے سرداروں کو زیادہ سے زیادہ نشانہ بنایا جائے۔
٭...جہاد کی مشروعیت فضل الہٰی ہے، اسے مصیبت سمجھنا فساد سے تعبیر کرنا بدبختی کی علامت ہے۔ (جاری)

Flag Counter