میں نے اسلام کیوں قبول کیا؟
عبدالرحمن چوہان/درگا رام چوہان
میں آج کل راجستھان میں چتوڑ گڑھ ضلع کے ایک قصبے میں رہ رہا ہوں۔ میں اصلاً جودھ پور ضلع کے ایک بڑے گاؤں، جواب ٹاؤن بن گیا ہے، کار ہنے والا ہوں۔ میں وشواہندو پریشد کا سنچالک تھا، کچھ روز شیوسینا سے بھی جڑا رہا، مگر مجھے اب اسلام میں آکر ایسا لگ رہا ہے کہ بڑوں کی یہ مثال صرف مجھ پر ہی سچی لگتی ہے کہ ”صبح کا بھولا شام کو گھر واپس آجائے تو بھولا نہیں کہلاتا“۔ سارے سچوں کے سردار الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے بالکل سچی بات کہی ہے کہ ہر پیدا ہونے والا اسلامی فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ اس میں رائی کے دانے کے برابر بھی مجھے شک نہیں کہ انسان پیدائش(By birth) سے مسلمان ہوتا ہے۔ میں جب گہرائی سے رات کو سوچتا ہوں تو مجھے صاف لگتا ہے کہ مسلمان سے مطلب قرآن وحدیث کے مطابق مسلمان ہیں، آج کل کے چلتے پھرتے مسلمان نہیں اور ہمارے علاقے راجستھان کے اکثر مسلمانوں کو دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ ان کو تو نئے سرے سے اسلام اور ایمان کی دعوت دینی چاہیے۔ میں بھی پیدائشی مسلمان ہوں، بلکہ جیسے میں اسلام کو جاننے کے لیے پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم کی سنتوں کو جاننا چاہتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ میرے اندر کی چاہت سنت سے ملتی ہے۔ ایک بات اور سنیے، میری عادت یہ ہے کہ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے، اس وقت سے کھانا سامنے آتا ہے توایسا معلوم ہوتا ہے، جیسے ایک بہت بھوکا آدمی کھانے پر ٹوٹ پڑے اور اندر سے یہ حالت رہتی ہے کہ یہ اوپر والے کا کرم ہے کہ اس نے یہ کھانا دیا اور میں اس کی ہر کر پاوعنایت کا محتاج ہوں، اس لیے میں ذرا جلدی جلدی کھانا کھاتا ہوں۔ میں سوچتا تھاکہ یہ عجیب عادت ہے، لوگ دیکھتے ہوں گے تو کیا سوچتے ہوں گے کہ اس کو پہلی بار کھانا ملا ہے، مگر اب میں کچھ دنوں سے ڈاکٹر عبدالحئی صاحب کی کتاب”اسوہٴ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم “ پڑھ رہا ہوں، اس میں نبی صلی الله علیہ وسلم کی عادتِ شریفہ کھانے کے بارے میں لکھی ہے کہ آپ کھانا آنے کے بعد، جیسے بہت بھوکا کھانا کھاتا ہے اس طرح ذرا جلدی جلدی کھانا کھاتے تھے۔ میری عادت تو جوانی سے یہ ہے، میں نو سال تک شیوسینا سے جڑا رہا اور دس سال وشواہندو سے، مگر ایک طرح سے بچپن سے عادت ہے کہ اگر کسی آدمی نے مجھے کوئی کام کہا او رمیں نہیں کرسکتا تو صرف جواب دینا میرے لیے بالکل مشکل ہوتا ہے۔ میں سوچتا تھا کہ کسی کو دھوکے میں رکھنا ٹھیک نہیں، اگر کام نہیں ہو سکتا تو صاف صاف کہہ دینا چاہیے او رمیں اسے اپنی بہت بڑی کمزوری سمجھتا تھا، مگر اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں، میں نے پڑھا کہ آپ ایسے رحمت بھرے انسان تھے کہ اگر کوئی آدمی آپ سے سوال کرتا اور آپ اس کے سوال کو پورا نہیں فرماسکتے تھے تو بھی آپ اس کو صاف صاف ٹکا سا جواب نہیں دیتے تھے اور آئندہ اسے پورا کرنے کی امید پر منع نہیں کرتے تھے۔ یہ میں نے ایک دو مثالیں دیں، میں جیسے جیسے اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم کی زندگی اور آپ کی عادتوں کے بارے میں پڑھتا ہوں اور مجھے ان سے مناسبت معلوم ہوتی ہے تو لگتا ہے کہ مجھے مالک نے پیدائشی مسلمان بنایا ہے۔
جیسے میں نے بتایا کہ راجستھان کے جودھ پور ضلع کے ایک بڑے گاؤں میں،جواب ٹاؤن بن گیا ہے، میری پیدائش 18/مئی 1978ء کو ایک راج پوت گھرانے میں ہوئی۔ پتا جی ( والد صاحب) چھوٹے موٹے زمین دار تھے، ساتھ ہی ٹکڑی پتھر، جو راجستھان میں مکان کی چھت او رتعمیر میں استعمال ہوتا ہے، کاکاروبار کرتے تھے۔ میرے گھر والوں نے میرا نام درگارام چوہان رکھا تھا۔ گاؤں کے اسکول سے آٹھویں کلاس کرکے جودھ پور میں داخلہ لیا، بارہویں کلاس کی اور پھر B.Com, M.Com کیا۔ پھر نوکری کی تلاش میں دہلی میں ایک جگہ انٹرویو دینے گیا۔ میرے ایک دوست جو بی کام ہیں، اسی سلسلے میں ان سے ملنے ساؤتھ ایکسٹینشن میں ایک مشہور سیلون( نائی کی دکان) پر گیا۔ حبیب اس دکان کے مالک کا نام ہے ۔ میرے دوست راجا رام اس سیلون میں اکاؤنٹینٹ ہیں، ان سے ملنے گیا تو انہوں نے اس سیلون کے بارے میں بتایا کہ یہ حبیب باہر ملک سے شاید امریکا یا انگلینڈ سے بی اے ہیں۔ میں ان سے بہت متاثر ہوا۔ نوکری کی تلاش میں بہت دن ہو گئے تھے، اس لیے میں نے ارادہ کیا کہ اپنے علاقے میں جاکر جودھ پور شہر میں ایک سیلون کھولوں گا۔ سسٹم کو جاننے اور سمجھنے کے لیے ایک دو گھنٹہ اس سیلون کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ اس نے مالک سے اجازت لے لی۔ میں نے دیکھا کہ ریسپشن پر جودو لوگ تھے، وہ بہت صاف کپڑے پہنے ہوئے تھے اور بہت اچھی آپ جناب، مرحبا، خوش آمدید کے الفاظ میں اچھی اردو بول رہے تھے۔ میں نے محسوس کیا کہ ہر آنے والا ان الفاظ سے بہت ہی متاثر (Impress) ہوتا تھا۔ میں دو روز کے بعد گھر واپس لوٹا۔ انٹرویو میں میرا نام نہیں آیا تو میں نے جودھ پور میں سیلون کھولنے کا ارادہ کر لیا۔ ہمارے گاؤں کے تین لڑکے جودھ پور میں نائی کا کام کرتے تھے۔ میں نے ان سے بات کی اور ان کو کسی طرح بات کرکے حبیب کے سیلون میں ٹریننگ کے لیے اپنے خرچ پر بھیجا۔ جودھ پور میں مجھے دکان نہ مل سکی تو گاؤں میں جو بالکل ہائی وے پر تھا اور جودھ پور کی نئی آبادی اس سے دو کلومیٹر دور تک آگئی تھی، وہاں میں نے ایک سیلون کھول لیا، مگر وہاں لوگ دہلی کی طرح پیسے دینے کے عادی نہیں تھے، اس لیے گاہک زیادہ نہیں آتے تھے اور خرچ زیادہ ہو رہا تھا۔ میں نے راجا رام سے مشورہ کیا، اس نے مجھے بہت سمجھایا کہ تم کچھ دن رکو، کچھ دن کے بعد لوگوں کو چسکا لگ جائے گا، مگر میں صبر نہیں کرسکا اور سیلون بند کر دیا اور میں نے ٹکڑی پتھر کی دکان کر لی۔
اصل میں میرا اسلام اس سیلون سے جڑا ہوا ہے، اس لیے میں نے شروع سے بتانا چاہا۔ ہمارے گاؤں میں ایک بڑی تعداد راج پور کاٹھات مسلمانوں کی ہے، جو بالکل ہندوؤں کی طرح رہتے ہیں۔1929ء میں شدھی سنگٹھن سے متاثر ہو کر کسی کسی ضلع میں ان میں سے بہت سے لوگ بالکل ہندو ہو گئے تھے۔ ہمارے گاؤں کے یہ لوگ اپنے کو ہندو تو نہیں کہتے، مگر رہن سہن او رنام سب کچھ ہندوؤں جیسے ہیں۔ اس وقت بہت سی مسلم سنستھائیں ان میں دین پھیلانے کا کام کر رہی ہیں۔ ان میں ایک کام اور کوشش ایک سنستھا کی طرف سے ہوئی ہے، جس کا نام ” معینیہ سنستھا“ ہے۔ اس کا سینٹر اجمیر میں ایک بڑا ادارہ جامعہ معین الدین چشتی ہے اور اب بیاور میں بھی ایک اچھا ادارہ بنایا گیا ہے ۔ انہوں نے اس علاقے میں اپنے اسکول بنائے ہیں۔ان کے نام ناندنا شکشا سدن، چانگ پبلک اسکول اس طرح کے رکھے ہیں۔ ان اسکولوں میں وہ لوگ جو اپنے کو بالکل ہندو کہتے ہیں اورمسجد مکتب کے نام سے چڑتے ہیں، وہ بھی اپنے بچوں کو بھیج دیتے ہیں۔ ان اسکولوں کا نظام بالکل دینی مدرسوں کاہے ۔ ہمارے گاؤں میں بھی ایک اسکول انہوں نے کھولا۔ مجھے حبیب کے یہاں سیلون میں آپ، جناب، مرحبا، خوش آمدید نے بہت متاثر کیا تھا تو میرا دل چاہتا تھا کہ میں یہ زبان اور سنسکرتی ( تہذیب) سیکھوں۔ کم از کم میرے بچے اسے ضرور جانیں، میں نے اپنی بڑی بچی کو، جو چوتھی کلاس میں سرسوتی مندر میں جاتی تھی، اس اسکول میں جومولوی لوگ چلا رہے ہیں، داخلے کا سوچا۔ میں اسکول میں گیا اور داخلے وغیرہ کے بارے میں بات کی تو پرنسپل نے کہا داخلہ تو مل جائے گا، مگر ہمارے یہاں اردو اور عربی بھی پڑھائی جاتی ہے اور صبح کی دعا اور کلمہ وغیرہ بھی ہوتے ہیں۔ میں نے کہا: اصل میں اردو عربی پڑھانے کی وجہ سے ہی اپنی بچی کو داخلہ کرانا چاہتا ہوں، اس لیے میں نے اس کا داخلہ کرادیا۔ وہاں مولوی صاحب ان بچوں کو اسلامی آداب بتاتے، صبح کو جلدی اٹھو، وضو کرو، ماں باپ کو سلام کرو، رات کو سونے کے آداب، کھانے کے آداب اور سنتیں یاد کراتے۔ وہ بچی ان پر عمل کرتی۔ مجھے لگا کر وہ بچی چھ مہینے میں اتنی چھوٹی عمر کے باوجود بڑوں سے زیادہ اچھی زندگی گزارنے لگی۔ مولوی صاحب کو گاؤں کے مسلمانوں نے کہا کہ درگارام وشواہند پریشد کا سنچا لک ہے، یہ کسی سازش کی وجہ سے یہاں بچی کو پڑھا رہا ہے ۔ مولوی صاحب نے مولوی کلیم صدیقی صاحب سے مشورہ کیا۔ انہوں نے کہا: ایسے لوگوں کو اپنے اداروں و میں تو اور بلانا چاہیے، تاکہ یہ حقیقت سے واقف ہوں۔ وہ بچی گھر میں اس کی رٹ لگا کر رکھتی، صبح اٹھتی تو اٹھنے کی دعا، رات کو سوتی تو سونے کی دعا، کھانا کھاتی تو کھانے کی دعا پڑھتی تھی۔ مجھے لگا کہ میرا فیصلہ بہت صحیح ہے۔ میں نے اگلے سال اپنے دونوں بیٹوں کو اسکول میں داخل کر ادیا۔ میں نے دیکھا کہ مدرسے میں رہ رہ کر وہ آوارہ اور آزاد ہونے کے بجائے بھارتی سنسکرتی ( ہنددستانی تہذیب) شرم وحیا اور بڑوں کا ادب جیسی چیزوں میں بہت آگے بڑھ گئے۔ ان بچوں کو دیکھا کہ اذان ہوتی تو یہ بچے سر ڈھک لیتے اور کبھی مجھے اور میری بیوی، یعنی اپنی ماں کا بھی سرڈھک دیتے، کہتے: ماں ! مالک کا نام لیا جارہا ہے، سر ڈھک لو۔ ایک دو دفعہ میرے اوپر بھی راجنی نے جو میری بیٹی ہے، اذان کے وقت کپڑا ڈھک دیا۔ نہ جانے کیوں مجھے بھی لگتا کہ اذان میں مالک کا نام ہے ۔ سرڈھک کر سننے سے دل میں عجیب سا آنند (مزا) آتا۔ میں نے بھی اب معمول بنا لیاکہ ا ذان ہوتی تو چاہے جیب سے رومال نکال کر ڈھکنا ہو، سر ڈھک لیتا۔ میں اسکول کے پروگراموں میں جاتا۔ کبھی کبھی صبح کی دعا کے وقت جاکر بچوں کے ساتھ دعا، کلمے اور نماز کے الفاظ دہراتا۔ بس اس اسلامی تہذیب اور دین کی تعلیم نے میری اسلام سے دوری ختم کر دی۔ مدرسے کے ذمے داروں نے مجھے ایک بار مولوی عالم صاحب سے ملوایا، جو بیاور میں رہتے ہیں او رکبھی دیکھ بھال کرنے یا انسپکشن کرنے آتے ہیں۔ انہوں نے مجھے اسلام کے بارے میں خوب بتایا اور مولوی کلیم صدیقی صاحب کی کتاب ”آپ کی امانت آپ کی سیوا میں“ دی، اس کے بعد میں نے او رکتابیں منگوائیں ”اسلام کیا ہے ؟ “ ”مرنے کے بعد کیا ہو گا؟ “”آدرش شاشک“، ”آدرش جیون“ بھی پڑھیں۔2003ء میں بیاور میں چھ پترکاروں اور بیوپاریوں ( صحافیوں اور تاجروں) نے ” آپ کی امانت آپ کی سیوا میں “ نام کی ایک سمیتی بنا کر ایک پروگرام کیا، جس میں مولوی کلیم صاحب اور سید عبدالله طارق کو بلایا اور بیاور اور علاقے کے سارے ہندو سنستھاؤں کے ذمے داروں او ربڑے بیوپاریوں کو بلایا۔ مولوی کلیم صاحب نے بہت پریم(محبت) بھری بات کی اور سید عبدالله طارق نے بھی بہت اچھی بات کی اور اسلام کو بھارتی دھرم ثابت کیا، بعد میں سوال وجواب بھی ہوئے۔ میں نے ہوٹل میں ملنے کا وقت لیا اور رات کو دس بجے ہوٹل میں ہی میں نے اسلام قبول کیا۔
اصل میں میرے بچے تو پوری طرح مسلمان ہوہی گئے تھے۔ میری پتنی بھی میرے ساتھ ایک ایک قدم بڑھ رہی تھی۔ میں نے گھر جاکر بچوں اور بیوی کو کلمہ پڑھایا۔ میرے اسکول کے بچپن کے ساتھی سلیم خاں تھے، وہ چتوڑ گڑھ ضلع میں بلڈنگ کنسٹرکشن کا کام کرتے ہیں، وہ ایک بار جودھ پور آئے تو انہوں نے مجھے چتوڑ گڑھ شفٹ ہونے کا مشورہ دیا او رکہا کہ بلڈنگ میٹریل صرف میں ہی اتنا خریدتا ہوں کہ آپ کا کام چلتا رہے گا۔ ایک سال تک وہ مجھے زور دیتے رہے، مجھے اپنے گاؤں میں کھل کر اسلام کا اعلان کرکے نمازو روزے پر عمل کرنا ذرا مشکل سا ہو رہا تھا۔ مولوی کلیم صدیقی صاحب سے مشورہ کیا۔ انہوں نے بھی مشورہ دیا اور الحمدلله ہم لوگ بچوں کے ساتھ وہاں چلے گئے۔ الله کا شکر ہے، اب میں کھل کر اسلامی طریقے پر زندگی گزاررہاہوں۔
شروع میں جب والد اور والدہ کو معلوم ہوا تو وہ بہت گرم ہوئے۔ وہ سمجھانے اور زور دینے ہمارے گھر آئے۔ میں نے ان کو ایک ہفتے روک لیا اور بہت خدمت کی او رمحبت سے اسلام کے بارے میں سمجھایا، الله کا شکر ہے زیادہ مشکل نہیں ہوئی۔ اس سفر میں ان کی اسلام سے بیگانگی دور ہوئی، پھر میں نے بیوی کی بیماری کی خبر دے کر ماں کو بلایا۔ اس کو چھوڑنے پتاجی آگئے، دونوں کی خوشامد کرکے ان کو ایک مہینہ رکھا۔ میرے تینوں بچوں نے ان کے پاؤں دبا دبا کر اور سر میں تیل لگا کر ان کے دل ودماغ میں اسلام ملادیا۔ ایک دن میں دکان میں تھا، میری بڑی بچی رجنی، جس کا نام اب رضیہ ہے، کافون آیا: پاپا! مبارک ہو، دادا دادی کو ہم نے کلمہ پڑھا دیا ہے۔
اسلام کی ہر چیز میں انسانی نیچر کے لیے دلچسپی او رکشش ہے، شیطان دوری بنا کر اسے سمجھنے سے روکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر ہمارے عالم لوگ صرف اتنا کام کر لیں کہ اسلام سے نفرت رکھنے والی خاص خاص تنظیموں، ان کے ذمے داروں اور ورکروں کو مدرسے میں بلا کر مہمان رکھیں اورانہیں ان معصوم بچوں کی شرافت، ان کا کھانا پینا، ان کا رہنا سہنا دکھانے کی کوشش کریں تو صرف مدرسے کے بچوں کا رہن سہن او راسلامی تہذیب کی کشش ان کی آنکھیں اور دل ودماغ سے نفرتوں اور دوریوں کے جالے صاف کر دے گی۔ مجھے تو بے حد افسوس ہے اور یہ مجھے اپنے ملک اور ملک کے رہنے والوں کی بدقسمتی اور شیطان کی بڑی چال لگتی ہے کہ ان مدرسوں کی، جہاں صرف صرف انسانیت، شرافت، محبت سکھائی جاتی ہے، وہاں کی ہر چیز سے محبت پھوٹتی ہے، ان کو دہشت گردی اور نفرت کے اڈوں کی طرح متعارف کرایا جاتا ہے۔ میں بالکل سچ کہتا ہوں کہ میں اسلام اور مسلمانوں سے آخری درجے میں نفرت، دوری رکھنے والا انسان تھا، مگر مدرسے کی حقیقت سے ذرا واقفیت اور میری بیٹی رجنی کے ذریعے اس کی عملی تصویر نے مجھے اسلام کے دشمن سے اس کا داعی بنا دیا۔ (بہ شکریہ ماہنامہ الله کی پکار)