Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1437ھ

ہ رسالہ

17 - 19
دوست کیسا ہونا چاہیے

سلیمان فدا ، متعلم جامعہ فاروقیہ کراچی
	
اسلام میں یہود، مشرکین او رعیسائیوں سے دوستی کی ممانعت ہے۔ اس لیے اسلام اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہمیشہ نیک اور صالح لوگوں کو ہی دوست بنایا جائے۔ دوستی رکھنے میں اس بات کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے کہ جن لوگوں سے قلبی تعلق بڑھایا جارہا ہے وہ دین اور اخلاق کے اعتبار سے آپ کے لیے کس حد تک مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے: آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، اس لیے ہر آدمی کو غور کر لینا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔ (مشکوٰة شریف)

دوست کے دین پر ہونے کے معنی یہ ہیں کہ جب وہ دوست کی صحبت میں بیٹھے گا تو وہی جذبات اور خیالات اور وہی ذوق اور رحجان اس میں بھی پیدا ہو گا جو دوست میں ہے اور پسند اور ناپسند کا وہی معیار اس کا بھی بنے گا جو اس کے دوست کا ہے، اس لیے دوست کے انتخاب میں نہایت غور وفکر سے کام لینا چاہیے اور قلبی لگاؤ اس سے بڑھانا چاہیے جس کا ذوق اور رحجان، افکار وخیالات دین اور ایمان کے تقاضوں کے مطابق ہو۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے تاکید فرمائی کہ مؤمن ہی سے رشتہ محبت استوار کرو اور اس کے ساتھ اپنا کھانا پینا رکھو۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے مؤمن ہی کی صحبت میں رہو اور تمہارے دستر خوان پر پرہیز گار ہی کھانا کھائے۔

حضرت سعید بن المُسیب نے حضرت عمر کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ اچھے اور سچے دوست بناؤ، ان کے سائے میں زندگی کے دن گزارو کہ وہ عیش کے وقت زینت اور مصیبت کے وقت سراپا مددہیں، جب بھی تم اپنے دوست کے متعلق بری خبر سنو تو اس کی بہتر تاویل کیا کرو ، مگر یہ کہ تمہیں اس کی برائی کا یقین ہو جائے، اپنے دشمن سے دور رہو، اس دوست سے بھی بچو جو امین نہ ہو اور امین صرف وہی شخص ہے جو الله سے ڈرے، بد کار کی صحبت سے گریز کرو، ورنہ تم اس کی بد کاری سیکھ جاؤ گے، اسے اپنا راز دار مت بناؤ، مشورہ صرف ان لوگوں سے کرو جو الله سے ڈرتے ہوں۔

مخلصانہ دوستی کے اصول
دوستانہ تعلقات کو زیادہ سے زیادہ استوار اور نتیجہ خیز بنانے اور دوستوں سے قریب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آپ دوستوں کے شخصی اور ذاتی معاملات میں زیادہ سے زیادہ دلچسپی لیں اور ان سے اپنے قریبی اور خصوصی تعلق کا اظہار کریں۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔

جب آدمی دوسرے سے دوستی اور اخوت کا رشتہ جوڑے تو اس سے اس کا نام، اس کے باپ کا نام اور اس کے خاندان کے حالات معلوم کرے اس سے باہمی محبت کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں۔ (ترمذی)

دوستوں کے ساتھ وفاداری اور خیر خواہی کا سلوک اس مقدس رشتے کو مزید مستحکم بناتا ہے۔ دوست کے ساتھ سب سے بڑی خیر خواہی یہ ہے کہ آپ اس کو اخلاقی اعتبار سے زیادہ سے زیادہ اونچا اٹھانے کی کوشش کریں اور اس کی دنیا بنانے سے زیادہ اس کی آخرت بنانے کی کوشش کریں، خیر خواہی کا اصل معیار یہ ہے کہ آپ اپنے دوست کے لیے وہی پسند کریں جو اپنے لیے پسند کرتے ہوں۔ اس لیے کہ آدمی اپنا برا کبھی نہیں چاہتا، دوستوں کے دکھ درد میں شریک ہونا بھی اچھی اور مخلصانہ دوستی کا ایک (اہم) بہت بڑا وصف ہے۔ ہر دوست اپنے محبین سے بجاطور پر یہ توقع رکھتا ہے کہ اس کے دوست اس کی خوشیوں میں اضافہ کریں اور اس کی اجتماعی تقریبات کی زینت اور رونق بڑھائیں۔ دوستوں سے خوش دلی، نرم روئی اور صدق اور اخلاص سے ملیے اور نہایت توجہ اور خندہ پیشانی سے اس کا استقبال کیجیے۔ لاپروائی، بے نیازی اور روکھے پن سے پرہیز کیجیے اور افسردہ رہنے اور افسردہ کرنے سے بھی پرہیز کیجیے۔ کیوں کہ یہ دلوں میں کدورت پیدا کرنے والی اور دلوں کو پھاڑنے والی برائیاں ہیں۔ ملاقات کے وقت ہمیشہ مسرت، اطمینان اور شکر وحمد کے کلمات کہیے۔ یاس وحزن اور مردہ دلی کے کلمات ہر گز زبان پر نہ لائیے۔ ملاقات کے وقت ایسا انداز اختیار کیجیے کہ آپ کے دوست خوشی اور زندگی محسوس کریں۔ ایسے افسردہ چہرے سے اس کا استبقال نہ کیجیے کہ ان کا دل بجھ جائے اور آپ کی ملاقات کو وبال جان سمجھنے لگیں۔

رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ”نیکیوں میں کسی نیکی کو حقیر نہ جانو، چاہے وہ اتنی ہی ہو کہ تم اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملو۔“

او رایک موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ” اپنے بھائی کو دیکھ کر تمہارا مسکرا دینا بھی صدقہ ہے۔“ یاد رکھیے کہ نرم خوئی، خوش اخلاقی اور نرمی سے ہی دلوں میں الفت ومحبت پیدا ہوتی ہے اور انہی صفات کی بدولت اچھا معاشرہ وجود میں آتا ہے۔

رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں ” میں تمہیں اس آدمی کی پہچان بتاتا ہوں جس پر جہنم کی آگ حرام ہے۔ اور وہ آگ پر حرام ہیں، یہ وہ آدمی ہے جو نرم مزاج ہو، نرم طبیعت ہو او رنرم خو ہو۔“ (ترمذی)

مخلص دوست زندگی کی سب سے بڑی نعمت
اپنی سوسائٹی اور دوستوں کے انتخاب میں محتاط رہیں، کیوں کہ ان کا آپ کے خیالات پر بالواسطہ او رمخفی طور سے اثر پڑتا ہے۔ برائیوں سے بھرے لوگوں، غیر مہذب دل والے لوگوں اور مادہ پرست نکتہ نظر رکھنے والے لوگوں کی سوسائٹی سے بچیں، کچھ گنے چنے ایسے دوست رکھیں، جن کو آپ طویل عرصے پرکھ چکے ہوں اور جن سے آپ کا دل ملتا ہو۔ ایک سے دوستی کرنے کے بعد ان سے مستقل دوستی رکھنے کی کوشش کریں، بار بار دوستی توڑنا ایک کمزور اور غیر مہذب دل کا مظہر ہوتا ہے۔

اچھا دوست زندگی کی سب سے بڑی نعمت ہوتا ہے۔ اس لیے کسی کو دوست بنانے سے پہلے خوب اچھی طرح سوچیں ،پوری احتیاط سے کام لیں۔

اور بُرا دوست آپ کی ذلت کا سب بھی بن سکتا ہے آپ کی عزت نیلام کر سکتا ہے اور آپ کی وسیع النظری کو کوتاہ اندیشی میں بدل سکتا ہے۔ مخلص اور سچا دوست آپ کی شخصیت کی تعمیر میں مدد دیتا ہے، آپ کی خواہشات پر اثر انداز ہوتا ہے اور انتہائی خاموشی سے آپ کو دوسروں سے متعارف کراتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ دوست بناؤ، لیکن ایسے دوست جنہیں آپ جگری دوست کہہ سکیں۔

برے دوستوں کے نقصانات
٭… والدین کی نیک نامی پر حرف آتا ہے۔
٭… معاشرہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔
٭… اپنے ضمیر کی عدالت میں یہ لوگ مجرم ہوتے ہیں۔
٭… بے ادب ہو جاتے ہیں۔
٭… شرم وحیا ختم ہو جاتی ہے.
٭… آداب محفل سے بالکل عاری ہو جاتے ہیں۔
٭… بد گوئی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔
٭… لڑنا جھگڑنا ان کا مشن ہوتا ہے۔
٭… معاشرے اور گھر والوں کا چین وسکون برباد کر دیتے ہیں۔
٭… دین سے دور ہو جاتے ہیں اور جہنم کے قریب ہوجاتے ہیں ۔
٭… چوری اور جھوٹ کی عادت ان میں پڑنا شروع ہو جاتی ہے ۔

یہ تمام نقصانات برے دوستوں کی صحبت میں بیٹھنے والوں کے حصے میں آتے ہیں، لہٰذا اس سے جتنا بھی بچا جائے بہتر ہے۔

مخلص اور اچھے دوستوں کے ثمرات
1..نیک نامی پیدا ہو گی۔
2..والدین کی عزت میں اضافہ ہو گا۔
3..غلط خیالات سے بچ جائے گا ۔
4..الله اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا خوف ہر دم اسے رہے گا ۔
5..بڑوں کا ادب ملحوظ خاطر رہے گا۔
6..خاندان والے اور محلے والے اس سے محبت کریں گے۔

یہی تو معاشرہ کی اصلاح ہے، یعنی اچھے دوستوں کی صحبت میں بیٹھنا اور خود اچھا ہو جانا ہی معاشرہ کی اصلاح کا عزم او رپیغام ہے۔

ہم نے مندرجہ بالا فوائد ونقصانات کا تعین کر دیا ہے۔ اگر ان پر عمل ہو جائے تو نئی نسل بے شمار برائیوں اور بے شمار ”رذائل“ سے بچ سکتی ہے۔ نسل کے بگاڑ میں اَسی فیصد حصہ بری مجلس میں شامل ہونے کا ہے۔ یہ بری مجلس ہی سیگریٹ دے گی، پینے کو چرس دے گی، پھر بھنگ پلائے گی پھر ہیروئن دے گی، پھر زنا کی طرف متوجہ کرے گی ،پھر انسان کو اس کی جبلی خواہشات کی تکمیل کے لیے چوری، ڈاکے، رشوت جیسے گھناؤنے جرم شروع کرائے گی۔ ایک برے دوست کی صحبت کی وجہ سے کتنے سقم پیدا ہوئے؟! لہٰذا اپنے بچوں پر مکمل دھیان رکھیے او ران کی دن رات نگرانی کیجیے ۔ ان سے شفقت سے باز پرس کیجیے ، ان کے دوستوں کے بارے میں معلومات حاصل کیجیے۔ الله رب العزت ہم سب کو بری صحبت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(آمین یا ربَّ العٰلمین)

Flag Counter