اہل کتاب کے تبلیغی حربے
استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)
﴿وَقَالُواْ کُونُواْ ہُوداً أَوْ نَصَارَی تَہْتَدُواْ قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ، قُولُواْ آمَنَّا بِاللّہِ وَمَا أُنزِلَ إِلَیْْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَی إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَالأسْبَاطِ وَمَا أُوتِیَ مُوسَی وَعِیْسَی وَمَا أُوتِیَ النَّبِیُّونَ مِن رَّبِّہِمْ لاَ نُفَرِّقُ بَیْْنَ أَحَدٍ مِّنْہُمْ وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ، فَإِنْ آمَنُواْ بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِہِ فَقَدِ اہْتَدَواْ وَّإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّمَا ہُمْ فِیْ شِقَاقٍ فَسَیَکْفِیْکَہُمُ اللّہُ وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ، صِبْغَةَ اللّہِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّہِ صِبْغَةً وَنَحْنُ لَہُ عَابِدون﴾․ (سورہ البقرة:135 تا138)
اور کہتے ہیں کہ ہو جاؤ یہودی یا نصرانی تو تم پالو گے راہ راست۔ کہہ دے کہ ہر گز نہیں، بلکہ ہم نے اختیار کی راہ ابراہیم کی، جو ایک ہی طرف کا تھااورنہ شرک کرنے والوں میں تم کہہ دو کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور جو اتر ا ہم پر اور جو اترا ابراہیم اور اسماعیل اور اسحق اور یعقوب اور اس کی اولاد پر اور جو ملا موسیٰ کو اور عیسیٰ کو اور جو ملا دوسرے پیغمبروں کو، ان کے رب کی طرف سے،ہم فرق نہیں کرتے ان سب میں سے ایک میں بھی اور ہم اسی پروردگار کے فرماں بردار ہیں سو اگر وہ بھی ایمان لاویں جس طرح تم ایمان لائے ہدایت پائی انہوں نے بھی اور اگر پھر جاویں تو پھر وہی ہیں ضد پر،سواب کافی ہے تیری طرف سے ان کو اللہ اور وہی ہے سننے والا جاننے والاہم نے قبول کرلیا رنگ اللہ کا اور کس کا رنگ بہتر ہے اللہ کے رنگ سے اورہم اسی کی بندگی کرتے ہیں.
ربط:گذشتہ آیات میں یہود و نصاریٰ کے ازعام باطلہ کی تردید کی گئی تھی کہ ان کا دین حق ہے۔یہود ونصاریٰ چوں کہ مسلمانوں کو اپنے مذہب کی دعوت دیا کرتے تھے ،لہٰذا آئندہ آیات میں اس دعوت کا جواب دیا گیا ہے۔
تفسیر : یہود ونصاری کے تبلیغی حربے کا ایک ہی جواب
یہود ونصاریٰ سادہ لوح مسلمانوں کو بہکانے کے لیے کہتے ہیں اسلام میں کیا رکھا ہے ؟ یہودی، نصرانی بن جاؤ فلاح پاؤ گے۔ یہی حربے آج عیسائی مشینریاں اپناتی ہیں، اس کا ایک ہی اصولی جواب دیا گیا،ہم ملّت ابراہیمی کے پیروکار ہیں، جو تمام مذاہب باطلہ سے الگ ہے اور حضرت ابراہیم عليه السلام مشرک نہ تھے۔ بلکہ خالص موّحد تھے۔تم نے شرک کا ارتکاب کرکے اپنا راستہ ملت ابراہیمی سے الگ کر لیا ہے۔ اب تمہارا ملت ابراہیمی کی پیروکاری کا دعوی محض دعوی ہے۔
اس جملے میں مشرکین سمیت یہودو نصاریٰ کی بھی تردید کردی گئی،کیوں کہ یہود ونصاریٰ نے بھی اپنے مذہب میں دیگر عقائد باطلہ کے ساتھ ساتھ شرک کی آمیزش کر لی تھی۔
فرمان خداوندی ہے:﴿وَقَالَتِ الْیَہُودُ عُزَیْْرٌ ابْنُ اللّہِ وَقَالَت النَّصَارٰی الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّہِ ذٰلِکَ قَوْلُہُم بِأَفْوَاہِہِمْ یُضَاہِؤُونَ قَوْلَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ مِن قَبْلُ قَاتَلَہُمُ اللّہُ أَنٰی یُؤْفَکُونَ﴾․(التوبة:30)
ترجمہ: (اور یہود نے کہا کہ عزیز عليه السلام اللہ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ نے کہا کہ مسیح عليه السلام اللہ کے بیٹے ہیں )۔
اور ظاہر ہے کہ اللہ کے بیٹے ہونے کا عقیدہ شرک ہے۔علاوہ ازیں نصاریٰ کا عقید ہ تثلیث بھی شرک سے بھرپور ہے۔پس حضرت ابراہیم عليه السلام کی ملت ان تمام برائیوں سے پاک ہے، لہٰذا ہم اسی کے پیروکار ہیں۔
تقدیر کلام:”بَلْ نَکُوْنَ اَہْلَ مِلَّة إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً“․(تفسیر البیضاوی ،البقرة: ذیل آیت135)
تنبیہہ
فرمان خداوندی ہے :﴿أُوْلَئِکَ الَّذِیْنَ ہَدَی اللّہُ فَبِہُدَاہُمُ اقْتَدِہ﴾․الأنعام:90)(یہ وہ لوگ تھے جن کو ہدایت کی اللہ نے سوتو چل ان کے طریقہ پر۔)بعض مقامات میں حضرت ابراہیم عليه السلام اور بعض مقامات میں تمام انبیا کی پیروی کا حکم دینا اس وجہ سے ہے کہ ملت تمام انبیا کی ایک ہی ہے، یعنی یہ تمام انبیا اصولی عقائد میں متفق ہیں، جب کہ شریعتیں جدا جدا ہیں۔
لہٰذا کسی بھی نبی کی اتباع کا حکم دینا ایک ہی ملت کا حکم ہے۔لیکن مذکورہ مقام میں حضرت ابراہیم عليه السلام کا خاص طور پر تذکرہ اس لیے کیا گیا کہ تمام مقابل فرقے(یہود ،نصاریٰ اور مشرکین)ان کی شخصیت سے نہ صرف مانوس، بلکہ آپ کی اتباع کے دعوے دار بھی تھے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابراہیم عليه السلام کی شریعت کئی عملی فروعات (حج وغیرہ) میں بھی یکساں ہے۔ (ہٰکذا فی بیان القرآن للتھانوی: البقرة:136) آگے اس ملت کی تفصیل ذکر فرماتے ہیں:
قُولُواْ آمَنَّا بِاللّہ
یعنی ہمارے اسلام میں تو کسی بھی نبی اور اس کی وحی کے انکار کی گنجائش نہیں ہے،لہٰذا ہم ان تمام احکام پر ایمان لاتے ہیں جو ہمارے رب کی طرف سے ہم پر نازل کیے گئے اور ابراہیم ،اسماعیل،اسحق اور یعقوب علیہم السلام کی اولاد پر نازل کیے گئے، اسی طرح ہم ان معجزات و احکام پر بھی ایمان لاتے ہیں جو موسیٰ اور عیسیٰ علیہماالسلام اور دیگر انبیا علیہم السلام کو دیے گئے،ان میں سے کسی کا بھی انکار نہیں کرتے ،ہم اس تفریق کے قائل نہیں کسی کی نبوت وشریعت پر ایمان لے آئیں اور کسی کی تکذیب کردیں،یہ اور بات ہے کہ اسلام کے آنے کے بعد سابقہ شرائع کے احکام منسوخ ہونے کی وجہ سے اب اسلام کے احکام پر عمل پیرا ہیں۔لیکن کسی پیغمبر کی تکذیب ہمارے مذہب میں نہیں ۔پس تمہیں بھی چاہیے کہ اس مذہب کو قبول کرلو۔
فَإِنْ آمَنُواْ بِمِثْلِ مَا آمَنتُم
پس اگر یہ لوگ تمہاری طرح کا ایمان لاتے ہیں( یعنی تمام انبیا اوران کی تعلیمات کو برحق سمجھتے ہوئے کسی کی بھی تکذیب کے مرتکب نہیں ہوتے) تو یہ بھی ہدایت یافتہ شمار ہوں گے اور اگر وہ اس سے روگردانی کریں تو سمجھ لو کہ حجت قائم ہونے کے بعد ان کی روگردانی کا سبب وہی عناد ہے جس کے شکنجے میں یہ پہلے سے گرفتار ہیں۔لیکن ان کی مخالفت سے خائف نہ ہونا، کیوں کہ الله تعالیٰ عنقریب تمہاری طرف سے نمٹ لیں گے۔(چناں چہ کچھ ہی عرصہ میں یہودو نصاریٰ اور مشرکین مسلمانوں کے ہاتھوں مغلوب ہوئے) یہ آیت اصحاب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ایمان پر الله جل شانہ کی طرف سے نہ صرف ایک اعزازی گواہی ہے، بلکہ اس میں اصحاب رسول کے ایمان ہی کو معیار حق بنا کر پیش کیا گیا ہے ، کیوں کہ اس میں خطاب مومنین سے ہے جو بوقت نزول قرآنی صرف صحابہ ہی تھے، پس اگر کسی بدبخت کو صحابہ کے ایمان میں کسی قسم کا نقص نظر آتا ہے تو وہ شخص خود ہدایت سے محروم ہے، اسے چاہیے اپنے ہی ایمان کا محاسبہ کرے۔
مسیحی رسم” بپتسمہ“ کی تردید
”صِبْغَةَ اللهِ…“ عیسائیوں کے یہاں ایک مذہبی رسم” بپتسمہ“ چلی آرہی ہے۔ عیسائیت قبول کرنے والے شخص کو مغرب کے رخ پر لٹا کر شیطان سے برأت کا اعلان کرایا جاتاہے، پھر مشرق کی جانب جو ان کا مزعومہ قبلہ ہے، رخ کرکے عیسائی عقائد کا اقرار کرایا جاتا ہے، پھر کپڑے اتار کر پوپ کے دم کیے ہوئے تیل سے سرتاپامالش کراکر ” بپتسمہ“ کے حوض میں ڈال کر غسل دیا جاتا، اسی درمیان اس سے باپ، بیٹے، روح القدس پر ایمان کا اقرار کرایا جاتا ہے ، غسل کے بعد پھر اسی تیل سے پیشانی اور سینے پر مالش کرکے سفید کپڑے پہنائے جاتے ہیں، جو گناہوں سے پاک وصاف ہونے کی علامت شمار ہوتی ہے۔
قرآن کریم نے اس مصنوعی عمل کی تردید فرمائی کہ تیل لگانے، نہانے اور سفید کپڑے پہنے سے الله کا رنگ نہیں چڑھتا، الله کا رنگ الله کی اطاعت سے چڑھتا ہے اور الله تعالیٰ کی اطاعت اسلام کے بتاتے ہوئے طریقوں سے ہو سکتی ہے ،نہ کہ یہود ونصاری کے خود ساختہ مصنوعی اعمال سے۔ اطاعت الہٰی کو رنگ سے تشبیہ کمال جذب میں دی گئی ہے، جس طرح رنگ کپڑے میں ایسا جذب ہو جاتا ہے کہ اسے جدا نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح اطاعت الہٰی انسان کے رگ وپا میں سرایت کر جائے کہ اس اطاعت سے نکلنا ناممکن ہونے لگے۔
ترکیب نحوی
ترکیبی اعتبار سے لفظ ”صبغة“مفعول بہ ہے اور اس سے قبل”اتبعوا“فعل مقدرہے۔ (الدرالمصون: البقرة: ذیل آیت139)
﴿قُلْ أَتُحَآجُّونَنَا فِیْ اللّہِ وَہُوَ رَبُّنَا وَرَبُّکُمْ وَلَنَا أَعْمَالُنَا وَلَکُمْ أَعْمَالُکُمْ وَنَحْنُ لَہُ مُخْلِصُون﴾․ ( سورہ البقرہ :139)
کہہ دے کیا تم جھگڑا کرتے ہو ہم سے الله کی نسبت حالاں کہ وہی ہے رب ہمارا اور رب تمہارا؟ اور ہمارے لیے ہیں عمل ہمارے اور تمہارے لیے ہیں عمل تمہارے اور ہم تو خالص اس کے ہیں
تفسیر: معاندین سے گفتگو کا طریقہ
یعنی ان سب ادلّہ و براہین کے بعد بھی اگر یہ لوگ ڈٹے رہیں کہ ہم بخشے بخشائے اور تم مردود ہو تو کہہ دو کہ اللہ جس طرح تمہارا رب ہے، اسی طرح ہمارا بھی رب ہے،اگر تمہارے پاس اعمال ہیں تو ہمارے پاس بھی اعمال ہیں ،پھر کیا خصوصیت کہ تم مقبول اور ہم مردودہوں؟جب کہ ہم شرک و ہوی پرستی سے بیزار ہو کر اپنے رب کی خالص بندگی کرتے ہیں اور تم سراسر بحرہویٰ و شرک میں مستغرق اور شریعت منسوخہ پر ڈٹے ہوئے لوگ ہو۔
﴿أَمْ تَقُولُونَ إِنَّ إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَالأسْبَاطَ کَانُواْ ہُوداً أَوْ نَصَارَی قُلْ أَأَنتُمْ أَعْلَمُ أَمِ اللّہُ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن کَتَمَ شَہَادَةً عِندَہُ مِنَ اللّہِ وَمَا اللّہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ،تِلْکَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَہَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُم مَّا کَسَبْتُمْ وَلاَ تُسْأَلُونَ عَمَّا کَانُواْ یَعْمَلُونَ﴾․ (سورہ بقرہ،آیت:140تا141)
کیا تم کہتے ہو کہ ابراہیم اور اسماعیل اور اسحق اور یعقوب اورا س کی اولاد تو یہودی تھے یا نصرانی ؟ کہہ دے کہ تم کو زیادہ خبر ہے یا اللہ کو؟اور اس سے بڑا ظالم کون جس نے چھپائی وہ گواہی جو ثابت ہو چکی اس کو اللہ کی طرف سے؟اور اللہ بے خبر نہیں تمہارے کاموں سےوہ ایک جماعت تھی جو گذر چکی، ان کے واسطے ہے جو انہوں نے کیااور تمہارے واسطے ہے جو تم نے کیااور تم سے کچھ پوچھ نہیں ان کے کاموں کی
تفسیر
اہل کتاب ابھی بھی اپنی حقّانیت کے لیے یہی دلیل دیتے ہیں چوں کہ ابراہیم،اسماعیل، اسحق، یعقوب علیہم السلام اور ان کی اولاد یہودی یا نصرانی تھی اس لیے ہم ان کی پیروی میں یہودی یا نصرانی ہیں۔ اس کے جواب میں آپ عليه السلام کو صرف اتنی بات کہہ دیجیے کہ تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ تعالیٰ ؟ظاہر ہے کہ اللہ ہی زیادہ جاننے والا ہے،اور اللہ تعالیٰ ان انبیا کے حق میں گواہی دے چکے ہیں کہ یہ سب مسلمان تھے اور اپنی اولاد کو بھی اسلام کی وصیت کر گئے تھے،پس اب جھگڑے کی کوئی گنجائش نہ رہی ۔ جانتے تو یہ اہل کتاب بھی ہیں کہ دین اسلام ہی حق ہے،جیسا کہ چند آیات کے بعد وضاحت آئے گی، لیکن محض بغض و عناد کی بناپر حضور صلی الله علیہ وسلم کی نبوت کی بشارت، جو تورات وانجیل میں موجود ہے، اسے چھپا کر کتمانِ حق جیسے ظلم عظیم میں مبتلا ہیں۔پس اللہ تعالیٰ ان کے تمام حربوں سے خوب واقف ہیں۔
بعد ازاں تاکید کے لیے گذشتہ آیت کو دوبارہ دہرادیا گیا کہ انبیائے کرام کے اعمال تمہارے کچھ کام نہ آویں گے، تمہارے لیے صرف قبول اسلام میں ہی نجات ہے۔
﴿سَیَقُولُ السُّفَہَاء مِنَ النَّاسِ مَا وَلاَّہُمْ عَن قِبْلَتِہِمُ الَّتِیْ کَانُواْ عَلَیْْہَا قُل لِّلّہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ یَہْدِیْ مَن یَشَاء ُ إِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ، وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّةً وَسَطاً لِّتَکُونُواْ شُہَدَاء عَلَی النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْْکُمْ شَہِیْداً وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِیْ کُنتَ عَلَیْْہَا إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَن یَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن یَنقَلِبُ عَلَی عَقِبَیْْہِ وَإِن کَانَتْ لَکَبِیْرَةً إِلاَّ عَلَی الَّذِیْنَ ہَدَی اللّہُ وَمَا کَانَ اللّہُ لِیُضِیْعَ إِیْمَانَکُمْ إِنَّ اللّہَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِیْم﴾(سورہ البقرة، آیت: 142تا143)
اب کہیں گے بیوقوف لوگ کہ کس چیز نے پھیر دیا مسلمانوں کو ان کے قبلہ سے جس پر وہ تھے ؟تو کہہ اللہ ہی کا ہے مشرق اور مغرب، چلائے جس کو چاہے سیدھی راہاور اسی طرح کیا ہم نے تم کو امت معتدل ،تاکہ ہو تم گواہ لوگوں پراور ہو رسول تم پر گواہی دینے والا اور نہیں مقرر کیا تھا ہم نے وہ قبلہ کہ جس پر تو پہلے تھا ،مگر اس واسطے کہ ہم معلوم کریں کون تابع رہے گا رسول کا اور کون پھر جائے گا الٹے پاؤں اور بے شک یہ بات بھاری ہوئی، مگر ان پر جن کو راہ دکھائی اللہ نے اور اللہ ایسا نہیں کہ ضایع کرے تمہارا ایمان ،بے شک اللہ لوگوں پر بہت شفیق اور نہایت مہربان ہے
ربط آیات…گزشتہ آیات میں یہود و نصاریٰ کے دین کا باطل اور اسلام کا حق پر ہونا بیان کیا گیا تھا، اب آئندہ آیات میں تحویل قبلہ کا بیان ہے، یعنی بیت المقدس(جو کہ انبیا ئے بنی اسرائیل کا قبلہ تھا)کو چھوڑ کر کعبہ (جو ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام اور ان کی اولاد کا قبلہ تھا)کو امت مسلمہ کا قبلہ مقرر کیا گیا ہے،جواس بات کی واضح نشانی تھی کہ اب سیادت بنی اسرائیل سے منتقل ہو کر بنی اسماعیل کے پاس تاقیامت آگئی ہے۔
تفسیر:شان نزول
آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبل از ہجرت مکہ مکرمہ میں بیت المقدس اور کعبہ دونوں ہی کی طرف رخ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے، یعنی بیت المقدس کی طرف اس طور پر رخ فرماتے تھے کہ کعبہ بھی سامنے آجائے۔(تفسیر المنار:البقرة:142)کیوں کہ بیت المقدس حضرت موسیٰ عليه السلام کے بعد آنے والے تمام انبیائے بنی اسرائیل کا قبلہ رہا تھا، جب کہ کعبہ آپ کے جدا مجد حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کا قبلہ تھا۔لیکن ہجرت کے بعد آپ کو حکم ہوا کہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھیں۔ (صحیح البخاری :بدء الوحی، رقم:399، دار الشعب القاہرة)،چناں چہ آپ نے بشمول تمام مسلمانوں کے بیت المقدس کو اپنا قبلہ بنائے رکھا،بیت المقدس کو قبلہ مقرر کرنے میں جہاں یہود کو دین اسلام کی طرف مائل کرنا مقصود تھا وہیں عرب مسلمانوں کی آزمائش بھی مقصود تھی کہ وہ اسلام پر کتنے پکے ہیں، کیوں ان پر یہ کافی شاق تھا کہ ایسے قبلہ کو تر ک کردیں جوان کے آباء و اجداد کی تمام تر تعظیم و عبادات کا مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ انہیں کے مورث اعلیٰ پیغمبر کا تعمیر کردہ بھی تھا۔
اس آزمائش میں موٴمنین تو کامیاب رہے کہ بے چون و چرا حکم کے تابع دار رہے، لیکن یہود انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ مخالفت پر ڈٹے رہے اوربیت المقدس کا قبلہ ہونا یہود کے زنگ آلود دلوں کو نور و عرفان ہدایت کی اثر پذیری پر آمادہ نہ کر سکی ۔لیکن حضرت سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا دلی میلان کعبہ کو اپنانے کا تھا،کیوں کہ یہی وہ گھر ہے جس کے معمار عر ب و بنی اسرائیل دونوں کے مورث اعلیٰ حضرت ابراہیم عليه السلام تھے۔اور چوں کہ ابراہیم عليه السلام کے زیادہ قریبی کہلانے کے حقدار بھی آپ ہی تھے، اس لیے بھی اس میلان کا ہونا فطری تھا۔فرمان باری تعالیٰ ہے:﴿إِنَّ أَوْلَی النَّاسِ بِإِبْرَاہِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوہُ وَہَذَا النَّبِیُّ وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ وَاللّہُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْن﴾․ (اٰل عمران:68) (لوگوں میں زیادہ مناسبت ابراہیم سے ان کو تھی جو ساتھ اس کے تھے اور اس نبی کو اور جو ایمان لائے اس نبی پر۔)پس ہجرت کے تقریباً سولہ یاسترہ ماہ بعد کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم نازل ہوا۔(صحیح البخاری: کتاب بدء الوحی، رقم:399، 1/111، دارالشعب القاہرہ)۔اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ بنو سلمہ کی مسجد میں ظہر یا عصر کی نماز ادا فرما رہے تھے ، چناں چہ آپ دوران نماز ہی کعبہ کی جانب پھر گئے اور آپ کی دیکھا دیکھی صحابہ نے بھی اپنا رخ بیت المقدس سے کعبہ کی جانب پھیر لیااور کسی نے قیل و قال یا لیت لعل سے کام نہیں لیا۔(سنن ابن ماجہ:باب القبلة، رقم:1010، دارالفکر، بیروت)اگلے روز قبا کے لوگ اپنی مسجد میں بیت المقدس کی جانب رخ کر کے فجر کی نماز ادا کررہے تھے کہ دوران نماز ہی کسی نے آکر خبر دی کہ قبلہ کا حکم تو بدل چکا ہے۔اور تم ابھی تک بیت المقدس کی جانب رخ کر کے نماز پڑھ رہے ہو۔یہ سنتے ہی لوگوں نے نماز ہی میں کعبہ کی جانب رخ پھیر لیا، کسی نے حیل و حجت سے کام نہیں لیا۔لیکن دوسری طرف بد نصیب یہود تھے کہ اس موقع پر بھی مسلمانوں پر اعتراضات اور سادہ لوح موٴمنین کو ورغلانے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں چھوڑا۔چناں چہ یہود کی طرف سے طرح طرح کے اعتراضات کی بوچھاڑ شروع ہوئی ،ان کے جواب میں مذکورہ آیات نازل ہوئیں۔
تفسیر: احکام شریعت پر اعتراضات کرنا بے وقوفوں کا کام ہے
﴿سَیَقُولُ السُّفَہَآء مِنَ النَّاس…﴾یعنی قبلہ کے تبدیل ہونے پرکسی کو اعتراض کا حق حاصل نہیں ،وہ خدائے لم یزل ربّ الجہات(تمام سمتوں کا مالک)ہے۔اسے جس طرح یہ اختیار ہے کہ بیت المقدس کو قبلہ بنادے، کعبہ کو قبلہ بنادے ۔پس اعتراضات اٹھانے والے بے وقوف ہیں۔اس کے ساتھ ہیکعبہ کو اختیار کرنا ملت ابراہیمی کا تقاضا ہے اور ملت ابراہیمی سے اعراض کرنے والے لوگ تو ہیں ہی بے وقوف۔﴿وَمَن یَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاہِیْمَ إِلاَّ مَن سَفِہَ نَفْسَہُ وَلَقَدِ اصْطَفَیْْنَاہُ فِیْ الدُّنْیَا وَإِنَّہُ فِیْ الآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِیْنَ ﴾(البقرہ:130)(اور کو ن ہے جو پھرے ابراہیم کے مذہب سے، مگر وہی کہ جس نے احمق بنایا اپنے آپ کو۔)
مفسرین نے لکھا ہے کہ اس موقع پر یہود نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)اپنے دین میں حیران وسرگردان ہیں، پہلے بیت المقدس کو اور پھر کعبہ کو اپنا لیااور بعضوں نے کہا کہ محمد آہستہ آہستہ اپنے آبا واجداد والی جاہلیت کی طرف واپس جارہے ہیں،اور بعضوں نے کہا کہ مسلمانوں پر اب ظاہر ہوا کہ وہ پہلے غلطی پر تھے۔ان اعتراضات میں منافقین و مشرکین وغیرہ بھی یہود کے ساتھ ہو گئے اور مسلمانوں کو بہکانے کی کوشش شروع کردی۔ (دیکھئے تفسیرروح المعانی والبیضاوی،البقرة: ذیل آیت142)چوں کہ ان تمام اعتراضات کی بنیاد جہت پرستی پر مبنی تھی،یعنی ہر فریق نے کوئی خاص جہت اپنانے کو ہی عبادت و بندگی سمجھ رکھا تھا،لہٰذا اللہ عزوجل نے ان تمام اعتراضات کا اولین جواب ایسے حاکمانہ انداز میں فرمایا کہ جہت پرستی کو جڑسے اکھاڑ پھینکا کہ اختیار جہت تو محض تقاضائے جسمانی ہے ،اصل شے تو اللہ کی عبادت ہے۔ وہی مشرق و مغرب کا مالک ہے،جہاں کا حکم دے اسی طرف رخ کرکے نماز پڑھو،پس اللہ جس کو ہدایت دیتا ہے وہ بے چون و چرا تعمیل حکم میں لگا رہتا ہے، اس کے احکام کی علتیں او رحکمتیں معلوم نہ ہونے سے اس کی اطاعت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔(تفسیر البیضاوی:البقرة: ذیل آیت142)۔
”سیقول“:آیت میں لفظ مستقبل استعمال ہوا ہے ،یعنی عنقریب کہیں گے بے وقوف لوگ۔اسی لیے مفسرین نے کہا ہے کہ یہ آیت تحویل قبلہ سے قبل نازل ہوئی اور اس میں پہلے ہی سے مسلمانوں کو کفار کے مذکورہ اعتراضات کی خبردی گئی ہے کہ یہ لو گ ضرور اعتراضات کریں گے ،لہذا پشیمان مت ہونا، چناں چہ ایسا ہی ہوا۔البتہ بعض مفسرین نے آیت کو ماضی کے معنی میں شمار کیا ہے(مثلاً:ابن جوزی،علامہ آلوسی،ابو اللیث ثمر قندی وغیرہ)۔یعنی ان کے نزدیک یہ آیت تحویل قبلہ کے بعد نازل ہوئی۔حکیم الامت نے اسی توجیہ کو اختیار فرمایا ہے،اس تو جیہ کے مطابق ایک نکتہ بلیغ یہ ہے کہ گذشتہ واقعہ کو مستقبل کے الفاظ سے تعبیر کرنے میں کفار کی استمرار و مداومت کی جانب اشارہ ہے کہ انھوں نے جو اعتراضات کا سلسلہ شروع کیا ہے، آئندہ بھی جاری رہے گا۔(بیان القرآن :البقرہ:142)
احکام شریعت کی حکمتوں کی جستجو میں نہیں پڑنا چاہیے
احکام الٰہیہ میں جستجو ئے علل سے بچ کر محض حکم پر عمل پیرا ہونے کو صراط مستقیم قرار دیا گیا ہے۔لہذا علتیں تلاش کرنے کے چکر میں نہیں پڑھنا چاہیے،بس عمل کرتے رہنا چاہیے۔بعض لوگ تو یہ کام صرف اعتراض نکالنے کے لیے کرتے ہیں، جیسے:یہود و نصاریٰ اورمستشرقین وغیرہ اور بعض لوگ عمل سے جان چھڑانے کے لیے یہ کام کرتے ہیں، جیسے نماز سے جان چھڑانے کے لیے یہ کہنا کہ” اس کی اصل غرض تو اللہ کا ذکر ہے“۔دونوں چیزیں انتہائی خطرناک ہیں، ان سے بچنا چاہیے۔البتہ بعض لوگوں کی غرض تو فاسد نہیں ہوتی، لیکن محض حکمتیں تلاش کرنا شروع کردیتے ہیں، چو ں کہ غلطی کا احتمال ضرور رہتا ہے، لہٰذا اس سے بچنا چاہیے۔ (ملحض از بیان القرآن)۔
یہ ان اعتراضات کا حاکمانہ جواب تھا،اب درمیان میں مسلمانوں کی خصلت محمودہ(بے چون و چرا خدائی احکام پر عمل کرنا)کی تعریف فرماتے ہیں اور اس کے بعد حکیمانہ جواب میں کچھ حکمتیں بیان فرماتے ہیں۔
وکذالک جعلنا کم أمةً وسطاً
” وسط“ عربی زبان میں مدح کے لیے آتا ہے، خصائل محمودہ کے مجموعے پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ حدیث شریف میں اس کی تفسیر عدل سے کی گئی۔ ( صحیح بخاری، رقم الحدیث:7349)
یعنی ہم نے تم کو ایسی امت بنایا ہے جو افراط و تفریط سے محفوظ رہ کر درمیانی راہ پر گام زن ہے کہ خدا کا جو حکم ہوا بے چون وچرا تسلیم کرلیا اور جب اس کی حکمت بتلائی تو وہ بھی سمجھ گئے، نہ ایسے ضدی کہ بغیر وجہ بتائے حکم ماننے سے انکار کر دیں اور نہ ایسے کم عقل کہ حکمت بتلائی جائے تو وہ بھی سمجھ میں نہ آئے۔اور یہ حقیقت ہے کہ متوسط شے ہی عدل پر قائم رہتی ہے ۔لہٰذا یہ آیت امت کے عدل و انصاف پر ہونے کو ثابت کرتی ہے۔(بیان القرآن: البقرة:143) یہ امّت جادہ حق پر اعتدال سے قائم رہے گی، نیز اپنے زبان اور عمل سے اظہارِ حق کا فریضہ انجام دیتی رہے گی۔
پھر اسی عدل و انصاف کی بنیاد پر امت محمدیہ روز قیامت انبیا کے حق میں گواہ بن کر تائید حق کے اعزاز سے نوازی جائے گی اور شرف بالائے شرف یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس امت کی گواہی کی تصدیق بھی فرمائیں گے۔(جاری)