Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1435ھ

ہ رسالہ

15 - 16
زبان کی آفتیں

طالب علم محمد عادل ، جامعہ فاروقیہ کراچی
	
زبان گوشت کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہے، جو حق تعالیٰ نے انسان کے منھ میں اس لیے رکھا ہے کہ وہ اس کے ذریعے اپنا مافی الضمیر دوسروں پر ظاہر کر سکے اور اندرونی راز واسرار ان کے گوش گذار کر سکے۔ بظاہر اگر دیکھا جائے تو زبان گوشت کا ایک لوتھڑا ہے، لیکن اگر تحقیقی نگاہوں سے دیکھیں تو زبان کا سارے جسم پر تصرف اور قبضہ معلوم ہوتا ہے، جو کچھ بھی انسان کی عقل اور وہم وخیال میں آتا ہے زبان اس کی ترجمانی کرتی ہے برخلاف انسان کے دیگر اعضاء کے کہ ان میں اس طرح خصوصیت موجود نہیں ، کان صرف سنتے ہیں ، آنکھ صرف دیکھتی ہے، اس کے سوا یہ کچھ نہیں کر سکتے، لیکن زبان ان اعضا اور دلی جذبات وخیالات کی ترجمانی کرتی ہے اور ساری صورتیں دل سے لے کر دوسروں کے سامنے بیان کر دیتی ہے ۔ جب غم کے بادل دل پر چھا جاتے ہیں ، خوف وہراس کی صورت دل میں پیدا ہو جاتی ہے تب انسان کو ساری دنیا تاریک نظر آتی ہے اور غم سے چور ہو کر وہ الگ تھلگ ہو کر بیٹھ جاتا ہے تو زبان اس موقع پر تضرع اور زاری کرتی ہے۔ درد والم کے الفاظ زبان ادا کرتی ہے، جس سے دل کی مصیبت کا پورا نقشہ کھینچ لیتی ہے او رجب دل میں بشاشت وفرحت او رنشاط وخوشی کے آثار ہوں تو راحت وخوشی کے الفاظ سے زبان حرکت میں آجاتی ہے ،جس طرح الله رب العزت نے نوعِ انسان پر اپنی بے شمار نعمتیں برسائی ہیں، انہیں نعمتوں میں سے قوت گویائی بھی الله کی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے ،جو الله تعالیٰ نے انسان کو دے رکھی ہے ،اسی طرح زبان مختلف آفات بھی اپنے اندر رکھتی ہے اور زبان کے شر اور آفات سے بچنا ضروریاتِ دین میں سے ہے۔

انسان کے اقوال واعمال کی اقسام
انسان دنیا میں جو کچھ بھی کرتا ہے یا جو کلام بھی کرتا ہے اس کی تقریباً چار قسمیں ہیں۔
1..مفید… یعنی جو کام وہ کرے گا یا جو کلام کرے گا اس میں دین یا دنیا کا کوئی فائدہ ہو گا۔
2..مضر… یعنی جس میں دین یا دنیا کا نقصان ہو۔
3..نہ مفید نہ مضر… یعنی جس میں نہ کسی قسم کا نفع ہو اور نہ نقصان ہو۔ لایعنی کلام۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ قسم بھی مضر ہی میں شامل ہے، بے فائدہ اور لایعنی کلام کو چھوڑ دینا بھی نجاتِ آخرت کا ذریعہ بن سکتا ہے، جو وقت لا یعنی کلام میں ضائع کیا جاتا ہے اگر اس کو الله کی یاد میں صرف کیا جائے تو قرب الہٰی کا ذریعہ بن سکتا ہے ۔
4.. جو مضر بھی ہے او رمفید بھی … یعنی جس میں نقصان بھی ہے اور نفع بھی ہے۔ ان چاروں اقسام میں سے قسم اول ہی سب سے افضل وبہتر ہے اور قابلِ عمل ہے، جس میں نفع ہی نفع ہے، لوگوں کو نیکی کی رغبت دلانا اوربرائی سے منع کرنااو راگر جھگڑا ہو جائے تو لوگوں میں صلح کرا دینا زبان کے بہترین فرائض اور الله تعالیٰ کی رضا کے حصول کا بہترین ذریعہ وسبب ہے۔

آفاتِ لسان کی حقیقت
زبان اگرچہ ایک چھوٹا سا لوتھڑا ہے، لیکن اس سے پیدا ہونے والے فتنے نہایت ہی بڑے ہوتے ہیں ،کسی نے کیا خوب کہا:”اللسان جِرمہ صغیرٌ، وجُرمہ کبیر وکثیر․“ یعنی زبان جسم کے اعتبار سے چھوٹی ہے، لیکن اس کا جرم بہت بڑا اور زیادہ ہے۔

عمومی طور پر انسان جب زبان کی مختلف آفتوں کا شکار ہو تو اس کی اہم اور بڑی وجہ اس کا زبان کی حفاظت نہ کرنا ہوتا ہے ۔ آفات لسان کے مختلف اسباب ہیں، مثلاً جھوٹ بولنا، غیبت کرنا، کسی پر لعن طعن کرنا، سب وشتم کرنا، الزام تراشی وچغلی لگانا، لا یعنی اور فضول قسم کی گپ شپ میں مشغول ہونا، وغیرہ، یہ تمام کے تمام اعمال شنیعہ وافعال رذیلہ کا محل وہ زبان ہے ،جس کی وجہ سے طرح طرح کی آفتوں کو تقویت ملتی ہے او رانسان اس کا شکار ہو جاتا ہے ۔اسی طرح انسان جب کسی دوسرے انسان کو تکلیف یا زخم پہنچاتا ہے تو یا وہ کسی آلہ سے پہنچاتا ہے یا پھر زبان ہی تکلیف یا زخم پہنچانے کے لیے کافی ہوتی ہے، لیکن دونوں قسم کے زخموں میں بڑا فرق ہے، کیوں کہ آلہ وغیرہ سے پہنچائے جانے والا زخم تو مرہم پٹی وغیرہ سے ٹھیک ہوجائے گا ،لیکن زبان سے پہنچائے جانے والے زخم کے لیے کوئی مرہم پٹی نہیں، وہ دل میں جاکر راسخ ہو جاتا ہے اور ہر لمحہ تکلیف دیتا ہے۔

کسی شاعر نے اس بات کو یوں بیان کیا ہے #
        جراحات السنان لھا التیام
        ولا یلتام ماجرح اللسان
نیزوں کے زخموں کے لیے تو علاج ہے،لیکن زبان جسے مجروح کر دے اس کا کوئی علاج نہیں۔

حضرت سہل بن سعد رضی الله عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”من یضمن لي مابین لحییہ ومابین رجلیہ، أضمن لہ الجنّة․“(رواہ البخاری) یعنی جو شخص بھی مجھے اپنی زبان او راپنی شرم گاہ کی ضمانت دے تو میں اس کے لیے جنت کی ضمانت دوں گا۔

اس حدیث پاک میں زبان کی حفاظت کی اہمیت وضرورت کو واضح طور پربیان کیا گیا ہے اور زبان کی حفاظت پر جنت کی ضمانت خود حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے دی ہے ۔ لہٰذا ہر مسلمان کو اپنی زبان پر کنٹرول رکھنا چاہیے، تاکہ دنیا کے فتنوں کے ساتھ ساتھ آخرت کے ابدی فتنوں سے بھی محفوظ رہے۔

حفظ لسان کا طریقہ
انسان کو اپنی زبان کی حفاظت کے لیے سب سے اہم اقدام یہ کرنا چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ خاموشی کو ترجیح دے، تاکہ زیادہ فتنوں سے محفوظ رہے ،جیسا کہ پیارے حبیب صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے :”من صمت نجا․“(رواہ أحمد والترمذی)

یعنی جو خاموش رہا وہ نجات پا گیا۔

اسی طرح زبان کی حفاظت کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ انسان لا یعنی، لغو اور فضول باتوں میں بالکل مشغول نہ ہو، جیسا کہ آپ علیہ السلام کا ارشادِ گرامی ہے، فرماتے ہیں :”من حسن إسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ․“ (رواہ مالک وأحمد)

یعنی آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی باتوں او رکاموں کو چھوڑ دے۔لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنا او راپنی زبان کا محاسبہ کرے اور حفظ لسان کی ہر ممکن کوشش کرے، تاکہ دنیا وآخرت کی کام یابیاں اس کے قدم چومیں اور فتنوں وشرور سے مکمل آزاد ہو جائے او رجو کچھ انسان بولتا ہے تو وہ سب کچھ محفوظ کیا جاتا ہے، جیسا کہ الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿ما یلفظ من قول إلا لدیہ رقیبٌ عتیدٌ﴾ یعنی جس بات پر بھی انسان تلفظ کرتا ہے تو الله تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ نگہبان فرشتے اسے محفوظ کر دیتے ہیں۔ لہٰذا ہر بات سوچ سمجھ کر کرنی چا ہیے، کیوں کہ جو بات لکھ دی گئی تو اسے مٹایا نہیں جاتا، غیر ضروری باتوں سے بالکلیہ اجتناب کرنا چاہیے، تکلم سے پہلے وہ تمہاری ملک میں ہیں، لیکن جب تکلم کر لیا جائے تو اب وہ تمہاری ملک سے نکل گئیں اور غیر کی ملک ہو جائیں گی ، تمہیں ذلیل اور رسوا کرنے کا باعث ہوں گی یا پھر لوگوں کے دلوں سے تمہاری عزت گرا دیں گی ، کسی بزرگ نے کیا اچھا فرمایا کہ زبان سانپ ہے او راس کا گھر انسان کا منھ ہے، انسان کو چاہیے کہ وہ اس کی حفاظت کرے، کہیں اس کو ڈس نہ لے زبان پر نگاہ رکھنی چاہیے، اس کی کسی بھی جنبش کو آسان نہیں سمجھنا چاہیے۔ ایک بات جو زبان سے نکلتی ہے وہ انسان کے بلندی درجات کا سبب بھی بنتی ہے اور دوسری بات اس کی ذلت اور رسوائی کے لیے کافی ہوتی ہے ، لہٰذا انسان کی عزت زبان کی حفاظت میں مضمر ہے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ انسان کو ہر لمحہ یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ الله تعالیٰ سمیع وبصیر ذات ہے او راس کی ہر حالت کو دیکھتا اور اس کی ہر بات کو سنتا ہے، اس لیے ہر بات سوچ سمجھ کر کرنی چاہیے اور زبان کی حفاظت کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے ،تاکہ زبان سے کوئی ایسا لفظ نہ نکل جائے جو الله رب العزت کی ناراضگی کا باعث ہو یا کسی دوسرے مسلمان کی اس سے دل آزاری ہوتی ہو۔ اکثر اوقات ذکر الله اور تلاوت کلامِ پاک میں مشغول رہنا چاہیے اوراسے ہر وقت یہ خیال رکھنا چاہیے کہ جس ذات نے اندرونی اسرار کو ظاہر کرنے کے لیے زبان دی ہے وہ ان تمام اسرار وباطنی خیالات کو بھی بخوبی جانتا ہے ،اس لیے زبان کو صرف اچھی باتوں کے لیے استعمال کرنا اور مختلف آفتوں سے زبان کی حفاظت کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔

Flag Counter