حضرت ثابت بن قیسؓ
طالب علم عرفان محمود، جامعہ فاروقیہ کراچی
ایک خوش نصیب صحابی جنہوں نے شہادت کے بعد وصیت کی اورحضرت ابوبکر نے اسے نافذ فرمایا
حضرت ثابت بن قیس بن شماس مشہور صحابی ہیں، جو قبیلہخزرج سے تعلق رکھتے تھے، اپنے زمانے کے مشہور خطیب تھے۔ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے لیے کتابت وحی کے فرائض بھی انجام دیے، جامع ترمذی میں صحیح سند کے ساتھ روایت ہے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا :نعم الرجل ثابت بن قیس بن شماس․
ثابت بن قیس بن شماس اچھے آدمی ہیں۔
حضرت عطا خراسانی فرماتے ہیں کہ میں مدینہ طیبہ آیا تو مجھے ایسے شخص کی تلاش تھی جو حضرت ثابت کے حالات سنا سکے، لوگوں نے مجھے ان کی صاحب زادی کا پتہ بتایا، میں نے جا کر ان سے حضرت ثابت کے حالات معلوم کیے، انہوں نے کہا میں نے اپنے والد سے یہ واقعہ سنا ہے کہ جب آں حضرت صلی الله علیہ وسلم پر قرآنِ کریم کی آیت نازل ہوئی کہ:﴿ ان الله لایحب کل مختال فخور﴾․
ترجمہ: بلاشبہ الله تعالیٰ کسی ایسے آدمی کو پسند نہیں کرتا جو اترانے والا، بہت فخر کرنے والا ہو۔
تو حضرت ثابت کو بڑی تشویش ہوئی ، وہ گھر میں گوشہ نشین ہو کر بیٹھ گئے اور ان پر گریہ طاری ہو گیا، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کو اطلاع ہوئی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں بلا کر ان سے وجہ دریافت کی، حضرت ثابت نے عرض کیا کہ یا رسول الله! مجھے حسن وجمال سے بھی محبت ہے اور میں اپنی قوم کا سردار ہوں( اس لیے مجھے خوف ہے کہ کہیں مذکورہ آیت کے حکم میں شامل نہ ہو جاؤں)۔
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے یہ سن کر ارشاد فرمایا:”انک لست منھم، بل تعیش بخیر، وتموت بخیر، ویدخلک الله الجنة“․
ترجمہ: بلاشبہ تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو، بلکہ تم زندہ بھی خیر کے ساتھ ہو گے، تمہارا انتقال بھی خیر کے ساتھ ہو گا اور الله تعالیٰ تمہیں جنت میں داخل فرمائے گا۔بعینہ یہی واقعہ اس وقت بھی پیش آیا جب یہ آیت نازل ہوئی کہ﴿یایھا الذین اٰمنوا لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی ولا تجھروالہ بالقول﴾․
ترجمہ: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی ( صلی الله علیہ وسلم) کی آواز کے سامنے بلند نہ کرو اور ان سے بلند آواز سے گفت گو نہ کیا کرو۔
اس موقع پر بھی حضرت ثابت کو بڑی تشویش ہوئی، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے بلا کر وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ میری آواز بلند ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں آپ کی آواز سے بلند آواز کے سبب میرے اعمال اکارت نہ ہو جائیں، اس پر بھی آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:﴿انک لست منھم، بل تعیش حمیداً و شہیدا ویدخلک الله الجنة﴾․
ترجمہ: بلاشبہ تم ان میں سے نہیں ہو، بلکہ تم قابلِ تعریف انداز میں زندہ رہو گے، تمہیں موت کے وقت شہادت کا مرتبہ حاصل ہو گا اور الله تعالیٰ تمہیں جنت میں داخل فرمائے گا۔
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے وصال کے بعد جب حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت میں مسیلمہ کذاب کا فتنہ اٹھا اور مسلمانوں کا ایک لشکر یمامہ کے مقام پر ان سے جنگ کے لیے روانہ ہوا تو حضرت ثابت بن قیس بھی اس میں شامل تھے، جنگ کی ابتدا میں دشمن کے حملے اس قدر شدید تھے کہ مسلمانوں کو تین مرتبہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہونا پڑا، حضرت ثابت اور ان کے ساتھی حضرت سالم نے جنگ کا نقشہدیکھ کر کہا کہ:” ہم آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں تو اس طرح نہیں لڑا کرتے تھے۔“
یہ کہنے کے بعد ان دونوں نے زمین میں دو گڑھے کھودے اور ان میں ڈٹ کر کھڑے ہو گئے، تاکہ وہاں سے پیچھے ہٹنے کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔ جب تک دم میں دم باقی رہا، یہ دونوں حضرات انہی گڑھوں میں ڈٹے لڑتے رہے، یہاں تک کہ انہیں گڑھوں میں جان جان آفرین کے سپرد کر دی۔
حضرت ثابت کی صاحب زادی نے یہ واقعہ بھی سنایا کہ حضرت ثابت کی شہادت کے بعد ایک شخص نے انہیں خواب میں دیکھا کہ وہ ایسے کہہ رہے ہیں کہ جب مجھے کل قتل کر دیا گیا تو ایک شخص میری نعش کے قریب سے گزرا، میرے سینے پر ایک نفیس زرہ تھی، وہ اس نے اتار لی ہے، اس شخص کا مکان لشکر کے آخری سرے پر فلاں جگہ واقع ہے اور اس کے سامنے ایک لمبا تڑنگا گھوڑا بندھا ہوا ہے ، اس شخص نے میری زرہ پر ایک ہانڈی اوندھی کر دی ہے اور اس ہانڈی پر ایک اونٹ کا کجا وہ ڈال دیا ہے ۔ تم خالد بن ولید کے پاس جاؤ اوران سے کہوکہ وہ میری زرہ اس شخص سے واپس لے لیں، پھر جب تم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے خلیفہ ( یعنی حضرت ابوبکر) کے پاس پہنچو تو ان سے کہہ دینا کہ میرے ذمہ اتنا اتنا قرض ہے اور میں نے اتنا اتنا مال اپنے پیچھے چھوڑا ہے اور میرے فلاں فلاں غلام آزاد ہیں۔ حضرت ثابت نے خواب ہی میں اس شخص سے یہ بھی فرمایا کہ : تم میری ان باتوں کو خواب کی بات سمجھ کر ٹال نہ دینا، بلکہ ان پر عمل کرنا۔
وہ شخص حضرت خالد کے پاس پہنچا اور اپنا خواب سنایا، حضرت خالد نے آدمی بھیج کر زرہ کے واقعے کی تحقیق فرمائی تو زرہ اس پتے کے مطابق مل گئی۔ اس کے بعد وہ شخص حضرت ابوبکر کے پاس پہنچا او ر انہیں بھی یہ پورا قصہ سنایا تو آپ نے ان کی وصیت پر عمل کا اہتمام فرمایا۔ حضرت ثابت کے علاوہ کوئی شخص ہمیں ایسا معلوم نہیں ہے جس نے موت کے بعد وصیت کی ہو اور اس پر اس طرح عمل ہوا ہو۔
حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ امام طبرانی نے روایت کیا ہے او را س کے اور بھی متعدد شواہد موجود ہیں۔ (البدایہ والنہایہ، ج6 ص:325)
رضی الله عنہ وأرضاہ