صرف اللہ کیلئے
عبید اللہ خالد
حضرت ابراہیم عليه السلام نے جو معروف دعا فرمائی، اس کا مفہوم یہ ہے کہ میری تمام عبادات اور میرا جینا مرنا، یعنی ہر شے اللہ کیلئے ہے۔ حضرت ابراہیم عليه السلام کی یہ دعا اسلام کی اہم تعلیم ہی نہیں، شریعت اسلامی کے مزاج کی بھی عکاس ہے اور تقاضا کرتی ہے کہ مسلمان کی زندگی کس انداز پر ہونی چاہیے۔
انسانی لائف اسٹائل یعنی طرزِ حیات، انسان کی سوچ اور اس کی فکر کی نمائندگی کرتا ہے۔ جیسی سوچ، ویسا طرز۔ ایسا ممکن ہی نہیں کہ طرزِ فکر اور مزاج مغرب کا ہو اور طرزِ زندگی مشرق کا؛ طرزِ فکر مشرق کا ہو اور طرزِ زندگی مغرب کا۔ چناں چہ انسان کی ظاہری زندگی پرتو ہوتی ہے، اس کی ذہنی فکر کی… اور… اسلام… مسلمان سے اُس کی ذہنی اور ظاہری ہر دو طرح کی زندگی کو بدلنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
اسلام یہ چاہتا ہے کہ مسلمان اس دنیا میں اللہ کا ہوکر رہے، اور اس کیلئے پیمانہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم کردہ اوامر و نواہی ہیں۔ یہ اوامر و نواہی مسلمان کی تربیت کرتے ہیں کہ تم اس دنیا میں اپنی زندگی کو اپنی مرضی کے مطابق گزارنے کیلئے پیدا نہیں ہوئے بلکہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں اپنے حکم پر چلنے اور اسے پورا کرنے کی آزمائش دے کر اس دنیا میں بھیجا ہے۔ پھر، جب ایک انسان اللہ کے دین یعنی اسلام کے دائرے میں داخل ہوجاتا ہے تو اس کے ذمے جو کام ہوتاہے، وہ بس اللہ کے حکم کو پورا کرنا ہے… اور بس!
اللہ بندے سے یہی چاہتا ہے۔ کام زیادہ مشکل نہیں ہے۔
مگر یہ تبھی ممکن ہے کہ انسان اپنی زندگی کے درست مقصد کا ادراک کرسکے اور اس کے مطابق زندگی گزار سکے۔ لیکن، دوسری جانب آج کے معاشرے میں جو ذہن پروان چڑھ رہے ہیں بلکہ چڑھائے جارہے ہیں، یہ مزاج تشکیل پارہے ہیں کہ کیسے اپنی زندگی کو اپنی مرضی کے مطابق، لذت اور لطف کے ساتھ گزارا جائے تاکہ مختصر سی زندگی کا بھرپور ”مزہ“ لیا جاسکے۔ بقول شخصے، ایسی زندگی کا کیا فائدہ جو مزے سے محروم ہو۔
لیکن یہ طرزِ فکر خالصةً مادی اور غیر اخروی ہے جس میں انسان ایک حیوانِ ناطق ہے اور دوسرے جانوروں کی طرح پیدا ہوا اور ایک روز مرجائے گا۔ اسی طرزِ فکر کے تحت وہ کردار جنم لے رہے ہیں جنھوں نے والدین اور اولاد کے درمیان تقدیم و تاخیر اور بڑے چھوٹے کے آداب کو مردہ کرڈالا ہے۔ اسی طرزِ فکر کا نتیجہ مثبت سوچ سے عاری وہ دماغ ہیں جنھیں اپنے اچھے برے کی تمیز ہی نہیں۔ اور اسی طرزِ فکر کے باعث وہ نسلیں پیدا ہورہی ہیں جن کیلئے اس دنیا کی زندگی ہی سب کچھ ہے، اور موت کو وہ ایک حادثہ سمجھ بیٹھے ہیں۔
اسلام کے طرزِ فکر سے یہ طرزِ فکر ٹکراتا ہے۔
اسلام ایک آخرت رخی زندگی کا طالب ہے جس میں انسان ہر زندہ سانس کے ساتھ اپنی موت کو یاد کرتا ہے؛ وہ زندگی کیلئے محنت کرتا ہے اور آخرت کا استحضار بھی رکھتا ہے۔ یہ طرزِ فکر انسان کو زندگی میں موت کی تیاری پر لگاتا ہے اور پھر وہ کردار تشکیل پاتا ہے ،جس کے باعث معاشرے پنپتے اور پھلتے پھولتے ہیں۔
یہ معاشرہ تبھی تشکیل پاسکتا ہے، جب اپنی زندگی کا ہر ہر لمحہ اور اس میں کیا جانے والا ہر چھوٹا بڑا فیصلہ اپنی ذاتی منفعت یا دنیاوی غرض سے بالاتر ہو کر صرف اور صرف اللہ کی محبت میں ڈوب کر کیا جائے۔ بے شک، اللہ کی محبت، ہر خیر اور ہر بھلائی کی جڑ ہے۔