Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1435ھ

ہ رسالہ

6 - 16
پیاسے مسلمان کو پانی پلانا اس کا حق ہے

محترم محمد جمال الدین
	
پانی انسان کی ضروریات زندگی میں سے ہے، ہر جان دار کو اس کی ضرورت پڑتی ہے، خاص طور سے گرم اور پتھر یلے علاقوں میں رہنے والے حضرات کے لیے تو اس کی غیر معمولی اہمیت ہے، حضرت سعد بن عبادہ رضي الله عنه  ایک مرتبہ حضور صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ کون سا صدقہ آپ صلى الله عليه وسلم کو زیادہ پسند ہے؟ تو آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ لوگوں کے لیے پانی صدقہ کرنا زیادہ بہتر ہے۔ (ابوداوٴد حدیث نمبر:1679، باب فی فضل سقی الماء) اور ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت سعد رضي الله عنه کی والدہ کا انتقال ہوا توانہوں نے آپ صلى الله عليه وسلم سے بہتر اور افضل صدقہ کے بارے میں دریافت کیا، آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ پانی افضل صدقہ ہے، چنانچہ انہوں نے ایک کنواں کھود وایا اور اس کے پانی کو عام مسلمانوں کے لیے وقف کرکے فرمایا کہ اس کا ثواب ہماری والدہ کو پہنچے ( ابوداوٴد حدیث نمبر:1681) ابو موسی صفار کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس رضي الله عنه سے دریافت کیا یا کسی اور صاحب نے ان سے پوچھا کہ کون سا صدقہ افضل ہے؟ انہوں نے جواب میں فرمایا کہ یہی سوال ایک صاحب نے حضور صلى الله عليه وسلم سے کیا تھا تو آپ صلى الله عليه وسلم نے جواب دیا تھا کہ پانی کا صدقہ کرنا افضل ہے، میں نے تاکیداً پھریہی سوال کیا تو آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ پانی پلانا بہترین صدقہ ہے، تمہیں معلوم نہیں کہ جب جہنمی اہل جنت سے مانگیں گے تو کہیں گے :
﴿أَفِیْضُواْ عَلَیْْنَا مِنَ الْمَاء أَوْ مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّہُ﴾(الاعراف: 50)
ہمارے اوپر تھوڑاپانی ہی ڈال دو یا اور ہی کچھ دے دو جو اللہ نے تم کو دے رکھا ہے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پانی پلانا افضل صدقہ ہے۔(المعجم الوسیط حدیثنمبر 1011،من اسمہ احمد)

پانی پلانامسلمان کا حق ہے
پیاسے کو پانی پلانا حقوق مسلم میں سے ایک ہے، حضرت انعم مغافری اور حضرت ابو ایوب انصاری رضي الله عنه ایک بحری سفر میں ساتھ ہوگئے، جب کھانے کا وقت ہوا تو انعم مغافری نے حضرت ابو ایوب انصاری  رضي الله عنه کو کھانے کی دعوت دی، حضرت ابو ایوب انصاری رضي الله عنه نے فرمایا کہ تم نے مجھے کھانے کی دعوت دی ہے، جب کہ میں روزہ سے ہوں، لیکن مجھ پر لازم ہوگیا ہے کہ میں تمہاری دعوت کو قبول کروں کیوں کہ میں نے حضور اکرم صلى الله عليه وسلم سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ ایک مسلمان کے اس کے بھائی پر چھے حقوق ہیں: جب دعوت دے تو قبول کرے، ملاقات ہوتو سلام کرے، چھینک آئے تو یرحمک اللہ کہے، یونس راوی کا کہنا ہے کہ یا ہمارے استاذ نے فرمایا کہ جب کوئی پیاسا ہو تو اسے پانی پلائے، جب بیمار ہوجائے تو اس کی عیادت کرے اور جب اس کا انتقال ہوجائے تو تجہیز وتکفین میں حاضر رہے اور جب نصیحت کا طا لب ہو تو اسے نصیحت کرے۔(مشکل الآثار حدیث نمبر: 531، باب العاطس الذی امر بتشمیتہ ای العاطسین ہو؟) اورامام طحاوی نے بعینہ یہ حدیث:” باب فی الطعام الذی یجب علی من دعی علیہ اتیانہ“ کے تحت بھی ذکر کی ہے، حدیث مذکور میں اگرچہ یونس راوی کو شک ہے کہ ان کے استاذ نے کیا فرمایا؟ چھینک کے جواب میں الحمد للہ کہنا فرمایا، یا پیاسا کو ئی ہو تو اسے پانی پلانا فرمایا، تاہم اگر پیاسے کو پانی پلانا بھی حقوق مسلم میں داخل مان لیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے، جب کہ اس کے فضائل بھی احادیث میں غیر معمولی ہیں اور معجم ابن الاعرابی میں تو بلا شک کے پیاسے کو پانی پلانا مسلمان کا حق بتایا گیا ہے، یہ حدیث حضرت علی حضور صلى الله عليه وسلم سے نقل کرتے ہیں۔ (معجم بن الاعرابی حدیث نمبر: 1255، باب الجیم)

پانی پلانا بھی صدقہ ہے
حضرت ابن عباس رضي الله عنه فرماتے ہیں کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ انسان کے جسم میں تین سوساٹھ جوڑ ہیں اور روزانہ ہر جوڑ پر ایک صدقہ لازم ہے، سلسلہٴ کلام کو جاری رکھتے ہوئے آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اچھی بات بولنا بھی صدقہ ہے، کسی آدمی کا اپنے بھائی کی کسی چیز میں تعاون کردینا بھی صدقہ ہے، پانی کا ایک گھونٹ پلانا بھی صدقہ ہے، راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹادینا بھی صدقہ ہے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی حدیث نمبر: 11027، طاوٴوس عن ابن عباس)

پیاسے کو پانی پلانا دخول جنت کا سبب
حضرت ابوسعید خدری رضي الله عنه آپ صلى الله عليه وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ جو شخص پیاسے مسلمان کو پانی پلائے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت کی خالص شراب جس پر مہر لگی ہوگی اس سے سیراب فرما ئے گا۔(ابوداوٴدحدیث نمبر: 1682،باب فضل سقی الماء) اور ظاہر ہے کہ اس خصوصی شراب سے وہی شخص سیراب ہوگا جو جنت میں جائے گا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کو پانی پلانے والا بھی جنت میں جائے گا۔ (المنہل العذب الروی)

ایک صحابی حضور صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے کہ میں اس پر عمل کرکے جنت میں داخل ہوسکوں، آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ انصاف کی بات کہا کرو اور ضرورت سے زائد چیزیں اہل حاجت کو دے دیا کرو، اس نے عرض کیا کہ اگر مجھے اس کی طاقت نہ ہو تو؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: لوگوں کو کھانا کھلاوٴ اور سلام کو عام کرو، انہوں نے عرض کیا کہ اگر مجھ سے یہ بھی نہ ہوسکے تو؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: تمہارے پاس اونٹ ہے؟ انہوں نے عرض کیا: ہاں ہے، آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اونٹ اور مشکیزہ لے لو، اور یسے گھروں میں پانی پہنچاوٴ جس میں رہنے والے روزانہ پانی نہ پیتے ہوں ، اس کا م میں نہ تیرا اونٹ مرے گا اور نہ مشکیزہ پھٹے گا اور تمہارے لیے جنت واجب ہوجائے گی۔ (مسند ابوداوٴد طیالسی حدیث نمبر: 1458، کدیر الضبی)

غلام آزاد کرنے کا ثواب
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، انہوں نے حضور اکرم صلى الله عليه وسلم سے دریافت فرمایا کہ کن کن چیزوں سے کسی کوروکنا جائز نہیں ہے؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ پانی، نمک اور آگ لینے سے کسی کو روکنا درست نہیں ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: حضور! پانی کی ضرورت واہمیت اور اسے روک لینے سے ہونے والے نقصان کا علم تو ہے ، لیکن نمک وآگ میں تو ویسی بات نہیں پائی جاتی ہے، پھر اس کا روک لینا کیوں جائز نہیں ہے؟ (مرقاة المفاتیح حدیث نمبر: 3007، باب احیاء الموات) آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اے حمیراء: جو اللہ کے واسطے کسی کو آگ دیتا ہے تو گو یا اس نے اس آگ سے پکی ہوئی تمام چیزوں کا صدقہ کیا اور جس نے اللہ کی رضا کے واسطے کسی کو نمک دیا تو اس نے گویا ان تمام پکوانوں کا صدقہ کیا جس میں وہ نمک ڈالنے سے لذیذ ہوا ہے اور جس نے کسی مسلمان کو ایک گھونٹ پانی پلایا جہاں پانی دستیاب ہے تو اس نے ایک غلام کوآزاد کیا اور جس نے ایسی جگہ کسی مسلمان کو پانی پلایا جہاں پانی نہیں ملتا ہے تو گویا اس نے ایک انسان کو زندہ کرنے کا ثواب حاصل کرلیا۔ (سنن ابن ماجہ حدیث نمبر: 2474، باب المسلمون شرکاء الخ)

جنت کا استحقاق
بخاری شریف میں حضرت عبد اللہ بن عمرو رضي الله عنه سے منقول ہے ،وہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ چالیس اعمال ایسے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک پر بھی کوئی ثواب کے حرص میں اور اس پر کیے جانے والے وعدوں کی تصدیق کرتے ہوئے عمل کرے تو وہ جنت میں ضرور جائے گا، ان چالیس میں سب سے اونچا عمل کسی کودودھ والی بکری عاریةً دینا ہے، تاکہ وہ دودھ سے فائدہ اٹھائے اور بعد میں واپس کردے۔ اس حدیث کے ایک راوی حضرت حسان رحمة اللہ علیہ ہیں، ان کا بیان ہے کہ میں نے دودھ والی بکری کسی کو عاریةً دینے سے نیچے والے اعمال میں سلام کا جواب دینا، چھینکنے والے کی چھینک کے جواب میں الحمد للہ کہنا، راستہ سے تکلیف دہ چیزوں کو ہٹانا اور اس کے مثل دوسرے امور کو ذکر کیا تو پندرہ اعمال تک بھی نہیں پہنچ سکے۔ (بخاری حدیث نمبر: 2631، باب فضل المنیحة) ابن بطال کا کہنا ہے کہ چالیس اعمال کی صراحت آپ صلى الله عليه وسلم نے کی ہے، لیکن ان میں سے صرف ایک عمل کے ذکر پر اکتفا فرمایا؛ تاکہ انسان ہر نیک عمل کے انجام دینے میں آگے بڑھنے کی کوشش کرے، اگر آپ صلى الله عليه وسلم ان سب کی تعیین فرمادیتے تو ممکن تھا کہ بعض کم ہمت حضرات صرف انہی امور پر اکتفا کر لیتے اور دوسرے اعمال خیر سے پیچھے رہ جاتے، اس لیے آپ صلى الله عليه وسلم نے تعیین نہیں فرمائی، ورنہ اعمال خیر کی حسان راوی کے علاوہ دیگر حضرات نے جو تلاش وجستجو کی ہے تو اس کی تعداد چالیس سے بھی زائد ہے، حسان راوی اپنے علم ومعلومات کی روشنی میں پندرہ سے کم تعداد ہی معلوم کر سکے۔ (فتح الباری 5/245، باب فضل منیحة العنز) ان چالیس اعمال میں سے بعض حضرات نے پیاسے کو پانی پلانا بھی شمار کیا ہے ۔(المنہل العذب 9/334)

پانی پلانے پر خصوصی ثواب کا استحقاق
کسی پیاسے کو پانی پلانا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اتنا عظیم عمل ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے خود کو پانی پلاناقرار دیا ہے، ایک حدیث قدسی میں ہے: نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ اے ابن آدم! میں نے تم سے پانی مانگا تھا، لیکن تم نے مجھے پانی نہیں پلایا!! بندہ عرض کرے گا: خدایا! آپ تو سب کے پالنہار ہیں، سب کو آپ پانی پلاتے ہیں، اور آپ کو پانی کی حاجت بھی نہیں ہوتی، میں آپ کو کیسے پانی پلاسکتا تھا؟! اللہ تعالیٰ فرمائے گا، تجھ سے میرے فلاں بندہ نے پانی مانگا تھا، لیکن تم نے اس کو پانی نہیں پلایا، اگر تم اس کو پانی پلادیتے تو اس کا ثواب آج تم ہمارے پاس پاتے۔(مسلم حدیث نمبر: 2569، باب فضل عیادة المریض مع حاشیہ نووی) اس سے ایک مسلمان کو پانی پلانے کے ثواب کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، کسی مسلمان کو پانی پلانے پر احادیث بالا میں جو غیر معمولی ثواب کی خوش خبری سنائی گئی ہے وہ اس بات کے لیے کافی ہے کہ ہر انسان، جس کے دل میں آخرت کی قدروقیمت اور ثواب کا حرص ہو وہ اس کام میں آگے بڑھے اور حتی الوسع اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے، آج کل اجتماعات اور دینی جلسوں میں بعض تنظیموں کی طرف سے جو پانی پلانے کی خدمات انجام دی جارہی ہیں وہ سب اس عظیم ثواب کے مستحق ہیں، عید اور بقر عید کے مواقع پر بھی مفت پانی کی پاکٹیں تقسیم کی جاتی ہیں اور جگہ بجگہ سبیل لگاکرپیاسوں کو پینے کے لیے ٹھنڈا اور صاف ستھرا پانی مہیاکیا جاتا ہے، اگر رضائے الہٰی کے جذبے سے سرشار ہو کر یہ مبارک عمل انجام دیاجاتا ہے تومنتظم حضرات ضرور مذکورہ فضیلتوں کے مستحق ہوں گے۔انشاء اللہ تعالیٰ

پانی روکنے والے اللہ کی نظررحمت سے دور
یہ فضائل ہی ہمیں عمل پر ڈالنے کے لیے کافی تھے، لیکن آپ صلى الله عليه وسلم نے ان حضرات کے لیے وعید بھی سنائی ہے جو اپنی ضرورت سے زائد پانی کو دوسروں پر خرچ کرنے میں بخل سے کام لیتے ہیں اور دوسروں کو فائدہ اٹھانے سے روکتے ہیں، حضرت ابو ہریرةرضي الله عنه آپ صلى الله عليه وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تین آدمیوں سے نہ بات کرے گا او رنہ ہی ان پر نظر رحمت فرمائے گا، ایک تو وہ شخص جو جھوٹی قسم کھا کر اپنے سامان کو فروخت کرتا ہے؛ تاکہ زیادہ سے زیادہ اس کی قیمت وصول کرسکے، دوسرا وہ شخص جو عصر کی نماز کے بعد جھوٹی قسم کھائے، تاکہ کسی مسلمان کے مال کو ہڑپ لے اور تیسرا وہ شخص جو اپنی ضرورت سے زائد پانی کو لینے سے دوسروں کو روکے، ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کہے گا کہ جس طرح تم نے دنیا میں زائد پانی سے دوسروں کو روکا تھا، جب کہ اس میں تمہارے عمل کا کوئی دخل نہیں تھا، آج میں تم کو اپنے فضل سے محروم رکھوں گااور اپنا فضل تم پر نہیں کروں گا۔(بخاری حدیث نمبر: 2369، باب فضل سقی الماء) ظاہر ہے کہ یہ تو بہت بڑی محرومی کی بات ہوگی کہ اس نازک گھڑی میں، جب کہ سب اللہ کی رحمت کے محتاج ہوں گے، لیکن پانی سے محروم رکھنے والے پر نہ تو اللہ کی نظر رحمت ہوگی، نہ اللہ تعالیٰ اس کو اپنے کلام سے سرفراز فرمائے گا اور نہ ہی اس کو اپنے فضل کا مستحق قرار دے گا، اللہ تعالیٰ اس سے ہر مسلمان کو بچائے۔ آمین۔

یہی نہیں ؛بلکہ ان سب وعیدوں کے ساتھ ان تینوں حضرات کے لیے بعض روایات میں درد ناک عذاب کا بھی ذکر ہے۔ (دیکھیے شرح السنة للبغوی حدیث نمبر: 1669، باب فضل سقی الماء واثم منعہ)

ان فضائل کے حصول اور وعید سے بچنے کے لیے آخرت کے طالبین ہمیشہ اس پر توجہ دیتے آرہے ہیں، پانی پلانا، کنواں کھودنا، سبیل لگانا، ٹیوب ویل وغیرہ کے ذریعہ لوگوں کے لیے پانی کی فراہمی میں سہولت پیدا کرنا عام مزاج رہا ہے،ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کے بارے میں آتا ہے کہ وہ غزوات میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے مشکیزہ بھر بھر کر لاتیں اور ان کو پانی پلایا کرتی تھیں۔ (اتحاف الخیرة المہرة حدیث نمبر: 3699، باب فضل سقی الماء وماجاء فیمن منع فضل ماء) حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا اور دیگر انصاری صحابیات جنگ میں شریک ہوتی تھیں اور وہ پانی پلاتیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کیا کرتی تھیں، (مسلم حدیث نمبر: 1810، باب غزوة النساء مع الرجال) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ام سلیم رضی اللہ عنہا کے بارے میں بھی آتا ہے کہ غزوہٴ احد میں شریک تھیں اور اپنی پشتوں پر پانی کے مشکیزہ لاد کر لاتیں اور زخمیوں کے منہ میں ڈالتیں اور مشکیزہ خالی ہوجانے کے بعد پھر دوبارہ بھر کر لاتیں۔ (حوالہ سابق حدیث نمبر: 1811) حضرت ابراہیم علیہ الصلوة والسلام جب مکہ کی سنگلاخ وادی اور بے آب وگیاہ میدان میں حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا اور شیر خوار بچہ حضرت اسماعیل علیہ الصلوة والسلام کو چھوڑ کے واپس عراق آگئے تھے اور حضرت اسماعیل علیہ الصلوة والسلام کو پیاس لگی تو اللہ تعالیٰ نے غیب سے ان کے لیے پانی کا انتظام فرمایا، پانی کے آثار کو دیکھ کر جب قبیلہ جرہم کے لوگ وہاں آئے اور انہوں نے قیام کرنے کی اجازت مانگی اور پانی کے استعمال کرنے کی درخواست کی تو انہوں نے بخوشی اجازت دے دی، لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ استعمال کا حق تو آپ لوگوں کو ہوگا، لیکن اس پر آپ کی ملکیت نہیں ہوگی، انہوں نے اس کو مان لیا اور اس کے مطابق وہ وہاں رہنے لگے۔ (بخاری حدیث نمبر: 3364، کتاب احادیث الانبیاء مع فتح الباری)

ان واقعات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پانی سے کسی کو روکنے کا مزاج اہل صلاح وتقوی میں نہیں تھا، حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا جب کہ بڑی مشقت کے بعد ان کو پانی ملا تھا اور ان کو خوف بھی تھا کہ کہیں سارا پانی بہہ نہ جائے اسی لیے انہوں نے اسے حوض نمابھی بنادیا تھا۔ (حوالہ سابق) مگر جب پانی کے آثار دیکھ کر کچھ لوگ آئے اور پانی سے استفادہ کرنے کی درخواست کی تو بلا جھجک ان کو اجازت دے دی اور یہ خیال بھی نہیں کیا کہ اگر ان سب کے استعمال کرنے کے بعد پانی ختم ہوجائے گا تو آئندہ ہم کیا کریں گے۔

بہر حال پانی پلانا بڑے ثواب کی چیز ہے، حق مسلم بھی ہے، جنت میں لے جانے والا عمل ہے، اس سے پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔

Flag Counter