Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1435ھ

ہ رسالہ

5 - 16
موسم حج کے فوائد ومنافع

مولانا بدر الحسن القاسمی
	
سورہٴ حج میں ارشاد باری ہے:﴿لِیَشْہَدُوا مَنَافِعَ لَہُمْ﴾․ (آیت:82)

اس آیت میں کون سی منفعتیں مراد ہیں؟ ان کے بارے میں مفسرین کے تین اقوال ہیں:1.. خرید وفروخت او رتجارت کے ذریعہ ایام حج میں حاصل ہونے والی دنیوی منفعتیں 2.. اجروثواب کی شکل میں حاصل ہونے والی اُخروی منفعتیں 3..  الله تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہونے والی عفو ومغفرت کی منفعت

شیخ محی الدین ابن عربی نے اس سے اپنے ذوق کے مطابق علمی وروحانی واردات اور وجدانی معرفتیں مراد لی ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ یہ ساری ہی منفعتیں یہاں مراد لی جاسکتی ہیں۔ گناہوں کی معافی اور دعاؤں کی قبولیت کی منفعت، علمائے حرمین سے حصول علم کی منفعت اور خرید وفروخت اور تجارت کے باوجود کہ یہ سفر اُونٹوں، گھوڑوں اور بادبانی کشتیوں کے ذریعہ انجام پانے کی وجہ سے بڑا ہی پر مشقت ہوا کرتا تھا، لیکن اس سے ان کو بے پناہ علمی فوائد بھی حاصل ہوا کرتے تھے، جس کا اندازہ کرنے کے لیے ان کی تصنیف کردہ کتابوں کو پڑھنا چاہیے۔

ابن خردازبہ، ابن رستہ ، المقدسی اور الحربی وغیرہ نے حج کے راستہ میں مشاہدہ میں آنے والے قلعوں، کارخانوں، مناروں اور چشموں اور حوضوں کا ذکر کیا ہے ، میلوں کی تعیین کی ہے، سرائے وغیرہ کا ذکر ہے اور مسالک وممالک کی تحدید کی ہے تو دوسری طرف امام محمد بن الحسن الشیبانی، اسماعیل بن علیہ، اسحاق الأزرق، محمد بن یوسف الفریابی وغیرہ نے مناسک حج اور احکام ومسائل پر اپنی گراں قدر تصنیفات چھوڑی ہیں۔

عباسیوں کے عہد میں بیرون حجاز سے آنے والے علماء کو حرمین میں امامت وخطابت، قضاء وافتاء اور وعظ واحتساب کی ذمہ داریاں بھی سونپی گئی تھیں، چناں چہ انہوں نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور دنیا کے چپہ چپہ سے آنے والے حاجیوں کی راہ نمائی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔

بیرون حجاز خاص طور پر شام وعراق اور خراسان واصفہان سے آنے والے بہت سے علماء نے حج بیت الله کے بعد حرم کی مجاورت کی نیت سے وہیں بودوباش اختیار کر لی اور اپنے وطن کی طرف لوٹنے کا پھر کبھی ارادہ نہیں کیا۔

عراق سے آنے والے علماء میں خاص طور پر علامہ ابن الجوزی کا نام منیٰ وعرفات اور مقامات مقدسہ میں وعظ کہنے والوں میں سر فہرست آتا ہے۔

مشہور ادیب ابوالقاسم الحریری نے اپنا ” مقامہ رملیہ“ حاجیوں سے خطاب پر ہی مشتمل رکھا ہے۔

حجاج کرام خلیفہٴ وقت کو راہ کی دشواریوں او رحرم کی توسیع اور حاجیوں کی دیگر ضرورتوں پر بھی ابھارتے رہے ہیں۔

اسی طرح بدؤوں کی طرف سے حاجیوں پر ہونے والے حملوں کو روکنے میں بھی علماء کا خاص رول رہا ہے ،جس کے قصے تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہیں۔

حرمین میں درس وتدریس کے فرائض بھی بیرون حجاز سے آنے والے علماء نے انجام دیے ہیں، جن میں امام الحرمین علامہ الجوینی، علامہ زمخشری، برصغیر سے تعلق رکھنے والے علامہ صغانی، مشہور امام لغت علامہ فیروز آبادی وغیرہ خاص طور پر شہرت رکھتے ہیں۔

آخری عہد کے علماء میں مولانا عبدالغنی مجددی، مولانا رحمت الله کیرانوی، شیخ الاسلام حسین احمد مدنی  وغیرہ نے بھی اس سلسلہ کو جاری رکھا ہے۔

حج کے سفر نے سفر ناموں کو ایک نئی سمت عطا کی، نیز تاریخ اور جغرافیہ کے ماہرین کو نئے موضوعات دیے، چناں چہ انہوں نے خاص ”منازل الحج“،”منازل الحجاز“ ”البرق السامی فی تعداد منازل الحج السامی“ وغیرہ عنوان سے اپنی گراں قدر تصنیفات چھوڑی ہیں، جن میں تفصیل سے ان فرودگاہوں یا پڑاؤگاہوں کا ذکر کیا ہے، جہاں پانی، جانوروں کے لیے چارے وغیرہ دست یاب ہوں اور جہاں حادثات کا خطرہ نہ ہو۔

امام احمد بن حنبل  متوفی142ھ نے حدیث کی طلب میں کوفہ، بصرہ مدینہ، مکہ ، یمن، شام ہر جگہ کا سفر کیا۔ انہوں نے پانچ حج کیے، جن میں سے تین میں وہ پیدل گئے 178ھ میں اپنے سفر حج میں مکہ مکرمہ کے محدث جلیل امام سفیان بنعیینہ سے ملاقات کی اور ان سے علم حاصل کیا۔

ان کے بیٹے صالح کا بیان ہے کہ میرے والد نے حج کی ادائیگی کے لیے مکہ جانے کا ارادہ کیا تو رفیق سفر کے طور پر امام نقد واَسماء الرجال یحییٰ بن معین کو ساتھ لیا اور یہ طے کیا کہ ہم لوگ حج کریں گے، پھر صنعاء جا کر امام عبدالرزاق بن ہمام الصنعانی متوفی112ھ سے حدیث کا علم حاصل کریں گے۔

مکہ پہنچے تو دیکھا کہ امام عبدالرزاق طواف کر رہے ہیں، ملاقات ہوئی، یحییٰ بن معین نے تعارف کرایا اور کہا کہ یہ آپ کے بھائی احمد بن حنبل ہیں تو امام عبدالرزاق نے خوش آمدید کہا اور فرمایا کہ ان کے بارے میں مجھے ایسی خبریں ملتی رہتی ہیں جن سے مجھے بے حد خوشی ہوتی ہے۔

یحییٰ بن معین نے کہا کہ آئیے! ان سے وقت لے لیں، تاکہ یہیں ان سے حدیث کی سماعت بھی ہو جائے، امام احمد نے کہا کہ نہیں، ہم نے سفر سے پہلے جو نیت کی تھی اس پر قائم رہنا چاہیے ،چناں چہ حج سے فارغ ہو کر یمن تشریف لے گئے اور صنعانی کی خدمت میں رہ کر ان کی کتابیں اور دیگر مرویات سنیں اور خوب سیر ہو کر لوٹے۔ (دیکھیے، تاریخ ابن عساکر622/5)

ابن طولون نے” البرق السامی“ میں یہ واقعہ بھی لکھا ہے کہ مشہور محدث ابو الفرج البعلبکی نے شرف الدین التنوخی سے سات دنوں میں حافظ ابوبکر الخطیب البغدادی کی کتاب” اقتضاء العلم العمل“ کو حج کے مختلف منازل میں پڑھا اور آخری منزل مسجد خیف میں جا کر کتاب پوری ہوئی۔

اندلس کے مشاہیر علماء میں سے قاضی منذر بن سعید البلوطی، علامہ ابوالولید الباجی ، علی بن سعید الاندلسی سبھی نے حج کی ادائیگی کے لیے حرمین کا سفر کیا، لیکن جو مشہور سفر نامے باقی رہ گئے ہیں ان میں:

رحلة ابن جبیر، خالد بن عیسی البلوی، رحلة ابی بکر ابن العربی، رحلة العبدری، رحلة محی الدین بن عربی اور رحلة القصادی خاص طو پر قابل ذکر ہیں۔

ان کے علاوہ ابن الفرضی کی ”تاریخ علماء الاندلس“ حمیدی کی ”جذوة المقتبس“، ابن بشکوال کی”کتاب الصلة“ اور مراکشی کی ” الذیل اور التکملة“، ابن الزبیرکی”صلة الصلة“ اور لسان الدین الخطیب کی ”الاحاطہ فی اخبار غرناطہ“ سے بھی بہت سے علماء کے سفر حجاز پر روشنی پڑتی ہے۔

Flag Counter