دوسروں کو تکلیف دینے کی قباحت
ابوعکاشہ مفتی ثناء اللہ ڈیروی
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی
غیبت سے بچنے کا طریقہ
غیبت سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان دوسروں کے عیوب تلاش کرنے کے بجائے اپنے عیوب پر نظر رکھے۔
آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:” لا تغتابوا المسلمین، ولا تتبعوا عوراتھم؛ فإنہ من یتبع عوراتھم یتبع الله عورتہ، ومن یتبع الله عورتہ یفضحہ فی بیتہ“․
مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور ان کے عیوب کی جستجو نہ کرو، کیوں کہ جو شخص مسلمانوں کے عیوب تلاش کرتا ہے، الله تعالیٰ اس کے عیوب تلاش کرتا ہے اور جس کے عیب کی تلاش الله تعالیٰ کرے اس کو اس کے گھر کے اندر بھی رسوا کر دیتا ہے۔ (الفتح الربانی، کتاب آفات اللسان، الترہیب من الغیبة:261/19، دارالحدیث)
اس لیے انسان دوسروں کے عیوب تلاش کرنے اور بیان کرنے کے بجائے اپنے عیوب پر نظر رکھے۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ الله کا قول ہے کہ میں اپنے آپ کو ہر گناہ گار مسلمان سے حالاً کمتر سمجھتا ہوں، کہ ہر مسلمان مجھ سے افضل ہے اور کافر سے اپنے آپ کو مآلا کمتر سمجھتا ہوں کہ ہو سکتا ہے ، یہ ایمان لے آئے اور اس وقت یہ مجھ سے بہتر ہو گا۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت ابو ذر رضی الله عنہ کو چند نصیحتیں فرمائیں ،ان میں ایک نصیحت یہ ارشاد فرمائی:”لیحجرک عن الناس ما تعلم من نفسک“․ (مشکوٰة المصابیح، کتاب الآداب، باب حفظ اللسان، رقم الحدیث:4866)
یعنی چاہیے کہ وہ چیزتمہیں لوگوں کے عیوب ظاہر کرنے سے روکے، جس کو تم اپنے نفس کے بارے میں جانتے ہو ۔
یعنی جب تمہیں کسی کی عیب گوئی کا خیال آئے، تو فوراً اپنے عیوب کی طرف دیکھو اور سوچو کہ خود میری ذات میں اتنے عیب ہیں تو میں دوسروں کی عیب گیری کیا کروں گا؟ تم خو داپنے عیوب ونقائص کی طرف متوجہ رہو اور دوسروں کی عیب گوئی سے اجتناب کرو۔
اسی طرح ایک حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ”طوبی لمن شغلہ عیبہ عن عیوب الناس“․(کنز العمال، کتاب المواعظ، رقم الحدیث:365/15,43437، دارالکتب)
قابل مبارک باد ہے وہ شخص جس کو اس کا عیب لوگوں کی عیب گیری سے باز رکھے۔ ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے #
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنی خبر
رہے دیکھتے لوگوں کے عیب وہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر
تو جہاں میں کوئی برا نہ رہا
پڑوسیوں کو اذیت دینے سے بچیں
معاشرے میں انسان کا واسطہ جن لوگوں سے ہوتا ہے ، ان لوگوں میں پڑوسی کا انسان کے اوپر سب سے زیادہ حق ہوتا ہے اور شریعت مطہرہ میں پڑوسیوں کے حقوق کی بہت تاکید آئی ہے، چناں چہ آپ صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے:”مازال جبریل علیہ السلام یوصینی بالجار حتی ظننت أنہ سیورثہ“․(الترغیب والترہیب، کتاب البر، الترہیب من أذی الجار،360/3)
جبرئیل علیہ السلام برابر مجھے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے خیال ہوا کہ وہ پڑوسی کو وارث بنائیں گے۔
مطلب یہ کہ جبرئیل علیہ السلام الله تعالیٰ کی طرف سے پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کا بار بار حکم لاتے تھے، یہاں تک کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو خیال ہوا کہ شاید آگے چل کر وہ پڑوسی کو وارث ہونے کا حکم لے آئیں گے۔
خیرخواہ پڑوسی کی فضیلت
اور جو انسان اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا رویہ اور برتاؤ رکھے ، حدیث میں اس کی بہت فضیلت آئی ہے۔
چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”خیر الأصحاب عندالله خیرھم لصاحبہ، وخیر الجیران عندالله خیرھم لجارہ“․ (مشکوٰة المصابیح، کتاب الآداب، باب الشفقة والرحمة علی الخلق، رقم الحدیث:4987)
الله تعالیٰ کے نزدیک ثواب وفضیلت کے اعتبار سے دوستوں میں بہترین دوست وہ ہے جو اپنے دوستوں کا بہترین خیر خواہ ہو اور الله تعالیٰ کے نزدیک پڑوسیوں میں بہترین پڑوسی وہ ہے، جو اپنے پڑوسیوں کا بہترین خیر خواہ ہو۔
پڑوسی کو تکلیف دینے پر وعید
جس طرح انسان کے اوپر اور لوگوں کے بنسبت پڑوسیوں کے حقوق زیادہ ہیں، اسی طرح پڑوسیوں کو تکلیف دینے کا گناہ بھی بڑا ہے۔
چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”والله لا یؤمن، والله لا یؤمن، والله لا یؤمن، قالوا: وماذاک یا رسول الله؟ قال: جار لا یؤمن جارہ بوائقہ، قالوا: یا رسول الله! وما بوائقہ؟ قال: شرّہ“․(مجمع الزوائد، کتاب البروالصلة، باب ماجاء فی أذی الجار169/8)
الله کی قسم! وہ شخص مومن نہیں، الله کی قسم! وہ شخص مومن نہیں، الله کی قسم! وہ شخص مومن نہیں، صحابہ کرام رضی الله عنہم نے پوچھا کہ اے الله کے رسول! کون شخص؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ پڑوسی جس کے شر سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔(یعنی جو پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتا ہو)
اسی طرح ایک مرتبہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے سوال کیا کہ زنا کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ لوگوں نے کہا وہ حرام ہے، الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے اسے حرام کیا ہے اور قیامت تک وہ حرام ہی رہے گا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: سنو! دس عورتوں سے زنا کرنے والا اس شخص کے گناہ کم گناہ گار ہے جو اپنے پڑوسی کی عورت سے زنا کرے۔
پھر دریافت فرمایا: تم چوری کی نسبت کیا کہتے ہو؟ انہو ں نے جواب دیا کہ اسے بھی الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے حرام کیا ہے اور وہ بھی قیامت تک حرام ہے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: سنو دس گھروں سے چوری کرنے والے کا گناہ اس شخص کے گناہ سے ہلکا ہے، جو اپنے پڑوسی کے گھر سے کچھ چرائے ۔ (مجمع الزوائد، کتاب البر والصلة، ماجاء فی أذی الجار168/8، دارالفکر)
پڑوسیوں کی دل شکنی سے بچتے رہو
”اتحاف“ میں پڑوسیوں کے بارے میں کچھ آداب اور حقوق ذکر کیے ہیں ،تاکہ انسان اپنے پڑوسی کی دل شکنی سے بچتا رہے۔
1..جب وہ تجھے سے مدد طلب کرے، تو اس کی مدد کرو۔
2..جب وہ تجھ سے قرض مانگے، تو قرض دے دو۔
3..اگر بیمار ہو جائے تو عیادت کرو۔
4..اگر فوت ہو جائے تو اس کی نماز جنازہ میں شریک ہو ۔
5..اگر اس کو کوئی خوشی ملی ہے، تو اسے مبارک باد دو۔ اور اگر غم پہنچے تو تعزیت کرو۔
6..اپنی اونچی اونچی عمارتوں کے ذریعے غریب پڑوسی کو مت ستاؤکہ اس کا گھر بے کار نہ ہو جائے او راس کے گھر میں دھوپ اور ہوا داخل نہ ہو۔
7..اور جب تم بازار سے پھل خرید کر لاؤ تو اسے پڑوسی کے یہاں بھی بھیج دیا کرو،ورنہ اس کو اپنے گھر میں خفیہ طور پر لے جاؤ،تاکہ انہیں پتہ نہ چلے اور تمہارے بچے پھل لے کر باہر نہ نکلیں کہ اس سے پڑوسی کے بچے کبیدہ خاطر ہوں گے۔
8..اپنی پکی ہوئی ہانڈی سے اور اپنے پکوان کی خوش بو سے پڑوسی کو مت ستاؤ، ہاں! البتہ پڑوسی کے یہاں اس میں سے کچھ بھیجنے کا ارادہ ہے تو کچھ حرج نہیں۔ ( اتحاف السادة المتقین، کتاب آداب الألفة274/7 دارالکتب)
واقعہ……… ایک شخص نے کسی سے شکایت کی کہ میرے گھر میں چوہے بہت ہو گئے ہیں ، بہت پریشان کرتے ہیں، کیا کیا جائے ؟ اس نے اسے مشورہ دیا کہ چوہوں کا علاج یہ ہے کہ تم کوئی بلی پال لو، اس نے کہا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ بلی کی آواز سن کر وہ چوہے کہیں پڑوسی کے گھر میں نہ چلے جائیں اور جو تکلیف مجھے ہو رہی ہے، وہی پڑوسی کو ہونے لگے، اس صورت میں اپنے بھائی کے لیے اس چیز کو پسند کرنے والا بن جاؤں گا، جس کو اپنے لیے پسند نہیں کرتا۔ ( اتحاف السادة المتقین، کتاب آداب الألفة، حقوق الجوار273/7)
نیک لوگوں کو ستانے کا انجام
ایک عام انسان کو ستانا او رتکلیف دینا جائز نہیں، چہ جائیکہ ایک نیک انسان کو تکلیف دی جائے، حدیث قدسی ہے:” من عادی لی ولیّا فقد آذنتہ بالحرب“․(کنز العمال، رقم الحدیث:317/7,21323، دارالکتب)
الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو میرے دوست سے دشمنی رکھتا ہے، میں اس سے جنگ کا اعلان کرتا ہوں۔
امام بخاری رحمہ الله اور امیر بخارا کا واقعہ
جب امام بخاری رحمہ الله ملک شام وعراق وغیرہ سے ہو کر نیشاپور تشریف لانے لگے تو نیشاپور کے مشہور محدث محمد بن یحیی ذہلی نے متعلقین سے کہا کہ میں امام بخاری رحمہ الله کے استقبال کے لیے جارہا ہوں، جس کا جی چاہے استقبال کرے، اس اعلان کے بعد نیشا پور شہر سے دو دو تین تین میل دور تک جا کر لوگوں نے امام بخاری کا استقبال کیا اور جب نیشاپور پہنچ کر امام بخاری نے درس حدیث کا سلسلہ شروع فرمایا تو کئی ہزار طلبہ نے امام بخاری رحمہ الله کے درس میں شرکت کی ۔
مگر چند ہی دن کے بعد کسی نے خلق قرآن کا ایک اختلافی مسئلہ اٹھا کر امام بخاری رحمہ الله پر الزام لگایا او ربہت جلد ان کا حلقہ درس ختم ہو گیا ، صرف امام مسلم رحمہ الله ان کے ساتھ رہے، آخر امام بخاری رحمہ الله مایوس ہو کر اپنے وطن بخارا کے لیے روانہ ہو گئے، جب امام بخاری رحمہ الله کے نیشاپور سے روانہ ہونے کی اطلاع اہل بخارا کو ملی، تو بڑی شان وشوکت کے ساتھ لوگوں نے امام بخاری رحمہ الله کا استقبال کیا اور بخارا آکر درس حدیث کا سلسلہ امام بخاری رحمہ الله نے شروع فرمایا، ہزاروں طلبہ ان کے درس میں شرکت کرنے لگے۔
مگر حاسدین کو یہ گوارہ نہ ہو سکا، انہوں نے یہ ترکیب نکالی کہ امیر بخارا خالد بن احمد ذہلی کو کسی طرح اس پر آمادہ کیا کہ وہ امام بخاری رحمہ الله کو حکم کریں کہ وہ امیر کے صاحب زادوں کو”بخاری شریف“ اور ”تاریخ کبیر“ کا درس دیں ، امیر بخارا کی سمجھ میں بات آئی ، تو امیر نے کہا کہ آپ دربارشاہی میں تشریف لا کر مجھے اور میرے صاحب زادوں کو ”بخاری“ اور تاریخ کبیر“ کا درس دیں، مگر امام صاحب نے اسی قاصد کی زبانی کہلا بھیجا کہ میں علم دین کو سلاطین کے دروازوں پر لے جا کر ذلیل نہیں کرو ں گا، جسے پڑھنا ہو میرے پاس آکر پڑھے۔
امیر بخارا نے دوبارہ کہلوایا کہ اگر آپ آنہیں سکتے تو صاحب زادوں کے لیے مخصوص کوئی وقت عنایت فرمادیں کہ ان کے ساتھ کوئی دوسرا شریک نہ ہو ۔ اس پر امام بخاری رحمہ الله نے جواب دیا کہ احادیث رسول صلی الله علیہ وسلم پوری امت کے لیے یکساں ہیں، ان کی سماعت سے میں کسی کو محروم نہیں کرسکتا، اگر میرا یہ جواب ناگوار معلوم ہو، تو آپ میرا درس روکنے کا حکم دے دیں۔ تاکہ میں خدا کے دربار میں عذر پیش کر سکوں۔ اس پر امیر بخارا سخت ناراض ہوا اور حاسدوں نے امیر کے اشارے پر امام بخاری رحمہ الله کو بددین اور بدعتی ہونے کا الزام لگایا، پھر حاکم نے بخارا سے نکل جانے کا حکم دیا، تو امام بخاری رحمہ الله نے نہایت کبیدہ خاطر ہو کر ان مخالفین کے لیے بدعا کی، اے الله! جس طرح اس امیر نے مجھے ذلیل کیا ہے، اسی طرح اس کو بھی اپنی ذات اور اپنی اولاد او راپنے اہل وعیال کی بے عزتی وذلت دکھادے۔
چناں چہ ابھی ایک ماہ بھی نہیں گزر پایا تھا کہ خلیفة المسلمین نے اس امیر کی کسی غلطی پر سخت ناراض ہو کر اس کو معزول کردیا او راس کا منھ کالا کرکے گدھے پر سوار کراکے پورے شہر بخارا میں اس کی تذلیل کروائی اوراس کو جیل میں ڈال دیا گیا او رانتہائی ذلت ورسوائی سے چند دن کے بعد مر گیا اور اس امیر کے معاونین مختلف بلاؤں میں مبتلا ہو کر ہلاک ہو گئے۔ (ھدی الساری مقدمہ فتح الباری، ص:687، دارالسلام)
قاتل حسین عبیدالله بن زیاد کا حشر
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک یعنی حضرت حسین رضی الله عنہ او ران کے اہل بیت کے قاتلوں کے سردار عبیدالله بن زیاد کا حشر اس زمانہ کے لوگوں نے دیکھ لیا کہ ابراہیم بن اشتر نے اس کے اور اس کے ساتھیوں کے سر کو کاٹ کر ایک مسجد کے صحن میں ان کا مولی، گاجر کی طرح ڈھیر لگا دیا۔
”سنن الترمذی“ میں حضرت عمارہ بن عمیر سے روایت ہے کہ جب عبیدالله بن زیاد او راس کے ساتھیوں کے سروں کو مسجد کے صحن میں کاٹ کر ڈھیر لگا دیا گیا، تو اس منظر کو دیکھنے کے لیے لوگوں کی ایک بھیڑ لگی ہوئی تھی ، تو میں بھی آگیا، جس وقت میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد لوگوں میں شور ہوتا رہا اور شور اس بات کا ہو رہا تھا کہ ان سروں میں ایک سانپ گشت کر رہا تھا اور گشت کرتا ہوا عبیدالله بن زیاد کی ناک میں گھس جاتا تھا، تھوڑی دیر اس کی ناک میں ٹھہرنے کے بعد پھر نکل کر غائب ہو جاتا تھا، یہ منظر مسلسل دو تین مرتبہ دیکھا ہے۔ ( سنن الترمذی، ابواب المناقب، مناقب الحسن والحسین رضی الله عنہما، رقم الحدیث:3812)
دوسروں کو راحت دینے اور تکلیف سے بچانے کے واقعات
حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کا واقعہ …حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ اپنے زمانہ خلافت سے پہلے او راپنے زمانہ خلافت میں بھی اس بات کے لیے کوشاں رہتے تھے کہ میں کسی کے کام آجاؤں ، کسی کو راحت پہنچا دوں۔
ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کو معلوم ہوا کہ فلاں جگہ ایک بڑھیا رہتی ہے، جس کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ، چناں چہ حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ اس نیت سے اس بڑھیا کے گھر گئے کہ اس بڑھیا کے کام کاج اورجو اس کی ضروریات ہوں گی وہ پوری کرکے آجاؤں گا، لیکن جب بڑھیا کے گھر پہنچے تو دیکھا کہ گھر میں جھاڑو بھی لگی ہوئی ہے ، پانی بھی بھرا ہوا ہے۔ پوچھا، اماں !یہ خدمت کون کر گیا ہے؟ کہنے لگی، کوئی آتا ہے اور وہ پانی بھی بھر جاتا ہے اور جھاڑو بھی دے جاتا ہے، جب کئی مرتبہ ایسا ہوا تو حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ یہ معلوم کرنے کے لیے کہ یہ کون آدمی ہے ، اگلے دن صبح سے پہلے راستے میں چھپ کر بیٹھ گئے، تو دیکھا کہ امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ تشریف لا رہے ہیں، حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے فرمایا: الله کی قسم! یہ آپ ہی ہوسکتے ہیں۔ ( یعنی نیکی کے ہر کام میں سبقت کرنا او ر نیکی کے ہر کام میں دوسروں سے نمبر لے جانا حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کی شان تھی۔) ( کنز العمال، کتاب الفضائل، فضل الصدیق رضی الله عنہ221/12، دارالکتب)
شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ الله کا واقعہ…ریل اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے، اسی ریل میں شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ الله بھی سفر فرمارہے ہیں اور حضرت کے ساتھ والی سیٹ پر ایک ہندو برا جمان ہے، دوران سفر ہندو کو قضائے حاجت کی ضرورت پیش آئی، چناں چہ وہ اٹھ کرریل میں بنے بیت الخلاء کی طرف چلا گیا، لیکن فوراً ہی واپس ہو گیا، حضرت مدنی رحمہ الله نے محسوس فرمایا کہ اس نے قضائے حاجت نہیں کی، کوئی وجہ ہے، چناں چہ حضرت مدنی رحمہ الله اس سے کچھ کہے بغیر اپنی سیٹ سے اٹھے او ربیت الخلاء میں گئے، وہاں دیکھا کہ بیت الخلا سارا گندا ہو چکا ہے، حضرت مدنی رحمہ الله سمجھ گئے کہ وہ ہندو بیت الخلا خراب ہونے کی وجہ سے بغیر فراغت کے واپس چلا آیا۔
چناں چہ حضرت مدنی رحمہ الله نے بیت الخلا صاف کیا اور واپس اپنی سیٹ پر جاکر بیٹھ گئے او راس ہندو سے فرمایا کہ بیت الخلاء تو صاف ہے، میں ابھی فارغ ہو کر آیا ہوں، وہ ہندو دوبارہ بیت الخلا گیا اور اس کو صاف پایا، جب وہ قضائے حاجت سے فارغ ہو کر اپنی جگہ پر آیا، تو اس نے ٹرین کے گارڈ سے درخواست کی کہ میری سیٹ یہاں سے تبدیل کر دی جائے، اس لیے کہ میرے ساتھ مسلمانوں کا ایسا راہ نما سفر کر رہا ہے کہ مجھے خطرہ ہے کہ ان کے اخلاق سے متاثر ہو کرکہیں میں اپنا دھرم نہ چھوڑ دو ں اور اسلام نہ قبول کر لوں۔
حضرت مولانا اصغر حسین صاحب رحمہ الله کا واقعہ… حضرت مولانا سید اصغر حسین صاحب رحمہ الله تعالیٰ دارالعلوم دیوبند کے مشہور محدث تھے اور سنن ابی داؤد کا درس دیا کرتے تھے۔
حضرت صاحب رحمہ الله کا گھر دارالعلوم سے کافی فاصلے پر تھا، گھر کے قریب راستے میں ایک طوائف کا گھر پڑتا تھا، جو برسوں سے وہاں رہتی تھی، جب اس کا گھر آتا تو حضرت مولانااصغر حسین صاحب رحمہ الله جوتے اتار لیتے، جب اس کا گھر گزر جاتا تو پھر جوتے پہن لیتے، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ الله نے ایک مرتبہ پوچھا کہ حضرت! یہاں سے رات کو گزرتے ہوئے آپ جوتے کیوں اتار لیتے ہیں ؟ جواباً حضرت رحمہ الله نے عجیب بات ارشاد فرمائی فرمایا کہ جب یہ جوان تھی تو اس کے بہت گاہک آتے تھے، اب بوڑھی ہو گئی ہے، کوئی گاہک نہیں آتا، رات کو دیر تک گاہک کی منتظر رہتی ہے، میں رات کو جوتے اس لیے اتار دیتا ہوں کہ کہیں میرے جوتوں کی آہٹ سے اس کو یہ امید نہ ہو جائے کہ شاید کوئی گاہک آیا ہے، مجھے تو اس کے پاس جانا نہیں، میں گزر جاؤں گا، تو اس کا دل ٹوٹے گا، فضول کسی کا دل دکھانا کون سی نیکی کا کام ہے؟ ایک طوائف کے امکانی خطرے کے پیش نظر یہ مستقل معمول بنا رکھا تھا کہ اس کے گھر کے قریب سے رات کو ننگے پاؤں گزرتے تھے۔
ایک اور واقعہ…حضرت مولانا اصغر حسین صاحب رحمہ الله کا ایک اور واقعہ ہے کہ حضرت کا اکثر مکان کچا تھا، جس پر ہر سال لیپائی وغیرہ کرنا ضروری تھا، وگرنہ مکان منہدم ہونے کا خطرہ تھا، ہر سال برسات سے پہلے اس پر لیپائی کرنے کا معمول تھا اور اس وقت گھر کا سارا سامان باہر نکالنا پڑتا تھا، ایسے ہی ایک موقع پر مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ الله نے عرض کیا کہ حضرت! ہر سال آپ کو یہ تکلیف ہوتی ہے اور ہر سال کا خرچ بھی جو اس پر ہوتاہے وہ جوڑا جائے تو پانچ سات سال میں اتنا ہو جائے گا کہ اس سے پختہ اینٹوں کا مکان بن جائے۔
حضرت رحمہ الله نے مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ الله کی بات کو سراہا، لیکن پھر فرمایا: کہ میرے پڑوس میں جتنے مکان ہیں سب غریبوں کے ہیں اور کچے ہیں، ایسی حالت میں میاں صاحب! کیا اچھا لگتا کہ اپنا مکان پختہ بنا کر بیٹھ جاتا، پڑوسیوں کو حسرت ہوتی۔
الله تعالیٰ ہم میں بھی یہ احساس پیدا فرما دے کہ ہمارے کسی قول، فعل سے کسی کا دل رنجیدہ نہ ہو۔ اور آخرت کے ہول ناک دن میں جہاں ایک ایک نیکی کی انسان کو انتہائی ضرورت ہو گی، ہماری ٹوٹی پھوٹی نیکیوں کا کوئی مطالبہ کرنے والا نہ ہو۔