Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1435ھ

ہ رسالہ

10 - 16
عُشر زمین کی پیداوار میں زکوٰة

مولانامحمد نجیب قاسمی
	
خالق کائنات کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت زمین کی تخلیق ہے ،جس میں اللہ جل شانہ کے حکم سے بے شمار اناج، پھل ،پھول، سبزیاں اور طرح طرح کی نباتات پیدا ہوتی ہیں، جن کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم واحسان ہے کہ اس نے زمین کو انسان کے تابع بنا دیااور اس میں قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کی روزی کا عظیم ذخیرہ جمع کردیا۔

اللہ تعالیٰ نے مٹی کو پیداوار کے قابل بنایا اور پیداوار کے اگنے اور اس کے نشوونما کے لیے بادلوں سے پانی برساکر، پہاڑوں سے چشمے بہاکراور زمین کے اندر پانی کے ذخیرے رکھ کر وافر مقدار میں پانی پیدا کردیا، نیز ہوا کے انتظام کے ساتھ روشنی وگرمی کا خاص نظم کیا، تاکہ تمام انس وجن اور جاندار زمین کی پیداوار سے بھرپور فائدہ اٹھاکر زندگی کے ایام گزارتے رہیں ۔

یقینا زمین وآسمان کے پیدا کرنے والے ہی نے زمین سے پیداواری کا یہ سارا انتظام کیا ہے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿ اَفَرَاَیْتُمْ مَا تَحْرُثُوْنَ اَ اَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَہُ اَمْ نَحْنُ الزَّارِعُوْنَ﴾․ (سورة الواقعہ آیت نمبر63) اچھا یہ بتاوٴکہ جو کچھ تم زمین میں بوتے ہو، کیا اسے تم اگاتے ہو ، یا اگانے والے ہم ہیں؟ یعنی تمہارا کام بس اتنا ہی تو ہے کہ تم زمین میں بیج ڈال دو اور محنت کرو۔ اس بیج کو پروان چڑھاکر کونپل کی شکل دینا اور اسے درخت یا پودا بنا دینا اور اس میں تمہارے فائدے کے پھل یا غلے پیدا کرنا،کیا تمہارے اپنے بس میں تھا؟ اللہ تعالیٰ کے سوا کون ہے جو تمہارے ڈالے ہوئے بیج کو یہاں تک پہنچادیتا ہے؟!

یقینی طور پر زمین کی پیداوار کا ہر ہردانہ اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔ اور حقیقی پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ انسان تو اللہ کی عظیم نعمتوں (مٹی کو پیداوار کے قابل بنانا، پانی، ہوا، گرمی وسردی اور روشنی کا انتظام وغیرہ) سے فائدہ اٹھائے بغیر ایک تنکا بھی زمین سے نہیں اگاسکتا ۔ اس عظیم نعمت پر ہر شخص کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمین سے ہمارے لیے عمدہ عمدہ غذاوٴں کا انتظام کیا۔ شریعت اسلامیہ نے اظہار تشکر کا یہ طریقہ بتایا ہے کہ زمین کی ہر پیداوار پر عشر یا نصف عشر (دسواں یا بیسواں حصہ) یعنی دس یا پانچ فیصد زکاة نکالیں، تاکہ غریبوں اور محتاجوں کی ضرورتوں کی تکمیل ہوسکے۔

پیداوار کی زکاة کے متعلق اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتاہے:﴿وَہُوَ الَّذِیْ اَنْشَاَ جَنَّاتٍ مَّعْرُوْشَاتٍ وَغَیْرَ مَعْرُوْشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفاً اُکُلُہُ وَالزَّیْتُوْنَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِہًا وَغَیْرَ مُتَشَابِہٍ، کُلُوْ مِنْ ثَمَرِہِ اِذَا اَثْمَرَ وَآتُوْا حَقَّہُ یَوْمَ حَصَادِہِ وَلَا تُسْرِفُوا اِنَّہُ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْن﴾․(سورة الانعام آیت نمبر 141)

اللہ وہ ہے جس نے باغات پیدا کیے جن میں سے کچھ (بیل دار ہیں جو) سہاروں سے اوپر چڑھائے جاتے ہیں اور کچھ سہاروں کے بغیر بلند ہوتے ہیں ، اور نخلستان اور کھیتیاں پیدا کیں، جن کے ذائقے الگ الگ ہیں اور زیتون اور انار پیدا کیے، جو ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں اور ایک دوسرے سے مختلف بھی۔ جب یہ درخت پھل دیں تو ان کے پھلوں کو کھانے میں استعمال کرو اور جب ان کی کٹائی کا دن آئے تو اللہ کا حق ادا کرو اور فضول خرچی نہ کرو۔ یاد رکھو، وہ فضول خرچ لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ﴿ یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اَنْفِقُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ وَمِمَّا اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ، وَلَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ وَلَسْتُمْ بِآخِذِیْہِ اِلَّا ٓاَنْ تُغْمِضُوْا فِیْہِ، وَاعْلَمُوآ اَنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ﴾․ (سورة البقرة آیت نمبر 267)

اے ایمان والو! جو کچھ تم نے کمایا ہواور جو پیداوار ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالی ہو اس کی اچھی چیزوں کا ایک حصہ (اللہ کے راستے میں ) خرچ کیا کرو۔ اور یہ نیت نہ رکھو کہ بس ایسی خراب قسم کی چیزیں (اللہ کے نام پر) دیا کرو گے جو (اگر کوئی دوسرا تمہیں دے تو نفرت کے مارے) تم اسے آنکھیں میچے بغیر نہ لے سکو۔ اور یاد رکھو کہ اللہ بے نیاز ہے اور قابل تعریف ہے۔

قرآن کریم کے پہلے مفسر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” فِیْمَا سَقَتِ الْاَنْہَارُ وَالْغِیَمُ الْعُشُوْرُ، وَفِیْمَا سُقِیَ بِالسَّانِیَةِ نِصْفُ العُشْر“ (صحیح مسلم، مسند احمد، نسائی، ابوداؤد) جو زمین دریا اور بادل سے سینچی جائے، اس کی پیداوار کا دسواں حصہ اور جوزمین کنویں سے سینچی جائے اس کی پیداوار کا بیسواں حصہ ( زکاة کے طور پر نکالا جائے)۔

قیامت تک آنے والی ساری انسانیت کے نبی حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: فِیْمَا سَقَتِ السَّمَاءُ وَالْعُیُوْنُ اَوْ کَانَ عَثَرَیاً الْعُشْرُ وَفِیْمَا سُقِیَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ العُشْر․ (صحیح بخاری، ترمذی، نسائی، ابوداود، ابن ماجہ) جو زمین آسمان، چشمہ اور تالاب کے پانی سے سینچی جائے اس کی پیداوار کا دسواں حصہ اور جو زمین ڈول یا رہٹ کے ذریعہ سینچی جائے اس کی پیداوار کا بیسواں حصہ ( زکاة کے طور پر نکالا جائے)۔

قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ زمین کی پیداوار پر دسواں یا بیسواں حصہ (دس یا پانچ فیصد) زکاة میں دینا ضروری ہے، اگرچہ اس کی تفصیلات میں کچھ اختلافات ہیں۔ (بدائع الصنائع) شیخ ابن قدامہ  نے اپنی کتاب "المغنی" میں تحریر کیا ہے کہ زمین کی پیداوار میں زکاة کے وجوب کے سلسلہ میں امت کے درمیان کوئی اختلاف ہی نہیں ہے۔

عُشْر کے معنی
عشر کے اصل معنی دسویں حصہ کے ہیں، لیکن حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے پیداوار کی زکاة کے متعلق جو تفسیر بیان فرمائی ہے، اس میں زمین کی دو قسمیں قرار دی ہیں۔

1...اگر زمین بارانی ہو، یعنی بارش یا ندی ونہر کے مفت پانی سے سیراب ہوتی ہے تو پیداوار میں عشر ،یعنی دسواں حصہ زکاة میں دینا فرض ہے۔
2... اگر زمین کو ٹیوب ویل وغیرہ سے خود سیرا ب کیا جاتا ہے تو نصف عشر (پانچ فیصد) یعنی بیسواں حصہ زکاة میں دینا فرض ہے۔

خلاصہٴ کلام یہ ہے کہ اگر مفت پانی سے سیراب ہوکر پیداوار ہوئی ہے تو دسواں حصہ (دس فیصد)ورنہ بیسواں حصہ (پانچ فیصد) ۔

اگر زمین دونوں پانی (یعنی بارش وغیرہ اور ٹیوب ویل) سے سیراب ہوئی ہے تو اکثریت کا اعتبار ہوگا۔

فقہاء کی اصطلاح میں دونوں قسم پر عائد ہونے والی زکاة کو عشر ہی کے عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

نصاب عُشر
قرآن وحدیث کے عموم کی وجہ سے امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کے نزدیک عشر کے لیے کوئی نصاب ضروری نہیں ہے، بلکہ ہر پیداوار پر زکاة واجب ہے ،خواہ پیداوار کم ہو یا زیادہ۔ یعنی عشر میں زکاة کی طرح کوئی نصاب ضروری نہیں کہ جس سے کم ہونے پر عشر ساقط ہوجائے۔ اسی طرح امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کی رائے میں پھلوں، سبزیوں اور ترکاریوں پر بھی زکاة (یعنی عشر یا نصف عشر) واجب ہے۔ دیگر ائمہ اور امام محمد  وامام ابو یوسف  کے نزدیک حدیث (لیس فیما دون خمسة اوسق صدقہ) کی روشنی میں پانچ وسق (چھ کوئنٹل اور53 کیلو)سے اگر کم پیداوار ہو تو ایسے لوگوں پر عشر واجب نہیں ہے۔ یعنی اگر چھ کوئنٹل اور ۵۳ کیلوسے کم گندم پیدا ہو تو اس پر عشر واجب نہیں ۔

عُشْر اور زکاة میں فرق
پیداوار کی زکاة (یعنی عشر یا نصف عشر) ہر پیداوار پر دی جائے گی، خواہ سال میں ایک سے زیادہ پیداوار ہوئی ہو، یعنی اگر ایک سے زیادہ مرتبہ پیداوار ہوئی ہے تو ہر مرتبہ عشر یا نصف عشردیاجائے گا۔ مال یا سونے وچاندی کی زکاة کے وجوب کے لیے ضروری ہے کہ وہ ضروریات سے بچا ہواہو، نصاب کو پہنچا ہوا ہو اور اس پر ایک سال گزرگیا ہو، لیکن پیداوار کی زکاة (یعنی عشر یا نصف عشر) کے لیے یہ تمام شرطیں ضروری نہیں ہیں۔ غرضیکہ مال یا سونے وچاندی پر سال میں ایک ہی بار زکاة واجب ہوتی ہے، جب کہ سال میں دو پیداوار ہونے پر دو مرتبہ زکاة ادا کی جائے گی۔

پیداوار پر زکاة (یعنی عشر یا نصف عشر) کی ادائیگی کے بعد اگر غلہ کئی سال تک بھی رکھا رہے تو اس پر دوبارہ زکاة ضروری نہیں ہے، ہاں! اگر غلہ بیچ دیا گیا تو اس سے حاصل شدہ مال پر ایک سال گزرنے اور نصاب کو پہنچنے پر زکاة واجب ہوگی۔ کھیت کی زمین پر کوئی زکاة واجب نہیں ہوتی ہے، چاہے جتنی قیمت کی ہو۔

بٹائی کی زمین کا عشر
جس کے حصہ میں جتنی پیداوار آئے گی اس کے مطابق اس کی زکاة (یعنی عشر یا نصف عشر) ادا کرنا ضروری ہے۔ مثلاً زمین مالک اور کھیتی کرنے والے کے درمیان آدھی آدھی پیداوار تقسیم ہوئی تو دونوں کو حاصل شدہ پیداوار پر زکاة (یعنی عشر یا نصف عشر) ادا کرنا ضروری ہے۔

کٹائی کا خرچ اور عشر
پیداوار کی زکاة (یعنی عشر یا نصف عشر) تمام پیداوار سے نکالی جائے گی، اس میں کٹائی وغیرہ کے مصارف شامل نہیں کیے جاتے ہیں، مثلاً سو کوئنٹل گندم پیدا ہوئے، پانچ کوئنٹل گندم کٹائی میں اور دس کوئنٹل گاہنی(تھریشر) میں دے دیا گیا تو 85 کوئنٹل پر نہیں، بلکہ پوری پیداوار یعنی سو کوئنٹل پر زکاة (یعنی عشر یا نصف عشر) ادا کرنی ہوگی۔

متفرق مسائل
ؤ پیداوار کی زکاة میں جو حصہ ادا کرنا واجب ہے، مثلاً ایک کوئنٹل گندم تو گندم کے بجائے اگر اس کی قیمت دے دی جائے تو بھی جائز ہے۔ (شامی)

ؤ اگر رہائشی مکان کے ارد گرد یا اس کے صحن میں کسی پھل مثلاً امرود کا پیڑ لگالیا یا معمولی سی کھیتی کرلی تو اس پر زکاة (یعنی عشر یا نصف عشر) واجب نہیں ہے۔ (شامی)

ؤ ہندوستان کی اراضی عام طور پر عشری ہیں، یعنی پیداوار کا دس یا پانچ فیصد مستحقین زکاة کو ادا کرنا چاہیے ۔ مولانا عبدالصمد رحمانی رحمة اللہ علیہ نے تحریر کیا ہے کہ ہندوستانی اراضی کی کل تیرہ صورتیں ہیں، جن میں سے دس میں اصولاً عشر یا نصف عشر واجب ہوتا ہے اور تین میں احتیاطاً عشر یا نصف عشرادا کرنا چاہیے۔ (جدید فقہی مسائل ۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب)

ؤ ہندوستان کی اراضی میں پیداوار پر زکاة کے سلسلہ میں بعض علماء کا اختلاف بھی ہے، مگر قرآن کریم کی آیات واحادیث کے عموم کی وجہ سے احتیاط اسی میں ہے کہ ہر پیداوار کا دس یا پانچ فیصد مستحقین زکاة کو ادا کیا جائے۔

کھیتی کی زکاة کے مستحقین بھی مستحقینِ زکوٰة کی طرح 8 ہیں

اللہ تعالیٰ نے سورہٴ التوبہ آیت نمبر 60 میں8 مستحقین زکوٰة کا ذکر کیا ہے :
1..فقیر یعنی وہ شخص جس کے پاس کچھ تھوڑا مال واسباب ہے، لیکن نصاب کے برابر نہیں۔
2..مسکین یعنی وہ شخص جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو۔
3..جو کارکن زکاة وصول کرنے پر متعین ہیں۔
4..جن کی دلجوئی کرنا منظور ہو۔
5..وہ غلام جس کی آزادی مطلوب ہو۔
6..قرض دار یعنی وہ شخص جس کے ذمہ لوگوں کا قرض ہو اور اُس کے پاس قرض سے بچا ہوا بقدر نصاب کوئی مال نہ ہو۔
7..اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا۔
8..مسافر جو حالت سفر میں تنگ دست ہوگیا ہو۔

اللہ تبارک وتعالیٰ ہماری جانی ومالی تمام عبادتوں کو قبول فرمائے، آمین!

Flag Counter