Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1435ھ

ہ رسالہ

7 - 16
قربانی… تجدید عہد وفا

محترم احتشام الحسن
	
ازل تا ابدالله تعالیٰ کا قاعدہ اور ضابطہ رہا ہے کہ وہ اپنے مقربین کے ساتھ خاص قسم کا معاملہ کرتا ہے۔ایسا معاملہ جو عام انسانوں کے ساتھ نہیں کیا جاتا۔ محبوبانِ بارگاہ الہٰی کو امتحان اور آزمائش کی سخت سے سخت منزلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ انہیں قدم قدم پر جاں نثاری او رتسلیم ورضا کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ امّت مسلمہ کا اجماع ہے کہ الله تعالیٰ کے بعد تمام مخلوقات میں انبیائے کرام علیہم السلام کا مرتبہ ہے۔ وہی الله تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب واقرب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام انبیائے کرام علیہم السلام کو اعلائے کلمة الله اور اشاعت دین کی محنت کے سبب امتحان وآزمائش سے دو چار ہونا پڑا۔ ہر نبی اور رسول کے امتحان کا انداز مختلف تھا۔

انہیں برگزیدہ پیغمبروں میں سے ایک سیّدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں ۔ آپ علیہ السلام الله تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر اور تسلیم ورضا اور اطاعتِ ربّانی کے پیکر تھے۔ الله تعالیٰ نے انہیں اپنا خلیل ( گہرا دوست) قرار دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ساری زندگی استقامتِ دین کے لیے یپش کی جانے والی عظیم قربانیوں سے عبارت ہے ۔ یہی جذبہ قربانی اب ہر دور کے لیے ایمانی معیار اور کسوٹی قرار دے دیا گیا ہے۔

آپ عليه السلام کو قدم قدم پر امتحانات وآزمائش کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ ہر امتحان وآزمائش میں کام یاب وکام ران ہوئے۔ یہاں تک کہ عقیدہ توحید بیان کرنے او ربت شکنی کی پاداش میں آپ علیہ السلام کو بادشاہ نمرود نے آگ میں ڈالا تو آپ علیہ السلام عظمتِ دین اور عقیدہٴ توحید کی سر بلندی کے لیے پوری طرح ثابت قدم رہے۔ بالآخر الله تعالیٰ کا فرمان مبارک جاری ہوا:” ہم نے حکم دیا آگ کو، اے آگ! سرد ہو جا اور ابراہیم علیہ السلام پر سلامتی والی ہو جا۔“ ( سورة الانبیاء:69)

اقبال نے اس حقیقت کو بہت خوب صورت انداز میں بیان کیا ہے #
آج بھی ہو جو ابراہیم عليه السلام کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا

ابھی یہ آزمائش ختم نہ ہوئی تھی کہ اس کے بعد پنے لخت جگر حضرت اسماعیل عليه السلام اور بیوی حضرت ہاجرہ کو فاران کے بیابان میں چھوڑنے کا حکم ملا۔ یہ بھی کوئی معمولی امتحان نہ تھا۔ سخت آزمائش کا مرحلہ تھا۔ بڑھاپے اور پیرانہ سالی کی تمناؤں کا مرکز، راتوں اور دنوں کی دعاؤں کا ثمر، قلب ونظر کا چراغ سیّدنا حضرت اسماعیل عليه السلام کو آپ صرف حکم الہٰی کی تعمیل میں ایک بے آب وگیاہ مقام پر چھوڑ آتے ہیں۔ اس طرح کہ پیچھے مڑکر بھی نہیں دیکھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ شفقتِ پدری جوش میں آجائے اور حکم ربانی کی تعمیل میں لغزش ہو جائے۔

ان کٹھن منزلوں کو عبور کرنے کے بعد اب تیسری آزمائش کی تیاری ہے، جو پہلے دونوں امتحانوں سے زیادہ سخت اور جاں گسل ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام تین رات متواتر خواب دیکھتے ہیں کہ الله تعالیٰ فرما رہے ہیں : ” اے ابراہیم ! تو ہماری راہ میں اپنے اکلوتے بیٹے کو قربان کر دے۔“ حضرت ابراہیم تسلیم ورضا اور اطاعتِ ربانی کا پیکر بن کر تیار ہو گئے۔ چوں کہ اس امتحان وآزمائش میں بیٹا بھی شریک تھا۔ اس لیے باپ نے اطاعتِ شعار اور فرماں بردار بیٹے کو اپنا خواب اور خدا کا حکم سنایا۔ سیّدنا حضرت اسماعیل علیہ السلام اپنے والد کی طرح اولو العزم، ثابت قدم ، عزیمت واستقامت، تسلیم ورضا اور اطاعتِ ربانی کے پیکر تھے۔ فوراً ہی سر تسلیم خم کر دیا اور کہا:” اگر خدا کی یہی مرضی ہے تو آپ ان شاء الله مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔“ #
یہ فیضانِ نظر تھا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل عليه السلام کو آدابِ فرزندی؟

الله تعالیٰ کو ان کے یہ الفاظ اتنے پسند آئے کہ ان کو قرآن کریم کا حصہ بنا دیا۔

حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جانب سے بارگاہ خدا وندی میں حضرت اسماعیل کی یہ قربانی، ایک عظیم اور یاد گار قربانی تھی۔ جس کی مثال دینے سے آج تک دنیا قاصر ہے۔ چشم فلک نے بھی اطاعتِ الہٰی کا ایسا منظر نہ دیکھا تھا۔ صبرو استقامت اور جاں نثاری بھی محو حیرت تھے کہ ایسا باپ جسے بڑھاپے میں اولاد نصیب ہوئی، اسی پر وہ چھری پھیرنے چلا ہے۔

الله رب العالمین کی جناب میں قربانی کا ثبوت انسانی تاریخ کے آغاز ہی سے ملتا ہے۔ چناں چہ بنی نوع انسان کے والدحضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کی قربانی کا ذکر قرآن میں کچھ اس طرح ہے : ” اور سنا دیجیے، انہیں حال آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کا سچا، جب کہ ان دونوں نے قربانی پیش کی، تو ان دونوں میں سے ایک کی قبول ہوئی اور دوسرے کی نہ ہوئی ، تو اس (قابیل) نے کہا ، میں تجھے ضرور قتل کردوں گا، اس ( ہابیل) نے کہا بے شک ، الله تو پرہیز گاروں ہی سے قبول فرماتا ہے۔“ (سورة المائدة، آیت:27) اس کے بعد بھی تقریباً تمام الہامی اور غیر الہامی مذاہب او رمعاشروں میں قربانی کا تصور ہمیں ملتا ہے۔ لیکن یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کو پوری تاریخ انسانی میں ایک منفرد اور بلند مقام حاصل ہے۔ تاریخ کے اوراق اس عظیم قربانی کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں۔

آج سیّدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مزار مبارک اسرائیل کے شہر ” الخلیل“ میں واقع ہے ( جہاں آپ علیہ السلام کے قدموں کی جانب ہندوستان کے ایک عظیم راہ نما اور نام ور شاعرو ادیب مولانا محمد علی جوہر کی قبر بھی ہے۔) لیکن ان کی اس عظیم المرتبت قربانی کو تا قیامت امت محمدیہ علیٰ صاحبھا الصلوٰة والسلام کے لیے قانونِ الہٰی بنا دیا گیا ہے ۔ چناں چہ حضرت زید بن ارقم رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے بعض صحابہ نے عرض کیا: ” یا رسول الله ! ان قربانیوں کی حقیقت اور تاریخ کیا ہے ؟ “ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ” یہ تمہارے ( روحانی اور نسلی) مورث حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ۔“ صحابہ کرام نے عرض کیا: ”یا رسول الله! ان قربانیوں میں ہمارا کیا اجر ہے ؟ “ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ” قربانی کے ہر جانور کے بال کے عوض ایک نیکی ہے۔“ (مسندِ احمد، سنن ابن ماجہ) اسی طرح ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”یوم النحر (دس ذوالجہ) میں ابن آدم کا کوئی عمل الله کے نزدیک خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ پیارا نہیں ہے۔ اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگ ، بال او رکھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل خدا کے نزدیک مقام ِقبولیت کو پہنچ جاتا ہے ۔ لہٰذا! اسے خوش دلی سے کرو۔“ (ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ)

حضور پاک صلی الله علیہ وسلم نے صرف قربانی کے فضائل او رحکم بیان نہیں فرمایا، بلکہ ان پر عمل کرکے بھی دکھلایا ہے۔ حضرت ابن عمر  فرماتے ہیں: ” رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم مدینے میں دس سال مقیم رہے ، اس عرصے میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہر سال قربانی کی۔“ (مشکوٰة ترمذی) جب کہ حضرت انس  فرماتے ہیں : ” الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم دو مینڈھوں کی قربانی کیا کرتے تھے اور میں بھی دو ہی مینڈھوں کی قربانی کیا کرتا تھا۔“

اگر ایک جانب قربانی کا حکم اور اس کے فضائل وارد ہوئے ہیں تو دوسری جانب قربانی نہ کرنے والے کے بارے میں بھی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ” جس میں وسعت ہو اور اس کے باوجود وہ قربانی نہ کرے، وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے۔“ (ابن ماجہ)

عیدالاضحی پر جانوروں کی قربانی جہاں ایک عظیم عبادت ہے، وہاں تجدید عہد وفا بھی ہے ۔ قربانی درحقیقت اس وعدے کو دہرانے کا نام ہے کہ ہمارا جینا، ہمارا مرنا او رہماری پوری زندگی الله تعالیٰ کے لیے ہے ۔ یہی ایک مسلمان کی زندگی کا حقیقی مقصد ہے ۔ بندگی کے اظہار کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کرنا بندہ مومن کا شیوہ ہے ۔ قربانی کا مقصد اصلی تقویٰ اورپرہیز گاری کا حصول ہے۔ الله تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:” خدا تک نہ ان (قربانی کے جانوروں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ہی خون، بلکہ اس تک تمہاری پرہیز گاری پہنچی تھی۔“ (سورة الحج)

یہ ”سنتِ ابراہیمی“ ہمیں اس بات کا درس دیتی ہے کہ ہم دین کی عظمت وسر بلندی، اسلام کی ترویج واشاعت، اعلائے کلمة الله، اسلام کی بقا اورامت مسلمہ کے اتحاد کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کریں۔ آئیے! سنتِ ابراہیمی کو عملی جامہ پہنا کر عبادت کا ثواب بھی حاصل کریں، تجدید عہد بھی کریں اور دنیائے کفر کو یہ باور کروادیں کہ ہم جس طرح حکمِ خداوندی اور سنتِ رسول صلی الله علیہ وسلم پر اپنا مال قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے، اسی طرح ہم اپنے اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی حرمت پر اپنی جان ، اپنا مال اور اپنی اولاد قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔

Flag Counter