فحاشی کا سیلاب․․․ کیا کریں؟
مولانا سید احمد ومیض ندوی
اس وقت بے حیائی اور فحاشی کا جوسیلاب ملک میں آیا ہوا ہے، اس سے پاکستان کا ہر سنجیدہ طبقہ متفکر و متشوش ہے۔ ایک جانب تو میڈیا کی کھلی اسلام اور پاکستان دشمنی ہے تو دوسری جانب موبائل فون کمپنیز کا جال مختلف پیکیجز کی صورت میں قوم اور ملک کے جوان اثاثوں کو برباد کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اس وجہ سے جو فتنے پھیل رہے ہیں، وہ پہلے کی بہ نسبت نہ صرف تیز رفتار ہیں، بلکہ شدید بھی۔
موجودہ صورتِ حال کو محض ایک سماجی مسئلہ قرار دے کر اس سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔ دین کے مختلف شعبوں میں عوام کی راہ نمائی جس طرح علمائے کرام کی ذمے داری ہے، اسی طرح علمائے کرام کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقوں میں ان منکرات کے خطرات کا احساس لوگوں کو کرائیں اور انھیں ان سے بچنے کی تدابیر بتائیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ علماء اور دردمند احباب مل کر کوئی عملی اقدام اٹھائیں، ورنہ وہ دن دور نہیں کہ ہم عذابِ الٰہی کا شکار ہوجائیں۔
ہمارے اکابر کی تاریخ رہی ہے کہ انہوں نے امت کو فتنوں سے بچانے کے لیے ہر قسم کامجاہدہ فرمایا اور بڑی سی بڑی قربانی پیش کرنے سے پیچھے نہیں ہٹے اور آج انہی کی قربانیوں کا اثرہے کہ ملک میں اسلامی تشخص برقرار ہے۔ موجودہ انحطاط کے دور میں بھی عوام کی نگاہوں میں علماء کی عقیدت ہے۔ ہر عالم کے ساتھ عوام کا ایک حلقہ ہے۔ علماء کو اپنے اپنے حلقوں میں ردِ منکرات کی محنت کرنی چاہیے۔ ورنہ آئندہ ایسے حالات پیدا ہوسکتے ہیں کہ عوام کا علماء سے رشتہ ختم ہوجائے۔
ہمارے دور طالب علمی میں دارالعلوم دیوبند میں مرکز دلی سے مولانا احمد لاٹ صاحب تشریف لائے۔ انہوں نے بتایا کہ سوویت یونین کے زوال کے بعد روس کی جماعت ہندوستان آئی ،مرکز کی جانب سے اس جماعت کے ساتھ چند قابل علماء کو شامل کیا گیا۔ ان علماء نے ایک مرتبہ جماعت کے ایک ساتھی سے سوال کیا کہ آپ کا علاقہ تو امام بخاری اور امام ترمذی اور محدثین کا علاقہ تھا۔ وہاں سے اسلام کا صفایا کیسے ہوا؟ تو جماعت کے ایک ساتھی نے کہاکہ آپ نے انتہائی اہم سوال کیاہے، لیکن میں فوری طورپر اس کا جواب نہیں دے سکتا، اپنے ساتھیوں کے سامنے رکھوں گا، پھر سب کے مشورہ کے بعد جواب دیا جائے گا۔ چناں چہ سارے ساتھیوں نے بیٹھ کر غور کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ روس میں اسلام کے صفایا کے لیے پہلے عوام کو علماء سے بدظن کیا گیا، علماء سے عوام کا رشتہ کاٹ دیاگیا۔ اس کے بعد ہی مسلمانوں کی زندگیوں سے دین مٹانا آسان ہوا۔
اہم سوال یہ ہے کہ فحاشی اور بے حیائی کے اس بڑھتے ہوئے سیلاب پر روک کیسے لگائی جائے؟ اس صورتحال کی اصلاح کے لیے کس قسم کے عملی اقدامات کیے جائیں؟
جہاں تک قرآن و سنت کی روشنی میں حل کا تعلق ہے ،قرآن نے نہایت مختصر الفاظ میں حل پیش کیا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:﴿ولا تقربوا الفواحش﴾ فحاشی اور بے حیائی کے کاموں کے قریب نہ جاؤ۔
اس وقت مسلم معاشرہ کی جوابتر صورت حال ہے وہ اس قرآنی ہدایت کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے۔ الله تعالیٰ نے انسان کے اندر جنسی خواہش کا مادّہ رکھا ہے۔ جب لڑکا یا لڑکی جوانی کی عمر کو پہنچتے ہیں تو شہوت بھڑکنے لگتی ہے۔ اب صرف دو صورتیں رہ جاتی ہیں یا تو جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی والدین نکاح میں عجلت کریں، تاکہ حلال طریقہ پر جنسی خواہش کی تکمیل کی جاسکے۔ یا اگر نکاح میں تاخیر یقینی ہے تو انہیں ان راستوں سے بچائے رکھیں جو انہیں بدکاری کی جانب لے جاسکتے ہیں۔ اس بات کو الله تعالیٰ نے﴿ولا تقربوا الفواحش﴾ جیسے بلیغ جملے میں بیان فرمایا۔
بدکاری کے مختلف راستے ہیں، مثلاً نگاہوں کی حفاظت نہ کرنا،بدکاری کاایک آسان راستہ ہے۔ تقریباً تمام گھروں میں بیشتر وقت ٹی وی چلتا رہتا ہے۔ ٹی وی پر فحاشی، بے حیائی اورجنسی جذبات کو برانگیختہ کرنے والے کیسے کچھ پروگرام دکھائے جاتے ہیں، اس سے تو ہر شخص واقف ہے۔ قرآن و حدیث میں مومن مردوں اور عورتوں کے لیے نگاہوں کی حفاظت کی تاکید کی گئی ہے اور اس کی وضاحت کی گئی ہے کہ نگاہوں کی حفاظت کے بغیر بدکاری اور شرم گاہوں کی حفاظت ممکن نہیں۔
ٹی وی پر ناچ گانے اور بوس و کنار، حتی کہ وہ سب باتیں جو ایک میاں بیوی خلوت میں کرتے ہیں، پیش کی جاتی ہیں۔ ہمارے نوجوان لڑکے لڑکیاں شہوت انگیز مناظر مسلسل دیکھیں اور ان میں شہوت انگڑائی نہ لے، یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ عوامی مقامات، چوراستوں اور دیواروں پر انتہائی شرم ناک فلمی پوسٹر چسپاں ہوتے ہیں۔ اب اگر ہمارے جوان ان سے اپنی نگاہیں بچائے رکھیں تو بدکاری سے محفوظ رہ سکتے ہیں، لیکن صبح و شام ان پوسٹروں پر جانے اَن جانے نظریں پڑتی رہیں اور شہوت نہ بھڑکے، یہ کیسے ممکن ہے؟
اِس دَور کے ہمارے نونہال بچپن ہی سے ٹی وی پر فحش مناظر سے لطف اندوز ہونے کے عادی ہوچکے ہیں۔ موبائل کی جدید سہولیات نے تو رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔ اب بچوں کے لیے ہر حال میں مخرب اخلاق مناظر اور ناچ گانے سے محظوظ ہونا بہت آسان ہوگیاہے۔ پھر، انٹرنیٹ نے تو دنیا بھر کی بے حیائی عریانیت تک رسائی آسان کردی ہے۔
ہمارے بیشتر تعلیم یافتہ مہذب خاندانوں سے تعلق رکھنے والے احباب ٹی وی کو زندگی کا ایک جزوِ لاینفک سمجھتے ہیں اور ٹی وی سے احتراز کا مشورہ دینے والے علماء کو دقیانوسی،رجعت پسند اور ان جیسے طعنے دیتے ہیں۔ ٹی وی کے ہزار فوائد شمار کیے جائیں لیکن اس کے جو نقصانات ہیں وہ سب پر بھاری ہیں۔ اس کے اثراتِ بد ہمارے نونہالوں پر انتہائی بھیانک شکل میں مرتب ہورہے ہیں۔ شرم و حیا کا جنازہ نکل رہا ہے۔ اسلام اور تہذیب اسلامی سے نفرت پیدا ہورہی ہے۔ ٹی وی کی عادی نئی نسل بے حیائی ،فحاشی ،بے پردگی اور برہنگی کی دل دادہ ہوتی جارہی ہے۔
لڑکیوں اور لڑکوں کے معاشقوں کے جو واقعات پیش آرہے ہیں ان کے سد ِباب کے لیے گھروں سے ٹی وی کا صفایا اور بچوں اور نوجوانوں کو موبائل کے غلط استعمال سے روکنا ازحد ضروری ہے۔
نئی نسل کو بدکاری کی راہ پر ڈالنے کا دوسرا محرک مخلوط نظام ِتعلیم ہے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہوں اور پھر بھی بدکاری سے محفوظ رہیں، کیسے ممکن ہے؟ہمارے بیشتر والدین بچیوں کے لیے معیاری رشتوں کی خاطر مخلوط نظام تعلیم کے ذریعے اعلیٰ تعلیم دلوانا ضروری خیال کرتے ہیں۔ اس طرح نوجوان بچیاں سال ہا سال کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اپنے ہم کلاس لڑکوں کے ساتھ وقت گزارتی ہیں۔ بے تکلفی بتدریج تعلقات میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ سماجی رکاوٹیں تو مخلوط نظام تعلیم نے ختم کرڈالیں، پھر جب دونوں دھڑکتے دل ایک دوسرے سے مانوس ہوجاتے ہیں تو مذہب واخلاق نام کی کوئی چیز بھی رکاوٹ نہیں بنتی۔
عصری تعلیم کی ضرورت سے انکار نہیں، لیکن اپنی نسلوں کو، بالخصوص لڑکیوں کو فحاشی کے فتنے سے محفوظ کرنے کے لیے بہت ضروری ہے کہ والدین اپنی بچیوں کو مکمل پردہ کے ساتھ تعلیم دلائیں۔ انھیں ایسے اداروں میں بھیجا جائے جہاں لڑکیوں کے لیے کلاسز کا علیٰحدہ مستقل انتظام ہو۔ والدین اپنی لڑکیوں پر کڑی نظر رکھیں۔
اسی کے ساتھ جب تک ہم اپنی بچیوں کو بے پردگی، اختلاط اور ٹی وی کے گندے مناظر سے محفوظ نہیں رکھیں گے اور گھریلو دینی تربیت کا خوب اہتمام نہیں کریں گے، موجودہ صورتحال سے چھٹکارا ممکن نہیں۔
اپنے بچوں اور بچیوں کو گھر میں دینی تربیت نہ دینا، نیزانھیں مخلوط تعلیمی اداروں میں تعلیم کے لیے بھیجنا، ان کی نگرانی نہ کرنا دراصل ان کو ارتداد کے حوالے کرنا ہے۔
تعلیم کے حوالے سے ایک اور پہلو سے بھی غور کیاجانا چاہیے کہ اسلام میں کسب ِمعاش کی ذمے داری مرد پر ڈالی گئی ہے اور عورت کا دائرہٴ کار گھر کی چہار دیواری اور گھریلو نظام کی اصلاح ہے۔ لڑکیوں کو پروفیشنل کورسسز کرانا، انہیں ڈاکٹر یا انجینئر بنانا یا زیادہ سے زیادہ کمائی کے لیے کوئی اور اعلیٰ تعلیم دلانا، اسلام میں خواتین کی ذمے داریوں سے میل نہیں کھاتا۔ لیکن دین و ایمان پر آنے والے ہر قسم کے خطرات مول لے کر عموماً عصری تعلیم اس لیے دلائی جاتی ہے کہ لڑکی کو معیاری رشتہ مل سکے۔ معیاری رشتہ کا مطلب ایسا نوجوان جس کی ماہانہ لاکھوں کی آمدنی ہو۔ مال و دولت کی حرص ایمان و عقیدہ پر بازی لے جارہی ہے ،جو انتہائی افسوس ناک ہے۔
فحاشی کے موجودہ واقعات کا ایک اہم محرک لڑکیوں کا موبائل فون کا استعمال بھی ہے۔ اس وقت 80فیصد نوجوان طلبہ و طالبات سیل فون رکھتے ہیں۔ بہت سی نوجوان طالبات کو خود ان کے والدین کی جانب سے سیل فون کا تحفہ دیا جاتا ہے ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق پچاس فیصد نوجوان لڑکیاں سیل فون کا استعمال اپنے بوائے فرینڈ سے بات کرنے کے لیے کرتی ہیں۔ سروے میں کہا گیا ہے کہ ایک لڑکی ایک سیل فون کے ساتھ تین سم کارڈ استعمال کررہی ہے۔ اسی طرح اس کی بھی تحقیق کی گئی کہ اکثر بچیاں پوسٹ پیڈ کے بجائے پری پیڈ زیادہ استعمال کرتی ہیں، کیوں کہ پری پیڈ سے کیے گئے کالز کی کالز ہسٹری حاصل نہیں کی جاسکتی۔ اس کے برخلاف پوسٹ پیڈ کے ذریعہ فون کرنے والا اور فون وصول کرنے والے کا آسانی سے پتہ چل سکتا ہے۔ گھروں میں بچیاں اس انداز سے فون کا استعمال کرتی ہیں کہ والدین کو بھنک بھی نہیں لگتی۔
تعلیمی مراحل کے دوران بچوں اور نوجوانوں کو سیل فون دینا ان کے مستقبل کو تاریک بنانا ہے۔ والدین اسے معمولی سمجھتے ہیں ،جب کہ اس سے تباہی کے سارے راستہ ہموار ہورہے ہیں۔
مختصر یہ کہ جب تک فحاشی کا سد ِ باب نہیں کیا جائے گا اس وقت تک ارتداد کے واقعات تھم نہیں سکتے۔ اشد ضرورت ہے کہ مسلم معاشرے سے فحاشی کے خاتمے کے لیے ہمہ جہت اقدامات کیے جائیں، جن میں سے کچھ کی طرف سطو رِ بالا میں اشارہ کیا گیا ہے۔