سفرِ دیوبند احساسات ومشاہدات
ضبط وترتیب: مفتی معاذ خالد
گزشتہ دنوں امیر جمعیت علمائے ہند حضرت مولانا سیّد ارشد مدنی مدظلہ العالی کی دعوت پر پاکستان کے جید علما ء کرام کے ایک وفد نے عالم اسلام کے مشہور ادارے اور برصغیر کے مدارس کی علمی اور تاریخی بنیاد” دارالعلوم دیوبند“ کا دورہ کیا۔جامعہ فاروقیہ کراچی کے ناظم اعلی، استاد حدیث اور ماہنامہ الفاروق کے مدیر حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب، مولانا خلیل احمد صاحب ناظم تعلیمات ،جامعہ فاروقیہ اور مفتی حماد خالد استاد جامعہ فاروقیہ بھی اس وفد کے ہم راہ تھے۔ دارالعلوم دیوبند کے عالم اسلام پر گہرے اور عظیم الشان علمی اثرات، بے مثال قربانیوں اور بیش بہا خدمات کی بناء پر مسلمانانِ عالم کے دلوں میں جو عقیدت موجود ہے، اس کے پیش نظر طلبائے جامعہ فاروقیہ کی دلی خواہش تھی کہ اس سفر کی روئیداد ان کے سامنے بھی آجاتی۔ چناں چہ حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب نے جامعہ کے طلبا کے ایک عظیم اجتماع میں اس سفر کی تفصیلات ارشاد فرمائیں۔ موضوع کی اہمیت اور دلچسپی کے حوالے سے قارئین الفاروق کو بھی اس میں شریک کیا جارہا ہے۔ (ادارہ)
رائے پور میں، آپ جانتے ہیں کہ حضرت شاہ عبدالرحیم رائے پوری رحمة الله علیہ، حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمة الله علیہ اور شاہ عبدالعزیز رائے پوری رحمة الله علیہ کی خانقاہ ہے۔ لیکن شاید آپ کو یہ معلوم نہ ہو کہ ان میں سے حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمة الله علیہ کا تعلق پاکستان کے شہر سرگودھا ،بلکہ سرگودھا کے بھی ایک اور مضافاتی مقام ڈہڈیاں سے ہے۔ وہ ڈہڈیاں کے رہنے والے تھے۔ تقسیم ہندوستان یعنی پاکستان بننے کے بعد اپنے عزیز واقارب سے ملنے یہاں سرگودھا آئے ہوئے تھے کہ یہیں طبیعت خراب ہوئی اور انتقال ہو گیا۔ ان کی میت پر تنازعہ ہوا تھا۔ ہندوستان والوں کی کوشش تھی کہ حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری کی میت ہندوستان بھیجی جائے جبکہ پاکستان کے عزیزوں اور رشتے داروں کا تقاضا یہ تھا کہ چوں کہ ان کا آبائی وطن یہاں ہے اور ہم یہاں ہیں، لہٰذا ان کی تدفین یہاں سرگودھا میں کی جائے۔ چنانچہ حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمة الله علیہ کی تدفین سرگودھا ڈہڈیاں میں ہوئی اور ان کی قبر ڈہڈیاں میں ہی ہے۔
حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمة الله علیہ کی ایک خصوصیت جو ہم نے اپنے والد ماجد زید مجدہم سے سنی، وہ یہ تھی کہ وہ رائے پور میں تھے جہاں اُن کی خانقاہ تھی۔ الله تعالیٰ نے ایسی محبوبیت او رمرجعیت عطافرمائی تھی کہ اطراف عالم سے لوگ کھنچے کھنچے چلے آتے تھے، اور اتنی کثرت سے آتے تھے کہ رائے پور کے رہنے والوں نے چارپائیاں کرائے پر دینے کا کاروبار شروع کر دیا تھا۔ کوئی آدمی آتا، چار پائی کرائے پر لیتا․․․ دس دن کے لیے، کوئی آتا اور پندرہ دن کے لیے چار پائی کرائے پر لیتا، کوئی آدمی بیس دن کے لیے آتا، کوئی مہینہ بھر کے لیے آتا، اور کوئی چالیس دن کے لیے حضرت کی خدمت میں آتا۔
حضرت والدصاحب فرماتے ہیں، ایک ایک آدمی کے پاس کافی کافی چارپائیاں ہوتی تھیں اور لوگ آرہے ہیں، کرائے پر لے جارہے ہیں۔ پھر یہ چارپائی کرائے پر لے کر وہیں خانقاہ میں ڈال لی، وہیں حضرت کی خانقاہ میں آرام کرنے لگے او رخانقاہ کے معمولات میں شریک ہونے لگے۔
سب سے زیادہ تعجب کی بات، حضرت والد صاحب بتاتے ہیں، یہ تھی کہ رائے پور کی اس خانقاہ کا معمول تھا کہ حضرت شاہ عبدالقادر رحمة الله علیہ پورے دن میں صرف عصر سے مغرب مریدین اور متوسلین کے سامنے تشریف لایا کرتے تھے، باقی پورا دن نہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ حضرت رائے پوری عصر تا مغرب تشریف لاتے تھے مگر ایک لفظ منھ سے ادا نہیں کرتے تھے، بالکل خاموش بیٹھے رہتے تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ کوئی بیان نہیں ہے، کوئی نصیحت نہیں ہے، کوئی کتاب نہیں پڑھی جارہی․․․ اور لوگ ساری دنیا سے کھنچے چلے آرہے ہیں، حتیٰ کہ چارپائیاں کرائے پر دینے کا کاروبار شروع ہو گیا ہے۔
یہ وہ الله والوں کی نسبت ہے۔ یہ وہ الله والوں کی کیفیات ہیں۔ ظاہر ہے، کوئی پاگل تو ہے نہیں کہ اتنا دور جائے گا صرف اس لیے کہ چارپائی کرائے پر لے اور مہینہ بھر پڑا رہے۔ کوئی فائدہ ہو گا تو تب ہی تو وہ یہاں آیا ہے، پیسہ خرچ کررہا ہے اور اپنا وقت لگا رہا ہے۔ بات یہ ہے کہ اگرچہ حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمة الله علیہ کا معمول یہ تھا کہ کوئی بیان نہیں فرماتے تھے، زبان سے کچھ نہیں کہتے تھے، بس آکر تشریف فرما ہوجاتے تھے مگر جس کو جتنا حاصل کرنا ہوتا تھا، وہ اپنی اپنی طلب کے بقدر اُن سے حاصل لیتا تھا۔
بہر کیف، تذکرہ چل رہا تھا، رائے پور کی خانقاہ کا، ہم وہاں عصر کی نماز کے وقت پہنچے۔ عصر کی نماز خانقاہ کی مسجد میں ادا کی۔
مسجد سے متصل قبرستان ہے۔ اگر ہم مسجد کے اندر قبلے کی طرف کھڑے ہوں تو قبلہ کے بائیں طرف قبرستان ہے جس میں شاہ عبدالرحیم رائے پوری رحمة الله علیہ ، شاہ عبدالعزیز رائے پوری رحمة الله علیہ او ردیگر بعض حضرات کی قبریں ہیں۔ یہاں پر حاضری سے فراغت کے بعد پھر یہ قافلہ واپس دیوبند کی طرف روانہ ہو گیا۔
سفر کے کتنے دن گزرگئے؟ کسی کو یاد نہیں تھا۔ جمعہ کے دن کراچی سے چلے تھے، ہفتہ کے دن بارڈر عبور کیا تھا اور دلی پہنچے تھے۔ اتوار کو نظام الدین گئے تھے،حضرت بختیار کاکی رحمة الله علیہ کی قبر پرگئے تھے، مہر ولی گئے تھے،مہدیان گئے تھے اور اتوار ہی کے دن ہم دیوبند کے لیے روانہ ہوئے تھے، پھر دیوبند سے اگلے دن پیر کو نانوتہ، گنگوہ، امبیٹھہ، سہارن پور اور رائے پور سے ہوتے ہوئے پیر کا پورا دن گزارا۔ رات کو عشاء کے وقت واپس دیوبند پہنچے تھے۔
اب اگلا دن منگل کا آگیا۔ ظاہرہے، پورا دن مسلسل سفر رہا ہے اور رات کو عشاء کے وقت وہاں پہنچے ہیں اور کھانا کھایا ہے۔ کھانا کھانے کے بعد پھر وہی پہلی رات والی کیفیت تھی، یہ پتا نہیں چلا کہ سر پہلے رکھا یا نیند پہلے آئی۔
فجر میں اٹھے تو پیغام آگیا کہ ناشتہ جلدی ہو گا، سب تیار رہیں۔ چنانچہ پھر سب تیار ہو گئے۔ آج یہ بتایا گیا کہ آج کا دن دیوبند کے لیے ہے، آج کہیں نہیں جانا دیوبند میں ہی رہنا ہے۔ چناں چہ ناشتے کے بعد ہمیں حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب نور الله مرقدہ کے مکان پر لے جایا گیا جہاں حضرت مولانامحمد سالم صاحب قاسمی دامت برکاتہم تشریف فرما تھے۔ یہ حضرت قاری محمد طیب صاحب رحمة الله علیہ کے صاحبزادے ہیں۔ انھی کے صاحبزادے حضرت مولانا سفیان صاحب قاسمی بھی تشریف فرما تھے۔ حضرت مولانامحمد سالم قاسمی بہت زیادہ ضعیف ہوچکے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں جب حضرت مولانا محمد سالم قاسمی صاحب پاکستان تشریف لائے تھے تو آپ میں سے بہت سے طلباء نے ان کی زیارت کی ہوگی۔ جن حضرات نے قاری محمدطیب صاحب رحمة الله علیہ کو دیکھا ہے، انھیں اندازہ ہوسکتا ہے کہ اب مولانا سالم صاحب بالکل قاری صاحب کے ہم شکل ہو گئے ہیں․․․ چہرہ، ٹوپی، داڑھی او رجسم․․․ سب میں قاری صاحب کی شباہت بہت زیادہ ہے۔
وہاں بھی ناشتے کا اہتمام تھا۔ اس دوران حضرت مولانا محمدسالم صاحب نے فرمایا کہ جب سے آپ حضرات دیوبند پہنچے ہیں، ہر وقت یہ تقاضا اور خواہش تھی کہ اب آئیں، تب آئیں․․․ میں مسلسل آپ حضرات کے انتظار میں تھا اور الله تعالیٰ نے آپ سے ملاقات کرادی۔بہرحال، حضرت مولانامحمد سالم صاحب سے ملاقات ہوئی۔ بہت ہی خوش گوار اور بہت ہی خوب صورت ملاقات تھی۔
یہاں سے فارغ ہونے کے بعد پھر ہم قبرستان قاسمی گئے۔ یہ دارالعلوم دیوبند کا قبرستان ہے۔ قبرستان قاسمی میں حضرت حجة الاسلام حضرت مولانامحمد قاسم نانوتوی رحمة الله علیہ کی قبرہے، اور انھی کے نام نامی سے یہ قبرستان موسوم ہے۔ حضرت شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن رحمة الله علیہ، حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمة الله علیہ، حضرت مولانا سید اسعد مدنی رحمة الله علیہ ، مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمٰن عثمانی رحمة الله علیہ، حضرت قار ی محمد طیب رحمة الله علیہ، حضرت مولانا عبد السمیع دیوبندی رحمة الله علیہ ، حضرت مولانا محمد ابراہیم بلیاوی رحمة الله علیہ، شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی رحمة الله علیہ، اور میاں اصغر حسین رحمة الله علیہ، حضرت مولانا وحید الزمان کیرانوی رحمة الله علیہ اور دیگر بہت سے اکابر اہل اللہ قبرستان قاسمی میں آرام فرمارہے ہیں۔
قبرستانِ قاسمی میں ہر ایک کے اپنے اپنے جذبات تھے، اپنی اپنی کیفیات تھیں۔ شان دار ماضی او راس کی تاریخ سب کی آنکھوں میں گھوم رہی تھی۔
قبرستانِ قاسمی سے متصل ایک اور چھوٹا سا قبرستان ہے جس میں حضرت مولانا انور شاہ کشمیری رحمة الله علیہ کی قبر ہے۔ یہیں حاجی عابد حسین رحمة الله علیہ کی قبر ہے۔ تاریخ دارالعلوم دیوبند کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ حاجی عابد حسین رحمة الله علیہ دارالعلوم کے مؤسسین میں سے ہیں۔
ان قبور پر حاضری کے بعد پھردارالعلوم وقف گئے جو حضرت مولانا محمدسالم قاسمی صاحب کی نگرانی میں کام کررہا ہے۔ دارالعلوم دیوبند میں اس وقت دورہٴ حدیث میں بارہ سو طلبہ ہیں اور دارالعلوم وقف میں اس وقت دورہٴ حدیث میں سات سو طلبہ ہیں۔ وہاں حاضری ہوئی تو اساتذہ اور طلبہ نے بہت خوب صورت او رجذباتی انداز میں وفد کا استقبال کیا۔ مختلف ملاقاتیں ہوئیں۔ فراغت کے بعد واپس مہمان خانہ آگئے۔
یہاں آپ سے ایک بات عرض کر دوں کہ آج کا دن ہمارا دیوبند کا آخری دن ہے اور کل بدھ کو صبح سویرے ہمیں دلی کے لیے روانہ ہونا ہے۔ لیکن میں دیوبند میں اپنی والدہ کا آبائی مکان دیکھنا چاہتا تھا۔
اگرچہ اس سے پہلے بھی کئی بار دیوبند جانا ہوا تھا، لیکن چونکہ ہر مرتبہ والد ماجد، حضرت مولانا سلیم اللہ خاں صاحب زید مجدہم، کے ساتھ جانا ہوااس لیے ہم دیوبند میں زیادہ ٹھہر نہیں پاتے تھے۔ ویزا بھی کم مدت کا ہوتا تھا او رپھر حضرت زید مجدہم کی ملاقاتوں کا سلسلہ بھی بہت زیادہ رہتا تھا۔ یہاں گئے، وہاں گئے․․․ اس لیے وہاں ہمیں قیام کا موقع پہلے کبھی نہیں ملا تھا۔
لیکن اس سفر میں مجھے دیوبند میں تین دن قیام کا موقع ملا۔ اتنے قیام کا موقع پہلی دفعہ ملا تھا۔ لہٰذا میں نے اس موقع کو غنیمت جانا۔
میری والدہ محترمہ صاحبہ کا تعلق دیوبند سے ہے۔ ان کا ہمیشہ یہ تقاضا رہا کہ میں ننھیال کا مکان جا کر دیکھوں جس میں ہمارے نانا نانی اور ہماری والدہ صاحبہ رہا کرتی تھیں۔ اس دفعہ جب میں نے دیکھا کہ ہمیں قیام کا موقع مل رہا ہے اس لیے اس کی بھی کوشش کی۔ یہاں قیام کے پہلے ہی دن جب عشاء کی نماز کے بعد خاصے لوگ ہم سے مصافحہ کے لیے کھڑے ہوئے تھے، میں نے آئے ہوئے مقامی حضرات سے پوچھا کہ آپ میں سے دیوبند کا کوئی رہائشی ہے؟
ایک صاحب جو بڑی عمر کے تھے، انہوں نے کہا کہ میں یہاں کا رہنے والا ہوں۔ میں انھیں الگ لے گیا، اور الگ لے جاکر بتایا کہ میرے نانا جان رحمة الله علیہ کا نام حکیم محبوب علی خان تھا اور وہ دیوبند کے ایک محلے ”قلعہ“ کے رہنے والے تھے۔ جب ہمارے ماموں اور دیگر افراد پاکستان آئے تو وہ اپنا آبائی مکان فروخت کرکے آئے تھے۔ ہم نے وہ مکان نہیں دیکھا ہے۔ میں نے ان سے گزارش کی کہ ہم تو یہاں سفر اور یہاں کے کاموں میں مصروف رہیں گے، آپ اس مکان کو تلاش کردیں۔ جب آپ مکان تلاش کر لیں تو مجھے بتا دیں، میں آپ کے ساتھ جاکر وہ مکان دیکھ لوں گا۔ چناں چہ اگلے دن عشاء کے بھی خاصی دیر بعد تقریباً ساڑھے گیارہ بجے رات کو وہ مہمان خانے تشریف لائے او رآکر مجھے خوش خبری سنائی کہ مکان تلاش کر لیا ہے۔ اور نہ صرف یہ کہ مکان تلاش کر لیا ہے بلکہ اس زمانے کے ایک صاحب کو بھی تلاش کر لیا ہے جو آپ کے نانا، آپ کے ماموں اور آپ کے ننھیال کے دوسرے لوگوں کو بھی جانتے ہیں۔ میں بہت خوش ہوا، اور پوچھا کہ وہاں کب چلیں گے؟ وہ صاحب بولے، اب تورات بہت ہوچکی ہے، کل میں آپ کو لے جاؤں گا۔
منگل ہی کو مغرب کی نماز کے بعد دارالعلوم کی نئی عظیم الشان جامع مسجد رشید جانے کا پروگرام ہوا۔ یہاں وفد کے استقبال میں دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ اور دارالعلوم دیوبند کے حضرت مہتمم صاحب کی طرف سے ایک استقبالیہ جلسہ تھا۔
مغرب کی نماز کے بعد جلسہ شروع ہوا۔ بہت بڑا اجتماع تھا۔ دارالعلوم کے تمام طلبہ کرام، اساتذہ اور بڑی تعداد میں عوام اس میں شریک تھے۔ مسجدجو خود بہت بڑی ہے، بھری ہوئی تھی۔ پھر اس کی گیلریاں بھری ہوئی، باہر سڑکیں اور تمام راستے بھرے ہوئے تھے۔
یہ استقبالیہ صدر المدرسین حضرت مولانا سعید احمد پالن پوری دامت برکاتہم کی زیر صدرات تھا۔ حضرت مولانا سید ارشد مدنی دامت برکاتہم نے خطبہ استقبالیہ پیش فرمایااور پاکستان سے گئے ہوئے مہمانوں میں سے چند حضرات نے تبرکاً کچھ باتیں ارشاد فرمائیں۔ اس جلسے سے فراغت کے بعد اب ہم مہمان خانہ آگئے۔
دن بھر کی تھکن شدید تھی لیکن جب ہم کمرے میں پہنچے تو دارالعلوم کے طلبہ مستعد ہماری خدمت کے لیے موجود تھے۔ ان کے ساتھ باتیں کرتے، مختلف حال احوال سنتے سناتے تقریباً گیارہ ساڑھے گیارہ بج گئے۔
ابھی ننھیالی مکان دیکھنے کا مرحلہ باقی تھا۔ جو صاحب ہمارے نانا کا مکان دیکھ کر آئے تھے، اُن کا نمبر میرے پاس نہیں تھا۔ بڑی تشویش اور پریشانی ہورہی تھی، البتہ انہوں نے ایک نام بتایا تھا، حکیم عباد الله خاں۔ حکیم عباد الله خاں بہت مشہور آدمی ہیں اور وہ ہمارے ننھیال سے واقف بھی۔ ان کا ذکر طلبہ سے کیا تو کچھ ان کو جاننے والے مل گئے۔ ان طلبہ نے اپنے جاننے والے دیوبند کے ایک حکیم صاحب کو فون کیا۔ ان حکیم صاحب سے حکیم عبادالله خاں صاحب کا ذکر کیا گیا تو وہ حکیم عبادالله خاں کوجانتے تھے۔ حکیم صاحب سے عبادالله خاں صاحب کا نمبر لیا گیا۔ اُس نمبر پر فون کرنے کی کوشش کی تو وہ فون نہیں اٹھا رہے تھے اور وقت تھا کہ دوڑا چلا جارہا تھا، اور ہماری تشویش بڑھتی چلی جارہی تھی۔
میرے ساتھ جو طلبہ تھے، ساڑھے گیارہ بجے کے بعد میں نے ان سے کہا کہ اپنے ننھیال کا مکان تلا ش کرنا ہے۔ انہوں نے مستعدی سے چلنے کی رضا مندی ظاہر کی اور کہا کہ چلیں آپ ہمارے ساتھ، ہم مکان ڈھونڈ لیں گے۔ اگرچہ حکیم عبادالله خاں صاحب کا نمبر تو نہیں مل رہاتھا مگر ان طلبہ نے کسی طرح ان کے گھر کا پتا کر لیا۔
ہم دارالعلوم سے پیدل نکلے، کیوں کہ مکان تلاش کرنا تھا اور کوئی مکان تلاش کرنا پیدل ہی آسان ہوتا ہے۔ پیدل․․․ چل چل چل ․․․ رات کو سوا ایک بجے ہم حکیم عبادالله خاں کا مکان تلاش کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ ہم نے ان کا دروازہ کھٹکایا تو خاصی دیر بعد دروازے میں حرکت ہوئی اور اندر سے حکیم صاحب تشریف لائے۔ وہ بے چارے ضعیف تھے۔ ہم نے پہلے تو معذرت کی، پھر اپنا تعارف کرایا تو بہت خوش ہوئے اور ہمیں گلے لگالیا۔ ہم نے کہا کہ ہماری مجبوری اور معذوری ہے، اس لیے کہ ہمیں صبح فجر کے بعددلّی جانا ہے اور پھر واپس پاکستان بھی جانا ہے اور وقت بہت کم ہے۔
حکیم صاحب کہنے لگے، ٹھیک ہے، کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ چناں چہ وہ بہت خوشی سے اندر گھر میں لے گئے، بہت اکرام کیا، چائے پلائی اور اکرام کی چیزیں سامنے رکھیں۔ اس کے بعد وہ ہمیں لے کر نکلے۔ بہت سمجھ دار آدمی تھے۔ انہوں نے ہمیں پہلے مکان نہیں دکھایا بلکہ پہلے ہمیں اس مکان کے اردگرد کا ماحول سمجھایا کہ دیکھو یہ تحصیل ہے؛ یہ رجسٹری ہے․․․ اور یہ جو ہم گزر رہے ہیں یہ بازار ہے․ یہ عنایت الله خاں کا مکان تھا؛ یہ محبوب علی خاں کا مکان تھا؛ یہ فلاں کا مکان تھا، یہ فلاں کا مکان تھا، یہ فلاں کا تھا․․․ یہ پہلی گلی یہاں سے جاتی ہے؛ یہ بڑی گلی یہاں سے جاتی ہے؛ سامنے قاضی صاحب کا مکان ہے․․․ اور پھر وہ ہمیں ہمارے ننھیال کے مکان پر لے گئے۔
میرا خیال تھا کہ یہ تقریباً سترسال پہلے کی بات ہے۔ ظاہر ہے، ستر سال میں بہت کچھ بدل جاتا ہے لہٰذا وہ مکان بدل گیا ہو گا اور اس کی جگہ کوئی دوسرا مکان ہو گا۔ ہم صرف وہ جگہ دیکھیں گے مگر آپ کو حیرت ہو گی اور میرے لیے بھی بہت حیرت کی بات ہے کہ وہ مکان بعینہ اسی طرح موجود تھا جیسے پہلے تھا۔ مرکزی دروازہ لکڑی کا اورپھر اس کے پیچھے والی دہلیز اور اس کے پیچھے مکان۔
گویا، واپس آکر اگر والدہ صاحبہ کو بتانا چاہوں تو بہت آسانی سے بتا سکتا ہوں کہ وہاں تحصیل بھی ہے، وہاں رجسٹری بھی ہے، وہاں پولیس کی چوکی بھی ہے، وہاں ڈاکخانہ بھی ہے، وہاں سے ایک بڑی گلی بازار کو جاتی ہے، ایک پتلی گلی اس طرح سے جاتی ہے کہ کونے پر عنایت الله خاں کا مکان ہے۔ اور یقین جانئے کہ جب میں نے یہاں پاکستان آکر اپنی والدہ کو یہ سارا نقشہ بتایا تو کہنے لگیں کہ تم تو ایسے بتا رہے ہو جیسے وہیں کھڑے ہوئے ہو۔ میں نے کہا کہ مجھے رہبر ہی اتنا شاندار ملا کہ اس نے میری رہنمائی اتنے اچھے طریقے سے کی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ننھیالی محلہ اور والدہ کا مکان دیکھنے کا مرحلہ بھی بہ حسن و خوبی طے کرادیا۔ (جاری)