Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1435ھ

ہ رسالہ

2 - 16
عہد حاضر کا مقدس ترین جہادس

مولانا سید ابوالحسن علی ندوی
	
ضرورت یہ ہے کہ لادینیت کی اس طوفانی موج کا مقابلہ کیا جائے، جو عالم اسلام کے سر سے گزر رہی ہے ، نہیں، بلکہ آگے بڑھ کراس کے قلب ومرکز پر حملہ کیا جائے، وقت کا تجدیدی کام یہ ہے کہ امت کے نوجوان اورتعلیم یافتہ طبقے میں اسلام کے اساسات وعقائد، اس کے نظام وحقائق اور رسالت محمد صلی الله علیہ وسلم پر اعتماد واپس لایا جائے، جس کا رشتہ اس طبقے کے ہاتھ سے چھوٹ چکا ہے۔

آج کی سب بڑی عبادت یہ ہے کہ اس فکر اضطراب او ران نفسیاتی الجھنوں کا علاج بہم پہنچایا جائے جن میں آج کا تعلیم یافتہ نوجوان بری طرح گرفتار ہے او راس کی عقلیت اور علمی ذہن کو اسلام پر پوری طرح مطمئن کر دیا جائے، آج کا سب سے بڑا جہاد یہ ہے کہ جاہلیت کے وہ بنیادی افکار جو دل ودماغ میں گھر کر گئے ہیں ان سے علم اور عقل کے میدانوں میں نبرد آزمائی کی جائے،یہاں تک کہ اسلام کے اصول ومبادی پورے ایمانی جذبات کے ساتھ ان کی جگہ لے لیں۔

کامل ایک صدی گزرتی ہے کہ یورپ ہمارے نوجوان اور ذہین طبقے پر چھاپے مار رہا ہے ، شک والحاد ، نفاق وارتیاب کا ایک طوفان ہے جو اس نے ہمارے دل ودماغ میں برپا کر رکھا ہے، غیبی اور ایمانی حقائق پر اعتماد متزلزل ہو رہا ہے او رریاست اور اقتصاد کے مادہ پرستانہ نظریات اس جگہ پر قابض ہو رہے ہیں، کامل ایک صدی سے اس شکست وریخت کا سلسلہ جاری ہے، لیکن ہمیں اس کے مقابلے کی کوئی فکر نہیں ہوئی، ہم نے اس کی کوئی پروا نہیں کی، وقت کے تقاضوں کے مطابق قدیم علمی ترکہ پر اضافہ کرنا بھی ہمارا فرض ہے۔

ہمیں اس سے کوئی دل چسپی نہیں ہوئی کہ یورپ کے ان فلسفوں کو سمجھیں او رپھر ان ان کا علمی محاسبہ، بلکہ سرجنوں کی طرح ان کا پوسٹ مارٹم کریں، ہمارا سارا وقت سطحی بحثوں کی نذر ہوتا جارہا ہے، یہاں تک کہ اس صدی کے آخر میں ہمارے سامنے گویا یکا یک یہ منظر آیا کہ ایمان وعقیدہ کی دنیا متزلزل ہے او رایک ایسی نسل تیار ہو کر بر سراقتدار آچکی ہے جو نہ اسلام کے عقائد ومبادی پر ایمان رکھتی ہے، نہ اسلامی جذبات اور اسلامی حمیت سے معمور ہے او رنہ اس کا کوئی تو علاقہ اپنی مومن ومسلم قوم سے اس کے سوا ہے کہ قومیت کے خانے میں اس کا شمار بھی مسلمانوں میں ہوتا ہے، اگر کچھ تعلق ہے تو وہ محض سیاسی مصالح کی حد تک، بس، اس کے سوا کوئی تعلق نہیں او راب اس سے بھی آگے بڑھ کر صورت حال یہ ہے کہ لا دینی مزاج اور لادینی انداز فکرادب وثقافت اور صحافت وسیاست کے راستے سے جمہور تک پہنچ چکا ہے اورمسلمان قوموں کے سر پر عمومی پیمانے کی لادینیت کا خطرہ منڈلا رہا ہے، خاکم بدہن! وقت کی رفتار وہ وقت قریب لارہی ہے کہ اسلام کو زندگی کے میدان میں کہیں بے دخل کرکے نہ رکھ دیا جائے۔

دعوت ایمان
یہ وقت عالم اسلام میں ایک نئی اسلامی دعوت کا متقاضی ہے، اس دعوت وجدوجہد کا نعرہ او رنشانہ ہو ” آؤ!پھر سے اسلام پر ایمان پیدا کریں“ لیکن تنہا نعرہ کافی نہیں ہے، اس سے پہلے وہ نفسیاتی راستہ سوچنے او رسمجھنے کی ضرورت ہے جس سے عالم اسلام کے موجودہ بر سر اقتدار طبقہ کے دل دوماغ تک پہنچا جاسکے اور اسے اسلام کی طرف لوٹا یا جائے۔

بے غرض داعیوں اور مردان کار کی ضرورت
آج عالم اسلامی کو ایسے مردان کار کی ضرورت ہے جوصرف اسی دعوت کے پیچھے ہو رہیں، اپنا علم، اپنی صلاحیتیں او راپنا مال ومتاع اس کے لیے وقف کر دیں، کسی جاہ ومنصب یا عہدہ وحکومت کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھیں کہ کسی کے لیے ان کے دل میں کینہ وعداوت نہ ہو، فائدہ پہنچائیں ،مگر خود فائدہ نہ اٹھائیں، دینے والے ہوں، لینے والے نہ ہوں، ان کا طرز عمل سیاسی راہ نماؤں کے طرز عمل سے ممتاز او ران کی دعوت وجدوجہد سیاسی تحریکات (جن کا مطمح نظر محض حصول اقتدار ہوتا ہے) سے مختلف او رجداگانہ ہو، اخلاص ان کا شعار ہو اور نفس پرستی، خودپسندی اور ہر قسم کی عصبیت سے بالاتری ان کا امتیاز۔

دعوت کے لیے نئے علمی اداروں کی ضرورت
اس پر اضافہ ہی کہ آج ایسے علمی ادارے عالم اسلامی کی بڑی اہم ضرورت ہیں، جو ایسا طاقت ور اسلامی ادب پیدا کریں جو ہمارے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو دوبارہ کھینچ کر اسلام، وسیع معنی میں اسلام کی طرف لاسکے، جو انہیں مغرب کے ان فلسفوں کی ذہنی غلامی سے نجات دلاسکے، جنہیں ان میں سے کچھ نے سوچ سمجھ کر اور زیادہ ترنے محض وقت کی ہوا سے متاثر ہو کر حرز جان بنا لیا ہے، وہ ادب جوان کے دماغوں میں از سر نوا سلام کی بنیادیں اٹھائے، قلب وروح کی غذا بنے، اس کام کے لیے عالم اسلامی کے ہر گوشے میں آج ایسے ارباب عزیمت درکار ہیں، جو معرکے کے اختتام تک اس علمی محاذ پر جمے رہیں۔

میں اپنے بارے میں صراحت کے ساتھ بتا دینا چاہتا ہوں کہ زندگی کے کسی لمحے اور کسی وقفے میں بھی ان لوگوں میں نہیں رہا ہوں ، جو دین وسیاست کی تفریق کے قائل ہیں، نہ میں ان لوگوں میں ہوں جو دین کی ایسی تعبیر کرتے ہیں جن سے وہ زندگی کے ہر نظام اور حالات کے ہر سانچے میں (خواہ وہ اسلام سے کتنا ہی ہٹا ہوا ہو) فٹ ہو جائے او رہر رنگ کی سوسائٹی میں جڑ جائے اور نہ میرا تعلق کبھی اس گروہ سے رہا ہے جو سیاست کو قرآن کے شجرہ ملعونہ”الشجرة الملعونة فی القرآن“ کا مصداق سمجھتا ہے، میں ان لوگوں کی اگلی صف میں ہوں جو مسلمان قوموں میں صحیح سیاسی شعور کے داعی ہیں اورہر اسلامی ملک میں صالح قیادت کو بروئے کار دیکھنا چاہتے ہیں ، میں ان لوگوں میں ہوں جن کا اعتقاد ہے کہ دینی معاشرہ اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک دین کو اقتدار حاصل نہ ہو او رحکومت کا نظام اسلامی بنیادوں پر استوار نہ ہو، میں اس کا داعی ہوں اور زندگی کی آخری سانس تک رہوں گا۔

ماضی کے تجربے
لیکن بات ترتیب اور تقدیم او رتاخیر کی ہے، دینی حکمت اور دینی تفقہ کی ہے اور سوال حالات کے تقاضے کا ہے، اب تک ہماری کوششیں اور ہماری صلاحیتیں، ہمارے وسائل او رہمارے اوقات سیاسی اور تنظیمی تحریک کے نذر ہوتے رہے ہیں اور یہ ساری جدوجہد، حرکت اس مفروضے پر رہی کہ قوم میں پورا پورا ایمان ہے او رقوم کی قیادت جو لامحالہ تعلیم یافتہ طبقے ہی سے ہوتی ہے، وہ بھی پوری طرح مسلمان ہے، اسلام کے عقائد ومبادی پر اس کا ایمان ہے، اسلام کی سر بلندی کے لیے اس کے دل میں جوش وجذبہ ہے اور حدود واحکام کے نفاذ کے لیے بھی وہ تیار ہے، حالاں کہ بات برعکس ہے، قوم کا حال یہ ہے کہ ایمان میں ضعف اور اخلاق میں انحطاط آچکا ہے، لیکن اس کا نہ ہمیں پتہ چلا، نہ خود قوم کو شعور ہوا، تعلیم یافتہ اور اونچے طبقے کا حال یہ ہے کہ مغربی فلسفوں اور سیاست واقتدار کے اثرسے بیشتر افراد میں عقیدہ گویا پگھل چکا ہے، بلکہ بہت سوں کا حال تو یہ ہو چکا ہے کہ اسلامی عقیدے کے کھلے باغی اور مغربی فلسفوں کے لائے ہوئے افکار وعقائد پر دل کی گہرائیوں سے ایمان، ان کے لیے دنیا سے لڑ جانے کا جوش وولولہ او ران کی نشرواشاعت کا جنون، یہ فکرکہ زندگی کا نظام ان فلسفوں کی روشنی میں او ران کی دی ہوئی بنیادوں پر استوار کیا جائے اور یہ کوشش کہ پوری قوم کو اس لادینیت سے مانوس کیا جائے، یہ ہے اس طبقے کے بہت سے افراد کا ذہنی حال، پھر عمل کے میدان میں بعض جلد باز ہیں، بعض تدریج کے قائل، بعض اس لادینی جحان کو طاقت کے زور سے قوم پر ٹھونس دینا چاہتے ہیں اور بعض قوم کو اس شیشے میں خوب صورتی کے ساتھ اتارنے کی راہ پر گام زن ہیں، مگر منزل سب کی ایک اورمقصد وہدف سب کا واحد۔

دینی طبقے کے دو متضاد گروہ
اس طبقے کے بارے میں ہمارا دینی طبقہ، بشرطے کہ یہ تعبیر درست بھی ہو، کیوں کہ اسلام میں کوئی مخصوص دینی طبقہ او رپاپائیت جیسی کوئی چیز نہیں ہے اپنے رویہ کے اعتبار سے دوگروہوں میں تقسیم ہے ، ایک گروہ ہے جو اس سے برسر جنگ ہے، اس کی تکفیر کرتا ہے او راس کے سائے سے بھی دور رہنا پسند کرتا ہے ، لیکن ان اسباب وعلل کی جستجو سے بالکل مستغنی ہے جنہوں نے اس طبقے میں لادینیت کا رحجان پیدا کیا ، یہ گروہ اس کا قائل نہیں ہے کہ اس طبقے میں اختلاط پیدا کیا جائے، دین سے اس کی وحشت دور کی جائے، اگر کوئی ایمان وخیر کا ذرّہ اس میں موجود ہے تو اسے بڑھا وا دیا جائے، مؤثر اسلامی لٹریچر کے ذریعہ اس کے اندر دینی افکار اتارے جائیں، اس کے جاہ ومال اورقوت واقتدار سے استغنا دکھا کر اسلامی کردار کی عظمت کا نقش قائم کیا جائے، مخلصانہ او رحکیمانہ نصیحت کی جائے اوراس طرح اس کے احوال اور دل ودماغ کو بدلا جائے۔

دوسرا گروہ اس کے بالکل ضد ہے ، وہ اس طبقے سے تعاون کرتا ہے، مال وجاہ میں اس کا شریک بنتا ہے، اس کے ذریعہ اپنی دنیا بناتا ہے، اس کا دین سنوارنے کی کوئی فکر نہیں کرتا، پس اس گروہ میں نہ کوئی دعوتی روح ہے، نہ دینی غیرت کا مظاہرہ، نہ یہاں اس بگڑے ہوئے طبقے کی اصلاح کی کوئی حرص وفکر پائی جاتی ہے او رنہ اسے اس قرب وتعاون میں کوئی پیغام ملتا ہے۔

اصلاح اور دینی انقلاب کے لیے جس گروہ کی ضرورت ہے
ایسا کوئی گروہ نہیں جو اس صورت حال پر درد مند ہو، جو یہ سمجھے کہ یہ اونچا تعلیم یافتہ طبقہ مریض ہے، مگر علاج کے لائق اور شفا یابی کے قابل اور پھر اس کے علاج کی فکر کرے، حکمت ونرمی کے ساتھ دین کی دعوت لے کر اس میں گھسے اور بے لوث نصیحت کا حق ادا کرے، ایسے کسی تیسرے گروہ کے نہ ہونے کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے اس مغرب زدہ عنصر کو دین او ردینی ماحول سے قریب ہونے کا کوئی موقع نہیں ملتا، اس کی ساری زندگی اس ماحول سے وحشت اور دوری میں کٹتی ہے او رپھر اس کے بعد وحشت کو اہل دین کا گروہ اور بڑھاوا دیتا ہے، ایسا ہی ایک گروہ اس کے بعد وحشت میں اضافہ کا سبب بنتا ہے، جو دین کے نام پر اس طبقہ سے جاوہ منصب اور حکومت وسطلنت کے لیے جنگ کرتا ہے، یہ دونوں گروہ سوائے اس کے کچھ نہیں کرتے کہ اس طبقے کو دین سے خائف کریں اور ایک بغض وعناد کی کیفیت پیدا کریں ، انسان کی فطرت ہے کہ اگر وہ دنیا کا حریص ہے تو اس معاملے میں اپنے کسی رقیب کو برداشت نہیں کرسکتا، اگر حکومت وسطلنت ہی اس کا مقصد زندگی ہے تو اس میدان کے حریف کو ایک آنکھ نہیں دیکھ سکتا او راگر بندہٴ نفس اور خوگرِ عیش وعشرت ہے تو یہ ناممکن ہے کہ وہ دنیا میں کسی کو سہیم وشریک بننے کی اجازت دے دے۔

عالم اسلامی کے درد کی دوا
عالم اسلامی کے درد کی دو ا آج وہ گروہ ہے جوخواہشات سے بلند اور داعیانہ بے غرضی کا پیکر ہو، ہر اس بات سے دامن بچائے جس سے وہم بھی ہو سکتا ہے کہ اسے دنیا کی طلب ہے یا اس کا مطمح نظر اپنے لیے، اپنی پارٹی کے لیے یا اپنے خاندان کے لیے حکومت واقتدار کا حصول ہے، وہ گروہ جو اس طبقے سے میل ملاقات کے ذریعہ، مراسلات اور گفت گو کے ذریعہ، دعوتی اسفار کے ذریعہ، اسلامی ادب کے ذریعہ ،شخصی روابط کے ذریعہ، پاکیزگی کردار اوربلند اخلاقی کے ذریعہ، زہد واستغنا او رپیغمبرانہ اخلاق کی پر اثر نمائندگی کے ذریعہ ان نفسیاتی اور عقلی گرہوں کو کھول دے ،جو مغرب نے پیدا کی ہوں یاد ینی طبقے کی بے تدبیری سے پڑی ہوں یا کم فہمی، کم نظری اور اسلام اور اس کے صحیح ومناسب ماحول سے دوری ان کا سبب ہوا ہو۔

Flag Counter