Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شوال المکرم 1435ھ

ہ رسالہ

8 - 16
سلطان کے بچوں کی عید پرانے کپڑوں میں

محترم عطاء الله ندوی
	
حضرت عمر بن عبدالعزیز  نے عید کے موقع پر بیت المال کے داروغہ کو خط بھیجا کہ انہیں ایک مہینہ کی پیشگی تنخواہ بھیج دیں جس کے جواب میں داروغہ نے لکھا کہ آپ کا حکم سر آنکھوں پر، لیکن کیا آپ کو یہ یقین ہے کہ آپ ایک ماہ تک زندہ رہ سکتے ہیں؟

رمضان کا زمانہ تھا، گرمی اپنے شباب پر تھی اور اگلے ہفتے عید آرہی تھی، جو مسرتوں اور فرحتوں کی نوید ہوا کرتی ہے، دمشق کے بازاروں میں ہر طرف سجاوٹ او ررونق ہی رونق تھی، عید کی تیاریاں بڑے زوروشور سے جاری تھیں ، وزراء، امراء کی بیگمات، بچے، عزیز واقارب ، شہر کے چھوٹے بڑے سب خریداری میں مصروف تھے، ہر چھوٹا بڑا نئی نئی پوشاکیں خرید رہا تھا کہ خلیفة المسلمین حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمة الله علیہ کا بچہ محل سرا میں روتا ہوا داخل ہوا، ماں اپنے لعل کو روتا ہوا دیکھ کر بے قرار ہو گئی، اٹھایا، پیار کیا، آنسو پونچھے، سینے سے لگایا، پھر پوچھا، بیٹاکیا بات ہے ؟ تمہیں کس نے رلایا؟کیا کسی دوست نے کچھ کہہ دیا؟ بچہ اور زور زور سے رونے لگا، ماں نے بے چین ہو کر بچے کو سینے سے لگا لیا، میرے لعل میں نہ کہتی تھی کہ گرمی اپنے زوروں پر ہے، بڑے بڑے بچے بھی روزہ نہیں رکھ رہے ہیں ،تم نے اپنی کم عمری میں روزہ رکھنا شروع کر دیا، شاید تمہیں پیاس لگی ہے، بچے نے آنسو پوچھے او رکہا خدا کی قسم، امی جان! مجھے پیاس نہیں لگ رہی ہے، نہ روزہ لگ رہا ہے ، ماں نے محبت سے پیار کرتے ہوئے کہا کہ پھر رونے کا سبب کیا ہے ؟ دیکھو!اگلے ہفتے عید آرہی ہے، اپنے بابا کے ساتھ عید گاہ جانا، وہاں بڑی رونق ہو گی، بچہ بولا: اسی وجہ سے میں رو رہا ہوں کہ اگلے ہفتے عید ہے، میرے سارے دوست جو میرے بابا کے وزیروں اور ملازموں کے بچے ہیں، نئی نئی، زرق برق پوشاکیں پہن کر عید گاہ جائیں گے، آپ کہتی ہیں کہ تمہارے کپڑے میں ہاتھ سے دھوؤوں گی، وہی ہاتھ سے دھلے ہوئے کپڑے پہن کر عید گاہ جانا، دیکھیے! دوسرے بچے کتنے اچھے ، عمدہ کپڑے خرید کر لاتے ہیں، مجھے تو ابھی سے شرم آرہی ہے، میں عید گاہ نہیں جاؤں گا، بچہ پھر زور زور سے رونے لگا۔ ماں سمجھ گئی اور خود بھی اشک بار ہو گئی، ہاں بیٹا! میں سب کچھ منگوادوں گی ، اب تم سوجاؤ۔

تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز خلافت کا کام کرکے محل سرا میں داخل ہوئے، کپڑے اتار کر آرام کرنا ہی چاہتے تھے کہ بیوی نے غمگین لہجے میں کہا: امیر المومنین! میری جان آپ پر فدا!گلے ہفتے عید آرہی ہے ، بچہ نئی پوشاک کے لیے بہت بے چین ہے، ، ابھی ابھی روتے روتے سویا ہے، حضرت عمر بن العزیز نے سرجھکا کر فرمایا: تمہیں تو معلوم ہے کہ مجھے تو صرف سو درہم ماہوار ملتے ہیں، جس میں کھانے پینے کا گزارہ اور ایک ملازم کی تنخواہ بڑی مشکل سے پوری ہوتی ہے، کچھ بچے تو کپڑوں کی باری آئے، رہا بیت المال تو وہ صرف غریبوں، فقیروں، یتیموں اور بیواؤں کا حق ہے، میں تو صرف اس کا امین ہوں، اس کا تو خیال کرنا بھی گناہ ہے۔

بے شک میرے سرتاج! لیکن بچہ تو ناسمجھ ہے، ضد کر رہا ہے، دیکھیے نا!بچے کے موٹے موٹے آنسوؤں کے نشان اب تک رخساروں پر موجود ہیں۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنی بیوی فاطمہ سے کہا: اگر تمہارے پاس کوئی چیز ہو تو اس کو فروخت کر دو، بچوں کی خوشی پوری ہو جائے گی، فاطمہ نے کہا: اے امیر المؤمنین! میرے تمام زیورات تو آپ نے بیت المال میں جمع کر ادیے ہیں، بلکہ وہ قیمتی ہار جو میرے و الد نے یادگار کے طور پر مجھے دیا تھا، آپ نے وہ بھی جمع کروادیا ہے، اب تو میرے پاس سوائے آپ کی محبت اور فرماں برداری کے کچھ نہیں ہے۔ امیر المومنین نے سرجھکا لیا، بڑی دیر تک سوچتے رہے، ماضی کو دیکھتے رہے ، اپنا بچپن، جوانی ، خوش پوشی، نفاست یاد آنے لگی، وہ زمانہ یاد آیا کہ جو لباس ایک دفعہ پہن لیا وہ دوبارہ زیب تن نہیں کیا، جس راستے سے گزر جاتے وہ راستے گھنٹوں خوشبوؤں سے مہکتے رہتے، ایک عبا نہیں، سینکڑوں عبائیں پڑی رہتی تھیں، سوچتے سوچتے آنکھوں میں آنسو آگئے، فاطمہ اپنے ہر دل عزیز شوہر کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر بے قرار ہو گئیں، کہا: امیر المومنین! مجھے معاف کر دیجیے گا، وہ بولے ، نہیں فاطمہ! مجھے اپنا بچپن یاد آگیا تھا، پھر بیت المال کے داروغہ کے پاس ایک خط لکھ کر بھیجا، ملازم کو خط دیا او رکہا کہ ابھی یہ خط داروغہ کے پاس لے جاؤ، جوکچھ وہ تمہیں دیں احتیاط سے لانا، خط میں لکھا کہ مجھے ایک ماہ کی تنخواہ پیشگی بھیج دیں، تھوڑی دیر بعد ملازم خالی ہاتھ آگیا، فاطمہ کا دل دھک سے ہو گیا، ملازم خط کے جواب میں ایک خط لایا، جس میں لکھا تھا: ”اے خلیفة المسلمین! آپ کے حکم کی تعمیل سر آنکھوں پر، لیکن کیا آپ کو معلوم ہے اور آپ کو یہ یقین ہے کہ آپ ایک ماہ تک زندہ رہ سکتے ہیں؟ او رجب یہ یقین نہیں تو پھر غریبوں، یتیموں اور بیواؤں کے مال کا حق کیوں پیشگی اپنی گردن پر رکھتے ہیں؟“ حضرت عمر بن عبدالعزیز جواب پڑھ کر بے چین ہو گئے، آنکھوں میں آنسو آگئے اور بے ساختہ فرمایا: اے داروغہ ! تم نے مجھے ہلاکت سے بچا لیا۔

اگلے ہفتے عید اپنی پوری رعنائی کے ساتھ آئی، دمشق کے بازاروں او رامراء کے محلات کی رنگینیاں عروج پر تھیں، ہر طرف رونق، ہر طرف رنگینی، ہر شخص زرق، برق او رقیمتی لباس میں عید گاہ جارہا تھا، لیکن فلک نے دیکھا، دمشق نے دیکھا، ہر خاص وعام نے دیکھا، حضرت عمر بن عبدالعزیز اپنے بچوں کا ہاتھ پکڑ کر ہاتھ کے دھلے ہوئے پرانے کپڑے زیب تن کیے عید گاہ کی طرف جارہے تھے، بچوں کے چہرے آفتاب وماہتاب کی طرح چمک رہے تھے، کیوں کہ آج ان کی نظر فانی دنیا کی وقتی خوشی پر نہیں تھی، بلکہ جنت کی ابدی نعمت ولذت کے احساس نے انہیں سرشار کر دیا تھا، اس طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز تقویٰ وطہارت کا دامن مضبوطی کے ساتھ تھامے رہے، الله کے وہ ایسے بندے ہوئے جن کو علمائے امت نے پانچویں خلیفہ راشد کا لقب دیا۔

Flag Counter