Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شوال المکرم 1435ھ

ہ رسالہ

14 - 16
والدین کی نافرمانی کا فتنہ

سید احمد ومیض ندوی
	
انسانی رشتوں میں سب سے عظیم رشتہ ماں باپ کا ہے، دنیا کے سارے مذاہب ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کرتے ہیں ، شریعت اسلامی میں بھی ماں باپ کے حقوق پرکافی زور دیا گیا ہے، قرآن مجید میں ایک سے زائد مقامات پر خدا کی عبادت کے بعد والدین سے حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے، ارشاد خدا وندی ہے :﴿وَقَضَی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْْنِ إِحْسَاناً﴾․(بنی اسرائیل:23)
ترجمہ: ”اور تمہارے رب کا قطعی حکم ہے کہ صرف اسی کی عبادت اور پرستش کرو او رماں باپ کے ساتھ اچھے سے اچھا برتاؤ کرو۔“

الله تعالی نے پچھلی قوموں سے بھی اس بات کا عہد لیا تھا کہ وہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کریں، ارشاد خداوندی ہے﴿وَإِذْ أَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ لاَ تَعْبُدُونَ إِلاَّ اللّہَ وَبِالْوَالِدَیْْنِ إِحْسَاناً ﴾․( البقرہ:83)
ترجمہ:” او رجب ہم نے بنی اسرائیل سے اس بات کا عہد لیا تھا کہ تم الله کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین سے حسن سلوک کرو۔“

سورہٴ لقمان میں ماں باپ کا حق بیان کرتے ہوئے یہاں تک فرمایا گیا کہ اگر بالفرض کسی کے ماں باپ کافرو مشرک ہوں اور اولاد کو بھی شرک کے لیے مجبور کریں تو اولاد کو چاہیے کہ ان کے کہنے سے کفر وشرک تو نہ کرے، لیکن دنیا میں ان کے ساتھ اچھا سلوک اور ان کی خدمت کرتی رہے، چناں چہ ارشاد ہے:﴿وَإِن جَاہَدَاکَ عَلی أَن تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا وَصَاحِبْہُمَا فِیْ الدُّنْیَا مَعْرُوفاً ﴾․( لقمان:15)

رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک پر کافی زور دیا ہے ، ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک پر جنت کی ضمانت اور ان کے ساتھ بد سلوکی پر جہنم کی وعیدیں سنائی ہیں، چناں چہ ایک شخص نے جب آپ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا کہ اولاد پر ماں باپ کا حق کتنا ہے؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ”وہ تمہاری جنت اور دوزخ ہیں۔“ (مشکوٰة:421)، مطلب یہ ہے کہ اگر تم ماں باپ کی اطاعت اور خدمت کے ذریعہ ان کو راضی رکھو تو جنت پاؤگے، اس کے برعکس اگر ان کی نافرمانی کرکے انہیں ناراض کرو گے تو پھر تمہارا ٹھکانہ دوزخ میں ہو گا، ایک روایت میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے خدا کی رضا مندی اور خوش نودی کو والدین کی رضا مندی او رخوش نودی سے وابستہ فرمایا، چناں چہ فرمایا:”رضی الرب في رضا الوالد، وسخط الرب فی سخط الوالد․“ (مشکوٰة:419)

”الله کی رضا مندی والد کی رضا مندی میں ہے اور الله کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے ۔“

بعض روایات میں مخصوص حالات کے پیش نظر ماں باپ کی خدمت کو جہاد سے بھی مقدم قرار دیا گیا ، چناں چہ ایک شخص آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں جہاد میں جانا چاہتا ہوں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا کیا تمہارے ماں باپ ہیں؟ اس نے کہا: جی ہاں! موجود ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر ان کی خدمت اور راحت رسانی میں جدوجہد کرو، یہی تمہارا جہاد ہے۔ ( ابوداؤد)

اسی طرح کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت جاہمہ رضی الله عنہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے او رعرض کیا کہ میرا ارادہ جہاد میں جانے کا ہے اور میں آپ صلی الله علیہ وسلم سے اس بارے میں مشورہ لینے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان سے پوچھا، کیا تمہارے ماں باپ ہیں؟ انہوں نے عرض کیا: ہاں ! آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر انہی کے پاس جاؤ اور انہی کی خدمت میں رہو، ان کے قدموں میں تمہاری جنت ہے۔ ( مشکوٰة ، مسند احمد، نسائی)

والدین کی خدمت سے آدمی کس طرح جنت کا حق دار ہوتا ہے، اس کا ایک نمونہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دکھایا گیا، حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: میں سویا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت میں ہوں، وہیں میں نے کسی کے قرآن پڑھنے کی آواز سنی تو میں نے دریافت کیا کہ یہ الله کا بندہ کون ہے جو یہاں جنت میں قرآن پڑھ رہا ہے ؟ تو مجھے بتایا گیا کہ یہ حارثہ بن نعمان  ہیں ، ماں باپ کی خدمت واطاعت شعاری ایسی ہی چیز ہے ، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ حارثہ بن نعمان اپنی ماں کے بہت ہی خدمت گذار اور اطاعت شعار تھے۔ (دیکھیے شعیب الایمان)

والدین کی اطاعت وخدمت سے نہ صرف یہ کہ آخرت میں سرفراز کیا جائے گا، بلکہ خدمت والدین کے دنیوی اثرات بھی ہیں، ماں باپ کی خدمت کرنے والوں کو الله تعالیٰ دنیا میں بھی خاص برکتوں سے نوازتا ہے، چناں چہ حضرت جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: الله تعالیٰ ماں باپ کی اطاعت وخدمت اور حسن سلوک کی وجہ سے آدمی کی عمر بڑھا دیتا ہے۔ (کامل ابن عدی) نیز رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے ماں باپ کی خدمت وفرماں برداری کرو، تمہاری اولاد تمہاری فرماں بردار اور خدمت گذار ہو گی۔ (معجم اوسط ، طبرانی)

حتیٰ کہ ماں باپ کی خدمت کو بہت سے گناہ کی معافی کا ذریعہ قرار دیا گیا، چناں چہ ایک شخص رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ حضرت ! میں نے ایک بہت بڑا گناہ کیا ہے تو کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا: تمہاری ماں زندہ ہیں؟ اس نے عرض کیا کہ ماں تو نہیں ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تو کیا تمہاری کوئی خالہ ہے؟ اس نے عرض کیا: ہاں خالہ موجود ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تو اس کی خدمت اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو، الله تعالیٰ اس کی برکت سے تمہاری توبہ قبول فرما لے گا۔ ( ترمذی)

اسلام میں ماں باپ کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک پر اس قدر زور دیا گیا ہے کہ والدین کے انتقال کے بعد بھی بہت سی باتوں اور والدین سے متعلق بہت سے حقوق کی تاکید کی گئی، روایات میں اس طرح کے بعض حقوق کا تذکرہ کیا گیا ہے ، چناں چہ ابو اسید ساعدی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک وقت جب ہم لوگ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے ، بنی سلمہ کے ایک شخص آئے او رانہوں نے دریافت کیا: یا رسول الله ! کیا میرے ماں باپ کے مجھ پر کچھ ایسے حقوق بھی ہیں جوان کے مرنے کے بعد مجھے ادا کرنے چاہییں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ! ان کے لیے خیر ورحمت کی دعا کرتے رہنا، ان کے واسطے الله تعالیٰ سے مغفرت اور بخشش کی دعا مانگنا، ان کا کوئی عہد معاہدہ اگر کسی سے ہو تو اس کو پورا کرنا، ان کے تعلق سے جور شتے ہوئے ان کا لحاظ رکھنا او ران کا حق ادا کرنا اور ان کے دوستوں کا اکرام واحترام کرنا، اس روایت میں والدین کے انتقال کے بعد ان کے تین حقوق کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

ان کے لیے رحمت ومغفرت کی دعا، کسی سے ان کا معاہدہ ہوا ہو، اس کی تکمیل کیے بغیر انتقال کر گئے ہوں تو اس کی تکمیل، ان کے رشتہ دار اور دوست واحباب کے ساتھ حسن سلوک اور اکرام کا معاملہ۔

عمر کے ہر مرحلہ میں ماں باپ کی خدمت کرنی چاہیے، لیکن جب وہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچیں تو ان کی اطاعت وخدمت میں کوئی کسر باقی نہ رکھنا چاہیے، اس لیے کہ بڑھاپے میں وہ اولاد کی خدمت کے محتاج ہوتے ہیں، قرآن مجید میں اس کی خاص تاکید کی گئی ہے، چناں چہ ارشاد ہے:﴿ إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِندَکَ الْکِبَرَ أَحَدُہُمَا أَوْ کِلاَہُمَا فَلاَ تَقُل لَّہُمَا أُفٍّ وَلاَ تَنْہَرْہُمَا وَقُل لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْماً، وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰنیْ صَغِیْراً﴾(اگر ان دونوں میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا، ان سے نرمی سے بات کرنا، ان کے لیے عاجزی کے بازو بچھانا او ریوں کہنا میرے رب! ان پر آپ رحم فرمائیے جیسے انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی۔)

آدمی کے لیے خوش نصیبی کی بات ہے کہ اسے ماں باپ کا بڑھاپا ملے، اس لیے کہ یہ ماں باپ کی خدمت کرکے الله کی رضا اور مغفرت حاصل کرنے کا زریں موقع ہوتا ہے، ماں باپ کا بڑھاپا پا کر بھی اگر کوئی اپنی مغفرت کا سامان نہ کرے، تو اس سے بڑھ کر بد نصیبی او رکیا ہو سکتی ہے ؟ ایسے ہی بد نصیب کے سلسلہ میں حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہلاک ہو ، برباد ہو وہ شخص، جو ماں باپ یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پائے،پھر وہ ان کا دل خوش کرکے جنت حاصل نہ کر سکے ۔ (مسلم شریف)

والدین میں ماں کا درجہ باپ کے مقابلہ میں زیادہ اس لیے ہے کہ ماں کو اولاد کی پرورش اور ولادت کے دیگر مراحل میں بڑی تکلیفوں سے گذرنا پڑتا ہے، قرآن مجید میں ماں کے ان دشوار گزار مرحلوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا:﴿ووصینا الانسان بوالدیہ احساناً حملتہ أمہ کرھاً ووضعتہ کرھاً﴾(الاحقاف)
ترجمہ: ”اور ہم نے انسان کو وصیت کی کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرے، اس کی ماں نے اسے تکلیف سے پیٹ میں رکھا اورتکلیف سے جنم دیا۔“

ماں کی تکلیفوں کا ذکر قرآن مجید میں ایک سے زائد مقامات پر کیا گیا ہے، رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے ماں کے حق کی زیادتی کی طرف اشارہ فرمایا، چناں چہ ایک شخص نے حضور صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ مجھ پر خدمت اور حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق کس کا ہے ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری ماں کا، تمہاری ماں کا ، تمہاری ماں کا، اس کے بعد تمہارے باپ کا، پھر اس کے بعد جو تمہارے قریبی رشتہ دار ہوں۔ ( بخاری ومسلم)

ایک طرف والدین کے ساتھ حسن سلوک او ران کی اطاعت وفرماں برداری کی اس قدر تاکید ہے، دوسری طرف ہمارے معاشرہ کی وہ صورت حال ہے جسے دیکھ کر سرشرم سے جھک جاتا ہے، اسلامی تعلیمات سے دوری کا اثر یہ ہے کہ ماں باپ کی خدمت تو دور رہی، بہت سے بدنصیب نوجوان اپنے والدین پردست درازی میں بھی تامل نہیں کرتے، اب تو اخبارات ومیڈیا میں اولاد کے ہاتھوں ماں باپ کے قتل کی خبر بھی آنے لگی ہے۔

والدین کی حکم عدولی، ان کی مرضی کے خلاف کام، گفت گو کے دوران تندلہجہ اختیار کرنا اب اتنا عام ہو گیا ہے کہ کسی کو حیرت بھی نہیں ہوتی، نبی صلی الله علیہ وسلم نے پیشین گوئی فرمائی تھی کہ قیامت کے قریب ماں باپ کی نافرمانی ہو گی ، دور حاضر کا یہ بھی ایک خطرناک سماجی فتنہ ہے، اس صورت حال کے ذمہ دار ایک حد تک خود والدین ہوتے ہیں، جنہیں اپنی اولاد کی دینی تربیت کی فکر نہیں ہوتی، ماں باپ الله تعالیٰ کی عظیم نعمت ہیں، ایسی نعمت کہ جس کا کوئی بدل نہیں، دنیا کی بہت سی نعمتیں اگر فوت ہو جائیں تو دوبارہ حاصل کی جاسکتی ہیں، لیکن ماں باپ کی نعمت دوبارہ حاصل نہیں ہو سکتی، اس نعمت کے ذریعہ آدمی اپنی دنیا بھی سنوار سکتا ہے اور آخرت بھی، اس نعمت کی ناقدری کرنے والا نہ صرف یہ کہ آخرت میں پشیمانی اٹھائے گا، بلکہ اس کی دنیا بھی بے رونق ہو جائے گی۔

Flag Counter