Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شوال المکرم 1435ھ

ہ رسالہ

10 - 16
ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے کا شرعی حکم

مفتی امداد الحق بختیارپروہی
	
عام حالتوں میں ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے، بالخصوص نماز کی حالت میں کپڑا لٹکانے اور نماز سے قبل پائینچے موڑنے پر مدلل ومفصل بحث کی گئی ہے

اسلام ایک ایسا جامع دستور حیات ہے، جس میں حیات انسانی کی مکمل راہ بری وراہ نمائی موجود ہے، خواہ اس کا تعلق عبادات سے ہو یا معاملات سے، انسان کی انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے ، اسلام نے جس طرح رہنے سہنے اور کھانے پینے کے اصول دیے ہیں، اسی طرح کپڑے پہننے کے سلسلے میں بھی مکمل راہ نمائی فرمائی ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے جس طرح غیر اسلامی اور غیر قوموں کے مشابہ لباس سے منع فرمایا ہے، اسی طرح ایسا لباس، جس سے تکبر کا شائبہ محسوس ہورہا ہو، اس سے بھی آپ صلی الله علیہ وسلم نے سختی سے منع فرمایا ہے،ا سلامی لباس کا ایک محکم ضابطہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا کہ مردوں کا لباس ٹخنوں سے نیچے نہیں ہونا چاہیے، ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے پرآپ صلی الله علیہ وسلم نے سخت وعید بیان فرمائی ہے،ذیل میں اس سلسلہ کی احادیث ذکر کی جاتی ہیں:

متکبرانہ لباس کی ممانعت اور سخت وعید
عہد نبوی صلی الله علیہ وسلم میں عرب متکبرین کا یہ فیشن تھا کہ کپڑوں کے استعمال میں بہت اسراف سے کام لیتے تھے اور اس کو بڑائی کی نشانی سمجھا جاتا تھا، ”ازار“ یعنی تہہ بند اس طرح باندھتے تھے کہ چلنے میں نیچے کا کنارہ زمین پر گھسٹتا تھا، اسی طرح قمیص اور عمامہ اور دوسرے کپڑوں میں بھی اسی قسم کے اسراف کے ذریعہ اپنی بڑائی اور چودھراہٹ کی نمائش کرتے، گویا اپنے دل کے استکبار اور احساس بالاتری کے اظہار اور تفاخر کا یہ ایک ذریعہ تھا اور اس وجہ سے متکبرین کا یہ خاص فیشن بن گیا تھا، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اس کی سخت ممانعت فرمائی اور نہایت سنگین وعیدیں اس کے بارے میں سنائیں:

عن ابن عمرَ ،أن النبي صلی الله علیہ وسلم قال: من جرَّ ثوبہ خیلاء لم ینظر اللہ إلیہ یوم القیامة․

حضرت عبد اللہ بن عمر  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کہ جو کوئی اپنا کپڑا کبر وغروراو رفخر کے طورپر زیادہ نیچا کرے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طر ف نظر بھی نہ اٹھائے گا۔(بخاری، کتاب المناقب، باب قول النبی صلی الله علیہ وسلم: لوکنت متخذا خلیلا․․․․حدیث نمبر: 3665)

عن أبي سعید الخدري قال: سمعت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم یقول: إزرة الموٴمن إلی أنصاف ساقیہ، لا جناح علیہ فیما بینہ وبین الکعبین، وما أسفل من ذلک ففي النار، قال ذلک ثلث مراة، ولا ینظر اللہ یوم القیامة إلی من جرّ إزارہ بطراً․(ابوداوٴد، اللباس، باب فی قدر الموضع من الازار، حدیث نمبر: 4095)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنا، فرماتے تھے کہ: مومن بندے کے لیے ازار یعنی تہہ بندباندھنے کا طریقہ(یعنی بہتر اور اولیٰ صورت) یہ ہے کہ نصف ساق تک (یعنی پنڈلی کے درمیانی حصہ تک ہو) اور نصف ساق اور ٹخنوں کے درمیان تک ہو تو یہ بھی گناہ نہیں ہے، (یعنی جائز ہے)اور جو اس سے نیچے ہو تو وہ جہنم میں ہے(یعنی اس کا نتیجہ جہنم ہے)۔(راوی کہتے ہیں) کہ یہ بات آپ نے تین دفعہ ارشاد فرمائی(اس کے بعد فرمایا) اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس آدمی کی طرف نگاہ اٹھا کے بھی نہ دیکھے گا، جو ازراہ فخروتکبر اپنی ازار گھسیٹ کے چلے گا۔

تشریح…ان حدیثوں میں فخر اور غرور والا لباس استعمال کرنے والوں کو یہ سخت وعید سنائی گئی ہے کہ وہ قیامت کے اس دن میں جب کہ ہر بندہ اپنے رب کریم کی نگاہ رحم وکرم کا سخت محتاج ہوگا، وہ اس کی نگاہ رحمت سے محروم رہیں گے، اللہ تعالیٰ اس دن ان کو بالکل ہی نظر انداز کردے گا، ان کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھے گا، کیا ٹھکانہ ہے اس محرومی اور بدبختی کا، اللہم احفظنا !

حضرت ابو سعید خدری  کی حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مومن کے لیے اولیٰ اور بہتر یہ ہے کہ تہہ بند اور اسی طرح پاجامہ نصف ساق تک ہو اور ٹخنوں کے اوپر تک ہو،تو یہ بھی جائز ہے، لیکن اس سے نیچے جائز نہیں، بلکہ سخت گناہ ہے اور اس پر جہنم کی وعید ہے۔

حضرت ابو بکر کی حدیث اور اس کی صحیح تشریح
عن ابن عمر، عن النبي صلی الله علیہ وسلم قال :من جرّ ثوبہ خیلاء لم ینظر اللہ إلیہ یوم القیامة، فقال أبو بکر: یا رسول اللہ، إزاري یسترخي إلا أن أتعاہدہ، فقال لہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم:إنک لست من یفعلہ خیلاء․ (بخاری، کتاب اللباس، باب من جر ازارہ من غیر خیلاء، حدیث نمبر:5784)

حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کہ جو کوئی فخرو تکبر کے طور پر اپنا کپڑا زیادہ نیچا کرے گا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی طرف نظر بھی نہیں کرے گا، حضرت ابو بکر نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرا تہہ بند اگر میں اس کا خیال نہ رکھوں، تو نیچے لٹک جاتا ہے، حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو جو فخروغرور کے جذبہ سے ایسا کرتے ہیں۔(معارف الحدیث، کتاب المعاشرة والمعاملات، ج 6،ص 283تا 292)

تشریح…حضرت ابو بکر صدیق دبلے پتلے جسم والے تھے، جس کی وجہ سے کبھی کبھار چلتے ہوئے آپ کا تہہ بند بے دھیانی میں ٹخنوں سے نیچے سرک جاتا تھا اور یاد آنے پر پھر فورا ًآپ تہہ بند درست فرماتے، جس کی حدیث میں صراحت مذکور ہے اور واضح طور پر یہ حضور صلی الله علیہ وسلم کی وعید کا مصداق نہیں ہے، لیکن صحابہ کرام کا حال بالکل مختلف تھا، وہ اللہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے حکم کی ادنی سے ادنی خلاف ورزی(چاہے ظاہری طور پر ہی کیوں نہ ہو یا غفلت ولا شعوری کے عالم میں ہی ہو)برداشت نہ کرتے تھے اور اس کا حکم ضرور معلوم کرتے؛ تاکہ کوئی صورت معافی کی نکل آئے، اس کی مثال وہ واقعہ ہے کہ ایک صحابی دوڑتے ہوئے حضور صلی الله علیہ وسلم کے پاس جارہے تھے، حضرت ابو بکر نے دریافت کیا کہ ایسے دوڑتے ہوئے کہاں جارہے ہو؟ انہوں نے کہا مجھے چھوڑ دو، میں منافق ہوگیا ہوں، کیوں کہ میری جو حالت حضور صلی الله علیہ وسلم کی مجلس میں رہتی ہے وہ بیوی بچوں کے درمیان نہیں رہتی اور دو قسم کی حالت کا رہنا ہی نفاق ہے۔(صحیح مسلم، کتاب التوبة، باب فضل دوام الذکر والفکر․․․، حدیث نمبر:2750)

اسی طرح کا معاملہ حضرت ابو بکرکے ازار کا تھا، ورنہ کبھی آپ نے قصداً اسبال ازار(ٹخنوں سے نیچے تہہ بند وغیرہ لٹکانے کا عمل) نہیں کیا اور یہ حضرات صحابہ کرام کی دینی فکر اور اطاعتِ حکمِ الٰہی اور حکمِ رسول کی اعلیٰ مثال ہے کہ وہ اپنے اُن اعمال کو جو صرف صورةً مخالفت کی فہرست میں آتے ہیں، انہیں بھی صریح مخالفت تصور کرتے ہیں اور ان سے احتیاط برتتے ہیں۔

نماز میں اسبالِ ازارسے متعلق احادیث
عن أبي ہریرة قال: بینما رجل یصلي مسبلاً إزارہ، إذ قال لہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم: إذہب، فتوضأ․ فذھب فتوضا، ثم جاء، ثم قال: إذہب، فتوضأ، فذہب فتوضأ، ثم جاء فقال لہ رجل: یا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ما لک أمرتہ أن یتوضأ؟ قال: إنہ کان یصلي، وہو مسبل إزارہ، وإن اللہ جل ذکرہ لا یقبل صلاة رجل مسبل إزارہ․

حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص اپنی ازار ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہونے کی حالت میں نماز پڑھ رہا تھا، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: جاوٴ، دوبارہ وضو کر کے آوٴاور وہ شخص وضو کر کے آیا، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جاوٴ،وضو کر کے آوٴ، وہ شخص گیا اور وضو کر کے آیا، ایک شخص نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسے وضو کرنے کا حکم کیوں فرمایا؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ اپنی ازار ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہونے کی حالت میں نماز پڑھ رہا تھا اور اللہ تعالیٰ اس شخص کی نماز قبول نہیں فرماتے ،جو اپنی ازار ٹخنوں کے نیچے لٹکائے ہوئے ہو۔(ابوداود، کتاب الصلاة، باب الاسبال فی الصلاة، حدیث نمبر: 638)

تشریح: اس حدیث کی علماء نے چند تاویل کی ہیں، جو حسبِ ذیل ہیں:
1... دوبارہ وضو کرنے کا حکم نبی پاک صلی الله علیہ وسلم نے اس لیے عطا کیا؛ تاکہ وہ دورانِ وضو غور کرسکے اور اپنے عملِ مکروہ پر متنبہ ہوکر، اس سے پرہیز کرے، نیز اکمل وافضل طریقے پر نماز ادا کرے۔
2... اسبالِ ازار کے عمل کی وجہ سے، اس سے جو گناہ سر زد ہوا ہے، وضو کے ذریعہ وہ گناہ ختم ہوجائے۔
3... آپ صلى الله عليه وسلم نے دوبارہ وضو کرنے کا حکم زجراً وتوبیخاً فرمایاہے۔
4... حدیث میں نماز کے قبول نہ ہونے سے مراد کامل قبولیت ہے، یعنی اسبالِ ازار کے ساتھ نماز پڑھنے والے کا فرض تو ادا ہوجائے گا، لیکن اسے اللہ تعالیٰ کی مکمل خوش نودی حاصل نہ ہوگی۔

لہٰذا اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اسبالِ ازار سے وضو ٹوٹ جائے گا۔ (مرقاة المفاتیح، باب الستر، الفصل الثانی 2/234، مکتبہ امدادیہ، ملتان، پاکستان)

عن ابن مسعود قال: سمعت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم یقول: من أسبل إزارہ في صلاتہ خیلاء فلیس من ا للہ جل ذکرہ في حل ولا حرام․ (ابوداود، کتاب الصلاة، باب الاسبال فی الصلاة، حدیث نمبر: 637)

حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ: میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جو شخص ازراہ تکبر نماز میں اپنی ازار ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہوئے ہو، تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ اس کے لیے جنت حلال ہوگی، نہ جہنم حرام ہوگی۔

تشریح…اس حدیث میں اگر چہ علماء نے تاویل کی ہے، لیکن حدیث کے ظاہر الفاظ بہت سخت ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اسبالِ ازار کرنے والے کی نماز قبول نہیں فرماتے، لہٰذا ان مسلمانوں کے لیے اس حدیث میں لمحہٴ فکریہ ہے، جو اسبالِ ازار کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں، نیز دوسری حدیث میں اسبال ازار کرنے والوں کو زبردست پھٹکار لگائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان کے لیے نہ جنت حلال ہونے کا وعدہ ہے اورنہ جہنم حرام ہونے کی ضمانت، یعنی ایسا شخص جہنمی ہے، اس کا جنت میں داخلہ نہ ہوگا۔

کیا اگر تکبر نہ ہو تو ٹخنے سے نیچے کپڑے پہن سکتے ہیں؟
ٹخنوں سے نیچے کپڑے پہننے کی وبا اتنی عام ہوچکی ہے کہ عوام کاتو پوچھنا نہیں، بہت سے اہل علم بھی اس طرح کپڑے پہنتے ہیں اور جب ان کو ٹوکا جاتا ہے، تو وہ ان احادیث کا سہارا لیتے ہیں جن میں ”خیلاء“ یعنی تکبر کی قید مذکور ہے، نیز حضرت ابو بکر کی حدیث سے بھی یہ حضرات استدلال کرتے ہیں، تقریباً یہی حال ان حضرات کا بھی ہے جنہیں دین کی کچھ سوجھ بوجھ ہے اور وہ اپنی زندگی دین کے مطابق نہیں، بلکہ دین کو اپنی زندگی کے مطابق کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، اللہ ان سب کو دین کا صحیح فہم عطا کرے اور ان کی زندگیوں کو نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کی سنت کے مطابق کردے۔ (آمین)

اسبال ازار کی احادیث میں ”خیلاء “کی قید کی حقیقت
اسبال ازار کے سلسلے میں جتنی احادیث واردہوئی ہیں، انہیں دو خانوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
1... وہ احادیث جن میں ”خیلاء“ کی قید مذکور ہے ،یعنی اگر کوئی تکبر کی بناء پر اسبال ازار کرتا ہے، اپنے آپ کو بہتر اور دوسرے کو گھٹیا سمجھتا ہے، تو ایسے شخص کے لیے وہ وعیدیں ہیں جو احادیث میں ذکر کی گئی ہیں۔
2... وہ احادیث جن میں ”خیلاء“ کی قید نہیں، یعنی آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی وعیدوں کا ہر وہ شخص مصداق ہے، جو اسبال ازار کرتا ہے، چاہے اس میں تکبر ہو، چاہے تکبر نہ ہو۔

اسبال ازارکب حرام ہے؟
اب سوال یہ ہے کہ کیا پہلی قسم کی احادیث کے مطابق ”خیلاء“ یعنی تکبر کے ساتھ اسبال ازار ممنوع اور حرام ہے اور اسی پر حضور صلی الله علیہ وسلم کی وعیدیں ہیں، یا دوسری قسم کی احادیث کے مطابق مطلقاً اسبال ازار حرام ہے، چاہے تکبر ہو یا نہ ہو؟

”خیلاء “کی قید واقعی اوراتفاقی ہے
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں کفار ومشرکین تفاخر وتکبر اور احساس برتری کے مظاہرے کے لیے اپنے کپڑوں میں حد سے زیادہ اسراف کرتے تھے، جب وہ چلتے تو ان کی چادریں اور لنگیاں زمین پر گھسٹتی تھیں اور اسے وہ بڑائی کی علامت جانتے تھے، چناں چہ صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت عثمان بن عفان جب ایک سفیر کی حیثیت سے قریش کے پاس گئے، تو قریش نے حضرت عثمان کی لنگی ٹخنوں سے اوپر دیکھ کر کہاکہ آپ اسے نیچی کرلیں، کیوں کہ روٴسائے قریش اسے معیوب سمجھتے ہیں، تو آپ نے جواب دیا کہ: ”لا، ہکذا إزرةُ صاحبی صلی الله علیہ وسلم“ یعنی میں ایسا ہر گز نہیں کرسکتا، کیوں کہ میرے حبیب کی یہی سنت ہے۔(مصنف ابن ابی شیبة، کتاب المغازی، غزوة الحدیبیة، حدیث نمبر: 36852)

چناں چہ جن احادیث میں ”خیلاء“ کی قید ہے، ان میں اس لفظ کے ذریعہ مشرکین کے اسی تکبر کی ترجمانی کی گئی ہے اور ان کے متکبرانہ احوال کو اس لفظ ”خیلاء“ کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے، خلاصہ یہ ہے کہ یہ ”خیلاء“ کی قید مشرکین کی حالت اور واقعہ کو بیان کرنے کے لیے ہے، یعنی یہ قید صرف واقعی ہے، احترازی نہیں ہے؛ لہذا اب تکبر ہو ،یا نہ ہو ،دونوں صورتوں میں ٹخنوں سے نیچے کپڑا پہننا درست نہ ہوگا۔

کیا عرف وعادت کی وجہ سے اسبال ازار جائز ہے؟
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات عالیہ اور اتنی سخت وعیدوں کے بعد کسی ایمان کا دعویٰ کرنے والے کے لیے یہ گنجائش نہیں رہ جاتی کہ وہ بلا کسی عذر شدیدکے اسبال ازار کی جرأت کرسکے اور ادنیٰ بھی دینی غیرت رکھنے والا کوئی مسلمان حضور صلی الله علیہ وسلم کے فرمان عالی کے مقابلہ میں عرف وعادت کو ترجیح نہیں دے سکتا اور اس کا بہانہ نہیں بنا سکتا، آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے خوداس عمل سے پوری زندگی اجتناب فرمایا اور اپنے صحابہ کو اس سے منع فرمایا، حالاں کہ صحابہ کرام ،امت کی سب سے بہترین جماعت ہیں، اگر تکبر نہ ہونے کا کسی کو دعویٰ ہوسکتا ہے، تو وہ اسی مقدس جماعت کو زیب دیتا ہے، لہٰذا اگر کبر نہ ہونے کی بنا پر اسبال ازار جائز ہوتا، توحضور صلی الله علیہ وسلم اور تمام صحابہ کرام کے لیے جائز ہونا چاہیے تھا۔

اسبال ازار ”کبر“ کی وجہ سے ہی ہوتا ہے
عن جابر ․․․․ وإیاک وإسبال الإزار؛ فإنہ من المخیلة، وإن اللہ لا یحب المخیلة․

حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آپ اسبال ازار سے بچیں، کیوں کہ یہ تکبر کی وجہ سے ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ تکبر کو پسند نہیں فرماتے۔(ابوداوٴد، کتاب اللباس ،باب ما جاء فی اسبال الازار،حدیث نمبر: 4084)

تشریح… صحابہ  کی طہارت باطنی کے باوجود رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا اسبال ازار سے ان کو منع فرمانا ،اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ اسبال ازار کا یہ عمل ہی شریعت کے نزدیک قبیح اور مذموم ہے، چاہے کوئی یہ دعویٰ کرے کہ اس کے اندر کبر نہیں ہے، بعض احادیث کے اند ر”خیلاء“ یعنی کبر کی جو قید آئی ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو تکبراً ایسا کرے اس کے لیے وعید ہے اور جس میں تکبر نہیں ہے اس کے لیے اسبال ازار کی اجازت ہے،بلکہ اس لفظ کا مطلب یہ ہے کہ اسبال ازار کا سبب ہی کبر ہے، یعنی جن کے اندر کبر ہوتا ہے وہی یہ حرکت کرتے ہیں، اسی حدیث کی وجہ سے صاحب فتح الباری علامہ ابن حجر فرماتے ہیں:

”وحاصلہ أن الإسبال یستلزم جرّ الثوب، وجر الثوب یستلزم الخیلاء، ولو لم یقصد اللابس الخیلاء“ ․

یعنی اسبال ازار کپڑے گھسیٹنے کو مستلزم ہے اور کپڑا گھسیٹنا تکبر کو مستلزم ہے، چاہے پہننے والا تکبر کا ارادہ نہ کرے۔(فتح الباری 10/325،کتاب اللباس)

اسبالِ ازار مطلقا حرام
علماء کی ایک بڑی جماعت نے تکبر اور عدم تکبر کے درمیان فرق کیے بغیر اسبال ازار کو حرام قرار دیا ہے اور عدم تکبر کے دعوے کو تسلیم نہیں کیا ہے، بلکہ حضور صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات کے بعد اسبال ازار کرنے کو تکبر کی دلیل قرار دیا ہے۔( تفصیل کے لیے دیکھیں: فتح الباری 10/325،کتاب اللباس)

اسبال ازار کی حالت میں پڑھی گئی نماز کا شرعی حکم
بہت سے مسلمان جن تک اسبال ازار کے سلسلے میں حضور صلی الله علیہ وسلم کی وعیدیں نہیں پہنچی ہیں، وہ جس طرح نماز سے باہر اسبال ازار کرتے ہیں، اسی طرح نماز میں بھی یہ عمل کرتے ہیں اور کپڑا اٹھا کر ٹخنے نہیں کھولتے، اسی حالت میں نماز ادا کرتے ہیں، جب کہ اسبال ازار کے سلسلے میں رسول پاک صلی الله علیہ وسلم کی وعیدیں بہت ہی سخت ہیں، نیز رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ : ”لا یقبل صلاة مسبل“ یعنی اللہ تعالیٰ اسبال ازار کرنے والے کی نماز قبول نہیں فرماتے، تو اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اسبال ازار کی حالت میں جو نماز ادا کی گئی ہے، اس کا کیا حکم ہے؟ وہ نماز دوبارہ پڑھی جائے گی، یا مکروہ تحریمی ہوگی یا مکروہ تنزیہی؟

اسبالِ ازار کی حالت میں نماز مکروہ
جس اسبال ازار کی حرکت سے اللہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے اتنی سختی سے منع فرمایا ہے اور جس پر اتنی شدید وعیدیں سنائی ہیں، اسی حرکت کو نماز میں کرنا ،اللہ تعالیٰ کے سامنے اور اس کے دربار میں کرنا، کس درجہ قبیح، مذموم اور کتنا گھناوٴنا اور برا عمل ہوگا، اس کا فیصلہ ہر ایمان رکھنے والا دل کرسکتا ہے، اسی لیے علماء نے لکھا ہے کہ: اسبال ازار کے ساتھ جو نماز ادا کی جائے، وہ مکروہ ہوتی ہے۔

ہاں! اگر کوئی شرعی معذور ہے، تووہ اس سے مستثنیٰ ہے، اسی طرح اگر کسی کے بارے میں غالب گمان ہو کہ اس میں تکبر نہ ہوگا (اور اس کا دعویٰ اس زمانے میں کون کرسکتا ہے؟ اور اگر کوئی کرتا بھی ہے، تو یہ شیطانی دھوکہ ہے الا ماشاء اللہ)تو اس کی نماز اگر چہ اس درجہ مکروہ نہیں، لیکن فی الجملہ کراہت سے وہ بھی خالی نہیں ۔

وإطالة الذیل مکروہة عند أبي حنیفة والشافعي في الصلاة وغیرہا․ (مرقاة المفاتیح،باب الستر، الفصل الثانی 2/634، حدیث:761)

”امام ابو حنیفہ اور امام شافعی رحمہما اللہ کے نزدیک ازار کو ٹخنوں سے زیادہ لمبا کرنا نماز اور خارج نمازدونوں میں مکروہ ہے۔“

صادق المصدوق نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ اس مسئلہ میں بالکل صریح اور واضح ہیں کہ اسبال ازار علامت تکبر ہے، لہٰذا اس کے بعد تکبر نہ ہونے کا دعویٰ کرنا نفسانی اور شیطانی دھوکہ ہے، جو انسان کا کھلا دشمن ہے، جب صحابہ جیسی برگزیدہ اور مقدس جماعت کو اس سے گریز کرنے کا حکم دیا گیا، تو ہم کس شمار میں آتے ہیں؟ لہٰذا ہر مسلمان کو نماز کے اندر بھی اور نماز کے باہر بھی اسبال ازارسے پورے طور پر اجتناب کرنا چاہیے۔

نماز سے پہلے پینٹ وغیرہ کے پائینچے موڑنے کا حکم
اسبال ازار کے سلسلے میں جو احادیث اوپر آپ کے سامنے آئی ہیں، اسی طرح اسبال ازار کی حالت میں نماز کا جو حکم بیان کیا گیا ہے، اس کا تقاضاتویہ ہے کہ پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم کی حدیث سے محبت رکھنے والا ہر مومن اپنی پوری زندگی میں اس عمل سے بالکل گریز کرے،چناں چہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی انہی احادیث کے احترام میں ہمارے اکثر مسلمان بھائی نماز سے قبل پینٹ وغیرہ کے پائینچے موڑ لیتے ہیں؛ تاکہ ٹخنے کھل جائیں اور کم از کم نماز میں اس گناہ سے بچ سکیں اور ان کی نماز سنت کے مطابق ادا ہوجائے۔

کیا نماز سے قبل پائینچے موڑنا مکروہ ہے؟
تو اب سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا نماز سے پہلے پائینچے موڑنے کا یہ عمل درست ہے، اس طرح کرنے سے نماز میں کوئی کراہت تو نہیں آئے گی، کیوں کہ بعض حضرات پائینچے موڑنے کے عمل کو درست قرار نہیں دیتے اور وہ کہتے ہیں کہ اسبال ازار کی حالت میں ہی نماز ادا کی جائے؟

نماز سے قبل پائینچے موڑنا درست ہے
احادیث مبارکہ کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ہم کپڑے ایسے ہی بنوائیں جن میں خود بخود ٹخنے کھلے رہیں، پائینچے موڑنے کی ضرورت پیش نہ آئے، لیکن ہمارے اکثر نوجوان جو چست جینزیا دیگر پینٹ پہنتے ہیں، جن میں پائینچے موڑے بغیر ٹخنے کھولنے کی کوئی دوسری شکل نہیں ہوتی، تو اب ان کے سامنے دوہی صورت رہ جاتی ہے۔ اسی حالت میں (یعنی ٹخنے ڈھکے ڈھکے) نماز پڑھنا۔پائینچے موڑ کر نماز پڑھنا۔

پہلی صورت میں وہ مندرجہ بالا ان تمام احادیث کی خلاف ورزی کرنے والے ہوں گے، جن میں اس عمل کی قباحت بیان کی گئی ہے، لہٰذا ان کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ نماز سے قبل پائینچے موڑ لیں، تاکہ کم از کم نماز کی حالت میں اس گناہ سے بچ سکیں، خلاصہ یہ ہے کہ ٹخنوں سے نیچے کپڑا رکھنا حدیث کی خلاف ورزی ہے اور کم از کم نمازمیں پائینچے موڑ کر ٹخنوں کو کھلا رکھنا ضروری ہے۔ (جاری)

Flag Counter