Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شوال المکرم 1435ھ

ہ رسالہ

6 - 16
حضرت ابراہم علیہ السلام پر آزمائشیں

استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
	
ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)

مذکورہ آیت سے استدلال
اس آیت ﴿وَإِذِ ابْتَلَی إِبْرَاہِیْمَ…﴾ کی تفسیر میں شیعہ حضرات نے اپنے خود ساختہ نظریہ امامت کو تقویت دینے کی بہت کوشش کی ہے۔چناں چہ ان کے امام اعظم شیخ حلی نے منہاج الکرامة میں اس آیت کو اپنے استدلال میں پیش کیا ہے۔شیعہ حضرات کہتے ہیں کہ اس آیت میں نظریہٴ امامت کا ثبوت ہے اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ امامت کا مرتبہ نبوّت سے بڑھ کر ہے اور ”امام“ بھی معصوم ہوتا ہے، کیوں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نبوّت مل چکی تھی،اس کے بعد الله تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تمہیں امامت بھی دینا چاہتا ہوں، اس سے معلوم ہوا کہ امامت کا مرتبہ نبوّت سے زیادہ ہے۔ پھر جب ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کے لیے بھی امامت کی درخواست کی تو الله تعالیٰ نے فرمایا کہ ظالم کو یہ مرتبہ نہیں ملے گا ، یعنی غیر ظالم کو ملے گا اور غیر ظالم اسی کو کہتے ہیں جس نے کبھی گناہ نہ کیا ہو او راسی کو معصوم بھی کہتے ہیں ۔

شیعہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس آیت سے حضرات خلفائے ثلاثہ رضی الله عنہم کی خلافت کا ابطال ہوتا ہے، کیوں کہ وہ لوگ معاذ الله ظالم تھے اور ظالم ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے قبل از اسلام بت پرستی کی تھی۔ نیز انہوں نے حق خلافت ،جو کہ حضرت علی رضی الله عنہ کا حق تھا، غصب کرکے ظلم کا ارتکاب کیا ہے۔

جواب
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ یہ خطاب حضرت ابرہیم علیہ السلام کو نبوّت کے بعد کیا گیا تھا،امانت سے نبوّت کے سوا کسی اور مرتبہ کا مراد لینا محض بے دلیل ہے۔ مفسرین کے نزدیک امامت سے نبوت مراد ہے۔

آیت کا صاف مطلب یہ ہے کہ جب ابرہیم علیہ السلام امتحان خداوندی میں کام یاب ہوئے تو خدا نے ان سے فرمایا کہ ہم تم کو مرتبہ نبوّت دینا چاہتے ہیں۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ ازالة الخفاء میں اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
”اگر چہ امام کے معنیٰ پیشوا کے ہیں نبی ہو یا خلیفہ،لیکن اس جگہ بلاشک نبی مراد ہے،آیت کا مطلب یہ ہے کہ خدائے تبارک و تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان لوگوں کے لیے نبی بنایا اور لوگوں کی طرف مبعوث کیا، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سوال کیا کہ اے خدا! میری اولاد میں سے بھی کچھ لوگوں کو نبی بنا،حق سبحانہ نے فرمایا کہ میری وحی یا میری نبوّت ظالموں کو نہیں مل سکتی۔“ (ازالة الخفا عن خلافة الخلفاء ص35)۔

اور اگر بفرض محال یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ خطاب نبوّت ملنے کے بعد کا ہے تو امامت سے مراد یہ ہوگی کہ حضرت ابراہم علیہ السلام کو سلطنت وبادشاہت کا وعدہ اس آیت میں دیا گیا،چناں چہ حق تعالیٰ نے ملک فلسطین کی حکومت ان کو بھی عطا فرمائی۔

”معالم التنزیل“میں ابراہیم علیہ السلام کی امامت کا ایک مطلب یہ بھی لکھا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے بعد جتنے انبیاء ہوئے ان کی ذریت سے ہوئے اور ان کی ملت کے تابع رہے، یہاں تک کہ خاتم الانبیاء مبعوث ہوئے تو وہ بھی ملت ابراہیمی پر قائم رہے۔

بہر حال شیعوں کی اصطلاحی ”امامت “اس آیت سے کسی طرح ثابت نہیں ہوتی اور شیعوں کا یہ کہنا کہ غیر ظالم اس کو کہتے ہیں جس نے کبھی کوئی گناہ نہ کیا ہو بالکل غلط اور شریعت الہٰیہ کے قطعاً خلاف ہے۔

دین اسلام میں قطعی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ گناہ کے بعد توبہ کرنے سے وہ بالکل معاف ہو جاتا ہے اور توبہ کرنے والا ایسا ہو جاتا ہے گویا اس نے گناہ کیا ہی نہیں ،بلکہ قرآن مجید میں یہاں تک فرمایا گیا ہے کہ گناہ کے بعد توبہ کرنے سے وہ گنا ہ نیکی میں بدل جاتا ہے چناں چہ فرمان بار ی تعالیٰ ہے

﴿إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلاً صَالِحاً فَأُوْلَئِکَ یُبَدِّلُ اللَّہُ سَیِّئَاتِہِمْ حَسَنَاتٍ وَکَانَ اللَّہُ غَفُوراً رَّحِیْماً ﴾․(فرقان :70)
ترجمہ:(مگر جو توبہ کر ے اور ایما ن لائے اور نیک عمل کرے تو اللہ ان کی برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل کردے گا)۔

لہٰذا شیعوں کا اپنے استدلال میں اس آیت کو پیش کرنا محض مغالطہ دہی ہے۔ نیز حضرت علی رضی الله عنہ کا خلافت بلافصل کا استحقاق کسی نقلی و عقلی دلیل سے ثابت نہیں ہے۔ جس کی بنا پر خلفائے ثلاثہ پر ظلم کا الزام عائد ہو۔ اگر یہ حضرت علی رضی الله عنہ کا حق ہوتا تو حضرت علی رضی الله عنہ ان کے ہاتھوں پر بیعت خلافت کرکے ان کے مشیر ووزیر ہر گز نہ بنتے، شیر خدا تقیہ باز نہیں ہو سکتا ۔اگر شیعہ حضرات کو اصرار ہے کہ حضرت علی نے ان کی خلافت بطور تقیہ تسلیم کی تھی تو ان کو بھی اپنے امام کی پیروی میں خلفاء ثلاثہ کی خلافت تقیةً تسلیم کرکے خاموش رہنا چاہیے۔

لفط”مثابة“کی تحقیق
﴿ وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَیْْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْناً﴾․ترجمہ:(اور جب مقرر کیا ہم نے خانہ کعبہ کو اجتماع کی جگہ، لوگوں کے واسطے اور جگہ امن کی)
یعنی اس نعمت کو یاد کر و کہ ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کا معبد اور گہوارہ، امن بنادیا۔

”مثابة“ثاب یثوب سے مشتق ہے ،جس کے معنی ہیں لوٹنے کی جگہ۔اس صورت میں خانہ کعبہ کو مثابة کہنے کی وجہ یہی ہے کہ یہاں لوگ بار بار لوٹ کر آتے ہیں، جو ایک بار اس کی زیارت کرلے وہ بار بار اس کی زیارت کرنے کا مشتاق ہوتا ہے۔یا یہ لفظ”ثواب“سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں”ثواب کی جگہ“،اس صورت میں تو وجہ تسمیہ صاف ظاہر ہے۔بہر حال لفظ”مثابة“مفہوم کے اعتبار سے چوں کہ دونوں معانی کو جامع ہے لہٰذا تشریح میں یہی لفظ اختیار کیا گیا ہے۔(روح المعانی،125)

تاریخ تعمیر کعبہ
جب حضرت اسماعیل علیہ السلام شیر خوار بچے تھے، ابراہیم علیہ السلام کو حکم ملا اسماعیل اور ھاجرہ علیہماالسلام کو خدا کے مقرر کردہ علاقے میں چھوڑ آئیں۔چناں چہ ابراہیم علیہ السلام دونوں کو ساتھ لے کر تعمیل حکم میں چل نکلے،ابراہیم علیہ السلام جب بھی کسی سر سبز وادی میں پہنچتے ان کے دل میں یہ امید ہوتی کہ شاید انہیں یہیں بسانے کا حکم ہو جائے، لیکن اللہ کی طرف سے وہاں ٹھہرانے کا حکم نہ ہوتا ،بالآخر چلتے چلتے جب مکہ پہنچے، جہاں پانی وگھاس اورشادابی کا نشان دور تک نہ ملتا تھا تو حکم ہوا کہ اپنی زوجہ اور بچے کو یہیں چھوڑ دو۔جناب خلیل الله اپنی زوجہ او ربیٹے کو محض خدا کے بھروسے پر یہیں چھوڑ کر واپس شام روانہ ہو گئے۔ان سے جدا ہونے کے بعد کچھ فاصلے پر حضرت ابراہیم نے دعا فرمائی کہ اے الله! میں اولاد کو تیرے گھر کے پاس بے آب وگیاہ وادی میں صرف تیری خوش نودی کی خاطر چھوڑ آیا ہوں، پس اے الله! لوگوں کے دل کو ان کی طرف مائل فرمااو رانہیں مختلف ثمرات وفوائد سے مالا مال فرما۔ادھرجب حضرت ہاجرہ رضی الله عنہا کے پاس توشہ وغیرہ ختم ہو گیا تو اسماعیل علیہ السلام شدت پیاس سے بلبلانے لگے، حضرت ہاجرہ علیہا السلام پانی کی تلاش میں کبھی صفا پر دوڑتیں او رکبھی صفا سے مروہ پہاڑی کی طرف دوڑتیں، اس طرح کل سات چکر کیے، لیکن پانی کا کہیں نام ونشان نہ تھا۔ بالآخر رحمت الہٰی جوش میں آئی اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے قریب قدرت خداوندی سے چشمہٴ آب ظہور پذیر ہوا، جسے آج زمزم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ الله تعالیٰ کو حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی ادا اس قدرمحبوب ہوئی کہ تاقیامت حجاج کے لیے اس سعی کو لازم فرما دیا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام وقتاً فوقتاً اپنی زوجہ اور بیٹے سے ملنے کے لیے یہاں آتے رہتے تھے۔

اسی اثنا میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم ہوا کہ مکہ کی اس بستی میں خدا کاگھر تعمیر کیا جائے۔ چناں چہ خلیل الله علیہ السلام نے اپنے باسعادت فرزند کے ساتھ مل کر کعبہ کی تعمیر مکمل کی، کعبہ کی تعمیر کے بارے میں قرآن کریم میں صرف اسی قدر تذکرہ ملتا ہے۔

لیکن مفسرین نے بعض روایات کی بنا پر لکھا ہے کہ بیت الله کی اولین تعمیر حضرت آدم علیہ السلام نے کی تھی، پھر طوفان نوح میں وہ عمارت مکمل ختم ہو گئی، بعدازاں ابراہیم علیہ السلام نے اس کی ازسر نو تعمیر کی، بہرحال کچھ بھی ہو یہ بات ثابت ہے کہ روئے زمین میں الله تعالیٰ کی عبادت کے لیے اولین گھر جو تعمیر کیا گیا وہ خانہ کعبہ ہی ہے۔

اور قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاً یہود کو بھی اسی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔بہرحال جب حضرت ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کی تعمیر کردہ عمارت خستہ حال ہو گئی تو آپ صلی الله علیہ وسلم کے جدا مجد قصی بن کلاب کے زمانے میں بیت الله کی دوبارہ تعمیر کی گئی۔پھرجب یہ عمارت بھی خستہ حال ہو گئی تو قریش نے کعبة الله کی از سر نو تعمیر کا بیڑہ اٹھایا، اس وقت آپ علیہ السلام کی عمر مبارک تقریباً پینتیس بر س تھی۔قریش نے اس بات کا خوب اہتمام کیا کہ کعبة الله کی تعمیر میں صرف حلال مال صرف کیا جائے، لیکن حلال مال کم پڑ گیا، چناں چہ قریش نے کعبہ کی عمارت سے حطیم کی طرف سات ہاتھ کا حصہ نکال کر عمارتِ کعبہ مختصر کر دی، تاکہ کم مال سے کعبہ کی عمارت مکمل ہو سکے، اس موقع پر حجر اسود کی تنصیب کا جھگڑا بھی کھڑا ہوا، جسے آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی خداداد بصیرت وکمال فراست سے روک لیا۔بعد ازاں حضور صلی الله علیہ وسلم کی خواہش رہی کہ کعبة الله کو اس کی اصل بنیادوں (ابراہیم علیہ السلام کی مقرر کردہ بنیادیں جن میں حطیم بھی کعبہ میں شامل تھا) پر دوبارہ تعمیر کر دیا جائے، لیکن ابتدائے اسلام میں اس کام کے لیے ساز گار ماحول میسر نہ ہونے کی وجہ سے آپ نے اجتناب فرمایا۔پھر جب عبدالله بن زبیر رضی الله عنہ کی خلافت قائم ہوئی تو آپ نے کعبہ کی عمارت کو حضور کی خواہش کے مطابق ابراہیمی بنیادوں پر تعمیر کیا، لیکن ان کی شہادت کے بعد عبدالملک بن مروان نے اپنے گورنر حجاج بن یوسف کو حکم دیا کہ حطیم کو خانہٴ کعبہ سے باہر کر دیا جائے، چناں چہ حجاج نے کعبہ کو دوبارہ قریش کی بنیادوں پر تعمیر کر دیا۔

پھر خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے دور حکومت میں کعبة الله کو دوبارہ ابراہیمی بنیادوں پر تعمیر کرنا چاہا، لیکن امام مالک رحمہ الله نے ان سے ایسانہ کرنے کی استدعا کی کہ ہر آنے والا حاکم کعبہ کو کھیل بنا لے گا۔ چناں چہ ہارون الرشید نے یہ ارادہ ترک کر دیا۔اس کے بعد سلطان مراد خان ترک کے زمانے میں تعمیر بیت الله ہوئی اور آج تک وہی عمارت قائم ہے، البتہ حرم کی توسیع وقتاً فوقتاً ہوتی رہی ہے، لیکن عمارت کعبہ ترکوں ہی کی بنی ہوئی ہے۔ (ماخوذ از تفسیر ماجدی، البقرة:126)

مقام ابراہیم علیہ السلام
﴿ وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاہِیْمَ مُصَلًّی﴾( اور بناؤ ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کی جگہ)

مقام ابراہیم سے وہ پتھر مراد تھے جن پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کھڑے ہو کر کعبہ کی تعمیر کی تھی ،حضرت اسماعیل علیہ السلام آپ کو گارا اوراینٹیں تھماتے جاتے تھے اور آپ اس پتھر پر کھڑے ہو کر تعمیر کرتے تھے ، اس پتھر پر ابراہیم علیہ السلام کے پاؤں کے نشانات موجود ہیں۔

مسئلہ… طواف کے بعد اس مقام پر دو رکعت پڑھنا حنفیہ اورمالکیہ کے ہاں واجب ہے اور شوافع کے ہاں سنت ہے۔
﴿وَعَہِدْنَا إِلَی إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ أَن طَہِّرَا بَیْْتِیَ لِلطَّائِفِیْنَ وَالْعَاکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُودِ﴾․
ترجمہ:(اور حکم کیا ہم نے اسماعیل اورابراہیم کو کہ پاک کر رکھو میرے گھر کو واسطے طواف کرنے والوں کے اور اعتکاف کرنے والوں کے اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے۔)

طہارت ظاہری طہارت(نجاست و گندگی سے پاکیزگی)اور باطنی طہارت (شرک و کفر سے پاکیزگی) دونوں ہی مراد ہیں۔چوں کہ خانہ کعبہ ایک معبد ہے، اس لیے ضروری ہے کہ یہاں جو لوگ آئیں گندگی و میل کچیل کو دیکھ کر طبعی طور پرمتنفرنہ ہوں اور خالص خدا کی عبادت کے لیے شرک و کفر سے حفاظت بھی انتہائی ضروری ہے۔

حضرت اسماعیل علیہ السلام کا تعارف
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دوسری بیوی حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا سے پیدا ہوئے ،جائے پیدائش ملک مصر ہے۔بچپن ہی میں آپ کے والد ماجد آپ اور آپ کی والدہ کو حکم خداوندی کے مطابق مکہ مکرمہ کی ویران وادی میں چھوڑ آئے تھے،چاہ زمزم کی نمودار ی کے بعد اس علاقے میں آہستہ آہستہ آبادی ہونا شروع ہوگئی تھی بعد ازاں قبیلہ بنو جرہم یمن سے یہاں آکرآباد ہوگیا۔بڑے ہوکر اسی قبیلے میں شادی فرمائی۔شکارذریعہ معاش تھا۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام وقتاً فوقتاً اپنے بیوی بچے کی خیر خبر لینے کے لیے تشریف لاتے رہتے تھے۔ایک بارجب حضرت ابرہیم علیہ السلام آپ سے ملاقات کے لیے گھر تشریف لائے تو آپ شکار پر تھے،ابرہیم علیہ السلام نے آپ کی بیوی سے حال و احوال دریافت فرمائے تو جواب میں بیوی نے تنگی معاش کا ذکر کیا، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ جب اسماعیل علیہ السلام گھر تشریف لائیں تو انھیں میرا سلام کہنا اور یہ پیغام دینا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ تبدیل کرلیں۔

جب اسماعیل علیہ السلام گھر تشریف لائے تو بیوی نے سارا ماجرا کہہ سنایا، جواب میں آپ نے فرمایا کہ یہ میرے والد تھے، تجھے چھوڑنے کا پیغام دے گئے ہیں، چناں چہ آپ نے اس بیوی کو چھوڑ دیا اور قبیلہ بنو جرہم ہی کی دوسری عورت سے شادی فرمائی۔اس کا نام سیدہ بنت مضاض بن عمرو الجرہمی تھا۔ تاریخ الرسل والملوک : 1/189،ذکر خبراولاد اسماعیل بن ابراہیم)۔

حضرت اسماعیل علیہ السلام کے کل بارہ بیٹے ہوئے، نابت بن اسماعیل،قیدر بن اسماعیل ،ادبیل بن اسماعیل ،مبشابن اسماعیل ،مسمع بن اسماعیل،دوما بن اسماعیل ،ماس بن اسماعیل،ادد بن اسماعیل وطور بن اسماعیل، نفیس بن اسماعیل ،طمابن اسماعیل،قیدمان بن اسماعیل۔یہ سب بیٹے آپ کی دوسری بیوی سیدہ بنت مضاض بن عمرو الجرھمی سے پیدا ہوئے۔آپ کی نسل ان میں دو بیٹوں نابت اور قیدر سے پھیلی۔

اللہ نے حضرت اسماعیل کو نبوت سے سرفراز فرما کر عمالیق اور قبائل یمن کی طرف مبعوث فرمایا تھا۔

آپ نے کل130یا137 سال عمر پائی اور مکہ میں اپنی والدہ ہاجرہ علیہاالسلام کی قبر کے پاس دفن کیے گئے۔(تاریخ الرسل والملوک :1/120)۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مکہ مکرمہ کے لیے دعائیں
﴿وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ ہََذَا بَلَداً آمِناً…﴾ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کی آبادی کے لیے دو چیزیں مانگی 1..  امن   2.. ذریعہ معاش اور اسباب رزق کی فراہمی کسی شہر کی آبادی میں بنیادی کردار انہیں دو چیزوں کا ہوتا ہے۔

چوں کہ اس سے قبل جب اپنی اولاد کے لیے” امامت“ کی دعا فرمائی تو بارگاہ الٰہی سے یہ جواب صادر ہوا تھاکہ میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔لہٰذا اس دعا میں اپنی اولاد کے لیے دنیاوی منافع طلب کرتے ہوئے تقاضائے ادب کو ملحوظ رکھ کر فرمایا۔ یہ منافع صرف اہل ایمان ہی کو عنایت فرمائیے، لیکن بارگاہ ایزدی سے جواب صادر ہوا کہ یہ دنیاوی منافع تو کفار و ظالمین کو بھی ملیں گے ،کیوں کہ حیات دنیوی متاع چند روزہ ہے، لیکن آخرت (حیات دائمی)میں ان کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے۔جو کہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔

چناں چہ اسی دعا کی قبولیت کا نتیجہ ہے کہ آج خداوند کریم نے اہل حرم کو ہر قسم کے میوہ جات سے نوازا ہے، مشاہدہ کرنے والوں کے لیے یہ بات بالکل عیاں ہے۔اور اسی طرح خداوندکریم نے حرم کو جائے امن بھی بنادیا،چناں چہ زمانہ جاہلیت میں بھی عربوں کے ہاتھ میں ملت ابراہیمی کے جو کچھ آثار باقی رہ گئے تھے، ان میں یہ بھی تھا کہ حرم میں اپنے باپ اور بھائی کا قاتل بھی کسی کو ملتا تو انتقام نہیں لیتے تھے اور عام جنگ و قتال کو بھی حرم میں حرام سمجھتے تھے، شریعت اسلام میں بھی یہ حکم باقی رکھا گیا ،فتح مکہ کے وقت صرف چند گھنٹوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے ارض حرم میں قتال کی اجازت ملی تھی،مگر اسی وقت پھر ہمیشہ کے لیے حرام کر دیا گیااور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے خطبہ میں ہی اس کا اعلان فرمادیا تھا۔

حرم میں مجرم پرحدّاور قصاص جاری کرنے کا حکم
اگر کوئی شخص حرم کے اندر ایسا جرم کرے جس کی بنا پر اسلامی شریعت کی رو سے اس پر حد یا قصاص(سزا یا بدلہٴ جرم) عائد ہوتا ہو تو حرم کی وجہ سے وہ مامون نہیں ہو گا،بلکہ پوری امت کا اجماع ہے کہ اس پر حدیا قصاص جاری کیا جائے گا۔(رد المحتار علی الدرالمختار: کتاب الجنایات، 3/625، دارالفکر بیروت)

لیکن اگر کوئی شخص باہر جر م کر کے حرم میں پناہ لے لے تو اس پر حد جاری کرنے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔بعض فقہاء اس حالت میں اس پر حد جاری کرنے کے قائل ہیں۔امام ابو حنیفہ کے نزدیک اسے حرم سے باہر نکلنے پر مجبور کیا جائے گا ،نکلنے کے بعد اس پر حد جاری کی جائے گی۔ ( ایضاً حوالہٴ بالا)

﴿ وَإِذْ یَرْفَعُ إِبْرَاہِیْمُ الْقَوَاعِد…﴾
قواعد اساس اور بنیاد کو کہا جاتا ہے۔(مفردات الفاظ الکریم،کتاب القاف،بحث :قعد)مذکورہ آیات میں حضرت ابراہیم و اسماعیل علیھما السلام نے جو دعائیں مانگی تھیں ان کا تذکرہ ہے۔پہلی دعا تو اپنے اس عمل کی قبولیت کے لیے مانگی کہ اے ہمارے رب! ہمارا یہ عمل قبول فرما۔

﴿رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْْنِ لَکَ…﴾ اس دعا میں دو چیزیں طلب فرمائیں کہ ایک یہ ہم دونوں ( یعنی حضرت ابراہیم او رحضرت اسماعیل علیہما السلام) کو اپنا فرماں بردار بنائے رکھ، دوسری یہ کہ ہماری اولاد میں سے ایک فرماں بردار جماعت پیدا فرمائیے۔

یہود و نصاریٰ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مذکورہ دعا کا مصداق ہماری امت اور نبی ہیں،کیوں کہ بنی اسرائیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فرزند اسحق علیہ السلام کی اولاد سے ہیں اور حضرت موسیٰ وعیسیٰ علیہماالسلام بھی اسی قوم سے ہیں،لہٰذا حضرت ابراہیم کی دعا امت بنی اسرائیل کی صورت میں قبول ہوئی۔

لیکن مذکورہ دعا میں قابل غور قرینہ یہ ہے کہ بوقت دعا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ صرف ان کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام موجود ہیں اور دعا کے الفاظ یہ ہیں”اے ہمارے رب! ہماری ذریت میں سے…“ لہٰذاس دعا کا مصداق بھی صرف وہی امت اور نبی ہوگا جو ان دونوں کی ذریت سے ہو۔ سرور دو عالم اور امّت محمدیہ ہی اس دعا کا مصداق ہے کیوں کہ یہی وہ نبی ہیں جو حضرت اسماعیل ں کی اولاد سے ہیں،اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں اپنے والد ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا ظہورہوں۔(مسند احمد:حدیث العرباض بن ساریة: برقم:1719)۔ اور اسی امت کے اولین افراد(قریش وغیرہ)بنی اسماعیل میں سے ہیں، جن کے ذریعے دین اسلام عالم میں پہنچا۔

﴿رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِم…﴾ اس آیت میں نبی کے چار کام بیان کیے گئے ہیں 1.. آیات کی تلاوت کرکے امت کو اس کے الفاظ سنانا۔  2.. کتاب الله کی تعلیم، یعنی قرآن کریم کے الفاظ ومعانی محفوظ بنانے کے لیے اس کی تعلیم دینا۔ قرآن کریم کا سبق دینا، ناظرہ ہو یا حفظ، اس کی تفسیر کرنا، سب تعلیم کتاب کا حصہ ہے ۔ 3.. حکمت کی تعلیم، حکمت لغت میں دانائی کی بات کو کہتے ہیں ۔ اس لیے بعض حضرات نے اس سے دین کی سمجھ بوجھ، مراد لی ہے اور بعض حضرات نے سنت مراد لی ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن للقرطبی: البقرہ تحت آیة رقم:129) اور یہی راجح ہے. 4.. تزکیہ یعنی پاک کرنا، یعنی رزائل تکبر، بغض، حسد، عناد، حب جاہ، حب مال، نفاق وغیرہ سے پاک کرنا اورخصائل حمیدہ عاجزی، انکساری، صفائی قلب، سخاوت ، شجاعت، ایثار وقربانی کے اوصاف سے متصف کرنا، یہی حاصل تصوف ہے اور تصوف مامورات کو بجالانے اورممنوعات سے دور رہنے کا نام ہے۔ (جاری)

Flag Counter