Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شوال المکرم 1435ھ

ہ رسالہ

15 - 16
نرم خوئی اختیار کیجیے!

محترم یرید احمد نعمانی
	
زندگی میں ایسے کئی افراد ملتے ہیں، جو مزاج کی بے جا سختی کے باعث ہمیں بالکل نہیں بھاتے۔ ایسے درشت مزاج لوگوں سے ہر کوئی دور رہنے کی کوشش کرتا ہے، کیوں کہ ایک آسان اور سیدھا سادھا معاملہ صرف ان کی طبیعت میں موجود شدت کی وجہ سے الجھاؤ اور پیچیدگی کا شکار ہوجاتا ہے۔بعض مرتبہ خود ہمیں ایسی صورت حال سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ جس میں ہم جذبات سے مغلوب ہوکر ایسا پہلو اختیار کرلیتے ہیں، جو نتیجہ خیز اور کار گر نہیں ہوتا، بلکہ معاملے کو مزید گھمبیر بنادیتا ہے۔

اسلام دین فطرت ہے۔ یہ زندگی کے ہر ہر شعبے میں ہماری راہ نمائی کرتا ہے۔ یہ اسلامی تعلیمات کا لازوال حسن ہے کہ اس کے ہر ہر حکم میں اعتدال و توسط کار فرماہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو نرم خوئی اور نرم مزاجی کی طرف جتنی اہمیت کے ساتھ متوجہ فرمایا ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام سراپا رحمت ہی رحمت ہے۔ افسوس آج مغرب کے منھ زور پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر بہت سے مسلمان، اپنی تہذیب و ثقافت اور دینی اقدار و روایات کو نظر انداز کرچکے ہیں۔ شیطانی ذرائع ابلاغ پر پیش کی جانے والی دجالی تہذیب کو ترقی کا اعلیٰ ترین معیار خیال کرکے، خود احساس کمتری کا شکار ہیں۔ ایسے لوگ گھر کے رہتے ہیں نہ گھاٹ کے۔

زیر نظر تحریر میں احادیث مبارکہ کی روشنی میں اس بات کو سمجھنا مقصود ہے کہ اسلام انسانی مزاج، رویے اور اخلاق کی کیسی عمدہ تربیت کرتا ہے؟ دین مبین کس طرح انسان کو مہذب، شائستہ اور بلند اطوار کا مالک بناتا ہے؟ خوش اخلاقی کا حقیقی معیار کیا ہے؟ اگر بداطواری اور مزاج کی تیزی سے انسان عندالناس نامقبول بنتا ہے تو نرمی، آسانی اور مہر و محبت کو اپنا کر عنداللہ محبوبیت ومقبولیت کے کون سے مراتب پاتا ہے؟

چناں چہ حضرت عبداللہ بن مغّفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”حقیقت یہ ہے کہ اللہ بہت مہربان ہیں اور مہربانی کو پسند کرتے ہیں۔ اور (لوگوں کے ساتھ رافت والفت کا معاملہ کرنے پر) جو کچھ عطا فرماتے ہیں ،وہ سختی اور تشدد پر نہیں دیتے۔“ (سنن دارمی: حدیث: 2849)

حضرات محدثین کرام رحمہم اللہ مذکورہ حدیث مبارکہ کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ اللہ رب العالمین اپنے بندوں کے ہر ہر معاملہ سے بخوبی آگاہ ہیں۔ وہ اپنے بندوں کے لیے نرمی و سہولت چاہتے ہیں ۔(اسی لیے) انہیں اس بات کا حکم فرماتے ہیں، جس کی بندے طاقت و وسعت رکھتے ہیں۔ (اسی طرح) وہ اپنے بندوں سے بھی اس نرمی، خوش مزاجی کو(دیکھنا) پسند فرماتے ہیں کہ اس کے بندے باہمی معاملات میں بجائے سختی و تشدد کے نرمی و آسانی کوترجیح دیں۔ (حاشیہ ابو داوٴد بحوالہ لمعات:314)

اسی طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بے شک! اللہ تعالیٰ تمام معاملات میں نرمی کو پسند فرماتے ہیں۔“ (سنن دارمی)

مقدام بن شریح رحمہ اللہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے آپ علیہ السلام (کی اس عادت شریفہ کے متعلق جو شہر سے باہر) گاؤں دیہات میں جانے کی تھی، سوال کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب میں بتایا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (فلاں) آبشار کی طرف نکلا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ اسی طرح آپ علیہ السلام نے جانے کا ارادہ فرمایا اور میری جانب صدقہ کے اونٹوں میں سے ایک اونٹنی بھیجی، جس پر اب تک کسی نے سواری نہیں کی تھی اور یہ ارشاد فرمایا: ”اے عائشہ! نرمی کو اختیار کرنا، کیوں کہ نرمی ہر چیز کو خوب صورت بنادیتی ہے اور جس چیز سے نرمی و آسانی نکل جائے وہ بدنما ہوجاتی ہے۔“ (ابو داوٴد: حدیث: 4174)

حضرت جریر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:” جسے نرمی سے محروم کردیا گیا وہ ہر طرح کی خیر و بھلائی سے محروم کردیا گیا۔“ (ابو داوٴد: حدیث :4175)

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ہر چیز میں توقف اور غور و فکر (سے کام لیا) کرو، سوائے آخرت کے اعمال کے“ (کیوں کہ بھلائیوں میں تاخیر اور ٹال مٹول بہت سی آفتوں کا باعث ہے)۔ (ابو داوٴد: حدیث :4176)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے۔ فرماتی ہیں: ”یہود کی ایک جماعت نے آپ علیہ السلام کے پاس آنے کی اجازت چاہی اور کہا: ”السام علیکم“ (معاذ اللہ! آپ پر موت طاری ہو) میں نے کہا: ”بل علیکم السام واللعنة“ (نہیں الٹا تم لوگوں پر خدا کی پھٹکار اور موت ہو) جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے عائشہ! بلاشبہ اللہ ہر بات میں نرمی کو پسند فرماتے ہیں“ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: یارسول اللہ! کیا آپ نے سنا نہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں؟ آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا (میں نے سن لیا اور اس کے جواب میں صرف اتنا کہا) ”وعلیکم“ (یعنی تم پر بھی)۔ (مسلم: حدیث: 4027)

امام نووی رحمہ اللہ حدیث مذکورہ کی تشریح میں فرماتے ہیں :” یہ واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم اخلاق اور کمال بردباری کا ایک مظہر ہے۔ اور اس میں امت کے لیے یہ سبق مضمر ہے کہ جب تک سختی کا برتاؤ کرنے کی نوبت نہ آئے تو صبر و تحمل اور نرم خوئی کے ساتھ لوگوں سے پیش آیا جائے۔“

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کی روایت ہے۔ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جسے خوش مزاجی میں سے اس کا حصہ دیا گیا اسے گویا بھلائی اور نیکی میں سے اس کا حصہ دے دیا گیا۔ اور جسے محروم کردیا گیا وہ بھلائی کے اپنے حصہ سے محروم کردیا گیا۔“ (ترمذی:حدیث :1936)

موطا مالک میں خالد بن معدان رضی اللہ عنہ کی طویل روایت میں ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ مہربان ہیں اور مہربانی کو پسند فرماتے ہیں۔ اس (نیک خصلت) پر راضی ہوتے ہیں اور اس نرم خوئی پر جو مدد فرماتے ہیں وہ سختی پر نہیں فرماتے ۔ (حدیث: 1551)

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی ”الصحیح“میں ایک باب یوں قائم فرمایا ہے: ”الرفق فی الامر کلہ“ (یعنی ہر معاملہ میں نرمی اور آسانی پیدا کرنا)، اس کے تحت حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث مبارکہ کو ذکر کیا ہے۔جس میں ایک اعرابی کے واقعہ کا ذکر ہے ،جس نے مسجدنبوی علی صاحبہ الصلوٰة والسلام میں پیشاب کردیا تو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسے روکنے کے لیے کھڑے ہوئے ۔(یہ دیکھ کر) جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اس کا پیشاب مت روکو“ اس کے بعد آپ علیہ السلام نے ایک ڈول پانی کا منگوایا اور اس پر بہادیا۔ (حدیث :5566)

حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری دامت برکاتہم درج بالا احادیث مبارکہ کی اہمیت و ضرورت پر یوں روشنی ڈالتے ہیں: ”نرمی اور سختی بہت وسیع ہے۔ اپنے گھر والوں سے، بیوی بچوں سے، غریب و قریب سے، پڑوسیوں اور شاگردوں سے، حاکموں اور افسروں سے، سب سے اس کا تعلق ہے۔ آدمی کو زندگی میں جن جن سے واسطہ پڑتا ہے ان سب کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرنا چاہیے۔یہ بات خود اس کے لیے بھی باعث رحمت ہے اور دوسروں کے لیے بھی سکون کا سبب ہے۔ نرمی کرنے سے باہم محبت و مودت پیدا ہوتی ہے۔ اکرام واحترام اور خیر خواہی کے جذبات ابھرتے ہیں ۔ سخت رویہ اختیار کرنے سے آپس میں بغض و عداوت پیدا ہوتی ہے۔ حسد و بدخواہی اور جنگ وجدال کے جذبات ابھرتے ہیں۔“ (تحفة الالمعی:345/5)

اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنی میں دین پر عمل کرنے والا بنائے۔ آمین !

Flag Counter