Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شوال المکرم 1435ھ

ہ رسالہ

4 - 16
حقیقی بر کا ت نبو ت او ر ا سبا ب نصرت و ہزیمت
غزوہ بدر، غزوہ اُحُدا ورحُنَین کے پس منظر میں

مولانا محمد حذیفہ وستانوی

اللہ ر ب العز ت نے قر آ ن کر یم میں فر مایا : ﴿قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللّٰہَ فَا تَّبِعُوْ نِی یُحْبِبْکُمُ اللّٰہ﴾․(آل عمر ا ن : 31)
”اگر تم اللہ سے محبت کر تے ہو تو میر ی پیرو ی کر و، اللہ تم سے محبت کر نے لگے گا ۔ “

خو د سر کا ر دو عا لم صلی اللہ علیہ وسلم کا ار شا د مبار ک ہے ”والذی نفسی بیدہ لا یوٴمن احدکم حتی اکو ن احب الیہ من والدہ وولدہ․“ ”اس ذا ت کی قسم جس کے قبضہ قد رت میں میر ی جا ن ہے، تم میں سے کوئی شخص بھی، اس وقت تک مو من نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے اپنے با پ اور بیٹے سے زیا د ہ محبو ب نہ ہو جاؤں ۔“

مذکو رہ آیت اور حدیث سے یہ با ت صاف و اضح ہو جا تی ہے کہ، مسلما ن کی کا م یا بی کا را ز اطا عت ر سول میں مضمر ہے ۔

مگر ہمار ے لیے بڑ ے افسو س کا مقا م ہے کہ، ہم زبا ن وبیا ن سے تو عشقِ ر سو ل کے راگ الا پتے رہتے ہیں ، حب رسول کے نعر ے لگاتے ہیں؛ مگر عملی مید ا ن میں اور محبت قلبی کے اعتبا ر سے، ہم حب رسو ل سے کوسو ں دو ر ہو چکے ہیں، صر ف زبا ن خر چی کے طور پر دعو یٰ عشق ر سول ہے، ورنہ ہمار ے اطوا ر اور ہمارا لبا س ہمارے اخلاق ، ہماری معا شرت ، ہمار ی تجار ت ، ہمار ے معاملا ت ، ہماری سیا ست ، ہمار ی تعلیم و تر بیت غر ضیکہ زندگی کے تمام شعبو ں سے ہم نے سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  کا جنا ز ہ نکا ل دیا ہے ، بلکہ اس پر مستزا د یہ کہ ہمار ے معا شر ہ کا جد ید تعلیم یا فتہ اور جا ہل تو جا ہل، اب عالم طبقہ بھی سنت ر سو ل پر عمل کرنے والو ں کو اجنبی نگا ہ سے دیکھتا ہے اور ا ن کے ساتھ اجنبی سلو ک کر تا ہے ۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُون، ولا حول ولا قو ة الا باللہ العلی العظیم․

یہ با ت جا ن لینی چا ہیے کہ ہمار ی اس ابتر صورتِ حال کی اصل وجہ سیرت نبویہ سے عملی انحر اف ہے ، دنیا جواس وقت فتنو ں کی آ ما ج گا ہ بنی ہوئی ہے ، اس کی وجہ بھی یہی ہے؛ کیوں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بھلائی اور دنیوی و اخر وی کا م یا بی کے تمام ر استے بتلا ئے، مگر آ ج ہم نے اس کو ترک کر دیا جس کی وجہ سے خبا ثت اور بر ائی عام ہو گئی اورہو تے ہوتے نو بت یہا ں تک پہنچ گئی کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قد وہ اور آئیڈیل کے بنانے کا حکم تھا، مگرہم نے معا شرہ میں بر ائی پھیلا نے والو ں کو قد وہ بنا لیا ، نا چ گا نے اور کھیل کو د کا پیشہ اختیا ر کر نے والو ں کو ر ہبر بنا لیا ؛ اس طرح معا شرہ داعیا نِ شرکا دلدا د ہ بن گیا !!!

آج جب دنیا میں روحا نی وجسما نی ظا ہر ی و با طنی ہر طر ح کا امن، غا رت ہو چکا ہے؛ تب جاکر دنیا کا ہر شخص ان حا لا ت سے بچنا چا ہتا ہے اورکسی ایسی سبیل کی جستجو میں ہے، جس کو اختیا ر کر کے وہ سکو ن حاصل کر سکے اور سکون فسق و فجو ر، لا دینیت ونفاق کے دلد ل سے خلاصی حاصل کیے بغیر ممکن نہیں اور اس کی خلاصی کا ایک ہی راستہ ہے اورو ہ ہے ”تعلیما ت نبویہ“ پر عمل در آمد ۔

ہم مسلما نو ں کا عقیدہ ہے کہ ر سو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے صر ف دنیا ہی کی فلا ح نہیں حاصل ہوسکتی؛ بلکہ آخر ت اور حسا ب کے مصائب اور عذ۱ب ٹل جائیں گے، قیا مت کے ہو ل نا ک عا لم میں ، جب کوئی کسی کا پرسان حال نہ ہوگا ، نفسی نفسی کا عالم ہو گا ، بھا ئی بھا ئی کو دیکھ کر ، بیٹا با پ اور ما ں کو دیکھ کر ، شو ہر بیو ی کو دیکھ کرراہ فر ا ر اختیا ر کر ے گا ،گو یا اطاعتِ رسو ل قبل المو ت اور بعدالموت آفات ،بلیا ت اور عذا ب سے نجات کا اکسیر نسخہ ہے ۔

حضرت آ د م علیہ السلام سے لے کر خا تم الا نبیاء والمر سلین ،احمد مصطفی، محمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم تک ؛جو انبیاء کرام علیہم السلا م کی بعثت عمل میں آئی، وہ اسی لیے تو آئی کہ اللہ نے انسا ن کو بہت ساری خو بیو ں سے نوا ز ا ہے ، مگر ساتھ ہی کچھ ایسے محر کا ت دنیا میں کا ر فر ما کررکھے ہیں، جن کے سبب انسان کی اللہ کی جا نب سے عطا کر دہ یہ خوبیاں بدون محنت اور مجا ہد ہ ظا ہر نہیں ہو پاتیں ؛بلکہ محر کا تِ شر کی وجہ سے اسی کی ہو کر رہ جا تی ہیں اور یہ اس لیے کہ انسا ن کی تخلیق منجا نب اللہ آ ز ما ئش کے لیے ہوئی ہے اور وہ مقصدابتلا محرکاتِ شر کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا تھا؛ لہٰذا ایک طرف تو اسے عقلِ وافر عطا کی، دوسر ی طر ف اسے نفس لو امہ دیا ، ایک طر ف محرکِ شر شیطا ن کو پید ا کیا ، دوسر ی طرف دا عی خیر انبیاء کو مبعو ث کیا اور اب اسے خیر و شر کی در میان اپنی عقل اور علم کے ساتھ چھوڑ کر اختیار دے دیا ﴿فَمَنْ شَاءَ فَلْیُوْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُرْ ﴾” جو چاہے ایما ن لائے اورجو چاہے کفر کو اختیار کرے “ اور دونوں کے انجا م بھی انبیاء پر بو اسطہٴ وحی واضح کر دیے کہ اگر خیر اختیار کر ے گا تو اللہ کی رضا اور جنت، اور اگر شر اختیار کر ے گا تو اپنے خالق و مالک رب ذو الجلا ل والا کر ا م کا غضب نار اضگی اور جہنم کی صور ت میں جزا و سز ا کا مستحق ٹھہرے گا ۔

معلو م ہو ا کہ اللہ نے انسا ن پر نبو ت کے ذریعہ اپنی حجت تام کر دی ہے ، اب انسا ن کی کسی بہا نہ با ز ی کا کوئی اعتبا ر نہیں ہو گا ، اللہ نے اسی حجت تا مہ کے بار ے میں واضح ار شا د فر ما یا ﴿رُسُلاً مُّبَشِّرِ یْنَ وَ مُنْذِ رِیْنَ لِئَلاَّ یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُُلِ وَکَانَ اللّٰہُ عَزِ یْزًا حَکِیْمًا ﴾․ (النساء : 165)

”بھیجے خوشخبری اور ڈر سنا نے والے تاکہ با قی نہ رہے لوگوں کا اللہ پر الزام کا موقع رسولوں کے بعد اور اللہ ہے زبردست ،حکمت والا۔“

پیغمبروں کی بعثت کا مقصد
اللہ تعالیٰ نے پیغمبر وں کو بر ابر بھیجا کہ موٴ منوں کو خوش خبر ی سنائیں اور کا فرو ں کو ڈر ا ئیں، تا کہ لوگوں کو قیامت کے دن اس عذ ر کی جگہ نہ رہے کہ ہم کو تیر ی مر ضی اور غیر مر ضی معلو م نہ تھی ، معلو م ہو تی تو ضرور اس پر چلتے ۔ سو جب اللہ تعالیٰ نے پیغمبر و ں کو معجزے دے کر بھیجا اور پیغمبر و ں نے را ہ حق بتلائی تو اب دین حق کے قبو ل کر نے میں کسی کا کوئی عذ ر نہیں سنا جا سکتا ۔ وحی الٰہی ایسی قطعی حجت ہے کہ اس کے روبر و کوئی حجت نہیں چل سکتی ، بلکہ سب حجتیں قطع ہو جا تی ہیں اور یہ اللہ کی حکمت اور تد بیر ہے اور زبر دستی کر ے تو کو ن رو ک سکتا ہے ، مگر اس کو پسند نہیں۔(گلدستہٴ تفاسیر2/217بحوالہ تفسیر عثمانی)

ہمیں اس با ت کا ادرا ک کر لینا چا ہیے کہ ہمار ی تمام بیما ریو ں کا علاج ” اتبا ع منہج نبو ت “ میں ہے، وہی ہما ری کام یا بی کی شا ہ کلید ہے ۔ ”نبوت“ ہی وہ موٴ ثر ذریعہ ہے، جس نے ما ضی میں بھی بد سے بد تر حالا ت میں انسانوں کی صحیح راہ نمائی کی اوردنیا میں امن و امان کیں فضائیں قا ئم کی۔ انسانو ں کو جسمانی و روحا نی سکو ن کی عظیم نعمت سے مالا مال کیا ، انسا ن کو زند گی کا مقصد سمجھا یا ، انسان کا اپنے خا لق و ما لک سے رشتہ جو ڑ نے اور خو د آپس میں ایک انسان کا دوسر ے انسا ن کے ساتھ کیسا ہمد ر دا نہ تعلق ہو ؛بلکہ انسا ن دیگر مخلوق کے ساتھ بھی کیسے رہے؟ یہ سب ” نبوت “ کے ذریعہ بتلا یا گیا ۔

آ ج مغر ب نے مسلما نو ں کے ساتھ ہی نہیں ،بلکہ عالمِ انسا نیت کے ساتھ سب سے بد تر جو کھیل کھیلا ہے ،وہ یہ کہ انسا ن کی زند گی کے تمام شعبوں سے آ زا دی کے نام پر دین اور خالق حقیقی سے نا طہ تو ڑ دیا ، سیکو لر زم اور کمیونزم کو عا م کر کے عقیدہٴ تو حید کی بنیا د ڈھا دی، بلکہ کسی بھی طر ح کے مذ ہب کو زندگی سے جد ا کر دیا ، نظر یہ ارتقاء کے ذریعہ خالق کا ئنا ت کے عقید ہ کو ڈھا دیا ، نظر یہ جنسیت کے ذریعہ انسا ن کے مقصد حیا ت ”عبا دتِ الٰہ واحد“ کو ختم کر کے شہو ت رانی کو مقصدِ حیا تِ انسا نی ٹھہر ا دیا آ خر ت کو فر ا مو ش کر کے صرف دنیا میں عیش و عشر ت کی زندگی کو تر جیح دینے کے لیے ما د ہ پر ستی کو فر و غ دیا ، علو مِ وحی سے انسا ن کو کا ٹنے کے لیے نیچریت کو فرو غ دیا ، اور نیچریت کی جڑ کومزید پختہ کر نے اور علو م وحی سے کلی انقطا ع کے لیے ایجا بیت، نتا ئجیت اور افا دیت پسند ی کو زورو شور سے فروغ دیا ، سیا ست سے دین کو کا ٹنے کے لیے جمہو ریت کا شو ر بر پا کیا ، معیشت سے دین کو کا ٹنے کے لیے، سرمایہ داریت اور اشتر اکیت اور اب مخلوط نظا م معیشت کو فر و غ دیا جا رہا ہے ۔

امت مسلمہ کو علماء اور مسجد سے کا ٹنے کے لیے، یہ سب خوف نا ک اور ایمان سو ز سا زشیں ہیں ،اسی لیے اکبرالہ آبادی فر ما تے ہیں #
        چھوڑ لٹریچر کو اپنی ہسٹری بھول جا
        شیخ و مسجد سے تعلق تر ک کر اسکول جا
        چار دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ؟
        کھا ڈبل روٹی کلرکی کر خوشی سے پھول جا
علو م وحی سے مسلما ن کا دو ر ہو نا کیسا جر م ہے؟ اسے علا مہ اقبال کہتے ہیں #
        مشرق کے خداوند سفیدان فرنگی
        مغرب کے خداوند درخشندہ فلزات
        وہ قوم کہ فیضان سماوی سے ہو محروم
        حد ان کے کمالات کی برق و بخارات
غر ضیکہ ” منہج نبو ت “ سے روگر دانی ہمار ے لیے مو ت حقیقی سے بد تر مو ت ہے کہ جہاں امت زند ہ رہ کر بھی مردہ ہے ، کیوں کہ اس کی کوئی وقعت ہی نہیں اور مغربی تہذ یب کی اندھی تقلید ہمار ے لیے سو ائے منہج نبوی سے رو گر دا نی اور اپنی مو ت آپ کے اور کچھ نہیں
        تہذیب فرنگی، اگر مرگ امم
        حضرت انساں کے لیے اس کا ثمر موت
بہر حال اس وقت امت کو ” نبو ت محمد یہ “ کی اہمیت کو سمجھنے کی سخت ضرورت ہے ، ” منہج نبو ت“ سلف صالحین کی تعلیما ت وتحقیقات کے آئینہ میں یہی سب سے زیا د ہ اہم ہے ۔

برکا ت نبو ت
مذ کو رہ ہمہ گیر مغربی نظر یا ت نے مسلما نو ں میں سب سے بڑ اجو نقصا ن پیدا کیا وہ یہ کہ ” نبوت ،منہجِ نبو ت، علو م وحی “ سے امت کو دور کر دیا اور امت بر کا ت نبو ت سے محرو م ہو گئی ، دکتو ر صالح احمد رضا کی کتا ب ”انہا النبوة “ سیر ت پر ایک انمو ل کتاب ہے ، اس میں وہ فر ما تے ہیں کہ میں نے اس کتا ب کا نام ”انہا النبوة “کیوں تجویز کیا ؟

” فتح مکہ اسلا می تا ریخ کا اہم تر ین وا قعہ ہے ، فتح مکہ کے دن اسلام اپنی تمام شا ن و شو کت کے ساتھ اس زما نہ کی سپر پا و ر طا قت قریش کے سامنے جلو ہ گر ہو ا اور اسلام اور مسلما نو ں کی شا ن و شو کت اور دبد بہ نے قریش کو، جو اشرف العر ب تھے ،مبہو ت کر کے رکھ دیا تھا ۔ مسلما ن پوری آ ن، شا ن اور با ن کے سا تھ اسی مکہ میں دا خل ہو ئے تھے ، جہاں سے انہیں دس سال قبل زبر دستی نکلنے پر مجبو ر کیا گیا تھا ، انہیں ظلم کی چکی میں پیسا گیا تھا ،اور حکم ہجر ت الی المد ینہ کی صور ت میں مد ینہ جا نے سے بھی رو کنے کے بھر پور اقدامات کیے گیے تھے؛ تا کہ اسلا م اور مسلما ن مظلومیت میں جکڑ ے رہیں اور انہیں پھلنے او ر پھو لنے کا مو قع نہ ملے، مگر وہ اس میں کام یاب نہ ہو سکے ، وہی بے چارے، ظلم کے ما رے مسلمان آ ج با و قا ر اندا ز میں اور فا تحا نہ طو ر پر مکہ میں داخل ہو رہے تھے؛ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دس ہز ا ر سے زا ئد صحابہ پر مشتمل لشکر ”الفا تحون الر حماء “ رحم دل فا تحین کا ایک نیا باب رقم کرنے جارہاتھا اور دنیا کے فاتحین کے اس طر ز عمل کو یکسر تبد یل کر رہاتھا، جو عا م طور پر تا ریخ بشر میں ہو تا چلا آ رہا تھا، جس کو قر آ ن نے حضر ت سلیمان علیہ السلام کے وا قعہ میں ذکر کیا ہے :
﴿ اِنَّ الْمُلُوکَ اِذَا دَخَلُوا قَرْیَةً اَفْسَدُواہَا وَجَعَلُوْا اَعِزَّةَ اَہْلِہَا اَذِلَّةً وَکَذٰلِکَ یَفْعَلُونَ﴾․(النمل : 34)
بلقیس نے کہا کہ یقینا بادشاہ لو گ، جب کسی بستی میں دا خل ہو تے ہیں؛ تو اسے تہس نہس کر دیتے ہیں اور وہاں کے عز ت دار لو گوں کو ذلت سے دو چا ر کر دیتے ہیں ، یہ ایسے مو قع پر نبو ت کے حا مل، جیش اسلا می کے روح رواں اور قائد ،محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا :”لاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ اِذْہَبُوا فانتم الطلقاء“ حرم مکی اہل مکہ سے کھچا کھچ بھر ا ہو تھا، ان میں وہ لو گ بڑ ی تعداد میں تھے؛ جنہو ں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحا ب کو طرح طرح سے اذ یتیں پہنچا ئی تھیں ، ذہنی اذیت بھی اور جسما نی اذیت بھی؛ بلکہ اذیت کی کسی قسم کو نہیں چھو ڑ ا تھا، مگر پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ آ ج تمہارا کوئی مو ا خذہ نہ ہو گا ، تم جا ؤ سب معا ف کر دیے گئے ہو ۔ کیا دنیا کی تا ریخ ایسے عظیم فا تح کی ایک مثا ل بھی پیش کر سکتی ہے ؟

اس مو قع پر بر کا ت نبو ت کے ظہو ر اور اس کے احسا س کا ایک واقعہ بہت مناسب ہو گا ، آئیے،ہم اسے پڑ ھیں ۔

رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ پہنچنے سے پہلے ہی، ابو سفیا ن حضرت عبا س بن عبد االمطلب رضی اللہ عنہ کی وسا طت سے اسلا م میں دا خل ہو گئے تھے، جب انہو ں نے کلمہ پڑ ھ لیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمِّ محترم حضرت عبا س  سے کہا ہمار ے لشکر کے مکہ میں داخل ہو نے سے قبل، تم ابو سفیان کولے کر مکہ چلے جاؤ اور مکہ میں داخل ہو نے سے پہلے کسی پہا ڑ ی کے پاس؛ جہا ں تنگ وادی میں رستہ ہو ابو سفیا ن کولے کر کھڑے رہو ، تاکہ وہ اسلامی لشکر کی شا ن و شو کت کا مشا ہدہ کر سکے ،بس حکم رسو ل کی تعمیل میں سید نا حضرت عبا س رضی اللہ عنہ، ابو سفیا ن کو لے کر چل دیے اور ر سو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطا بق ابو سفیا ن کولے کر ایک تنگ راستہ پر کھڑ ے ہو گئے ، حضرت عبا س  فر ما تے ہیں کہ ایک ایک کر کے مختلف قبا ئل کے فو جی دستے مکہ میں دا خل ہونے لگے اور ہمار ے پاس سے گزر نے لگے ، جب بھی کوئی فوجی دستہ گز ر تا تو ابو سفیا ن مجھ سے سو ال کر تے من ہذ ہ؟ یہ کو ن لو گ ہیں ؟ اور کس قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں ؟ تو میں قبیلہ کا نا م لیتا ، جب قبیلہ سلیم ہمار ے پاس سے گزرا، تو سوا ل کیا کہ عبا س یہ کو ن لو گ ہیں ؟ میں نے کہا بنو سلیم ہیں، تو ابو سفیا ن نے کہا ،ما لی ولبنی سلیم؟ مجھے بنو سلیم سے کیا مطلب؛ اس کے بعد بنو خزیمہ گزر ے ،تو میں نے کہا بنو خز یمہ، تو کہا مجھے بنو خز یمہ سے کیا لینا دینا ، اسی طرح تمام دستے یکے بعد دیگر ے گزر تے گئے اور میں ان کے نام بتلا تا رہا اور ابو سفیا ن اپنے قر یشی شر ف میں استغنا کا اظہار کرتے؛یہاں تک کہ اخیر میں ،وہ دستہ گزر نے لگا، جس میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے انصار و مہاجر ین جا نثار وں کے ساتھ تھے، رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ار دگر د ہتھیاروں سے لیس صحا بہ کے اس دستہ کا جب گز ر ہو ا، تو سوائے سور ج کی روشنی میں ہتھیا رو ں کے چمکنے کے اور کچھ بھی نہیں سجھائی دے رہا تھا؛ ایسی تیز رو شنی تھی کہ دیکھنے والا دیکھ کر مبہو ت ہو جاتا اور ابوسفیان کے ساتھ بھی ایساہی ہوا؛تو وہ تعجب اور حیرت سے کہنے لگے کہ عباس! سبحان اللہ! یہ کون لوگ ہیں، جو اتنے زیادہ ہتھیاروں سے لیس ہیں ؟میں نے کہا، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں مہاجرین اور انصار کی معیت میں۔ تو ابو سفیان نے کہا ان کے سامنے توکوئی نہیں ٹک سکتا اور کس میں طاقت کہ وہ ان کا مقابلہ کر سکے؟ اور پھر وہی اپنے قریشی تفاخرکے اندازمیں کہا : اے ابو الفضل! خدائے پاک کی قسم ،تمہارے بھتیجے کی سلطنت بہت جلد اپنی عظمتوں اور وسعتوں کو چھوئے گی اور بعض روایت میں ہے کہ، تمہارے بھائی کے بیٹے کو بڑی عظیم سلطنت آج حاصل ہو چکی ہے؛ مگر قر بان جائیے سیدنا عم الرسول، بلکہ عم الامة کلہا، حضرت عباس پر آپ نے فوراً کہا ویحک یا اباسفیان ”انہاالنبوة “ اے ! ابوسفیان تیراناس ہو، یہ سب نبوت کی کر شمہ سازی اور برکتیں ہیں ،تو ابو سفیان نے کہا واقعة آپ نے بالکل درست کہا (المطا لب العالیہ بحوالہ انہا النبوة والسیرة النبویة)یہ تھا حضرت عباس کاجواب، جس کوآج امت فراموش کر چکی ہے، اس واقع کو پڑھنے کے بعد مجھے خود ایسا محسوس ہوا، جیسے اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی بھیجی ہو۔ عصر حاضر کے انسانوں کو ، خاص طور پر مسلمان کو سمجھانے کے لیے ہی حضرت ابوسفیان اور حضرت عباس کے درمیان محادثہ کروایا ہو، کیوں کہ ابوسفیان ابھی کچھ دیر قبل اسلام میں داخل ہوئے تھے اور حضرت عباس پہلے ہی داخل ہوچکے تھے، ابوسفیان کو اسلام کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت بابر کت ابھی حاصل نہیں ہوئی تھی ؛جب کہ حضرت ابوالفضل عباس صحبت رسول سے فیض یاب ہوچکے تھے ،حضرت ابوسفیان نے وہی اپنی زمانہ جاہلیت والی ذہنیت کی بنیاد پر کہا ”وان لا بن اخیک غداً ملکاًعظیما“ کہ تمہارے بھائی کے بیٹے کی سلطنت بڑ ی عظیم ہوگی۔ گویا اس میں بھی قریش والا تفاخر شامل تھا، یعنی اگر محمد بن عبداللہ کو وسیع سلطنت حاصل ہوتو؛بہر حال وہ بھی تو قریشی ہی ہیں، سیدنا حضرت عباس نے اس ذہنیت کومحسوس کرلیا اور بر جستہ (ایسامعلوم ہو تا ہے جسیے الہامی جواب دیاہو)کہاکہ نہیں ؛اس میں نسبیت اور قریشیت کو کوئی دخل نہیں ہے ،بلکہ یہ تو اس نبوت کی بر کتیں ہیں، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی جانب سے عطاکی گئیں، سبحان اللہ! ہمارے ماں باپ قربان ہوں، حضرت عباس پر! کہ آپ نے کیسا حکمت بھراجواب دیا،اور یہ جواب صرف ابوسفیان کے لیے نہیں تھا ؛بلکہ قیامت تک آنے والے انسانوں اور مسلمانوں کے لیے ہے کہ اگر تم چاہتے ہو کہ دنیا میں عزت حاصل ہو اور دنیا امن وامان کا گہوارہ بن جائے ؛توتمہیں منہجِ نبوت کوزندگی کے ہر شعبے میں جگہ دینی ہو گی، ہماری تمام تر مصیبتوں کا علاج صرف اور صرف منہج نبوت میں ہے، آج امت بھی اسی طرح مختلف عصبیتوں کے گرداب میں پھنسی ہوئی ہے اور اسلامی نبوی نسبتوں کو فراموش کرچکی ہے!!!۔

اللہ ہمیں اس حقیقت کوسمجھنے کی توفیق عطافرما ئے ․․․․․․․اور منہج نبوت کو اختیار کر نے کی توفیق سے نوازے، تاکہ ہم بر کا تِ نبوت سے سرفراز ہوسکیں اور دنیا وآخرت کی کام یابی سے ہمکنار ہونے میں کامیاب ہوجائیں۔ آمین یا رب العالمین․

اطاعت رسول اور مخالفت رسو ل کو اور بھی جلی انداز میں سمجھنے کے لیے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے تین معرکوں کو پڑھنا ہوگا،معرکہٴ بدر، معرکہ احد اور معرکہ حنین۔ ان تینوں معرکوں کو پڑھنے سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ، مسلمان کی کام یابی کا راز کیا ہے اور اس کی تباہی کا اہم سبب کیاہے؟

ان تینوں غز و ا ت کی تفصیل تو مقصو د نہیں، البتہ ان کے نتا ئج اور اسباب نتا ئج پر مختصراً چند امو ر پیشِ خدمت ہیں ، غزوہ بد ر2ھ رمضا ن المبار ک میں کفا ر مکہ اور مسلما نو ں کے در میا ن مقا م بد ر پر واقع ہو ا، جو مد ینہ سے تقر یباً 150/ کیلو میٹر، جنو ب غر ب میں اور مکہ سے تقریباً 340 /کیلو میٹر کی دور ی پر شما ل میں وا قع ہے ، اس غزو ہ میں باطل کی سب سے بڑ ی علا قا ئی طا قت اور اسبا بِ ظاہرہ کے اعتبا ر سے، سب سے کمزو ر طا قت کے در میا ن محض مذہبِ حق کی بنیا د پر مقابلہ ہو ا ، کفا ر مکہ کے لشکر کی تعدا د تقر یباً 1300/فوجیوں پر مشتمل تھی، جس میں سو گھو ڑ ے سات سوزرہیں اور بے حد و حساب اونٹ تھے؛جس کا چیف کما نڈ ر ابو جہل تھا اور تمام اسلحو ں سے لیس تھے، دوسری جانب لشکر ِاسلا م تقر یباً 313/ مجا ہد ین پر مشتمل تھا، جس میں 82/ یا 86/ مہاجر ین تھے ؛ 61/قبیلہ او س سے اور170/قبیلہ خزرج کے شیدا ئی تھے ، اونٹ ستّر تھے، اور صر ف دو گھو ڑ ے تھے ، اسلحہ بھی بہت کم تھا ،اب آپ خو د مواز نہ کر یں کہ کیا دو نوں جا نب بظا ہر کسی طرح کا بھی تو ا ز ن ہے ۔
لشکر کفا ر 	اسلا می لشکر
1300 	313
100/گھو ڑ ے 	2/گھو ڑ ے
700/زر ہیں 	کوئی زرہ نہیں
بے حد و حسا ب او نٹ 	70/او نٹ

اب کو ن کہہ سکتا ہے کہ اسلا می لشکر کا میا ب ہو گا! اور لشکرِ کفار شکست کھا ئے گا!مگر ہو ا ایسا ہی کہ اسلا می لشکر غا لب اور کا م یا ب ہو ا اور کفار شکست فا ش سے دو چا ر ہوئے ، ظاہر ی اسبا ب میں مسلما نو ں کی کا م یابی کے کوئی آثا ر نہیں تھے اور کفار کی نا کا می کے بھی کوئی آ ثا ر نہیں تھے ، مگر ہو ا ایسا ہی۔ یہ ہما رے لیے قا بل غور ہے کہ، آخر مسلما نو ں کی کا میا بی کے پیچھے کو نسے عوامل کا ر فر ما تھے ؟

اللہ کی ذا ت پر اعتما د کا مل
اس طو ر پر کہ ر سو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحا بہ کو بشا ر ت سنا ئی کہ کام یا بی، ہمارے لیے مقد ر کر دی گئی ہے، اور اپنے خطبہ بد ر میں کہا : ”فان وعدہ حق قولہ صدق وعتابہ شدید، وانما انا وانتم باللہ الحی القیوم، الیہ الجأنا ظہو رنا، وبہ اعتصمنا، وعلیہ تو کلنا، والیہ المصیر یغفر اللہ لی وللمسلمین․“ (انہاالنبوة:ص 315)

”یقیناًاللہ کا و عد ہ بر حق ہے، اس کی با ت سچی ، اس کی گرفت اور عذاب سخت ہے ، میں اور آپ ہم سب محض اس ہمیشہ رہنے والی ذا ت اور نظا م کائنات کو تھا مے ہوئے ہستی کے بل بو تے پر ہیں ، ہم اسی کی طر ف ٹھکا نہ پکڑتے ہیں، اسی کے در کو تھا متے ہیں اسی پر بھر و سہ کر تے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لو ٹنا ہے ، اللہ مجھے اور آپ کو بخش دے ۔ “ گو یا ﴿انتم الاعلون ان کنتم موٴمنین﴾کی تشریح کر رہے تھے اور﴿من یتو کل علی اللہ فہو حسبہ﴾ کو سمجھا ر ہے تھے اور یہی مو من کی زندگی کا امتیاز ی وصف ہے کہ وہ اسباب اختیا ر کر نے کے بعد قلتِ اسباب اور ضعفِ قو ت پر نظر نہیں رکھتا؛ بلکہ اللہ پر اعتما د اور بھر و سہ کر تا ہے اور پھر قلتِ اسباب،ضعفِ قو ت کیا، عدم قو ت کی صورت میں بھی اللہ کام یابی سے ہم کنا ر کر نے پر قا در ہے ، بس شر ط یہ ہے کہ ایما ن قو ی ، عمل صحیح اور اعتما د کامل پا یا جا ئے ۔اللہ ہمیں بھی ان صفا ت سے متصف کر دے۔ آ ج ہماری سب سے بڑ ی کمزو ری یہی ہے کہ ایما ن کمزو ر، اعتماد میں کمی ،عمل میں عدمِ خلو ص اور عد م صحت ۔ اللہم اہدنا واہدبنا واہد النا س جمیعاً ۔

صدق دل سے دعا، آ ہ و زا ری اور گریہ و زا ری کے ساتھ استجا بت دعا ء کا یقین رکھنا
آپ خو د رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیفیت ِدعا کو پڑ ھ لیں ، رونگٹے کھڑ ے ہو جائیں گے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فر ما تے ہیں :کہ ” رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم در خت کے نیچے پہنچے، رات بھر نماز یں پڑ ھتے رہے اور گڑ گڑ ا کر دعائیں کر تے رہے۔“ امام مسلم اور دیگر محدثین وموٴ ر خین اور سیر ت نگار و ں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض دعائیں اور ان کی کیفیت ذکر کی ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مو قع پر بے پنا ہ آ ہ و زا ری کر تے ہوئے کہا:”اللہم انجزلی ماوَعَدْتَّنی، اللہم آت ما وعدتنی، اللہم ان تہلک ہذ ہ العصابةُ من اہل الاسلا م لا تعبد فی الارض․ “

”اے اللہ! آپ نے جو مجھ سے وعد ہ کیا ہے، وہ پورا کر یں ، اے اللہ اپنا وعد ہ پور ا کر کے بتلائیے ، اے اللہ! اگر مسلما نو ں کی یہ نہتی اور مختصر جماعت ہلا ک ہو گئی ،تو زمین پر آپ کی عبا د ت نہیں ہو سکے گی۔ “

اور اس طرح حضور اقد س صلی الله علیہ وسلم رو رو کر دعا کر رہے تھے، بلکہ ایسی حالت تھی کہ آپ کی چا در بھی زمین پہ گر گئی ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جب یہ کیفیت دیکھی ،تو چا در اٹھا کر آپ کے کا ندھو ں پر رکھی اور آپ کے ہاتھ پکڑ کر کہنے لگے ،یا ر سو ل اللہ ! بس اب اتنا اپنے پر ور دگا ر سے آ ہ وزاری کر نا کا فی ہے ، ضرور اللہ آپ سے کیا ہو ا وعد ہ پورا کر یں گے ، اور ر سو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس کیفیت کو قر آ ن نے بھی بیا ن کیا :

﴿اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ اِنِّی مُمِدُّکُمْ بِاَلْفِ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَةِ مُرْدِفِیْن﴾ایک اور روایت میں ہے کہ بد ر سے قبل، را ت میں تو مذکور ہ بالا دعا کی اور پھر جب دو نو ں لشکر آ منے سا منے ہوئے؛ تو ان الفا ظ میں دعا کی :”اللہم ان قریشا قد اقبلت بخیلائہا وفخرہا تحادک وتکذب رسولک، اللہم، فنصرک الذی وعدتنی، اللہم احنہم الغداة “․ (ابن ہشام :2/314)

اے اللہ! قریش اپنے پور ے جا ہ و جلا ل اور اتر ا ہٹ کے سا تھ میدان میں کو د پڑ ے ہیں ،گویا وہ آپ کو چیلنج کر رہے ہیں ، آپ کے رسول کی تکذیب کر رہے ہیں ، اے اللہ آپ مد د کے ذریعہ اپنے، اس وعد ے کو پور ا کیجیے،جو آپ نے مجھ سے کیا تھا اور آ ج انہیں ہلا ک کر کے چھوڑ یے ۔ (السیرة النبو ة فی ضوء مصادرہا الا صلیة: ص330)

یہ تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا اہتمام ، دعا مومن کا ایسا ہتھیار ہے ، جو تما م ظاہر ی اسلحہ پر فو قیت رکھتا ہے ، بلکہ مو من کا سب سے قوی ہتھیار ہے ،کیوں کہ دعا کے ذریعہ ہی مو من کا اللہ سے تعلق کے مضبوط ہو نے کا علم ہوتا ہے ، مو من کی نگاہ اپنی ظا ہر ی طا قت پر نہیں ہوتی، بلکہ اللہ پر ہو تی ہے۔

آج ہمار ی سب سے بڑی کمزو ری یہ ہے کہ اولاً تو ہماری اکثریت نے دعا ء کو بھلا ہی دیا اور قدر قلیل تعدا د دعا کر تی ہے ، تو اس میں نہ آ د ا بِ دعا کی رعا یت اور نہ دعا کی قبولیت کا یقین اور نہ گریہ وزا ری، نہ دل جمعی سے دعا فانی یستجاب؟؟ پھر کہا ں وہ قبول ہو گی؟؟!!․

اللہ ہمیں دل جمعی کے ساتھ دعا کر نے کی کثر ت سے تو فیق عطا فرمائے ۔آ مین

شوریٰ کا اہتمام
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت صحابہ سے مشور ہ کر تے رہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو قر یش کے تعا قب میں مدینہ سے نکلے تھے، مگر ابو سفیا ن کی چالا کی کی وجہ سے قا فلہ قریش بچ نکلنے میں کام یاب ہو گیا، لہٰذا جنگ کی تیاری نہ تھی اور نہ امکا ن ، اسی لیے نفیرِ عا م بھی نہیں کیا، اور نہ اسلحہ وغیرہ کا اہتمام کیا ، مگر جب پتہ چلا کہ قا فلہ قر یش تو بچ نکلنے میں کام یاب ہو گیا، البتہ کفا ر مکہ جنگ کی تیار ی کے ساتھ نکل چکے ہیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصا ر و مہا جر ین سے مشو رہ کیا ، شر و ع شرو ع میں تو بعض صحا بہ کو تردد ہو ا، اس لیے کہ جنگ کی تیا ری سے نہیں آ ئے تھے ، مگر جب کبا رِ صحابہ نے دیکھا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منشیٰ جنگ ہے ؛تو اولاً حضرت ابو بکر اور حضرت مقد ا دنے تائید کی اور پھر انصار کے سر دار حضرت سعد بن معا ذ نے بھی پر زو ر تائید کی، جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے حد مسرو رہوئے اور کہنے لگے ”سیروا بشروا “ چل پڑ و اور بشارت سن لو کہ، اللہ نے دو میں کسی ایک کو ہزیمت دینے کا وعد ہ کر لیا ہے۔(السیرة النبویة : ص 324)

اس سے دو سبق ملے، ایک تو مشو رہ کر نا اور دوسرا بڑ و ں اور چھو ٹو ں کو امیر کا منشا معلو م کر نا، اس کی تا ئید کرنا، چا ہے تیاری کیوں نہ ہو ، آج ہمارے اند ر یہ چیز بھی مفقو د ہے ، شوریٰ کا اولاًتو اہتمام نہیں اور اگر کہیں ہے تو بر ائے نام ۔ہر ایک اپنی رائے تھو پتا ہے ، گویا مشور ہ نہیں دیتا، بلکہ حکم جاری کرتا ہے اور پھر جب اس کی رائے کی مخالفت ہو جاتی ہے ، تو انتقا م اورسر کشی پر آ مادہ ہو جا تا ہے ، نہ کسی اہل کو امیر بنا یا جا تا ہے اور نہ اس کے منشا کو جا نا جاتا ہے ، اس سے انتشا ر پیدا ہو تا ہے ۔ اور اہل امیر ، پھر اس کے منشا کے مطابق رائے دینے اور اس پر عمل کر نے سے اتفا ق پید اہو تا ہے اور پھر اتحاد کی بر کت سے کا م یا بی آسا نی سے اور جلد از جلد حاصل ہوتی ہے ۔ وہ نا قا بل بیان ہے ۔اللہ ہمیں اس کی تو فیق عطا فر مائے ۔ (جاری)

Flag Counter