Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شوال المکرم 1435ھ

ہ رسالہ

12 - 16
دوسروں کو تکلیف دینے کی قباحت

ابوعکاشہ مفتی ثناء اللہ ڈیروی
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی

زبان، دوسروں کو تکلیف دینے کا بڑا ذریعہ
جس طرح ہاتھ وغیرہ سے انسان دوسروں کو تکلیف پہنچاتا ہے اسی طرح زبان کے ذریعے بھی انسان دوسروں کو تکلیف پہنچاتا ہے، فرق اتنا ہے کہ ہاتھ کے ذریعے دوسروں کو تکلیف پہنچانے کو ہر عقل سلیم رکھنے والا شخص جانتا ہے کہ میں نے فلاں کو تکلیف پہنچائی، فلاں کا حق دبایا ہے، اگرچہ وہ اپنے فعل پر نادم ہو یا نہ ہو ، لیکن زبان کے ذریعے جو دوسروں کو تکلیف پہنچائی جاتی ہے، اس کا احساس بھی نہیں ہوتا، حالاں کہ ہماری زبان سے نکلی ہوئی ایک بات، جوالله تعالیٰ کی ناراضگی کا سب ہوتی ہے، انسان کو بلندی سے پستی کی طرف دھکیل دیتی ہے۔

چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: إن العبد یتکلم بالکلمة من رضوان الله لا یلقی لھا بالا یرفع الله ھما درجات، وإن العبد لیتکلم بالکلمة من سخط الله لا یلقی لھا بالایھوی بھافی جھنم․ وفی روایة: یھوی بھا فی النار أبعد ما بین المشرق والمغرب“․(مشکوٰة المصابیح، کتاب الآداب، باب حفظ اللسان والغیبة، رقم الحدیث:4813)

بے شک بندہ اپنی زبان سے کوئی ایسی بات نکالتا ہے۔ جس میں حق تعالیٰ شانہ کی خوش نودی ہوتی ہے، تو اگرچہ وہ بندہ اپنی اس بات کی اہمیت کو نہیں جانتا، لیکن الله تعالیٰ اس کے سبب اس کے درجات بلند کر دیتا ہے، یعنی اگرچہ وہ بندہ اپنی اس بات کی قدر واہمیت سے واقف نہیں ہوتا اور اس کو ایک نہایت سہل اور معمولی درجہ کی بات سمجھتا ہے ،مگر حق تعالیٰ کے نزدیک وہ بات بہت بلند پایہ اوربڑے مرتبہ کی ہوتی ہے، اسی طرح جب بندہ کوئی ایسی بات زبان سے نکالتا ہے، جو حق تعالیٰ کی ناخوشی کا ذریعہ بن جاتی ہے، تو اگرچہ وہ بندہ اس بات کی اہمیت کو نہیں جانتا، یعنی وہ اس بات کو معمولی سمجھتا ہے اوراس کو زبان سے نکالنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتا، لیکن حقیقت میں وہ بات نتیجے کے اعتبار سے اتنی ہیبت ناک ہوتی ہے کہ وہ بندہ اس کے سبب سے دوزخ میں گر پڑتا ہے ۔ اورایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ وہ اس کے سبب دوزخ میں اتنی دور جا گرتا ہے، جو مشرق ومغرب کے درمیانی فاصلہ سے بھی زیادہ ہے۔

زبان کی حفاظت کرنے پر جنت کی بشارت
اگر انسان اپنی اس زبان کی حفاظت کرے، نہ اس کے ذریعے الله تعالیٰ کو ناراض کرے اور نہ اس کے ذریعے مخلوق کو ستائے تو ایسے شخص کے لیے جنت کی بشارت ہے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” من یضمن لی مابین لحییہ، ومابین رجلیہ، أضمن لہ الجنة“․ (مشکوٰة المصابیح، کتاب الأداب، باب حفظ اللسان، رقم الحدیث:4812)

جو شخص مجھے اس بات کی ضمانت دے کہ وہ اپنی اس چیز کی حفاظت کرے گا، جو اس کے دونوں جبڑوں کے درمیان ہے، یعنی زبان اور جو اس کے دونوں پاؤں کے درمیان ہے، یعنی شرم گاہ، تو میں اس کی جنت کی ضمانت لیتا ہوں۔

دوسروں کا مذاق اڑانا
زبان سے دوسروں کو تکلیف پہنچانے کی ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ انسان دوسرے کا مذاق اڑاتا ہے او راس کو کوئی گناہ ہی نہیں سمجھتا، حالاں کہ الله تعالیٰ نے اس فعل سے منع فرمایا ہے۔

چناں چہ الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا یَسْخَرْ قَومٌ مِّن قَوْمٍ عَسَی أَن یَکُونُوا خَیْْراً مِّنْہُم…﴾․(سورہ حجرات:11)
اے ایمان والو! نہ تو مرد مردوں کی ہنسی اڑائیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کی ہنسی اڑائیں، ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔

آیت کریمہ میں دوسروں کا تمسخر اڑانے سے منع کیا گیا ہے۔

تفسیر روح المعانی میں ہے کہ کسی شخص کی تحقیر وتوہین کے لیے اس کے کسی عیب کو اس طرح ذکر کرنا جس سے لوگ ہنسنے لگیں، اس کو سخریہ، تمسخر اور استہزاء کہا جاتا ہے اور یہ جیسے زبان سے ہوتا ہے ، ایسے ہی ہاتھ پاؤں وغیرہ سے اس کی نقل اتارنے یا اشارہ کرنے سے بھی ہوتا ہے او راس طرح بھی کہ اس کا کلام سن کر بطور تحقیر ہنسی اڑائی جائے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ سخریہ، تمسخر کسی شخص کے سامنے اس کا اس طرح ذکر کرنا ہے کہ اس سے لوگ ہنس پڑیں اور یہ سب چیزیں بنص قرآن حرام ہیں ۔ (تفسیر روح المعانی، سورة الحجرات:11،303/13 ، دارالکتب)

اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ ہنسی کرنے والوں کو اس کا کیا حق ہے کہ کسی کا مذاق بنائیں؟ اصل بڑائی ایمان او راعمال صالحہ سے اور الله تعالیٰ کے یہاں مقبول ہونے سے ہے، کوئی شخص دوسرے آدمی کے اعمال اور باطنی جذبات ، اخلاص وحسن نیت کو نہیں جانتا اور یہ بھی نہیں جانتا کہ یہ شخص الله تعالیٰ کے ہاں مقبول ہے یا نہیں؟

موت کے بعد کون کس سے افضل ہو گا، اس کا بھی علم نہیں، ہو سکتا کہ جس کا مذاق بنارہے ہیں، وہ مذاق بنانے والے سے بہتر ہو ، اگر موت کے بعد اپنے اچھے حال کا او رجس کا مذاق بنا رہے ہیں اس کی بد حالی کا یقین ہو جاتا تو تمسخر کرنے کی کوئی وجہ بھی تھی، لیکن جب اپنے ہی بارے میں علم نہیں کہ میرا کیا بنے گا، تو دوسرے کا مذاق بنانے کا کیا مقام؟!

کسی کے مذاق بنانے میں ایک وجہ تو تکبرہے، کیوں کہ مذاق بنانے والا سمجھتا ہے کہ میں ایسا نہیں ہوں جیسا وہ ہے، اگر اپنے حالات کا استحضار ہو تو کبھی کسی کی برائی اور غیبت کرنے اور کسی کا مذاق بنانے کی ہمت نہ ہو، نہ فرصت ملے دوسرے کا مذاق بنانے میں ایذا رسانی بھی ہے، اس سے اس کو قلبی تکلیف ہوتی ہے جس کا مذاق بنایا گیا ہے اور ایذا دینا حرام ہے۔

برے لقب سے پکارنا
دوسروں کو اذیت او رتکلیف دینے کی ایک صورت برے لقب سے پکارنا ہے اور الله تعالیٰ نے اس فعل سے بھی منع فرمایا ہے۔

چناں ارشاد ہے:﴿وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ﴾․( سورة الحجرات:11)
اور نہ ایک دوسرے کو برے لقب سے یاد کرو۔

ایک دوسرے کو برے القاب دینے او ربرے القاب سے یاد کرنے کی ممانعت فرمائی ہے۔ مثلاً کسی مسلمان کو فاسق، یا کافر یا منافق کہنا یا اورکسی ایسے لفظ سے یاد کرنا جس سے برائی ظاہر ہوتی ہو، اس سے منع فرمایا۔ کسی کو کتا ، گدھا، خنزیر کہنا، کسی نو مسلم کو اس کے سابق دین کی طرف منسوب کرنا، یعنی یہودی، یا نصرانی کہنا یہ سب تنابزبالالقاب میں آتا ہے ، یہ بھی حرام ہے۔(الجامع لأحکام القرآن للقرطبی، سورة الحجرات:11، 211/8، دارا حیاء التراث العربی)

علامہ نووی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ اس بات پر علماء کا اتفاق ہے کہ کسی کو ایسے لقب سے پکارنا جس کو وہ ناپسند کرے، چاہے وہ لقب اس آدمی کا ہو یا اس کے والدین کے بارے میں ہو، یہ سب حرام ہے۔ (تفسیر روح المعانی، 305/13، دارالکتب)

حضرت ابن عباس رضی الله عنہما نے فرمایا کہ تنابز بالالقاب سے مراد یہ ہے کہ کسی شخص نے کوئی گناہ یا برا عمل کیا ہو او رپھر اس سے تائب ہو گیا، اس کے بعد اس کو اس برے عمل کے عنوان سے پکارا جائے، مثلاً چور، زانی، وغیرہ کہہ دیا جائے۔ (الجامع لأحکام القرآن، للقرطبی،211/8)

عار دلانا
کسی مسلمان کا بتقاضائے بشریت کسی گناہ میں مبتلا ہو جانا او رپھر شرم ونادم ہو کر اس سے توبہ کر لینا اس کی سلامتی طبع اور حسن ایمان کی علامت ہے، اس صورت میں کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ مسلمان کو اس کے اس گناہ پر شرم وغیرت دلائے اور اس کو سرزنش وملامت کرے۔ ہاں! اگر اس نے توبہ نہیں کی ہے اور اس گناہ میں مبتلا ہے تو پھر اس کو شرم وغیرت بھی دلائی جاسکتی ہے اور سرزنش وملامت بھی کی جاسکتی ہے، بشرطیکہ اس کو شرم وغیرت دلانا بطریق تکبر وبقصد تحقیر نہ ہو، بلکہ تنبیہ ونصیحت کے طور پر ہو اور اس کو اس گناہ سے باز رکھنے کے قصد سے ہو۔

چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:” من عیر أخاہ بذنب لم یمت حتی یعملہ یعنی من ذنب قد تاب منہ․“ (مشکوٰة المصابیح، کتاب الآداب، باب حفظ اللسان، رقم الحدیث:4855)
جس نے اپنے بھائی کو کسی گناہ کی وجہ سے عیب دار بتایا، یعنی عیب لگایا، حالاں کہ وہ اس گناہ سے توبہ کر چکا تھا، تو یہ شخص اس وقت تک نہیں مر ے گا، جب تک خود اس گناہ کو نہ کرلے۔

غیبت
زبان سے دوسروں کو تکلیف دینے میں ایک چیز غیبت کرنا ہے، یہ ایسا گناہ ہے، جس کا احساس تک انسان کو نہیں ہوتا کہ میں نے گناہ کا ارتکاب کر لیا ہے، بہت سے نمازی اور تقویٰ کے دعوے دار او راپنی بزرگی کا گمان رکھنے والے تک اس میں مبتلا ہوتے ہیں، دنیا میں کچھ محسوس نہیں ہوتا، قیامت کے دن جب اتنی چھوٹی سے زبان کی کھیتیاں کاٹنی پڑیں گی اس وقت احساس ہو گا کہ ہائے ہم نے کیا کیا؟ لیکن اس وقت کا پچھتانا کام نہ آئے گا۔

غیبت کی شناعت اس سے اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ الله تعالیٰ نے اپنے بھائی کی غیبت کرنے کو اس کے گوشت کھانے سے تعبیر فرمایا ہے۔

چناں چہ ارشاد خداوندی ہے:﴿وَلَا یَغْتَب بَّعْضُکُم بَعْضاً أَیُحِبُّ أَحَدُکُمْ أَن یَأْکُلَ لَحْمَ أَخِیْہِ مَیْْتاً فَکَرِہْتُمُوہ﴾․(سورة الحجرات:12)
تم آپس میں ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو، کیا تم میں سے کوئی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ سو اس کو تم ناگوار سمجھتے ہو۔

یعنی غیبت کرنا اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے برابر ہے، جیسے تمہیں مردہ بھائی کا گوشت گوارہ نہیں اسی طرح غیبت کرنا بھی ناگوار ہونا لازم ہے۔

غیبت کی تعریف
غیبت کی تعریف یہ ہے کہ:”وھوأن یذکر الانسان فی غیبتہ بسوء وإن کان فیہ، فاذا ذکرتہ بمالیس فیہ فھو البہت والبھتان․“ (النہایہ لابن ألاثیر، حرف الغین،311/2 دارالمعرفہ)

یعنی انسان کی غیر موجودگی میں اس کا برائی کے ساتھ تذکرہ کرنا، اگرچہ وہ برائی اس میں موجود ہو اور اگر وہ برائی اس میں موجود نہیں، تو یہ بہتان ہے۔

ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی الله عنہم سے سوال فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو غیبت کیا ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ الله، اس کے رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”ذکرک اخاک، بما یکرہ، تمہارا اپنے بھائی کو اس طرح یاد کرنا کہ اسے برا لگے یہ غیبت ہے۔ ایک شخص نے عرض کیا کہ جو بات میں کسی کے بارے میں بیان کر رہا ہوں اگر وہ میرے بھائی کے اندر موجود ہو، تو اسے بیان کرنے کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تیرے بھائی میں وہ عیب کی بات موجود ہے جسے تو بیان کر رہا ہے، تب ہی تو غیبت ہو گی او راگر تونے کوئی ایسی بات بیان کی، جو اس کے اندر نہیں، تب تو تونے اس پر بہتان باندھا۔ (الجامع الصحیح للمسلم، کتاب الصبر والصلة، باب تحریم الغیبة،322/2،قدیمی)

چناں چہ کسی مسلمان کی غیبت کرنا جائز نہیں، یہاں تک کہ ذمی کافر کی بھی غیبت جائز نہیں۔(حاشیہ ابن عابدین، کتاب الحظر والاباحة، فصل فی البیع،290/5،رشیدیہ)

اور اگر جھوٹی بات کسی کے ذمے لگا دی، تو وہ تہمت دھرنا ہوا اور اس میں دوگناہ ہیں، ایک گناہ تہمت دھرنے کا اور دوسرا غیبت کرنے کا۔

غیبت کرنے پر وعیدیں
غیبت کرنا ایک بہت بڑا گنا ہ ہے، جس کو آج ہم نے بہت معمولی سمجھ رکھا ہے اور اپنی زبانوں کو اس کا اتنا عادی بنا چکے ہیں کہ ہر وقت کسی نہ کسی کی برائی زبان پر جاری ہوتی ہے۔

غیبت کرنا زنا سے زیادہ سخت ہے
قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: الغیبة أشد من الزنا․ فقیل: وکیف؟ قال: الرجل یزنی ثم یتوب فیتوب الله علیہ، وان صاحب الغیبة لا یغفرلہ حتی یغفر لہ صاحبہ․“(مجمع الزوائد، کتاب الآداب، باب ماجاء فی الغیبة،91/8، دارالفکر)

ایک مرتبہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ غیبت زنا سے بھی زیادہ سخت ہے۔ عرض کیا گیا کہ اے الله کے رسول! غیبت زنا سے زیادہ سخت کیسے ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک شخص زنا کر لیتا ہے پھر توبہ کر لیتا ہے تو الله تعالیٰ اسے معاف فرما دیتا ہے اور اگر کوئی شخص غیبت کرے، تو اس وقت تک اس کی مغفرت نہ ہو گی، جب تک وہ شخص معاف نہ کرے جس کی غیبت کی تھی۔ غیبت کرنے میں حق الله اور حق العبد دونوں ضائع کرنا ہے، الله تعالیٰ نے چوں کہ غیبت کرنے سے منع فرمایا ہے اس لیے غیبت کرنا حرام ہے او رگناہ کبیرہ ہے اور چوں کہ بندہ کی بھی بے آبروئی کی ہے، اس لیے بندے کا حق بھی ضائع کیا۔

غیبت کرنا اپنے بھائی کا گوشت کھانا ہے
حضرت انس رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک روز سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم نے روزہ رکھنے کا حکم دیا اور ارشاد فرمایا کہ جب تک میں اجازت نہ دوں کوئی شخص افطار نہ کرے، چناں چہ لوگوں نے روزہ رکھا ، شام ہوئی، لوگ ایک ایک کرکے آتے اور افطار کرنے کی اجازت لے کر واپس جاتے، ایک شخص نے آکر عرض کیا یا رسول الله ! میری لڑکیوں نے بھی دن بھر روزہ رکھا تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس سے اعراض کیا، اس نے پھر اجازت مانگی ،آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: وہ روزہ سے نہیں تھیں، بھلا کوئی شخص دن بھر لوگوں کا گوشت کھا کر بھی روزے سے رہ سکتا ہے ؟ تو ان سے کہہ کہ اگر وہ روزے سے تھیں توقے کریں، انہوں نے قے کی او رہر ایک کے منھ سے جما ہوا خون نکلا، وہ شخص آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس واقع کی اطلاع دی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

”والذی نفسی بیدہ لو بقیتا فی بطونھما لأ کلتھما النار․“
اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر یہ لوتھڑے ان کے پیٹ میں رہ جاتے تو انہیں دوزخ کی آگ کھاتی۔ (الترغیب والترھیب، کتاب آفات اللسان، الترہیب من الغیبة، 507/3)

اور ایک روایت میں یہ واقعہ اس طرح ہے، کہ جب آپ صلی الله علیہ وسلم نے اعراض فرمایا، تو وہ شخص چلا گیا، کچھ دیر بعد وہ دوبارہ آگیا اور عرض کیا ،بخدا !وہ دونوں بھوک کی وجہ سے مرنے کے قریب ہیں۔ آپ نے حکم دیا انہیں میرے پاس لاؤ، وہ دونوں حاضر ہوئیں، آپ نے ایک پیالہ منگایا اورایک لڑکی سے فرمایا: اس میں قے کرو ، اس نے قے کی۔ پیالہ خون اور پیپ سے آدھا بھر گیا، اس کے بعد دوسری سے قے کرائی، اس نے بھی خون اور پیپ کی قے کی اور پیالہ پورا بھر گیا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

”إن ھاتین صمتا عما أحل الله وأفطرتا علی ماحرم الله علیہما، جلست احداھما إلی الأخری، فجعلتا تاکلان لحوم الناس․“
ان دونوں نے الله تعالیٰ کی حلال کی ہوئی چیزوں سے روزہ رکھا، او رحرام کی ہوئی چیزوں سے افطار کیا، ایک دوسرے کے پاس بیٹھ گئی اور دونوں لوگوں کا گوشت کھانے لگیں۔ ( الفتح الربانی لترتیب مسند الامام احمد بن حنبل، کتاب آفات اللسان،261/19، دارالحدیث)

واقعہ… حدیث شریف میں ایک واقعہ مروی ہے او روہ یہ کہ ایک صحابی رضی الله عنہ نے زنا کر لیا تھا، جن کانام ماعز رضی الله عنہ تھا، انہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں چار مرتبہ اقرار کیا کہ میں نے ایسے کیا ہے ، پھر ان کو سنگسار کر دیا گیا، ایک شخص نے اپنے ساتھی سے راہ چلتے ہوئے کہا کہ دیکھو! الله تعالیٰ نے اس کی پردہ پوشی کی، لیکن اس سے رہا نہ گیا، یہاں تک کہ کتے کی طرح اس کی رجم کی گئی، یعنی پتھروں سے مارا گیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ بات سن لی اور خاموشی اختیار فرمائی، پھر کچھ دور آگے بڑھے، تو ایک مردہ گدھے پر گزر ہوا، جو اوپر کوٹانگ اٹھائے ہوئے تھا، یعنی پھول گیا تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: فلاں فلاں کہاں ہیں؟ ( ایک بات کہنے والا اور دوسرا سننے والا) انہوں نے عرض کیا، کہ یا رسول الله ہم حاضر ہیں، فرمایا تم دونوں اترو اور اس مردار گدھے کی نعش سے کھاؤ۔ انہوں نے عرض کیا، یا رسول الله! اس میں سے کون کھا سکتا ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جوا بھی ابھی تم نے اپنے بھائی کی بے آبروئی کی ہے، وہ اس گدھے کی نعش کھانے سے زیادہ سخت ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، بے شک وہ اس وقت جنت کی نہروں میں غوطے لگا رہا ہے ۔ ( الترغیب والترہیب، کتاب آفات اللسان، الترہیب من الغیبة، 509/3، داراحیاء التراث العربی)

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مردہ شخص کی غیبت کرنا بھی حرام ہے۔

سب سے بڑا سود
شریعت میں ایک مسلمان کی جان ، مال اور عزت کی بہت اہمیت ہے او رکسی کو اجازت نہیں کہ وہ دوسرے شخص کی ان چیزوں پر دست درازی، یا زبان درازی کرے۔

چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:” کل المسلم علی المسلم حرام: دمہ ومالہ وعرضہ․“

ہر مسلمان اس کا خون اس کا مال او راس کی آبرو، مسلمان پر حرام ہے ۔ (الجامع الصحیح للمسلم، کتاب البر والصلة، باب تحریم ظلم المسلم317/2، قدیمی)

اور ایک انسان دوسرے کی آبرو ریزی کرے، اس کو آپ صلی الله علیہ وسلم نے سب سے بڑے سود میں سے قرار دیا ہے۔

چنا ں چہ ارشاد ہے :”إن من أربی الربوا الاستطالة فی عرض المسلم لغیر حق․“

بلاشبہ سب سے بڑے سود میں سے یہ بھی ہے کہ ناحق کسی مسلمان کی آبروریزی کے بارے میں زبان دراز کی جائے۔(سنن أبی داؤد، کتاب الأدب، باب فی الغیبة، رقم الحدیث:269/4,4876)

اسی طرح ایک حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے: کہ سود کا وہ درہم جسے آدمی حاصل کرتا ہے ، الله تعالیٰ کے نزدیک گناہ ہونے میں چھتیس زنا سے بڑھ کر ہے اور سود سے بھی بڑھ کر مسلمان کی آبرو ہے۔ (الترغیب الترہیب، کتاب الأدب، الترہیب من الغیبة503/3، دار احیاء التراث العربی)

غیبت کرنے کی سزا
حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس رات کو مجھے معراج کرائی گئی، تو ایسے لوگوں پر میرا گزر ہوا جن کے تانبے کے ناخن تھے، وہ ان سے اپنے چہروں اور سینوں کو چھیل رہے تھے، میں نے جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ تو انہو ں ے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں، جو لوگوں کی غیبت کرتے تھے اور لوگوں کی بے آبروئی کرتے تھے۔ ( سنن أبی داود، کتاب الأدب، باب فی الغیبة، رقم الحدیث269/4,4878)

جہنم کے پُل پر حساب
دنیا میں ہم کسی کے خلاف جتنا دل چاہے باتیں کر لیں، یا تو اس وجہ سے کہ جس کے خلاف ہم بول رہے ہیں او رغیبت کر رہے ہیں ہم اس سے طاقت ور ہیں اور ہماری نظروں میں اس کی کوئی وقعت نہیں او رنہ ہم اس کی ناراضگی کو خاطر میں لاتے ہیں اور یا اس خوش فہمی میں ہیں، کہ میری ان باتوں کا اسے علم نہیں ہو گا، تو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ الله تعالیٰ ہم سے اس غیبت کرنے کا حساب لے گا۔

چنا ں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”من حمی مومنا من منافق بعث الله ملکا یحمی لحمہ یوم القیمٰة من نار جہنم، ومن رمی مسلما بشیء یرید بہ شینہ حبسہ الله علی جسرجہنم حتی یخرج ماقال۔“(مشکوٰة المصابیح، کتاب الآداب، باب الشفقة والرحمة علی الخلق، رقم الحدیث:4986)

یعنی جو شخص کسی مسلمان کی عزت آبرو کو منافق ( غیبت کرنے والے) کے شر سے بچائے گا الله تعالیٰ اس کے لیے ایک فرشتہ بھیجے گا، جو اس کو قیامت کے دن دوزخ کی آگ سے بچائے گا اور جو شخص کسی مسلمان پر ایسی چیز یعنی عیب وبرائی کی تہمت لگائے جس کے ذریعے اس کا مقصد اس مسلمان کی ذات کو عیب دار کرنا او راس کی حیثیت عرفی کو نقصان پہچانا ہو تو الله تعالیٰ اس کو دوزخ کے پل پر قید کر دے گا، یہاں تک کہ وہ اس تہمت لگانے کے وبال سے نکل جائے۔

یعنی اس وقت تک وہ عذاب میں گرفتار ہو گا، جب تک کہ جس پر تہمت لگائی تھی، اس کو راضی نہ کرے، یا شفاعت کے ذریعے یا گناہ کے بقدر عذاب بھگت نہ لے۔ (مرقاة المفاتیح، کتاب الآداب، باب الشفقة والرحمة علی الخلق،197/9، دارالکتب) (جاری)

Flag Counter