Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شوال المکرم 1435ھ

ہ رسالہ

13 - 16
انگوٹھے چومنے کی روایت
اوربعض فقہائے کرام کی ایک عبارت کی تحقیق

مفتی محمد راشد ڈسکوی
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی
حافظ جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”کل ما عُزِيَ لھٰوٴلاء الأربعة-أي: الضعفاء للعقیلي، الکامل لابن عدي، التاریخ للبُغدادي، التاریخ لابن عساکر- أو للحکیم الترمذي في نوادر الأصول أو للحاکم في تاریخہ أو لابن جارود أو للدیلمي في مسند الفردوس فھو ضعیفٌ، فلیستغنِ بالعزْوِ إلیھا أو إلیٰ بعضھا عن بیان ضُعفہ“․ (جمع الجوامع، دیباجة قسم الأقوال من جمع الجوامع (الجامع الکبیر): 1/21، دارالکتب العلمیة)
ترجمہ: ”…دیلمی کی مسند فردوس میں جو کچھ مذکور ہے، وہ ضعیف ہے، کسی حدیث کی نسبت کا اِس کتاب کی طرف ہونا ہی اُس (ضعیف ) حدیث کے ضعف کو بیان کرنے سے مستغنی کر دیتا ہے“۔

الدکتور نور الدین عتر رحمہ اللہ حافظ صاحب رحمہ اللہ کی اس بات کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس (مطلق حکم)سے مراد وہ احادیث ہیں، جو صرف انہی کتب میں مذکور ہوں، ان کے علاوہ کہیں اور مذکور نہ ہوں، یعنی: یہ حضرات اپنی کتب میں نقل کرنے والی احادیث میں متفرد ہوں، ملاحظہ ہو:”مصادِرُ نص العلماء علیٰ أن تفرُّدھا بحدیثٍ أمارةٌ علیٰ ضُعفہ، قال السیوطي في دیباجة کتابہ الجامع الکبیر: ”کل ما عُزِي لھٰوٴلاء الأربعة…إلخ“․ (منھج النقد في علوم الحدیث، الباب الرابع في علوم الحدیث من حیث القبول أو الرد، الفصل الثاني في أنواع الحدیث المردود، مصادر الحدیث الضعیف، ص: 297، 298، دارالفکر، بیروت)

شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ ان کے بارے میں فرماتے ہیں:”… ولکنہ غیر مُتْقِنٍ، ولا یُمَیِّزُبین الصحیحِ والسقیمِ، ومِن ثَمَّ امْتَلأَ کتابُہ من الأحادیث الموضوعة والواھیة“․ (بستان المحدثین للدہلوي، فارسي،ص: 162، سعید․ ومترجم بالعربیة للدکتور محمد أکرم الندوي، بحث فردوس للدیلمی، ص:180، دارالغُرب الإسلامي)
ترجمہ: ” لیکن ثقہ اور قابل اعتماد نہیں ہیں، یہ صحیح روایت اور ضعیف روایت کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کرتے، اسی وجہ سے ان کی (مذکورہ ) کتاب موضوع اور بے سند احادیث سے بھری ہوئی ہے۔“

مذکورہ کتب سے مسئلہ لینے کا حکم
ان کتب میں مذکور کسی مسئلہ پر عمل کرنے کا کیا حکم ہے؟ اس بارے میں علامہ لکھنوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”والحکم في ھٰذہ الکتب الغیر المعتبرة أن لا یُوٴخَذ منھا ما کان مخالفاً لکتب الطبقة الأعلیٰ، ویُتوقَّفُ في ما وُجِد فیھاما لم یدخُل ذالک في أصلٍ شرعي ٍ“․ (النافع الکبیر علی الجامع الصغیر، مقدمة الجامع الصغیر، الفصل الأول في ذکر طبقات الفقہاء والکتب،ص:27، إدارة القرآن کراتشي)
ترجمہ” ان غیر معتبر کتابوں (میں سے کسی مسئلہ کے لینے ) کا حکم یہ ہے کہ ان میں مذکور کوئی ایسا حکم جو ان کتابوں سے زیادہ معتبر کتابوں میں موجود مسئلہ کے مخالف ہو ، نہیں لیا جائے گا، بلکہ اس پر عمل کرنے کے سلسلے میں اس وقت تک توقف کیا جائے گا، جب تک اس مسئلہ کا کسی اصلِ شرعی میں داخل ہونا نہ معلوم ہو جائے (یعنی : دوسری معتبر کتب سے اس کے صحیح ہونے کی تصدیق نہ ہو جائے۔)“

صاحب روح البیان اور علامہ طحطاوی  کے اپنے قول کا جائزہ
اب صاحب تفسیر روح البیان کی اس بات:
”یقول الفقیر: ”قد صحَّ من العلماء تجویزُ الأخذِ بالحدیثِ الضعیفِ في العملیاتِ، فکونُ الحدیثِ المذکورِ غیرَ مرفوعٍ لا یستلزِم ترکَ العملِ بمضمونہ، وقد أصاب القھستانيُّ في القول باستحبابہ“․
ترجمہ:”فقیر کہتا ہے کہ : ”(فضائلِ)اعمال کے باب میں ضعیف حدیث پر عمل کرنے کا جواز علماء سے صحت کے ساتھ ثابت ہے، پس مذکورہ حدیث کا غیر مرفوع ہونا اُس کے مضمون پر عمل نہ کرنے کو مستلزم نہیں۔ اور قہستانی  اپنی استحباب کی رائے میں درست ہیں۔“

اور علامہ طحطاوی کی اس بات
”وبمثلہ یُعْمَلُ فِيْ فضائلِ الأعمالِ، ترجمہ:”اور فضائل میں اس طرح کی باتوں پر عمل کر لیا جاتا ہے۔“
کابھی جائزہ لے لینا چاہیے۔

اصول حدیث کی کتابوں میں یہ بات پوری وضاحت کے ساتھ لکھی ہوئی موجود ہے کہ فضائلِ اعمال میں ان روایات کو ہی لیا جاتا ہے، جو صحیح، حسن یا ہلکے درجے کی ضعیف ہوں، جو موضوع یا شدید ضعیف ہوں ، ان پر عمل نہیں کیا جاتا۔

فضائل اعمال میں حدیثِ ضعیف پر عمل کرنے کی شرائط
جمہور علماء کے نزدیک، فضائل کے باب میں ہلکے درجے کی ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے ،البتہ اس جوازِ عمل کے لیے تین بنیادی شرائط ہیں،جن کو حافظ سخاوی  نے ”القَولُ البَدِیع“ میں ذکر کیا ہے اور اگر ضعیف حدیث میں مذکورہ تین شرطوں میں سے کوئی شرط مفقود ہو تو اس حدیث پر عمل کرنا جائز نہیں ہے۔موصوف فرماتے ہیں:
”سمعتُ شیخَنا ابن حجر أي العسقلاني المصري مِرَاراً وکَتَبَہ لي بخَطّہ یقول: شَرْطُ العَمَلِ بالحدیث الضعیف ثلاثةٌ:
الأوّل مُتَّفَقٌ علیہ،وھوأنْ یکونَ الضُعفُ غیرَ شدیدٍ، فیَخْرُجُ مَن انْفَرَدَ مِنَ الکَذّابِین والمُتّہَمِین ومَنْ فَحُشَ غَلَطُہ․
والثاني:أن یکونَ مُندَرِجاً تحتَ أصلٍ عامٍ، فیخرُج ما یُخْتَرَعُ بحیثُ لا یکون لہ أصلٌ أصلاً․
والثالث:أن لا یُعْتَقَدَ عند العَمَلِ بہ ثبوتُہ لئلا یُنْسَبَ إلی النبيصلّی الله علیہ وسلّم ما لم یَقُلْہ․ قال:والأخیران عن ابن السلام وابن دَقِیقِ العید، والأوّلُ نَقَلَ العلائي الاتّفاقَ علیہ“․(القول البدیع للسخاوي، خاتمة، ص:496، دار الیسیر، المدینة المنورة)

”میں نے اپنے شیخ حافظ ابن حجر سے کئی دفعہ سنا ہے -حافظ ابن حجر نے مجھے بذاتِ خود یہ شرائط لکھ کر بھی دیں- ضعیف حدیث پر عمل کرنے کے لیے تین شرائط ہیں:
پہلی شرط اتفاقی ہے کہ ضعف، شدید نہ ہو،لہذا اس شرط سے وہ کذّابین،متہّمین اورفاحش الغلط رُواة نکل گئے، جو نقلِ روایت میں منفرد (تنہا) ہوں۔
دوسری شرط یہ ہے کہ روایت دین کے اصلِ عام کے تحت داخل ہو،اس شرط سے وہ روایتیں نکل گئیں، جو گھڑی گئی ہوں،اس طور پر کہ ان کی کوئی اصل نہ ہو۔
تیسری شرط یہ ہے کہ حدیث پر عمل کے وقت ثبوتِ حدیث کا اعتقاد نہ ہو،تاکہ آپ صلّی الله علیہ وسلّم کی طرف کوئی ایسی بات منسوب نہ ہو جائے، جو آپ صلّی الله علیہ وسلّم نے نہ فرمائی ہو۔

حافظ ابن حجر نے مزید فرمایا کہ آخری دو شرطیں، ابن عبد السلام  اورابن دَقِیق العید سے منقول ہیں اور شرطِ اول پر علامہ علائی  نے علماء کا اتفاق نقل کیا ہے“۔

مذکورہ تفصیل کی روشنی میں صاحب روح البیان کے قول کی حیثیت بالکلیہ ختم ہو جاتی ہے۔اس لیے کہ مذکورہ شرائط ضعیف حدیث پر عمل کرنے کی ہیں ، نہ کہ موضوع، منقطع یا بے سند حدیث پر عمل کرنے کی۔ اور یہ بات پوری تحقیق سے ثابت ہے کہ یہ روایات موضوع یا بے سند ہیں، نہ کہ ضعیف۔

”قوت القلوب “کی عبارت سے متعلق وضاحت
البتہ! صاحبِ روح البیان  نے جو بات ”قوت القلوب “ کے حوالے سے ذکر کی ہے، اس کے بارے میں عرض یہ ہے کہ ہم نے مذکورہ کتاب میں اپنی بساط بھر کوشش کی کہ صاحبِ روح البیان کی نقل کردہ بات ہمیں مل جائے، لیکن ہم اپنی کوشش میں کام یاب نہ ہوسکے، پوری کتاب میں مظان اور غیرِ مظان دونوں جگہ خوب تلاش کے باوجود ہماری مطلوبہ عبارت ہمیں نہ مل سکی، تاہم ! صاحب ِ قوت القلوب کے صنیع سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی یہ بات بھی دیگر مباحث کی مثل بغیر سند کے مذکور ہوگی، بشرطِ موجودگی اگر ایسا ہی ہوا تو پھر اس عبارت کا جواب بھی مذکورہ تحریر میں آچکا ہے اور اگر یہ بات سنداً موجود ہو تو جب وہ بات سامنے لائی جائے گی تو اس کابھی جائزہ لے لیا جائے گا۔

اور علامہ طحطاوی رحمہ اللہ کے قول ”وبمثلہ یُعْمَلُ فِيْ فضائلِ الأعمالِ، کہ”اور فضائل میں اس طرح کی باتوں پر عمل کر لیا جاتا ہے“کے بارے میں علامہ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

ولاتغترَّ بقول الطحطاوي في حاشیتہ علی مراقي الفلاح آخر باب الأذان بعد ذکرہ ھٰذا الحدیث عن کتاب الفردوس، وکذا رُوي عن الخضر علیہ السلام: وبمثلہ یعمل في فضائل الأعمال“فھو کلام مردود بما قالہ الحافظ… وقال الحافظ ابن تیمیة في منھاج السنة: إن کتاب الفردوس فیہ من الأحادیث الموضوعة…إلخ․ (المصنوع في معرفة الحدیث الموضوع، ص: 170، قدیمي)
ترجمہ: ”اور تو علامہ طحطاوی  کے اس قول سے دھوکہ میں نہ پڑناجو انہوں نے ”مراقی الفلاح“ کے حاشیے میں باب الأذان کے آخر میں ذکر کی ہے …کہ” فضائل ِ اعمال میں اس جیسی روایات پر عمل کر لیا جاتا ہے“، پس ان کا یہ کلام رد کر دیا جائے گا بوجہ اس قول کے جو حافظ ابن تیمیہ کاان کی کتاب ”منہاج السنة“ میں مذکور ہے، کہ کتاب الفردوس میں تو موضوع احادیث بھری ہوئی ہیں…إلخ“۔

یعنی: علامہ طحطاوی رحمہ اللہ کی مذکورہ بات کا درست ہونا اس وقت ممکن ہے، جب احادیثِ مستدلہ ایسی ضعیف ہوں، جن میں تینوں شرائط موجود ہوں، جب کہ یہاں بقول شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ ایسا نہیں ہے، اس لیے کہ مذکورہ احادیث موضوع ہیں، نہ کہ ضعیف۔

اس پوری بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ان روایات پر عمل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

علامہ ابن عابدین اور علامہ طحطاوی رحمہما اللہ کا دفاع
اور اس بحث سے علامہ ابن عابدین اور علامہ طحطاوی رحمہما اللہ پر کوئی زد نہیں پڑتی۔

اولاً تو اس بنا پر کہ علامہ ابن عابدین  کی ذکر کردہ عبارت کو دیکھا جائے کہ اس میں ان کا اپنا کوئی بھی کلام نہیں ہے، پہلے انہوں نے علامہ قہستانی  کا قول ِ استحباب نقل کیا ہے، اس کے بعد علامہ جراحی  کا قول:”ولم یصِحَّ في المرفوع من کل ھٰذا شییٴٌ“ نقل کیا ہے، ان کے صنیع سے تو یہ معلوم ہوتا کہ اس باب میں کوئی صحیح مرفوع حدیث منقول نہیں ہے۔کیوں کہ ان کا استحباب والے قول کے بعد اس قول”ولم یصِحَّ في المرفوع من کل ھٰذا شییٴٌ“ کو ذکر کرنا اسی طرف اشارہ کر رہا ہے۔

اور علامہ طحطاوی رحمہ اللہ کی ذکردہ عبارت کی بھی یہی صورتِ حال ہے، کہ انہوں نے قہستانی اور کتاب الفردوس سے نقل کیا ہے، البتہ آخر میں ان کا اپنا قول : ”وبمثلہ یُعمَل في الفضائل“ ہے ، اس کی حیثیت علامہ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ کے قول سے واضح ہو چکی ہے۔

ثانیاً اس وجہ سے کہ ان حضرات نے جو استحباب کا قول نقل کیا ہے، وہ آج سے دو صدیاں قبل کیا تھا، عین ممکن ہے کہ اس دور میں بدعتیوں کے ہاں اس مسئلہ میں ایسا غلو نہ ہو، جیسا ہمارے اس موجودہ دور میں ہے، اس لیے انہوں نے استحباب کا حکم لگایا اور بعض نے اسے ہی آگے نقل کر دیا اور اگر اس دور میں بھی اس مسئلہ میں غلو ہوتا جیسا کہ آج اظہر من الشمس ہے تو یقینا اس مسئلہ میں بھی دوسری بدعات کی طرح بدعت کا حکم لگایا جاتا۔

اور اگر بالفرض اسے مستحب ہونا تسلیم بھی کر لیا جائے تو پھر بھی آج کے دور میں اس پر عمل کرنا جائز نہیں، کیوں کہ فقہ کا مسلّمہ قاعدہ ہے کہ جب کسی مستحب کام کو اس کے درجہ سے بڑھا دیا جائے تو وہ کام ممنوع ہو جاتا ہے۔

اب ! موجودہ دور میں مذکورہ مسئلہ کے بارے میں غور کر لیا جائے کہ اس مسئلہ کو نہ صرف سنتِ مقصودہ، بلکہ اس میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خاص تعظیم سمجھی جاتی ہے۔اور ایسا نہ کرنے والے کو بُری نظر سے دیکھا جاتا ہے، نہ کرنے والے کو ملامت اور لعن طعن کی جاتی ہے، اسے حنفیت کا مخالف قرار دیا جاتا ہے، بلکہ اس عمل کو اہل سنت والجماعت کی پہچان سمجھا جاتا ہے، حالاں کہ ! اگر یہ عمل ایسا ہی اہم اور ضروری ہوتا تو جس طرح اذان جیسا عظیم الشان امر تواتر اور قوی دلائل کے ساتھ کتبِ معتبرہ میں مذکور ہے ، بالکل اسی طرح یہ عمل بھی مذکور ہونا چاہیے تھا، اس لیے کہ یہ عمل بھی اذان کے وقت کا ہی عمل ہے۔لیکن اس کے برخلاف یہ عمل موضوع اور منقطع حدیث اور چند غیر معتبر کتب میں موجود ہے۔لہٰذا اس عمل کو اس کے مرتبے سے اس طرح غلو کی حد تک بڑھا دینا بھی اس عمل کے ممنوع ہونے کے لیے کافی ہے، ملاحظہ ہو:

قال ابن منیر: ”فیہ أن المندوبات قد تنقلب مکروہات، إذا رفعت عن مرتبتھا……إلخ“․(فتح الباري، کتاب الصلاة، باب الانتقال والإنصراف عن الیمین: 2/430، قدیمي)

”ابن منیر  فرماتے ہیں :( اس حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے ) کہ مندوبات (یعنی: مستحبات) کو جب ان کے مرتبہ سے بلند کر دیا جائے تو وہ مکروہات کے حکم میں بدل جاتے ہیں“۔

قال الطیبي:” وفیہ أن من أصر علیٰ أمر مندوب، وجعلہ عزماً، ولم یعمل بالرخصة، فقد أصاب من الشیطان من الإضلال، فکیف من أصر علیٰ بدعةٍ أو منکرٍ“․(شرح الطیبي،کتاب الصلاة، باب الدعا في التشھد، الفصل الأول،رقم الحدیث:946، 2/374، إدارة القرآن والعلوم، کراتشي)

”طیبی فرماتے ہیں: ( اس حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے ) کہ جو شخص کسی امرِ مندوب پر اصرار کرے (یعنی ان پر مسلسل اس طرح عمل کرے کہ وہ اس سے کبھی چھوٹنے ہی نہ پائے) اور اس پر عمل کرنے پر (مسلسل) پُر عزم رہتا ہو، تو وہ شیطان سے اپنے حصے کی گم راہی وصول کرنے والا ہے، پس (جب مندوبات پر اصرار کرنے والے کا یہ حال ہے تو) بدعات یا منکرات پر (اسی طرح) اصرار کرنے والے کا کیا حال ہو گا؟!“۔

(وکذا في مرقاة المفاتیح،کتاب الصلاة، باب الدعاء في التشھد، الفصل الأول، رقم الحدیث:۹۴۶، ۳/۳۱، رشیدیة، وکذا في التعلیق الصبیح،کتاب الصلاة، باب الدعا في التشھد، الفصل الأول، رقم الحدیث:946، 1/549، رشیدیة، وکذا في السعایة، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة: 2/263، سھیل اکیدمي)

علامہ عبد الحی لکھنوی رحمة اللہ علیہ کا فتویٰ
اب آخر میں ہماری متعلقہ بحث جیسا ہی ایک سوال کا جواب ذکر کیا جاتا ہے، جو ایسی شخصیت کا جاری کردہ ہے، جو دیوبندیت اور بریلویت کے زمانے سے پہلے کی ہے اور وہ ہے علامہ عبد الحی لکھنوی رحمة اللہ علیہ کی شخصیت۔ ملاحظہ فرمائیں:

” این تقبیل را در بعض کتب فقہ مستحب نوشة است، نہ واجب ونہ سنت، مثل کنز العباد وخزانة الروایات، وجامع الرموز وفتاویٰ صوفیہ وغیرہ، مگر در اکثر کتب معتبرہ متداولہ نشان آن نیست، در آن کتب کہ درانہا این مسئلہ مذکور است غیر معتبر اند، چنانکہ جامع الرموزوفتاویٰ صوفیہ وکنز العباد وغیرہ، اینوجہ کہ درین کتب رطب ویابس بلا تنقیح مجتمع است، تفصیل آن در رسالہ من ”النافع الکبیر لمن یطالع الجامع الصغیر“ موجود است، درین باب فقہاء نقل میکنند آنہا بتحقیق محدثین صحیح نیستند… إلخ“․(مجموعة الفتاویٰ، کتاب الکراہیة:4/325، رشیدیة)

اس عبارت کا مفہوم یہ ہے: ”اس انگوٹھے چومنے والے مسئلہ کو فقہ کی بعض کتابوں میں مستحب کہا گیا ہے، واجب یا سنت نہیں، مثلاً: کنز العباد ، خزانة الروایات، جامع الرموز اور فتاویٰ صوفیہ وغیرہ (میں یہ مسئلہ مذکور ہے)، مگر اکثر معتبر کتبِ فقہ میں ایسا کوئی مسئلہ مذکور نہیں ہے اور جن کتب میں یہ مسئلہ موجود ہے ، وہ کتب معتبر نہیں ہیں، اس لیے کہ ان کتابوں میں ہر رطب ویابس کو اس بات کی تصریح کیے بغیر” کہ کون سی بات صحیح ہے اور کون سی نہیں“، جمع کر دیا گیا ہے، اس بات کی پوری تفصیل میرے رسالے ” النافع الکبیر لمن یطالع الجامع الصغیر“ میں موجود ہے، اس انگوٹھا چومنے والے مسئلہ میں (ان کتابوں کے مصنفین)فقہاء نے جو کچھ کہا ہے، محدثینِ کرام نے اسے صحیح قرار نہیں دیا“۔

مذکورہ بالا تفصیل سے متعلقہ مسئلہ پوری طرح منقح ہو کر سامنے آچکا ہے، اللہ جل جلالہ کے حضور دعا ہے کہ وہ ہمیں جملہ بدعات ومنکرات سے محفوظ رکھتے ہوئے اتباع نبوی صلی الله علیہ وسلم کی توفیق مرحمت فرمائے اور ہم سب کا خاتمة بالخیر کرتے ہوئے ہمارا حشر اس جماعتِ قدسیہ کے ساتھ فرمائے ،جس کو دنیا میں ہی ”رضي اللہ عنہم ورضواعنہ“ کا پروانہ مل گیا تھا، میری مراد صحابہ کرام   ہیں۔

Flag Counter